اردو مرثیہ پاکستان میں

اردو مرثیہ پاکستان میں

اردو مرثیہ پاکستان میں

Publication year :

1982

Publish location :

کراچی پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

اردو مرثیہ پاکستان میں

ضمیر اختر نقوی کا خمیر لکھنؤ کی تہذیبی سر زمین سے ہے، جس کی وجہ سے لکھنوی ثقافت کا گہرا اثر ان کی شخصیت میں نظر آتا ہے،اردو مرثیہ کی تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ زیر نظر کتاب "اردو مرثیہ پاکستان میں" دوحصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں ، پاکستان کے قیام سے پہلے لکھے گئے اردو کے مرثیوں پر تبصرہ کیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں جدید مرثیوں کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ضمیر اختر نقوی نے مختلف علاقوں کے شعراکے مرثیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے حالات زندگی کو بیان کیا ہےساتھ ہی ساتھ ان کے مراثی کا نمونہ پیش کیا ہے اور پھر ان کی مرثیہ نگاری پر مختصر مگر جامع تنقید و تبصرہ بھی پیش کیا ہے۔ یہ کتاب ایک طرح سے اردو مرثیہ نگاروں کا تذکرہ ہے جس میں شعرا کی بڑی تعداد نظر آتی ہے۔

یہ تحقیقی کام یقینا بہت بڑا کام ہے۔ یہ تصنیف ہر لحاظ سے بلند پایہ اور قابلِ قدر ہے۔ضمیراختر نقوی نے قدیم مرثیہ اور جومرثیہ اس وقت لکھا جارہا ہے،اس کااحاطہ کرلیا ہے۔ضمیر اختر نقوی نے بہت مبارک کام کیا ہے۔ادب شناس اس کتاب کو پڑھیں گے اور یہ کتاب ہمیشہ اور ہر دور میں پسند کی جائے گی۔ضمیر اختر نقوی کی یہ کتاب اُردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔

اُردو مرثیے کی بد قسمتی یہ ہے کہ اسے انیسؔ کے سوا کوئی ایسا شاعر نہیں ملا جس نے صرف مرثیہ گوئی کی بدولت تاریخِ ادب میں مستقل جگہ بنالی ہو۔اُردو کے ممتاز ترین شاعروں کاذکر ہو گا تو میر غالبؔ،انیسؔاور اقبال کے نام پہلے ذہن میں آئیں گے، ان کے بعد ان اصناف کاخیال آئے گا جن میں ان شاعروں نے طبع آزمائی کی ہے۔البتہ جب تاریخِ ادب میں خصوصی طور پر ان اصناف کاذکر ہوگاتب کچھ اور شاعروں کے نام بھی ذہن میں آئیں گے جنھوں نے ان اصناف میں امتیاز حاصل کیا ہے۔مثلاً امجد حیدرآبادی اور جگت موہن لال ،رواںؔ بہت اچھے رباعی گوشاعر تھے،جب ہم تاریخِ ادب میں رباعی کے باب میںآئیں گے تو امجد اور رواںؔ کا ذکر ناگزیر ہوگا،لیکن جب ہم پورے اُردو ادب کو ایک واحدہ مان کراس کے اکابر کاشمار کریں گے تو ہمیں ان دونوںماہر رباعی گویوں کا شاید خیال نہ آئے اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اُردو میں صنفِ رباعی کمال کے درجے تک نہیں پہنچ سکی،گویا امجد اور رواںؔکو تاریخِ ادب میں نہیں بلکہ تاریخِ ادب کے باب ِرباعی میں مستقل جگہ حاصل ہوئی ہے اور ان کاذکر تاریخِ رباعی میں ناگزیز سہی،تاریخِ ادب میں ناگزیر نہیں ہے۔میر انیسؔ تاریخِ مرثیہ ہی میں ہیں ،تاریخِ ادب میں بھی ناگزیر ہیں،اسی لیئے ان کی بدولت مرثیے کو اُردو ادب میں وہ مقام حاصل ہوا جو رباعی کو حاصل نہ ہوسکا۔ظاہر ہے کہ مرثیہ،انیسؔ و دبیر ؔکے بعد ختم نہیں ہوا،لیکن ان دو بڑے استادوں کے اٹھ جانے کے بعد اس میدان میں ایک سناٹا سا ضرور چھا گیا جس میں ایک عرصے تک انیسؔ و دبیرؔکی گونج سنادیتی رہی،آخر وہ بھی ہلکی ہوتے ہوتے ختم کے قریب پہنچی۔ یہی وہ وقت تھا جب ہندوستان میں مرثیہ گوئی کی نشاۃِ ثانیہ کی داغ بیل پڑی۔ تقسیم ہند کے بعد سیّد آلِ رضا،نسیمؔ امروہوی،جوشؔ ملیح آبادی،نجمؔ آفندی وغیرہ کی پاکستانی مہاجرت کے ساتھ نشاۃِ ثانیہ کی یہ تحریک بھی پاکستان منتقل ہوگئی۔وہاں یہ تحریک تسلسل کے ساتھ جاری ہے،تاہم ابھی تک ہندوستان میں یقینا اور غالباً پاکستان میں بھی عام خیال یہی تھا کہ مرثیہ گوشاعر اگر چہ پاکستان میں ہندوستان سے زیادہ ہیں لیکن ان کی تعداد اور کلام اتنا نہیں ہے کہ مستقل تحقیق و تنقید کا موضوع بن سکے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کا سہرا ضمیراختر نقوی کے سر ہے۔ ضمیر اختر نقوی نے خود کو اُردو مرثیے کی تحقیق اور تنقید کے لیئے وقف کردیا ہے۔ میرانیسؔ اور تاریخِ مرثیہ ان کے خصوصی موضوع ہیں،لیکن ان کی تازہ کتاب ’’اُردو مرثیہ پاکستان میں‘‘انھیں جدید مرثیے کے متخصص کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔ انھوںنے اس کتاب میں سو سے زائد پاکستانی مرثیہ نگاروں کا تذکرہ لکھنے کے علاوہ صنف ِمرثیہ کی پس منظری تاریخ،ہندوستان کے موجودہ مرثیہ نگاروں اور پاکستان کے مختلف شہروں میں عزاداری کے بیان سے اپنے موضوع کو مزید مربوط اور مستحکم کردیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ اُمید رکھنا بے جانہ ہوگا کہ مستقبل میں اُردو مرثیے کو پھروہی وقار حاصل ہوگا جو ماضی میں اسے انیسؔ و دبیرؔکی بدولت حاصل ہو اتھا۔اس وقت اس کتاب میں شامل بیشتر مرثیہ نگار نئے مرثیے کے اولیں معماروں میں شمار ہوں گے، لیکن ظاہر ہے کہ زمانہ ان میں سے بہتوں کو اسی طرح فراموش کردیتا جس طرح اس نے اُردو کے بہت سے ابتدائی مرثیہ نگاروں کو فراموش کیا۔ضمیر اختر کی کتاب سے یہ اندیشہ دور ہوگیا اور یہی ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ ’’اُردو مرثیہ پاکستان میں’’اس وقت بھی ایک قابلِ قدر اور بیش قیمت دستاویز ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

