Drawer trigger

کچھ کو اس طرح جواب دینا پڑتا ہے!! (وضو کے بارے میں بحث)

 کچھ دن پہلے ایک چیٹ روم میں ایک سنی بھائی سے شیعہ اور سنی کے درمیان متنازعہ مسائل پر بات کر رہا تھا۔

اس نے احتجاجی لہجے میں مجھ سے کہا: جب تم وضو کرتے ہو تو پاؤں کیوں نہیں دھوتے؟

میں نے کہا: ہم کیوں دھوئیں؟

اس نے کہا:  تمہارے پاؤں سے بو آ تی ہے!

میں نے کہا: جب تم وضو کرتے ہو تو اپنی بغلیں کیوں نہیں دھوتے؟

اس نے کہا: ہم کیوں دھوئیں؟

میں نے کہا:  اس سے بدبو آتی ہے، اسے دھونا بہتر ہے!

فرمایا: بغلوں کو دھونا، وضو کا حصہ نہیں کہ اسے  دھوتے پھریں!

میں نے کہا: پاؤں دھونا بھی وضو کا حصہ نہیں! کہ اسے  دھوتے پھریں!

اگر پاؤں دھونا وضو میں اس لیےشامل ہے کیونکہ پیروں سے بدبو نہ آئے تو ہمیں وضو میں بغلوں کو دھونا بھی شامل کرہی لینا چاہیے۔!!

بدقسمتی سے سنی معاشرے کا ایک اہم المیہ یہی "استحسان" سے کام لینا ہے جو  شرعی مسائل میں بھی وہ کھینچ تان لاتے ہیں۔

یعنی ان میں قیاسی مکالمہ چلتا ہے، اگر ہم وضو میں پاؤں کا مسح کریں تو یہ زیادہ صحت بخش ہے یا انہیں دھونا بہتر ہے؟ ٹھیک ہے، بالکل، دھونا ہی بہتر ہے توچلو دھوتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ ہماری دھلائی تمہارے مسح کرنے سے بہتر ہے !! اور پھر کچھ عوامی سطح کے لوگ ان پر یقین کربیٹھتے ہیں۔ اور پھر شروع ہوتا ہے بدعات کا ایک نا رکنے والا سلسلہ

حالانکہ ہمیں وضو کے بعد پاؤں دھونے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا اور ہم اسے مستحب سمجھتے ہیں، لیکن اس کو بنیاد بناتے ہوئےاگر ہم وضو سے مسح نکال کر اس کے بجائے پاؤں دھو لیں تو یہ حکمِ عبادت میں تصرّف ہے اور ہمیں اپنے طور پر ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ہم فرمانِ مولیٰ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں نہ کہ شریعت بنانے والے۔

البتہ اہل سنت نے قرآن سے ثابت کرنے کی سعئ لاحاصل کی ہے جس سے ثابت ہوجائے کہ وضو کے دوران پاؤں دھونا چاہیے؛ جسے آسانی سے رد کیا جا سکتا ہے۔

کیونکہ، ہم عربی قواعد سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ  عامل و معمول کے درمیان جملۂ معترضہ کے ذریعہ فاصلہ ہونا قبیح ہے ۔ اگر کسی کو عربی کا ذرا سا بھی علم ہے تو وہ سمجھ جائے گا کہ«و امسحوا برئوسکم و ارجلکم» کا مطلب ہے مسح کرنا، نہ دھونا، لیکن سنی بھائی اللہ کی بات کو بھی نہیں مانتے۔

میں حیران ہوں ان سنیوں کی ناخواندگی، تعصب اور ناعاقبت  اندیشی پر۔

آپ کو اللہ کا واسطہ، اپنی ضد بند کریں اور مطالعہ وسیع کریں اور منطقی بحث کریں۔

از: سید لیاقت علی کاظمی