Drawer trigger

قانون وحکومت کی ایک نئی تصویر

قدیم زمانہ میں دانشور حضرات معاشرہ کو انسانی پیکر سے تشبیہ د ے کر کھا کرتے ھیں: جس طرح انسان کا بدن مختلف اعضاء وجوارح سے مل کر بنتا ھے ،اسی طرح معاشرہ بھی مختلف ذات پات، طبقات اور احزاب سے مل کر بنتا ھے او ران میں سے ھر ایک بذات خود چند اقسام پر مشتمل ھوتا ھے اور ھر ایک طبقہ اور حزب چند افراد پر مشتمل ھوتا ھے جو انسان کے اعضاء کی طرح حکم رکھتا ھے. البتہ بعض اوقات اس تشبیہ میں افراط وتفریط ھوئی ھے، جس سے درست استفادہ نھیں ھوپایاھے۔ معمولاً علمی وعملی سرگرمیوں میں افراط وتفریط ھوتی ھی رھتی ھے، چنانچہ صحیح راستہ کی معرفت حاصل کرنا ایک مشکل کام ھوتا ھے، ایسا ھی بعض افراد نے مذکورہ تشبیہ کے بارے میں کیاھے: چنانچہ وہ کھتے ھایں کہ جس طرح انسان کا بدن مختلف اعضاء سے مل کربنتا ھے،اور یہ اعضاء طبیعی طور پر آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ھیں ،اور ان میں سے ھر ایک اپنی جگہ ایک خاص ذمہ داری رکھتا ھے، اسی طرح معاشرہ کے اعضاء بھی مختلف ھوتے ھیں اور ان میں سے ھر ایک خاص کام کے لئے ھوتا ھے او راس کو وھی کام کرنا ھوتا ھے،اور اس کو اپنے کام سے آگے قدم نھیں بڑھانا چاھئے۔ مثال کے طور پر ،ھم جانتے ھیں کہ انسان کے تمام اعضاء صرف ایک" سلول Cellule" (عنصر) سے بنتے ھیں، او رپھر اسی سلول سے ھمارے بدن کے تمام اعضاء بنتے ھیں،بعض سلول بھت لطیف وظریف ھوتے ھیں کہ جن سے آنکہ یا مغز ودماغ تشکیل پاتے ھیں،اور بعض سلول مضبوط ومحکم ھوتے ھیں جن سے ھڈی بنتی ھے ، اور یہ کبھی نھیں ھوسکتا کہ آنکہ کا سلول ھڈی کی جگہ یا ھڈی کا سلول آنکہ کے سلول کی جگہ استعمال کیا جائے، یعنی آنکہ سے کان کا کام لیا جائے اور اور ھڈی سے آنکہ کا کام لیا جائے، جبکہ یہ تمام سلول ایک ھی سلول سے بنے ھوئے ھیں،لیکن آپس میں اتنا اختلاف رکھتے ھیں کہ صرف اپنے معین شدہ کام ھی کو انجام دے سکتے ھیں، لھٰذا ان کو ایک دوسرے کی جگہ نھیں رکھا جاسکتا۔ یہ لوگ کھتے ھیں کہ معاشرہ کے افراد بھی طبیعی طور پر اسی طرح مختلف طبایع کے اوپر خلق ھوئے ھیں ان کے مختلف طبقات ھیں، ھر ایک کے خاص کام معین ھیں اور صرف اپنا ھی کام انجام دے سکتے ھیں، قدیم زمانہ میں فلاسفہ حضرات معتقد تھے کہ معاشرہ کی مختلف قومیں اور طبقات اپنے لئے ایک معین حد رکھتی ھیں، اور ھر ایک کا کام میں الگ الگ ھوتا ھے (مثلاًحبشی( سیاہ فام قوم)کی ذات سخت اورمحنتی کام کے لئے پیدا کی گئی ھے او رسرخ یا زرد رنگ والی قوم فکری کاموں کے لئے پیدا ھوئی ھےں)یہ لوگ اسی تشبیہ سے اس چیز کا استفادہ کرتے تھے. ان لوگوں کا ماننا یہ تھا کہ رنگ کا اختلاف، قوموںکا اختلاف اورانسان کے خون کے اختلاف ھونے کا سبب بنتا ھے جس کی وجہ سے انسان کی ھر قوم الگ الگ کاموں کے لئے مخصوص ھے،لیکن معلوم ھونا چاھئے کہ یہ نظریہ افراط (زیادہ روی) ھے ،علم وفلسفہ اور دین اس نظریہ سے متفق نھیں ھیں۔ 2۔ معاشر ہ کے طبقاتی اور احزابی نظام کے بارے میںاسلام کا نظریہ اسلامی نظریہ کے مطابق ،تمام انسان اپنے بدن اور روح کے اعتبار سے معاشرہ میں مختلف کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ھیں. البتہ انسانوں کی قابلیت وصلاحیت مختلف ھوتی ھے او ربرابر نھیں ھوتی، لیکن ایسا بھی نھیں ھے کہ کالے اورگوروں کے درمیان ایک ایسا فرق ھو جو ایک دوسرے کے کاموں کوانجام نہ دے سکیں، کالے گوروں کا کام نہ کرسکیں یا گورے کالوں کا کام نہ کرسکیں، اسلامی نظریہ کے مطابق ، اگرچہ انسانی بدن اور معاشرہ میں شباھت پائی جاتی ھے، جس سے گروھوں اور افراد کی وضعیت کو معین کرنے کے لئے دو نتیجہ نکالے جاسکتے ھیں،لیکن معاشرہ کی ان اعضاء بدن سے تشبیہ دینا جو طبیعی طور پر ھر ایک عضو سے متفاوت او رمختلف ھے،او راس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ معاشرہ کے افراد بھی ایک دوسرے سے مختلف ھیں یہ صحیح نھیں ھے، اس زمانے کے بعض جامعہ شناس افرادبھی بالکل اسی طرح کھتے ھیںکہ معاشرہ بھی ایک طرح کا "ارگانیزم" (Organisme) ھے اور معاشرہ کے مختلف گروہ قوم ذات وپات انسان کے جسم کے اعضاء وجوارح کی مانند ھیں او ران کا رابطہ اعضاء بدن کے رابطہ کی طرح ھے.یھی رابطہ ایک دوسرے کو آپس میں متصل کرتا ھے، ھماری نظر میں یہ نظریہ بھی افراطی ھے.لیکن کیا معاشرہ کے افراد کا آپسی رابطہ بالکل انسانی بدن کے اعضاء کے رابطہ کی طرح ھے؟،نھیں اس طرح کا کوئی حقیقی رابطہ اعضاء بدن کے سلول اور معاشرہ کے افراد کے درمیان نھیں ھے؟ معاشرہ کے افراد اس طرح کا ارتباط رکھتے ھیں اس چیز کو ثابت کرنا بھت مشکل ھے؛ ایسا رابطہ مثلاً آنکہ کے سلول کا ایسا باھمی رابطہ جو ایک عضو کو تشکیل دیتے ھیں یہ ایک مخصوص رابطہ ھے لیکن یھی دیگر اعضاء وجوارح کی مدد سے ایک انسان کے جسم کو تشکیل دیتے ھیں،. لیکن جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ انسان کے بدن اور معاشرہ میں ایسی شباھت پائی جاتی ھےجس سے انسان کی اجتماعی موقعیت کی پھچان ھوسکتی ھے، مرحوم سعدی نے اپنے مشھور معروف اشعار میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا ھے ۔ بنی آدم اعضاء یکدیگر اند کہ در آفرینش زیک گوھر اند چو عضوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار" تمام انسان ایک بدن کی اعضاء کی طرح ھیں کیونکہ ان کی خلقت ایک ھی جوھر سے ھوئی ھے" "مثلاً اگر بدن کے کسی ایک حصہ کو تکلیف ھوتی ھے تو دوسرے اعضاء بھی بے قرار ھوجاتے ھیں" بے شک یہ تشبیہ معاشرہ کے افراد کے درمیان ایک محبت وھمکاری کو ثابت کرتی ھے، انسان میں محبت وعطوفت کا احساس ھوتا ھے تاکہ وہ کوشش کرے کہ ایک دوسرے سے اس کا رابطہ ھمدردی والا ھو، اس طرح ممکن ھے کہ وہ ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے سے محروم نہ رھیں، یہ ایک معقول تشبیہ ھے کہ جس سے بھت سے استفادہ کئے جاسکتے ھیں،او ریہ تشبیہ حضرت رسول خدا او رامام جعفر صادق علیہ السلام کی احادیث سے کسب کی گئی ھے، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: "اَلْمُوٴمنُونَ فِی تَبَارِّھمْ وَتَزَاحُمِھم وَتَعٰاطُفِھم کَمِثْلِ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَکیٰ تَدٰاعیٰ لَہ سٰایِرُہ بِالسَھرِ وَالْحُمّٰی"(1) "مومنین ایک دوسرے کے ساتھ محبت وپیار اور ھمدردی سے اس بدن کی طرح پیش آئیںکہ جب ان میں سے کسی عضو کو تکلیف پھونچے تو دوسرے اعضاء بھی بے خوابی اور بخار وغیرہ میں اس کی ھمراھی کرتے ھیں" البتہ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام علیہ السلام نے اسلامی معاشرہ کو ایک پیکر