Drawer trigger

نہج البلاغہ (اردو ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین)

نہج البلاغہ کا اجمالی تعارف نہج البلاغہ وہ عظیم المرتبت کتاب ھے جس کو دونوں فریق کے علماء معتبر سمجھتے ھیں، یہ مقدس کتاب امام علی علیہ السلام کے پیغامات اور گفتار کا مجموعہ ھے جس کو علامہ بزرگوار شریف رضی علیہ الرحمہ نے تین حصوں میں ترتیب دیا ھے جن کا اجمالی تعارف کچھ یوں ھے: ۱۔ حصہ اول: خطبات نہج البلاغہ کاسب سے پھلا اور مھم حصہ امام علی علیہ السلام کے خطبات پر مشتمل ھے جن کو امام علیہ السلام نے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ھے، ان خطبوں کی کل تعداد (۲۴۱ ) خطبے ہیں جن میں سب سے طولانی خطبہ ۱۹۲ ہے جو خطبہٴ قاصعہ کے نام سے مشھور ہے اور سب سے چھوٹا خطبہ ۵۹ ہے۔ ۲۔ حصہ دوم: خطوط یہ حصہ امام علیہ السلام کے خطوط پر مشتمل ھے، جو آپ نے اپنے گورنروں اور دوستوں، دشمنوں، قاضیوں اور زکوٰة جمع کرنے والوں کے لئے لکھے ہیں، ان سبب میں طولانی خط ۵۳ ہے جو آپ نے اپنے مخلص صحابی مالک اشتر کو لکھا ہے اور سب سے چھوٹا ۷۹ ہے جو آپ نے فوج کے افسروں کو لکھا تھا۔ ۳۔ حصہ سوم: کلمات قصار نہج البلاغہ کا آخری حصہ ۴۸۰ چھوٹے بڑے حکمت آمیز کلمات پر مشتمل ہے جن کو کلمات قصار کھا جاتا ہے، یعنی مختصر کلمات، ان کو کلمات حکمت اور قصار الحِکم بھی کھا جاتا ہے، یہ حصہ اگرچہ مختصر بیان پر مشتمل ہے لیکن ان کے مضامین بہت بلند پایہ حیثیت رکھتے ہیں جو نہج البلاغہ کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ مترجم کا تعارف مفتی جعفر حسین لاہوری ، آپ اس کتاب کے ترجمہ سے ۱۸ رجب المرجب ۱۳۷۵ھ مطابق ۱۹۵۶ء میں فارغ ہوئے یہ ترجمہ ہندوستان وپاکستان میں بہت زیادہ مشہور اور رائج ہوااور اس کے کئی اچھے ایڈیشن چھپ چکے ہیں ، لاہور میں یہ کتب خانہ مغل حویلی سے بڑے ایڈیشن میں اس طرح شایع ہوا کہ ایک صفحہ میں ایک طرف عربی متن اور دوسری طرف اردو ترجمہ ہے اور دوسرا ایڈیشن ”امامیہ پبلیکشنز“ پاکستان سے ۱۹۸۵ء میں چھپا اور اس کے شروع میں علامہ سید علی نقی نقوی نے ادباء کے نظریات کے متعلق ایک مفصل مقالہ لکھا جس میں انہوں نے ان کے اقوال وکلمات بھی ذکر کئے ہیں ۱۱۔ یہ تمام تراجم اس وقت موجود نہیں ہیں اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ان میں سے کسی میں اغلاط بہت زیادہ تھے اور کسی میں عبارت آرائی نے ترجمہ کے حدود کو باقی نہیں رکھا ، نیز حواشی میں کبھی خالص مناظرانہ انداز کی بہتات ہوگئی اور کبھی اختصار کی شدت نے ضروری مطالب نظر انداز کردئے، جناب مولانا مفتی جعفر حسین صاحب جو ہندوستان وپاکستان میں کسی تعارف کے محتاج نہیں اور اپنے علمی کمالات کے ساتھ بلندی سیرت اور سادگی معاشرت میں جن کی ذات ہندوستان وپاکستان میں ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی ، ان کی یہ کوشش نہایت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے مکمل ترجمہ اور شارحانہ حواشی کے تحریر کا بیڑا اٹھایا اور کافی محنت وعرق ریزی سے اس کام کی تکمیل فرمائی۔ بغیر کسی وشک وشبہ کے یہ کہا جاسکتاہے کہ اب تک ہماری زبان میں جتنے ترجمہ اس کتاب کے اور حواشی شائع ہوئے ہیں، ان سب میں اس ترجمہ کا مرتبہ اپنی صحت اور سلامت اور حسن اسلوب میں یقینا بلند ہے اور حواشی میں بھی ضروری مطالب کے بیان میں کمی نہیں کی گئی اور زوائد کے درج کرنے سے احتراز کیاہے ، بلاشبہ نہج البلاغہ کے ضروری مندرجات اور اہم نکات پر مطلع کرنے کے لئے اس تالیف نے ایک اہم ضرورت کوپورا کیا ہے جس پر مصنف ممدوح قابل مبارکباد ہیں۔ مترجم کا تعارف اقتباس از مقدمہ علامہ علی نقی نقوی