اس کتاب میں پاکستان کے تقریباً ۱۰۰ مرثیہ نگاروں کے حالات ِ زندگی اور ان کے کلام پر نقدو تبصرہ شامل ہے۔کتاب بڑی عرق فشانی اور دیدہ ریزی سے ترتیب دی گئی ہے۔

کتاب کی ایک امتیازی شان یہ ہے کہ اس میں جوشؔ ملیح آبادی،جناب آلِ رضاؔ، جناب راجا صاحب محمود آبادؔ، شاعرِ اہلِ بیت ؑجناب نسیمؔ امروہوی اور جناب نجم ؔآفندی صاحب کے حالات ِ زندگی اور ان کے کلام پر سیر حاصل ریویوکیا گیا ہے اور وہ وہ نکات بیان کیے ہیں جن سے اُردو مرثیے میں چار چاند لگ گئے ہیں۔

کتاب کا ایک شان دار باب آرزوؔ لکھنوی کی مرثیہ نگاری پر ہے۔لوگ آج تک آرزو کو ایک غزل گوشاعرکی حیثیت سے ہی جانتے تھے۔ ضمیر صاحب کے ذوقِ تجسس کی داد دیجئے کہ انھوں نے آرزو ؔکے قلمی مرثیے کہاں کہاں سے دریافت کیے ہیں۔

کتاب کاایک اور شان دار باب’’پاکستان میں اندازِ عزاداری‘‘ ہے۔ اس موضوع پر موصوف نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔راقم الحروف کی واقفیت کے لیے یہ باب واقعی ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ہم لکھنؤ کی عزاداری میں سالہا سال تک شریک رہے ہیں۔ہمارا خیال تھا کہ اس قسم کی عزاداری صرف لکھنؤتک ہی محدود ہے۔اب ضمیر صا حب کی تصنیف سے معلوم ہوا ہے کہ خاص کرکراچی اور لاہور میں بھی اسی انداز کی عزاداری ہوتی ہے۔یہ باب پاکستان کی تہذیب وتمدّن میں ایک قابلِ فخر سرمایہ ہے۔

غرض یہ کہ ’’اُردو مرثیہ پاکستان میں‘‘ہر لحاظ سے بلند پایہ اور گراں مایہ اضافہ اور موضوع پر حاکمانہ قدرت کی عینی شاہد ہے۔آئیے پڑھیے۔لطف اندوز ہویئے، اپنی معلومات میں اضافہ کیجئے اور مصنّف کے اسلوب ِ بیان اور اندازِ تحقیق کی دل کی گہرائیوں سے داد دیجئے۔یہ کتاب لکھ کر مصنّف نے اُردو ادب پر بڑا احسان کیا ہے۔