کی طرح تعارف کرایا، اور سعدی ۺۺ نے اس کو وسعت دی، اور انسانی معاشرہ کو ایک پیکر کی طرح نقشہ کشی کی ھے. البتہ توجہ رھے کہ اس تشبیہ کاکام یہ ھے کہ وہ جھت جو دو موجود میں مشترک اور ایک میں زیادہ او رمشھور اور دوسرے میں کچھ کم ھوتی ھے، اس کواپنی توجہ کا مرکز قراردیتی ھے، اور چونکہ یہ خاص جھت دوسرے موجود میں کافی مقدار میں شناختہ شدہ نھیں ھے، لھٰذا تشبیہ کی وجہ سے اس میں بھی پھچان لی جائے، اسی بناپر "مشبہ بہ" کے تمام خصوصیات اور صفات "مشبہ" میں نھیں لئے جاسکتے، مثلاً اگر کسی بھادر انسان کو شیر کھا جائے، تو اس سے اس کی بھادری کو بیان کرنا مقصود ھوتا ھے ،ایسا نھیں ھے کہ اگر شیر کی گردن پر مخصوص بال ھوتے ھیں تو یہ بھی بال رکھتا ھو، یا یہ کہ اگر شیر ھاتہ پیر سے چلتا ھے تو یہ بھی اسی طرح چلتا ھو! 3۔معاشرہ اور پیکر انسانی میں دیگر شباھتیں معاشرہ او رانسانی بدن میں گذشتہ تشبیہ کے علاوہ اور بھی تشبیھیں دی گئی ھیں ان میں سے ایک یہ بھی ھے کہ چونکہ انسان کے بدن میں مختلف اقسام کے سسٹم ھیں،جو ایک دوسرے سے ھم فکری اور ھمکاری رکھتے ھیں،جو انسانی سسٹم کی حیات او راس کے رشد میں موٴثر ھوتے ھیں، اسی طرح معاشرہ بھی مختلف شعبے اور مختلف مرکز رکھتا ھے جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں زندگی کرنا آسان ھوجاتا ھے، مثال کے طور پر انسان کے بدن میں ایک سسٹم ھوتاھے جس کا کام خون کو تمام جگھوں پر پھونچاناھے اور اس کا مرکز دل میں ھوتا ھے. دل اس خون کو جو معدہ ،جگر اور گوارشی مشین کی ھم آھنگی سے بنتا ھے چھوٹی بڑی رگوں کے ذریعہ تمام سلولوں تک پھونچاتا ھے، جس کے نتیجہ میں انسان کی حیات رواں دواں رھتی ھے۔ خون کو تمام سلول میں پھونچانے والی مشین خود کئی چیزوں سے مل کر بنتی ھے مثلاً دل کا کا م خون کو پمپ کرنا ھوتا ھے اور د وسری رگیںخون کو سارے بدن میں میں پھونچاتی ھےں،اسی طرح دوسری مشین خون پھیلانے والی مشین سے وابستہ ھیں جیسے خون کے لئے اکسیجن بنانا کیونکہ خون میں اکسیجن ھونا چاھئے تاکہ بدن کے سلول زندہ رھیں، او راس وجہ سے پھیپھڑے اور سانس لینے والی مشین بدن کے لئے اکسیجن بناتی ھےں، اور یہ اکیسجن خون کے ساتھ تمام بدن میں پھیل جاتا ھے، اسی طرح غذا خون کے ساتھ تمام بدن میں پھیلتی ھے اور یہ غذائیت گوارشی مشین سے بنتی ھے ، پس یہ تین مشین گردش خون، دستگاہ تنفس اور دستگاہ گوارش آپس میں مل کر کام کرتی ھیں جن کی وجہ سے انسان کی حیات ممکن ھوتی ھے ، ان کے علاوہ بدن میں اور دوسری مشینیں بھی ھوتی ھیں جن کا کام مختلف مشینوں پر نظارت او ران کی ھدایت کرنا ھوتا ھے، مثلاً بدن کے مختلف غدے اپنی اپنی مصروفیات میں لگے ھوتے ھیں اور اعصاب(رگیں) دماغ کے حکم کے مطابق کام کرتے ھیں، جن کی وجہ سے دوسرے اعضاء اپنا اپنا کام کرتے ھیںمنجملہ ان کے معدہ او ردوسرے اعضاء، اعصابی مشین کے ذریعہ فعالیت کرتے ھیں۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ انسان کی زندگی کے لئے بدن کے مختلف سسٹم ایک ساتھ مل کر اپنا اپنا کام کرتے ھیں،اور ایک دوسرے سے ھم آھنگ ھوکر عمل کرتے ھیں. اسی طرح معاشرہ کے مختلف مرکز اور شعبہ جات کو انسان کے مختلف سسٹم سے تشبیہ کریں اور ان میں سے ھر ایک کے لئے ایک مشابہ نمونہ کی عکاّسی کریں: مثلاً