Drawer trigger

اسلامی مصادر

سید محمد حسین طباطبائی(علامہ طباطبائی)

سید محمد حسین طباطبائی(علامہ طباطبائی)

اس ہفتے کے منتخب مصنف

آپ کا نام سید محمد حسین قاضی طباطبائی ہے اور آپ کی ولادت ذی الحجہ کے آخری روز سن 1321 ہجری میں تبریز کے علاقہ شاد آباد میں ہوئی۔ آپ کے پدری اجداد کا سلسلہ نسب امام حسن مجتبی (ع) اور ابراہیم بن اسماعیل دیباج (ع) سے ملتا ہے 14 پشتوں تک آپ کے سلسلہ نسب میں علماء و دانشور رہے ہیں۔اور مادری اجداد کا سلسلہ حسینی سادات سے ملتا ہے۔5 سال کی عمر میں وہ والدہ اور 9 سال کی عمر میں والد کے سایہ سے محروم ہو گئے۔آپ کے چھوٹے بھائی سید محمد حسن، سید محمد حسن الہی کے نام سے معروف اور تبریز میں فلسفہ کے استاد تھے۔ ازدواجی زندگی: آپ کی زوجہ کا نام قمر السادات، مہدوی طباطبائی سادات کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور علامہ طباطبائی کی ترقی، معنوی ارتقاء اور سیر و سلوک میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان سے 3 فرزند متولد ہوئے لیکن تینوں بچپن میں ہی نجف اشرف میں فوت ہوگئے۔ چوتھے بیٹے کا نام انہوں نے اپنے استاد سید علی قاضی طباطبائی کی فرمائش پر عبد الباقی رکھا۔ سید عبد الباقی طباطبائی فنی علوم کے حامل تھے۔ انہوں نے ریاضیات و ہندسہ جیسے علوم اپنے والد سے کسب کئے۔ علامہ اور قمر السادات کی ایک بیٹی نجمہ سادات طباطبائی بھی تھیں۔ ان کے شوہر شہید علی قدوسی علامہ کے شاگردوں میں سے تھے۔ علامہ کے دوسرے داماد جواد مناقبی ہیں۔ تحصیل و تدریس: علامہ طباطبائی نے (1290۔1296 ش) 6 سال تک قرآن کریم کی تعلیم اور اس کے بعد اس زمانہ کے رایج نصاب کے مطابق گلستان و بوستان وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد تبریز کے مدرسہ طالبیہ میں داخلہ لیا اور ادبیات عرب، علوم نقلی، فقہ و اصول میں مشغول ہو گئے اور (1918 ء سے 1925 ء) تک دوسرے اسلامی علوم حاصل کئے۔اس کے بعد میرزا علی نقی خطاط کے یہاں خوش نویسی کے فنون سیکھے اور استاد فن کی منزل تک پہچے۔ علامہ مدرسہ طالبیہ میں تحصیل کے بعد اپنے بھائی کے ہمراہ نجف اشرف مشرف ہوئے اور پورے دس سال (1925ء سے 1935ء) تک نجف میں علوم دینی و معنوی کمالات کے حصول میں مشغول رہے۔ 1935 میں وطن واپس آئے اور (1935ء سے 1946ء) تک تبریز میں مقیم رہے اور کاشت کاری میں مشغول ہو گئے اور اس کے ساتھ ساتھ تالیف و تحقیق بھی انجام دیتے رہے۔ 1946 ء سے قم المقدسہ میں ساکن ہوئے اور آخری عمر تک وہیں تدریس، تحقیق اور تالیف میں سرگرم رہے۔ نجف اشرف میں: اپنے وطن تبریز میں پہلا علمی مرحلہ کامل کرنے کے بعد 1925 ء میں نجف روانہ ہوئےاور 10 سال تک حوزہ علمیہ نجف میں جو اس وقت عالم تشیع کا علمی مرکز تھا، مختلف اسلامی علوم میں اپنی علمی پیاس بجھانے میں مصروف ہوگئے۔ فقہ و اصول فقہ آیت اللہ نائینی، محمد حسین غروی اصفہانی کمپانی و سید ابو الحسن اصفہانی جیسے اساتید، فلسفہ سید حسین بادکوبہ ای جو خود ابو الحسن جلوہ و آقا علی مدرس کے شاگرد تھے، سے حاصل کیا۔ ریاضی سید ابو القاسم خوانساری اور اخلاق و عرفان سید علی قاضی طباطبائی جو حکمت و عرفان میں بلند علمی درجے پر فائز تھے، سے کسب کیا۔ تبریز میں: علامہ طباطبائی نجف اشرف میں تحصیل کے دوران معیشت کی تنگی اور تبریز سے اپنی زمینوں کے اجارے جو مقرر کئے ہوئے تھے کے نہ پہنچنے کی وجہ سے ایران لوٹنے پر مجبور ہوگئے اور 10 سال تک تبریز اپنے آبائی گاوں شاد آباد میں زراعت میں مشغول رہے۔ اس دوران کوئی علمی فعالیت، تحصیل یا تدریس کے حوالے سے قابل ذکر نظر نہیں آتی لیکن بعض کتابیں اور رسالے علامہ طباطبائی کے اس دور کے فکری ثمرات ہیں۔ قم میں: تبریز سے باہر ایران کے دوسرے شہروں کے حوزات میں علامہ طباطبائی کی شہرت اس وقت ہوئی جب انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے سیاسی حوادث کی وجہ سے تبریز سے قم کی طرف ہجرت کی۔ علامہ طباطبائی (1946 ء) کو قم میں مقیم ہوئے اور انہوں نے تفسیر اور فلسفے کے دروس کا آغاز کیا۔ حوزہ علمیہ قم میں علامہ طباطبائی کا بڑا علمی کارنامہ علوم عقلی کا احیاء اور تفسیر قرآن کریم تھا۔ انہوں نے بتدریج حکمت کے اعلی دروس جیسے کتاب شفا اور اسفار کو رواج دیا۔[22] ان دروس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اخلاق و عرفان اسلامی میں شاگردوں کی تربیت کرنے کی طرف بھی توجہ مبذول رکھی۔ حسن حسن زادہ آملی، عبد اللہ جوادی آملی، عزیر اللہ خوش وقت و علی سعاوت پرور کا شمار ان ہی شاگردوں میں ہوتا ہے۔ تہران میں علمی جلسات: قم میں سکونت کے دوران علامہ طباطبائی کی فعالیتوں میں سے ایک تہران میں علمی و فلسفی نشستوں میں شرکت تھی۔ یہ جلسات ہنری کربن، سید حسین نصر اور داریوش شایگان وغیرہ کے ساتھ علامہ طباطبائی کی زیر صدارت فلسفہ، عرفان، ادیان اور اسلام شناسی کے بارے میں انجام پاتے تھے۔ تہران میں پے در پے سفر کے دوران انہوں نے فلسفہ اور معارف اسلامی کے شائقین سے ملاقات کی اور بعض اوقات دین اور حکمت کے مخالفین کے ساتھ بھی نشست و برخاست رکھتے تھے۔ ان میں کی بعض نشستیں مشرقی عرفان کی تبیین و تفسیر جیسے موضوع پر ہوئیں، جس کا محور اپنشاد اور گتھائیں تھیں۔ ان کتابوں کے مطالب کو داریوش شایگان فارسی میں ترجمہ کرتے تھے اور علامہ طباطبائی ان کی تبیین و تشریح کرتے تھے۔ ہنری کربن کے ساتھ علامہ طباطبائی کے جلسات 20 سال تک (1958ء سے 1978ء) ہر سال موسم خزاں میں فلسفہ کے کئی افاضل اور دانشمند حضرات کے ہمراہ انجام پاتے تھے جن میں دین اور فلسفہ کے بنیادی اور حیاتی مسائل پر بحث ہوتی تھی۔ سید حسین نصر کے بقول: اس قدر بلند و بالا درجے اور وسیع و عریض افق کے ساتھ ایسے جلسات کی تشکیل کی اس سے پہلے جہان اسلام میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے، یہاں تک کہ یہ دعوا کر سکتے ہیں کہ قرون وسطی جہاں سے عیسائیت اور دین مبین اسلام کا فکری اور معنوی رابطہ منقطع ہوا تھا، کبھی مشرق زمین اور دنیائے غرب کے ساتھ ایسا رابطہ برقرار نہیں ہوا تھا۔ علامہ نے اپنے تحصیل کے دوران درج ذیل اساتید سے کسب فیض کیا ہے: آیت اللہ سید علی قاضی طباطبائی ،آیت اللہ سید ابو القاسم خوانساری ،آیت اللہ مرتضی طالقانی ،آیت اللہ محمد حسین غروی اصفہانی (کمپانی) ،آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی ،آیت اللہ میرزا حسین نائینی ،آیت اللہ سید حسین بادکوبہ‌ ای ،آیت اللہ سید حجت کوہ کمرہ ای۔ جنہوں نے علامہ سے کسب فیض کئے ان میں درج ذیل شخصیات شامل ہیں: سید عز الدین حسینی زنجانی ،مرتضی مطہری ،آیت اللہ جوادی آملی ،آیت اللہ فاضل لنکرانی ،آیت اللہ منتظری ،آیت اللہ شبیری زنجانی ،آیت اللہ مصباح یزدی ،آیت اللہ جعفر سبحانی ،غلام حسین ابراہیمی دینانی ،آیت اللہ حسن زادہ آملی ،سید محمد حسین لالہ‌ زاری طہرانی ،آیت اللہ ابراہیم امینی ،آیت اللہ آشتیانی ،آیت اللہ مکارم شیرازی ،احمد احمدی ،آیت اللہ طاہری خرم آبادی ،آیت اللہ قدوسی، محمد محمدی گیلانی ،یحیی انصاری شیرازی ،شہید بہشتی ،شہید مفتح ،شہید باہنر ،آیت اللہ موسوی اردبیلی ،آیت اللہ نوری ہمدانی ،ابو طالب تجلیل ،امام موسی صدر ،سید محمد باقر موحد ابطحی ،سید محمد علی موحد ابطحی ،سید مہدی روحانی ،علی احمدی میانجی ،عباس ایزدی ،محمد صادقی تہرانی ،آیت اللہ خوش وقت ،علی سعادت‌ پرور۔ علامہ نے بہت سارے علمی آثار چھوڑے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: تفسیر المیزان ،اصول فلسفہ و روش رئالیسم ،شیعہ در اسلام ،سنن النبی (ص) ،حاشیہ بر اسفار صدر الدین شیرازی ،بدایة الحکمة ،نهایة الحکمة ،شیعہ: مجموعہ مذاكرات با پروفسور كربن (بخش اول مذاکرات در سال 1338ش) ،رسالت تشيع در دنياى امروز (بخش دوم مذاكرات با پروفسور كربن در سال 1340ش) ،حاشیہ بر کفایۃ الاصول ،رسالہ در حکومت اسلام ،رسالہ در قوه و فعل ،رسالہ در اثبات ذات ،رسالہ در صفات ،رسالہ در افعال ،رسالہ در وسائط ،الانسان قبل الدنیا ،الانسان فی الدنیا ، الانسان بعد الدنیا ،رسالہ در نبوت ، رسالہ در ولایت ، رسالہ در مشتقات ،رسالہ در برهان ،رسالہ در مغالطہ ،رسالہ در تحلیل ،رسالہ در ترکیب ،رسالہ در اعتباریات ، مرسالہ در نبوت و منامات ،منظومہ در رسم خط نستعلیق ،علی و الفلسفة الالهیہ ،قرآن در اسلام ، متعدد مقالات جو مختلف مجلات جیسے مکتب تشیع و درس‌ هایی از مکتب اسلام و راهنمای کتاب و ... میں شائع ہوئے ہیں۔ وفات: علامہ طباطبائی 15 نومبر 1981 ء بروز اتوار صبح 9 بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور اگلے دن مسجد امام حسن عسکری سے حرم حضرت معصومہ (ع) قم تک ان کی تشییع ہوئی۔ ان کی نماز جنازہ آیت اللہ العظمی سید محمد رضا موسوی گلپائگانی نے پڑھائی جس کے بعد حضرت معصومہ (س) کے حرم میں مسجد بالا سر میں دفن ہوئے۔مزید ...

