سلمان فارسی،بحیثیت صحابی رسول (ص)
سلمان فارسی،بحیثیت صحابی رسول (ص)
0 Vote
118 View
ظہور اسلام کے بعد ایرانیوں نے کھلے دل سے اسلام کو قبول کیا اور اس دین الہی کی تعلیمات کے سائے میں اسلامی تمدن کی بہت زیادہ خدمت کی۔ جن افراد نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ان میں سلمان فارسی بھی شامل ہیں۔ ان کا شمار اسلام اور ایران کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔ "برزویہ" یا "روزبہ پارسی" المعروف سلمان فارسی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور صحابی اور اسلام کی عظیم شخصیات میں سے ہیں۔ وہ ایران کے شہر اصفہان کے علاقے جی کے رہنے والے تھے۔ برزویہ نے ایک علمی و ثقافتی ماحول میں یا دوسرے لفظوں میں جندی شاپور کی یونیورسٹی کے قلب اور روشن خیال حلقوں میں تربیت پائی۔ انہوں نے بچپن ہی سے مختلف ادیان کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ سلمان شروع میں زرتشتی تھے لیکن اس دین میں ان کو اپنے سوالوں کا جواب نہ ملا اور مسیحی مذہب کی جانب مائل ہو گئے۔ لیکن اس دین نے بھی ان کو قائل نہیں کیا لہذا وہ حقیقت کو پانے کے لیے گھر سے نکل پڑے اور شام چلے گئے۔ کیونکہ بروزیہ نے پادریوں سے سن رکھا تھا کہ نئے پیغمبر کا ظہور قریب ہے۔ پھر وہ حجاز چلے گئے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ اس وقت برزویہ کی عمر پچاس برس تھی اور یہ تقریبا سنہ ایک ہجری کی بات ہے۔ لیکن وہ قبیلہ بنی کلب کی قید میں آ گئے اور بنی قریظہ کے ایک یہودی نے انہیں خرید لیا اور یثرب یعنی موجودہ مدینہ منورہ لے گیا۔ برزویہ کو اس شہر میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں پتہ چلا اور جب انہوں نے وہ تمام نشانیاں جو عیسائی پادریوں سے سن رکھی تھیں، پیغمبر اسلام میں دیکھیں تو بڑے ذوق و شوق سے ایمان لے آئے اور مسلمان ہو گئے۔ اس طرح سلمان نے ہجرت کی ابتدا میں ہی اپنے گمشدہ گوہر کو پا لیا اور پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی انہیں ان کے مالک سے خرید کر آزاد کر دیا۔ اس کے بعد سے وہ رسول خدا کے ساتھ رہے اور آنحضرت کے نزدیک آپ کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے برزویہ کا نام سلمان رکھا کہ جو سلامتی اور تسلیم سے لیا گیا ہے۔ پیغبمر اکرم (ص) کی جانب سے ان کے لیے اس خوبصورت نام کا انتخاب سلمان فارسی کی روح اور باطن کی پاکیزگی کی علامت ہے۔ سلمان ہمیشہ جنگوں میں پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ رہے۔ لیکن پانچویں صدی ہجری میں ہونے والی جنگ احزاب یا جنگ خندق میں ان کی دانائی و دانش نے مسلمانوں کی بہت زیادہ مدد کی۔ انہوں نے اس جنگ میں تجویز پیش کی کہ دشمن کے بڑے لشکر کے حملے کو روکنے کے لیے مدینہ کے چاروں طرف ایک خندق کھودی جائے اس تجویز کو پیغمبر اکرم (ص) نے بہت پسند کیا۔ اس روز انصار کہہ رہے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ مہاجرین کا بھی کہنا تھا کہ نہیں سلمان ہم میں سے ہیں۔ لیکن پیغمبر اسلام (ص) نے ان کے جواب میں کہا کہ "سلمان منّا اہل البیت" یعنی سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ سلمان نے اسی طرح غزہ طائف میں بھی اہم کردار ادا کیا اور منجنیق بنا کر دشمن کو شکست کا مزہ چکھنے پر مجبور کر دیا۔ سلمان پیغمبر اکرم (ص) کے قریبی صحابیوں میں سے تھے۔ وہ انتہائی فاضل اور پرہیز گار تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے کئی بار ان کے علم و دانش اور دانائی کی تعریف کی اس کے علاوہ ان کے اخلاق اور ایمان کی بھی ستائش کی ہے۔ سلمان فارسی کے وسیع علم کی وجہ سے پیغمبر اکرم کے نزدیک ان کا خاص مقام و مرتبہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ سلمان علم کا ایسا سمندر ہیں کہ جس کی گہرائی تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ رسول خدا (ص) اور حضرت علی (ص) وہ اسرار و رموز کہ جسے دوسرے لوگ سمجھنے اور برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، سلمان کو بتاتے تھے اور انہیں ان اسرار و رموز کی حفاظت کا حقدار سمجھتے تھے۔ سلمان کے القاب میں سے ایک لقب محدّث ہے۔ سلمان ہمیشہ اور ہر قسم کے حالات میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حامی و مددگار رہے۔ وہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ان معدودے چند لوگوں میں شامل تھے کہ جو پوری سنجیدگی اور ہوشیاری کے ساتھ مختلف میدانوں میں موجود رہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے نزدیک آپ کا مقام و مرتبہ انتہائي بلند تھا آپ نے انہیں لقمان حکیم کا لقب دیا تھا۔ سلمان فارسی کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے ان کے بارے میں سوال کیا گيا تو آپ نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے تھے، اور ہم اہل بیت کے دوستدار تھے، تم لقمان حکیم جیسا شخص کہاں تلاش کر سکتے ہو؟ وہ علم کے بلند درجات کے حامل تھے، انہوں نے گزشتہ پیغمبروں کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ یقینا وہ علم و دانش کا سمندر تھے۔ سلمان فارسی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بھی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ ساسانیوں کے دارالحکومت مدائن کی فتح کے دوران انہوں نے برسوں کے بعد اپنے ایرانی ہم وطنوں سے بات چیت کی اور انہیں محمد (ص) کے دین میں مساوت اور اخوت و بھائی کے بارے میں بتایا جس کے باعث ان کے دل پسیج گئے اور انہوں نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس جنگ میں سلمان فارسی کا ایک ہدف و مقصد یہ تھا کہ اس زمانے میں ایران میں زرتشتی مذہبی رہنماؤں کے ظلم و ستم اور طبقاتی ظلم کا خاتمہ کیا جائے۔سلمان حمص اور دمشق کی فتح میں بھی شریک تھے اور ماضی کی مانند وہ مسلمانوں کی فوجی و عسکری امور میں رہنمائی کر رہے تھے۔ ممتاز مؤرخ احمد بن یحیی بلاذری لکھتے ہیں کہ دمشق کے لوگوں نے سلمان کا ایسا استقبال کیا کہ جس طرح کسی خلیفہ کا استقبال کرتے ہیں یہاں تک کہ دمشق کا کوئي بھی ایسا اہم اور ممتاز شخص نہیں تھا کہ جس نے سلمان کو اپنا گھر پیش نہ کیا ہو۔ سلمان کو خلیفہ دوئم کے دور میں مدائن کی حکومت سونپی گئی اور وہ اپنی زندگي کے آخری لمحے تک یعنی انیس سال تک اس منصب پر فائز رہے۔ جب وہ مدائن کے حاکم تھے تو ان کی مالی حالت میں ذرا سی تبدیلی بھی رونما نہیں ہوئي تھی اور جیسا کہ ان کی زندگی کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ وہ حکومتی خزانے سے حتی ایک دینار بھی لینے سے گریز کرتے تھے اور زنبیلیں بنا کر اپنے اخراجات پورے کرتے تھے۔ ان کا لباس صرف ایک سادہ عبا تھی۔ ایک روز سلمان نے ایک شخص کو دیکھا جو شام سے آ رہا تھا اور اس کی پشت پر انجیر اور خرما سے بھری ہوئی بوری لدی ہوئی تھی۔ اس شامی شخص نے جونہی سلمان کو دیکھا تو ان کے ظاہری حلیے سے سمجھا کہ کوئی معمولی اور غریب سا شخص ہے۔ اپنی بوری ان کی کمر پر لاد دی تاکہ وہ اس کے گھر تک پہنچا دیں۔ راستے میں کچھ لوگ ملے تو سلمان نے انہیں سلام کیا۔ لوگ یہ منظر دیکھ کر سن ہو کر رہ گئے انہوں نے جواب دیا۔ وعلیکم السلام امیر، اس شامی شخص نے خود سے کہا کہ ان کی مراد کون سا امیر ہے؟ کچھ راستہ مزید طے کرنے کے بعد اس وقت اس پر وحشت طاری ہو گئی جب کچھ لوگوں نے ان سے بوری لینا چاہی اور کہا کہ امیر آپ یہ زحمت نہ کریں یہ بوری ہمیں دے دیں ہم پہنچا دیتے ہیں۔ اب شامی شخص سمجھ گيا کہ وہ مدائن کے امیر سلمان فارسی ہیں۔ شامی شخص ہکلا کر معافی طلب کر رہا تھا اور اس نے معذرت کے ساتھ ان سے اپنا سامان لینا چاہا تو سلمان فارسی نے سر کے اشارے سے اسے منع کر دیا اور کہا کہ نہیں میں تیرے گھر تک تیرا سامان پہنچا کر آؤں گا۔ مشہور عارف محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ اہل بیت کے ساتھ سلمان کا پیوند، رسول خدا کی جانب سے سلمان کے اعلی مقام و مرتبے اور باطنی پاکیزگي کی گواہی کی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ سلمان کا اہل بیت میں سے ہونے کا مطلب نسبی پیوند نہیں ہے بلکہ یہ پیوند اعلی انسانی صفات کی بنیاد پر ہے۔ اسی ممتاز عالم دین شیخ طوسی بھی اپنی کتاب امالی میں منصور بن رومی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ اے میرے آقا، میں آپ سے سلمان فارسی کے بارے میں بہت سی باتیں سنتا ہوں، اس کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ سلمان فارسی نہ کہو بلکہ سلمان محمدی کہو۔ میں ان کی زیادہ باتیں کرتا ہوں اس کا سبب یہ ہے کہ ان میں تین اہم خصوصیات موجود تھیں، پہلی یہ کہ وہ اپنے مولا امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی باتوں کو اپنی باتوں پر مقدم رکھتے تھے۔ دوسری یہ کہ غریبوں کو دوست رکھتے تھے اور انہیں امیروں پر ترجیح دیتے تھے اور تیسری یہ کہ علم اور علما سے محبت کرتے تھے۔ آخرکار سلمان فارسی تینتیس کا پینتیس ہجری قمری میں تراسی کی عمر میں مدائن میں انتقال کر گئے۔ حضرت علی علیہ السلام نے آپ کو غسل و کفن دیا اور آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ پیغمبر اسلام کے اس عظیم صحابی کا مزار بغداد کے جنوب میں پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر مدائن میں واقع ہے۔ منبع:http://www.hajij.com