جس وقت ھم انسان کے معدہ او رتمام بدن تک غذائیت پھنچانے والی مشین کو دیکھتے ھیں ؛یعنی بدن میں غذا کو ھضم کرنے اور اس کو مختلف اعضاء تک پھونچانے والی مشین کو دیکھتے ھیں اور اس کے بعد معاشرہ پر نظر ڈالتے ھیں،تو معاشی معاملات میں ان جیسے کام کا مشاھدہ کرتے ھیں،معاشی شعبہ جات کا خصوصی کام کھانے پینے کی چیزوں کو پیدا کرے، اور دوسرے شعبوں کے ذریعہ ان کو لوگوں تک پھونچانا ھوتا ھے. جس طرح خون بدن میں بنتا ھے او ردل اور رگوں کے ذریعہ دوسرے اعضاء تک پھونچتا ھے۔ اگر خونی مشین میں کچھ خرابی ھوجائے مثلاً کسی رگ کے بند ھونے سے خون کی حرکت بند ھوجائے، تو اس صورت میں انسان بیمار ھوجاتا ھے، اور جس عضو تک غذائیت نھیں پھونچتی ، وہ بے کار ھوجاتا ھے، او رممکن ھے بعض اوقات اس حصہ کو بدن سے کاٹنابھی پڑے، اور ممکن ھے کسی سسٹم کی خرابی کی وجہ سے انسان مرجائے. لھٰذا انسان کی تندرستی اور زندگی کیلئے ضروری ھے کہ خون آسانی کے ساتھ تمام رگوں میں حرکت کرتا رھے،اسی طرح معاشرہ میں بھی تمام ضروری سامان پھونچتا رھے، اور اگر یہ ضروری سامان کسی ایک جگہ جمع کرلیا جائے اور لوگوں تک نہ پھونچایا جائے ،اگر معاشی نظام (کہ جو کاشتکار او ردوسرے اداروں پر مشتمل ھوتاھے) میں کچھ خرابی ھوجائے اور لوگوں تک کھانے پینے کا ضروری سامان نہ پھونچ پائے تو پھر یہ معاشرہ خواہ ناخواہ بیمار ھوجائے گا، لھٰذایہ تشبیہ صحیح اور بجا ھے کہ جس میں معاشی شعبہ کی مثال دستگاہ گوارشی خون سے دی جاتی ھے۔ اسی طرح حکومت کی اعصابی مشین سے تشبیہ کی جاسکتی ھے کہ جس کا کام بدن کو حکم دینا ھے ، اور یہ اعصاب کے دوحصوں (حسّی اور حرکتی) سے تشکیل ھوتی ھے. لھٰذا حکومت کو اعصابی سسٹم کے مثل قرار دیا گیا ھے ، معاشرہ بھی بدن کی طرح دماغ کی ضرورت رکھتا ھے تاکہ اس کو حکم دے سکے اور اسی طرح اس کے حکم کو معاشرہ کے اعضاء میں جاری کرنے کے لئے کچھ مزدوروں کی ضرورت ھوتی ھے تاکہ وہ حرکت کرتے رھیں. اسی بنیاد پر حکومت کے بھی دوبنیادی حصے ھوتے ھیں: 1۔ قانون گذاری حصہ جو معاشرہ کی منفعتوں کی تشخیص اور ان کی فراھمی کے راستوں کو معین کرتا ھے۔ 2۔ ان قوانین کو جاری کرنے والا حصہ جوان احکامات کو معاشرہ میں اجراء کرتا ھے۔ ھمارے حسی اعضاء شناخت کی راہ فراھم کرتے ھیں او رحرکتی اعضاء بدن میں احکام جاری کرنے کی راہ فراھم کرتے ھیں، حس کے مقدمات کو حسی اعضاء فراھم کرتے ھیں اور دماغ سے فکر وسوچ کا کام لیا جاتا ھے، اگرچہ انسان کی روح دماغ کے وسیلہ سے سوچتی ھے ، ھمارا ذھن فکروسوچ کا کام کرتا ھے اور اس کے بعد دوسرے اعضاء ان کاموں کو انجام دیتے ھیں. نفس انسانی میں ایک قدرت علم ھے جس کا کام علم ومعرفت کی تحصیل ھے اور دوسری قوت کا کام حرکت کرنا ھے، اور یہ دونوں دماغ کے تحت کام کرتے ھیں. یہ سسٹم بدن کے اعضاء پر نظر رکھتا ھے اور ضروری علم کو حاصل کرتا ھے اور ضروری احکامات کا حکم دیتا ھے اور دوسرے اعضاء کے ذریعہ وہ کام ھوتے ھیں، اس سسٹم کو دماغی اور اعصابی سسٹم کا نام دیا جاتا ھے، اور اس سسٹم کی وجہ سے معاشرہ میں حکومت کی اھمیت کو پھچانا جاسکتا ھے۔ 4۔