اس ہفتے کی مقبول کتابیں


مجموعۃ رسائل علامہ طباطبائی(ره)

مجموعۃ رسائل علامہ طباطبائی(ره)

علامہ طباطبائی علیہ الرحمہ جیسی عالم و عارف اور شہرۂ آفاق شخصیت سے کون واقف نہیں؛ عالم اسلام کی بہت ہی کم شخصیات ایسی ہیں جو ایک ہی وقت میں مختلف علوم میں یدطولیٰ رکھتی تھیں، علامہ کی ذات موجودہ صدی میں ان افراد میں سرفہرست ہے۔ آپ کی تفسیر "المیزان" کا چرچا دانگ عالم میں ہے اور شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جسے قرآن مجید کی مختلف تفاسیر سے شغف تو ہو لیکن وہ آپ سے اور آپ کے قلمِ بے بدل سے نکلی تفسیر سے واقف نہ ہو البتہ علامہ کے قلم سے اس تفسیر کے علاوہ بھی بہت سے رَسائل اور مقالات نکلے ہیں جن میں عمیق فلسفی، کلامی، عرفانی اور دینی ابحاث پیش کی گئی ہیں۔ یہ رسائل اپنے اختصار کے باوجود بھی نہایت جامع اور طالبان علم کے لیے بے حد مفید ہیں۔ یہ تمام رسائل و مقالے فارسی یا عربی زبان میں ہیں۔ پیش نظر کتاب انھی چند رسائل کا اردو ترجمہ ہے جس میں علامہ کے چار مقالات "علم الامام، وحی، اعجاز و معجزہ، علیؑ و فلسفۂ الٰہی" شامل ہیں۔ مترجم جناب سید سبطین علی نقوی امروہوی نے اس کا ترجمہ بڑی ہی عرق ریزی کے ساتھ انجام دیا ہے پروردگار موصوف کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور مزید ایسی کتابوں کو منصۂ شہود پر لانے کی توفیق عطا فرمائے۔

0
479
اسلام کا نظام خانوادگی

اسلام کا نظام خانوادگی

ایک سنجیدہ اور متوازن خاندانی نظام خوشگوار زندگی کی بنیاد بلکہ ترقی پذیر معاشرہ کی اساس ہے۔ مذہب انسان کو بارگاه الٰہی سے قریب تر کرنے کے لئے آتا ہے۔اور یہ مقصد ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا جب تک ایک ایسا ماحول پیدا نہ ہو جائے جو دینی مطالبات سے ہم آہنگ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی دین اس وقت تک مکمل نہیں کہا جا سکتا جب تک اس کے تعلیمات واضح طریقے سے یہ نہ بتائیں کہ خاندان میں ہر ہر فرد کی کیا ذمہ داری ہے، کیا درجہ ہے۔  خاندان انسانی معاشرہ کی ایک ایسی اکائی ہے جس کے افراد ایک دوسرے سے انتہائی قریبی رابطہ رکھتے ہیں اور اس قربت ہی سے کشاکش اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں جب تک اپنے اپنے فرائض و حقوق کی غیر مبہم تصویر ہر ایک کے پیش نظر نہ ہو کشمکش کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ اگر کوئی دین نظام خانوادگی کی پیچیدگیوں سے اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے تو جَلد یا بدیر اس کے ماننے والے اس دین سے بغاوت کر بیٹھتے ہیں اور سرکشی کا سیلاب مذہبی اقدار کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جاتاہے۔ اس کا سبب ظاہر ہے۔ جو ماحول ان کو نصیب ہوتاہے، جس سماجی نظام میں وہ زندگی بسرکرتے ہیں وہ اس دین کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتا اور گردو پیش کے غیر شعوری اثرات سے متاثر ہوتے ہوتے وہ مذہب سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آخر کار ایک وقت ایسا آتا ہے جب دین و مذہب چند رسوم کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے جس کا عملی زندگی پر کوئی اثر نہیں رہتا۔ ایک غیر جانبدار مبصّر اس توازن کو دیکھ کر حیران رہ جائے گا جو اسلامی تعلیمات نے بنیادی تقاضوں اور روحانی ضروریات کے درمیان پیدا کیا ہے۔ اسلام نے اس حیات دنیوی کے لیے بھی ہدایات دی ہیں اور اخروی و ابدی زندگی کے لیے بھی لائحۂ عمل مرتب کرکے دیا ہے۔آپ اس کتاب میں دین اسلام کے انھیں امتیازی نقوش سے روبرو ہونگے جسے اسلام نے خاندانی اصول معاشرت کے طور پر پیش کیا ہے اور جسے فاضل مصنف نے بڑے ہی خوبصورت طریقے سے قاری کے سامنے رکھا ہے۔

3
289

میڈیا


  • حج کا عالمی اور بین الاقوامی ہونا
  • اظہار برئت کی دلیل
  • اسلامی واجبات میں سے
  • اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان
  • دعوت الہی کو لبیک
  • حج کی روحانیت
  • اسلامی دنیا کے مسائل پر توجہ
  • حج کا بنیادی اور بہترین نتیجہ
  • ہم ۲۰۱۵ء میں ہونے والے دلخراش واقعے کو فراموش نہیں کرسکتے
  • حجاج کی حفاظت
  • مِنیٰ کا حادثہ
  • ہم یہ سب کبھی فراموش نہیں کرسکتے