ذکر الطّیّار(سوانح حیات جناب جعفر الطیار (ع) و حالات طالب ابن ابیطالبؑ)
ذکر الطّیّار(سوانح حیات جناب جعفر الطیار (ع) و حالات طالب ابن ابیطالبؑ)
Author :
Publisher :
Publication year :
1932
Publish location :
لکھنؤ ہندوستان
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
ذکر الطّیّار(سوانح حیات جناب جعفر الطیار (ع) و حالات طالب ابن ابیطالبؑ)
اس رسالے میں حضرت جعفر طیّار علیہ السلام کے تمام محاسن خدمات ابتدا سے لے کر انتہاء تک پوری تفصیل کے ساتھ لکھدیئے گئے ہیں۔ خصوصاً آپ کے ابتدائی حالات میں تاریخ و سِیَر کے اُن انکشافات سے کام لیا گیا ہے جن پر خودغرضی اور اپنی عیب پوشی کی ضرورتوں سے خاص طور پر نقاب افگنی کی گئی تھی۔
حضرت جعفرؑ کے حالات کے ساتھ ہی ساتھ حضرت ابیطالبؑ کے بڑے صاحبزادے طالب ابن ابیطالب علیہما السلام کے واقعات بھی جہاں تک تجسّس اور تلاش سے مل سکے ہیں قلمبند کردیئے گئے ہیں۔
جعفر بن ابی طالب بن عبد المطلب، جعفر طیار اور ذو الجناحین کے نام سے معروف، حضرت ابو طالب کے تیسرے بیٹے، رسول خداؐ کے چچا زاد بھائی، امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے بڑے بھائی اور پیغمبر خداؐ کے مشہور صحابی تھے۔
آپ رسول خداؐ کے ہاں اعلی مقام و منزلت رکھتے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی سربراہی کا عہدہ جعفر طیار کو سونپا۔ حبشہ سے واپسی پر رسول خداؐ نے آپ کو ایک نماز کی تعلیم دی جو نماز جعفر طیار کے عنوان سے مشہور ہے۔
جنگ موتہ میں آپ نے پیغمبر خداؐ کے حکم پر سپاہ اسلام کی قیادت سنبھالی اور اسی جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ ان کا مزار اردن میں مسلمانوں کی زیارت گاہ کے طور پر مشہور ہے۔
طالب بن ابی طالب حضرت علی علیہ السلام کے بھائی اور ابوطالب و فاطمہ بنت اسد کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ تاریخی کتابوں اور مستندات کی رو سے آپ عقیل بن ابو طالب سے دس سال اور حضرت علیؑ سے تیس سال بڑے تھے۔ آپ کے حالات زندگی تفصیلی طور پر بیان نہیں ہوئے ہیں۔ کتابوں میں صرف یہ نقل ہوا ہے کہ جنگ بدر کے وقت آپ کو زبردستی مکہ سے لایا گیا لیکن جب ایک قریشی نے یہ کہا کہ بنی ہاشم کے قلوب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہیں تو آپ مکہ واپس ہوگئے۔ لیکن بعض مورخین رقمطراز ہیں کہ آپ مکہ واپس نہیں آئے بلکہ شام چلے گئے۔ اس رجز کی بنیاد پر جو اس جنگ میں آپ سے نقل ہوا ہے، طالب نے دعا فرمائی کہ قریش کی فوجیں مسلمانوں سے شکست کھا جائیں۔ آپ لاولد تھے۔امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت کی بنیاد پر آپ مسلمان ہوگئے تھے۔ سید جعفر مرتضی عاملی صاحب نے اس روایت کو حدیث مرسل جانا ہے۔