معاشرہ میں طبقاتی نظام کی روشنی میں حکومت کی اھمیت جس وقت ھم اپنے بدن کے اعضاء اور ان کی ھم آھنگ اور منظم کارکردگی کو ملاحظہ کرتے ھیں تو یہ بات مکمل طور پر واضح ھوجاتی ھے کہ ھم ان اعضاء کے بنانے او ران کی منظم کارکردگی میں بالکل دخالت نھیں رکھتے،علمی اصطلاحی کے مطابق ، طبیعت کاکام ان کو منظم طور پر چلانا ھے. لیکن دینی اصطلاح کے مطابق ھم کھیں گے کہ یہ خدا وندعالم کی ذات کا کرشمہ ھے کہ ان میں اتنی صلاحیت واستعداد اور قدرت عطا کی ھے،یہ اسی کا کمال ھے کہ جس سے انسانی اعضاء میں اتنی عظمت و پیچیدگی اور ظرافت پائی جاتی ھے، اس کے علاوہ ھماری روح اس سے کھیں زیادہ باعظمت او رپیچیدہ تر ھے۔ جس خداوندعالم نے ھم کو بدن اور اعضاء عنایت کئے ھیں تو پھر ھم کو ان سے صحیح طریقہ سے استفادہ کرنے کی معرفت ھونا چاھئے اور ھم کو اپنے اعضاء سے اس طرح فائدہ اٹھانا چاھئے کہ ھماری عمر طولانی اور صحت وسلامتی اور خوشی کے ساتھ ساتھ بسر ھو؛ ایسا نہ ھو کہ ھم جس طرح چاھیں ان سے کام لینا شروع کردیں، اگر ھم جو ھمارے ھاتہ لگا کھالیا، جو ملا پی لیا، جس کام کی ھوس کی اس میں مشغول ھوگئے ،نامناسب غذا کھائی یا خدا نخواستہ نشیلی چیزوں سے پرھیز نہ کیا،تو کیا ھم یہ امیدکرسکتے ھیں کہ ھمارا بدن صحیح وسالم رہ پائے گا، اور ھماری عمر طولانی اور صحت وسلامتی کے ساتھ گذر پائے گی؟ ھرگز ایسا نھیں ھے. بے شک صفائی کی رعایت کے بغیر ھماری عمر طولانی اور صحت وسلامتی کے ساتھ نھیں ھوپائے گی. یعنی ھمیں چاھئے کہ دلخواہ آزادی کو محدود کریںاور اپنی مرضی کے مطابق ھر چیز نہ کھائیں، غذا کی کیفیت اور اس کی مقدار پر بھی توجہ رکھیں، اسی طرح غذا کی قسم اور اس کے اوقات کی بھی رعایت کریں، کیونکہ اگر ان چیزوں کی رعایت نھیں کریں گے، مثلاً خراب شدہ کھانے کو کھائےں گے تو بیمار ضرور ھوجائیں گے،اور ھوسکتا ھے کہ ھماری جان بھی چلی جائے۔ صفائی اور ڈاکٹری کے قوانین واقعاً طبیعی ھیں جن کی ھمارے بدن کو ضرورت پڑتی ھے اور یہ قوانین دانشمندوں کی مسلسل کوششوں کے نتائج میں بنائے جاتے ھیں اور انسان کی زندگی صحیح وسالم طریقہ سے گذرنے کیلئے دوسروں کو تعلیم دی جاتی ھے۔ بدن کے لئے ان قوانین کی رعایت کے سلسلہ میں ھم نے جو کچھ عرض کیا اس کے پیش نظر اگر کوئی ڈاکٹر کھے کہ فلاں غذا کو نہ کھاؤ،نشیلی چیزوں کا استعمال نہ کرو، کیونکہ تمھارا ذھنی توازن ختم ھوجائے گا،اور تمھارے معدہ یا جگر یا کے لئے نقصان دہ ھے تو ھمارا کیا فرض ھے؟! کیا اس کا شکریہ نھیں کرنا چاھتے، کیونکہ اس نے ھماری راھنمائی کی اور ھمارے لئے سلامتی کی راہ بتائی ، یا اس پر اعتراض کریں کہ آپ سے کیا مطلب ھم کچھ بھی کھائیں؟! جس نے ھماری سلامتی کا راستہ بتایا گویا اس نے بھت بڑی خدمت کی ،لھٰذا ھمیں اس کے ھاتھوں کے بوسہ لیناچاھئے۔ جس وقت ھم بیمار ھوجاتے ھیں، بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس جانے کے لئے کئی کئی دن پھلے وقت لےتے ھیں اور بڑی منت وسماجت سے کھتے ھیں کہ ھمارا معائنہ کرلیجئے، اور اس کے بعد ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخہ کی دوائی کی تلاش میںشھر کے چکر لگاتے ھیں تاکہ اس کو کھائیں،اور ٹھیک ھوجائیں، ھم ان تمام زحمتوں کو صحت وسلامتی اور تندرستی کے لئے برداشت کرتے ھیں، کیونکہ ھم چاھتے ھیں کہ ھماری عمر صحت وسلامتی کے ساتھ بسر ھو، لھٰذا اس مقصد کے تحت ڈاکٹری قوانین کی رعایت کرنا ضروری ھے، اوراس طرح ھماری آزادی محدودھوجاتی ھے اور جو بھی مرضی ھوتی ھے اس پر عمل نھیں کرتے۔ اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ ان قوانین پر عمل کرنا ھماری صحت وسلامتی کا باعث ھے، نہ کہ ھماری خوشی میں رکاوٹ، ھمیں چاھئے کہ ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاھئےے، جنھوںنے ھمیں صحت وسلامتی کا راستہ بتایا، کیا دنیا کا کوئی عقلمند انسان ڈاکٹری قوانین کو فردی زندگی میں دخالت کرنا کھتا ھے ، یا اس کو معاشرہ کی بھترین خدمت کے عنوان سے یاد کیا جاتا ھے؟ ھم نے اب تک جو کچھ بیان کیاوہ انسان کی ذاتی اور فردی زندگی سے متعلق تھا ، معاشرہ کے سلسلہ میں بھی بالکل اسی طرح ھے ، اگر کوئی یہ کھے کہ میں زندگی کے معنی کو نھیں سمجھ سکا او رنھیں چاھتا کہ زندہ رھوں ، اور میرے زندہ رھنے اور مرجانے میں کوئی فرق نھیں ھے !تو ظاھر ھے ایسے شخص کو کوئی عقلمند نھیں کھہ سکتا. اور اگر وہ ان قوانین کی رعایت کرنا پسند نہ کرے تو کوئی بھی حادثہ ھوسکتا ھے کیونکہ ھر چیز کے اسباب ھوتے ھیں اور انسان طبیعی کاموں میں کوئی اثر نھیں رکھتا، اور اس کا نتیجہ یا بیماری ھوگا یا موت. اگر کوئی انسان اپنی زندگی میں ھدف نہ رکھتا ھو ، اور جو چاھے کھائے تو اس کو اپنی زندگی کو حوادث کی نذر کرنا ھوگا، کیونکہ خود اس کے کاموں کی وجہ سے بیماری میں مبتلا ھوگااور آخر کار موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی اپنی زندگی کا ھدف رکھتا ھو او رطولانی عمر اور سلامتی چاھتا ھواور اس سلامتی سے ترقی خصوصاً معنوی ترقی چاھتا ھو تو وہ ڈاکٹری قوانین سے بے توجھی نھیں کرسکتا،یعنی ڈاکٹروں او رماھر افراد کے بتائے ھوئے قوانین کو لفظ بلفظ عمل کرکے اپنی آزادی کو محدود کرلے۔ اگر معاشرہ کو بھی بے ھدف افراد کی طرح فرض کرلیا جائے کہ جن کے نزدیک زندگی وموت برابرھوتی ھے، نہ اپنا بقا چاھتے ھیں اور نہ ھی اپنے لئے شرف چاھتے ھیں، نہ ھی عزت چاھتے ھیں اور نہ ھی اپنا استقلال اور نہ ھی اپنی شخصیت اور عزت چاھتے ھیں اور نہ ھی اپنے لئے آخرت ومعنویت چاھتے ھیں، مسلماً ایسا معاشرہ جو چاھے کرے بالکل آزاد ھے اس کے لئے کسی بھی قانون کی رعایت کرنے کی ضرورت نھیں ھے؛ لیکن ایسے شخص کے لئے زندگی وموت برابر ھے۔ انسان کو صرف اس وقت کسی قانون ومقررات کی ضرورت نھیں ھوتی جب موت وزندگی اس کی نظر میں مساوی ھو، یھاں تک کہ اگر موت کو بھی نھیں چاھتا اور زندہ یا مرنا اس کے لئے کوئی فرق نھیں رکھتا،تو اس کو کسی بھی قانون کی ضرورت نھیں ھے ورنہ اگر موت بھی چاھے تو اس کے لئے بھی خاص قوانین کی رعایت کرنا ضروری ھے،اور اس کو معلوم ھونا چاھئے کہ کن کاموں سے موت آسکتی ھے، لھٰذا کوئی بھی بامقصد کام بغیر کسی قانون کے ممکن نھیں ھے اورمطلق آزادی کے ساتھ کسی بھی مقصد تک پھونچنا ممکن نھیں ھے، اگر کوئی ھدف ھے تو اس کے لئے محدودیت کا قائل ھونا پڑےگا، اور ھر کام کے مقدمات اس کے قوانین وضوابط کے تحت ھونا چاھئے ، چاھے اس کا ھدف موت ھی کیوں نہ ھو۔ اگر معاشرہ کچھ ھدف رکھتا ھے تو اس کے لئے قانون کی رعایت کرنا ضروری ھے، یعنی اپنی آزادی کو کم کرکے اپنی بعض خواھشات سے صرف نظر کرے. اور جو چاھے کرے تو پھر ھدف تک نھیں پھونچ سکتا،ھاں اگر اس کا کوئی ھدف نہ ھو، تو پھر اسے کسی قانون کی ضرورت نھیں ھے،ایسے معاشرہ کی مثال اسی شخص کہ جس کا کوئی ھدف نھیں ھے اور کچھ ھی دنوں میں موت کے گھاٹ اتر جاتا ھے، اس بناپر ، اگر معاشرہ کو دوام اور ترقی وپیشرفت کرنا ھو او رھمیشگی سعادت وعزت درکار ھو تو پھر اس کودقیق قوانین کی ضرورت ھے۔ سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ معاشرہ کے لئے کس طرح قوانین بنائے جائیں؟ کون بنائے؟ کیا یہ قوانین ایک طرح کے واقعی امور ھیں جن کو کشف ھونا چاھئے، یا صرف اعتباری امور ھیں کہ جن کو بنایا جائے؟ یہ مسئلہ فلسفہ ٴ حکومت میں بھت اھم ھے۔ ھم انسان کی فردی زندگی میں دانشمند حضرات کے کشف کئے ھوئے کچھ قوانین کا مشاھدہ کرتے ھیں، یعنی فلاںمِکروب فلاں بیماری کا سبب بنتا ھے یہ اس واقعی رابطہ کی وجہ کہ جو حقیقی علت ومعلول کے درمیان پایا جاتا ھے اور دانشمند حضرات اس کو اپنے تجربوں سے کشف کرتے ھیں اور اس کو ڈاکٹری قانون کے عنوان سے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ھیں کھ: فلاں بیماری سے بچنے کے لئے فلاں مکروب سے پرھیز کرنا ضروری ھے،یا اگر فلاں بیماری پھیل گئی تو اس بیماری سے محفوظ رھنے کے لکے فلاں ٹیکا لگوانا ضروری ھے. معاشرہ کو بھی اگر صحیح وسالم زندگی گذارنا ھے تواس کے لئے بھی قوانین کی رعایت کرنا ضروری ھے تو کیا یہ قوانین واقعاً طبیعت میں موجود ھیں کہ کچھ لوگ ان کو کشف کریں؟ یا نھ،یا قوانین اعتباری اور فرضی ھیں ، اور لوگوں کی رضایت کی خاطر ان کو کبھی کبھی بدلا بھی جاسکتا ھے، کیونکہ یہ قوانین اکثر لوگوں کی مرضی کے مطابق ھوتے ھیں. واقعاً یہ مسئلہ بھت اھم اور بنیادی ھے اور اس کا ایک پھلو فلسفہ سے متعلق ھے اور ایک پھلو انسانی علوم سے وابستہ ھے اور اس کا ایک پھلو معرفت شناسی سے تعلق رکھتا ھے اور ان کے بھت سے پیچیدہ مسائل ھیں جن کی بحث یونیورسٹیوں یا علمی مرکزوں میں ھونی چاھئے، اور ان تمام مطالب کو بیان کرنا اس وقت ھمارے لئے ممکن نھیں ھے، لیکن سب کے استفادہ کے لئے ھم ان میں سے کچھ منتخب مسائل کو بیان کرتے ھیں۔ 5۔واقعی مصالح ومفاسد قانون کے پشت پناہ کیا واقعاً امنیت اور چوری سے روکنے کے درمیان کوئی رابطہ ھے؟ یعنی اگر امنیت چاھتے ھیں تو چوری نھیں ھونا چاھئے؟ یا نہ ، ان کے درمیان صرف ایک قراردادی رابطہ ھے، اور امنیت اور چوری دونوں ھی ممکن ھیں. کیا قتل اور ناامنی میں کوئی رابطہ ھے؟یعنی اگر کوئی ھر کسی کو قتل کرنا چاھے قتل کردے تو کیا واقعاً اس سے ناامنی پیدا ھوتی ھے یا یہ صرف قراردادی رابطہ ھے؟ کیا جنسی آزادی گھر کے اجڑنے کا سبب بنتی ھے یا نھیں؟ مثلاً اگر کسی زمانہ میں لوگوں کی پسند ھونے کی وجہ سے جنسی رابطہ کوآزاد قرار دیدیا جائے تو ایک روز کھنا بھی محدودھے کیونکہ اکثر لوگ اس کو پسند نھیں کرتے ھیں، تو کیاا یسا قانونن بنانا جس میں جنسی آزادی موجود ھو یا موجود نہ ھو، صرف ایک قراردادی مسئلہ ھے؟ یعنی کیا یہ کام کا ایک سلیقہ ھے کہ لوگ اس سے خوش ھوتے ھیں یا ناراض ھوتے ھیں ، اور ان کی مرضی کے مطابق قانون ھونا چاھئے؟ یا نہ ،بلکہ ایک واقعی رابطہ پر موقوف ھے،اور وہ یہ کہ اگر جنسی آزادی ھو تو پھر معاشرہ میں جسمی اور روحی بیماریاںجیسے ایڈز وغیرہ پھیل جائیں گی، اور لوگوں کے گھر اجڑ جائیں گے، عورت مرد میں روحانی بیماریاں پھیل جائیں گی، بچے بے تربیت اوردوسری تباھی پھیل جائیں گی۔ بعض لوگوں کا اعتقاد یہ ھے کہ اجتماعی قوانین ،واقعی مصالح ومفاسد کے تابع ھیں، اور ایسا نھیں ھے کہ یہ قوانین لوگوں کی مرضی اور ان کے سلیقہ پر ھوں. جس طرح اگر شراب رائج ھوجائے تو روحی ، قلبی اور تنفسی بیماریاں پھیل جائیں گی یا اگر بیڑی سگریٹ کا رواج ھوا تو بھت سی بیماریاں پیدا ھوجائیں گی، اجتماعی مسائل بھی اسی طرح ھیں: اگر عورت مرد میں آزادانہ روابط ھوجائیں تو پھر معاشرے میں اس کے اثرات خطرناک ثابت ھونگے جس کے نمونے مغربی ممالک(کہ جھاں نامشروع روابط کافی حد تک رائج ھیں) میں ملاحظہ کرتے آئے ھیں، لھٰذا قانون بناتے وقت ان کے واقعی آثار بھی مدّ نظر رھیں، نہ یہ کہ صرف لوگوں کی مرضی کے مطابق ھی عمل کیا جائے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ لوگوں کی اکثریت جنسی آزادی کو پسند کرتی ھے یا پسند نھیں کرتی. یا لوگوں کی اکثریت افیم وچرس کی آزادی کی خواھاں ھے یا نھیں؟ کیا قانون کو اسی طریقہ پر ھونا چاھئے یا یہ کشف کریں کہ نشیلی چیزوں سے کیا کیا نقصانات ھیں اگرچہ اکثریت اس کے موافق بھی ھو؟ آپ کی نگاہ میں کون سا راستہ صحیح ھے؟ اجتماعی قوانین لوگوں کی اکثریت کی بنا پر ھوں یا واقعی (نفع ونقصان کی) بناپر ؟ یعنی اجتماعی مصالح ومفاسد حقیقی اور واقعی امور ھیں یا صرف اعتباری یا سلیقہ ای امور ھیں؟ "ھیوم" کے زمانہ کے بعد سے ، مغربی ممالک میں معرفت شناسی میں یہ بحث بیان ھوئی ھے کہ "باید ھا ونباید ھا"(کیا ھونا چاھئے کیا نھیں ھونا چاھئے) خارجی واقعیت نھیں رکھتے اور ان پر عقلانی امور اور استدلال کی کوئی ضرورت نھیں ھے. "خوب وبد" انھیںسلیقوں کی طرح ھے جو لوگوں کے درمیان پائے جاتے ھیں، مثلاً اگر کسی کو" گلابی رنگ" پسندھے تو اس سے یہ سوال نھیں ھوگا کہ کیوں آپ کو یہ رنگ کیوں پسند ھے، کیونکہ کسی کو یہ رنگ پسند ھے دوسرے کو کوئی دوسرا رنگ پسند ھے، تو کیا اجتماعی مسائل بھی رنگوں کی طرح ھےں ؟ یا نھیں ،بلکہ اجتماعی مسائل،واقعی مصالح ومفاسد کے تابع ھیں ؟ انسانی کردار کا اثر جو انسان کی فردی اور اجتماعی ، مادی ومعنوی زندگی پر ھوتا ھے ایک حقیقی رابطہ ھے ، یعنی درحقیقت ان میں علّت ومعلول کا رابطہ ھے،اور اجتماعی اورفردی زندگی میں انسانی کردار سعادت یا شقاوت کا سبب ھوتا ھے، لھٰذا یہ دیکھنا ضروری ھے کہ کون سے کام سعادت کے باعث ھیں تاکہ وہ کام جائز ھوں ، اور کون سے کام شقاوت وبدبختی کے باعث ھیں تاکہ ممنوع اور حرام ھوں. اب جبکہ یہ ثابت ھوچکا کہ انسانی کردار کا سعادت وشقاوت سے واقعی اور حقیقی رابطہ ھے تو ضروری ھے کہ ان روابط کو پھنچانا جائے اور انھیں کی بنیادپر قوانین بنائے جائیں. اس وقت سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کون انسان کے مصالح ومفاسد کو بھتر طور پر جانتا ھے؟ ھم مسلمانوں کا عقیدہ یہ ھے کہ خدا ان کو بھتر جانتا ھے۔لھٰذا قانون گذاری میں اسلام کا نظریہ ھے کہ انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی کے اعمال اور سعادت وشقاوت میں علّی اور معلولی رابطہ ھے جن کو مصلحت ومفسدہ کھا جاتا ھے ، لھٰذا ان مصلحتوں اور مفسدوں کو پھچاننا ضروری ھے اور انھیں کی بنیاد پر قوانین بنائے جائیں، اور اکثر لوگوں کی مرضی کے مطابق قوانین نھیں بنانے چاھئے۔ حوالے (1)مستدرک الوسائل ج12ص424.