Drawer trigger

المیزان فی تفسیرالقرآن ج۲

المیزان فی تفسیرالقرآن ج۲

المیزان فی تفسیرالقرآن ج۲

اشاعت کا سال :

2002

مقام اشاعت :

لاہور پاکستان

جلدوں کی تعداد :

3

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

المیزان فی تفسیرالقرآن ج۲

قرآن مجید،خداوند عالم کاوہ عظیم ومقدس کلام ہے جسے اس نے اپنے سب سے بڑے اورآخری نبی سیدالانبیاء حضرت محمدمصطفےٰ (ص) کے قلب مبارک پرجبرئیل امین کے ذریعے نازل فرمایا۔قرآن مجید اپنے لفظوں میں معانی کی ایک کائنات سمیٹے ہوئے ہے اورحضرت علی (ع) کے ارشادگرامی کے مطابق اس کے ہرظاہرکے سترباطن ہیں،اس مقدس کلام کاہرحرف سرچشمۂ ہدایت ہے،اس کے الفاظ سے معانی کے کشف کرنے کاعمل کہ جسے تفسیرکہاجاتاہے،نزول قرآن ہی کے زمانے سے شروع ہوچکاتھااورحضرت پیغمبر اسلام(ص) نے آیات کے معانی پرپڑے ہوئے حجابوں کوالٹ کراپنی امت کوحقائق کی تصویر دکھانے کا عمل خود انجام دیاکہ جس سے اصول تفسیرسے آگاہی ہوگئی،انہیں اصولوں کی بنیادپرآئمہ اہل بیت (ع) نے سلسلۂ تفسیرجاری رکھااورآیات کے معانی کی وضاحت فرمائی،حضرت رسول خدانے یہ کام بوسیلۂ وحی انجام دیااورکشف کے بجائے بیان و وضاحت کے ذریعے معانی ومفاہیم اورحقائق کوآشکارفرمایا،اسی طرح آئمہ معصومین علیہم السلام نے علم امامت کے ذریعے قرآنی آیات کی تفسیروتشریح کی،جلیل القدر صحابہ کرامؓ  نے تفسیرکی بابت اپنی کاوشیں بروئے کارلائیں،یہ سلسلہ علماء کرام اورامت کے دانشوروں کے ذریعے جاری ہوگیااوراس میں وسعت پیداہوئی چناچہ ترتیبی تفسیرکے ساتھ ساتھ موضوعی تفسیرکا باب بھی کھل گیااورا س میں بھی اہل علم ودانش نے کلام الٰہی سے ہدایت وسعادت کے جواہرتک رسائی کی ہمہ جہت کوششیں کیں، ہرعالم ومحقق نے اپنے علمی ذوق کے مطابق احادیث مبارکہ وارشادات نبویہ کی مدد سے تفسیرکاعمل انجام دیا،اس اثناء میں تفسیرالقرآن بالقرآن کی وہ روش جس کی بنیاد حضرت پیغمبر(ص) نے خود رکھی اورآئمہ اہل بیت(ع) نے اسے اپنایااس کے تسلسل میں جن اکابرین نے اپنی فکری وعملی توانائیوں کا عملی مظاہر پیش کیا ان میں ایک نام المیزان فی تفسیرالقرآن کے مؤلف کاہے کہ جنہوں نے تفسیرالقرآن بالقرآن کی بنیادپر منفرداندازمیں قرآن فہمی کی کوشش میں کرداراداکیا۔

المیزان فی تفسیر القرآن، تفسیر المیزان کے نام سے معروف، چودہویں صدی ہجری میں شیعوں کی جامع ترین و مفصل ترین تفسیر قرآن، عربی زبان میں تالیف کی گئی ہے۔ اس کے مولف علامہ سید محمد حسین طباطبائی (1281۔1360 ھ) ہیں۔

یہ تفسیر ترتیبی اور روش کے لحاظ قرآن کی تفسیر قرآن کے ساتھ تفسیر ہے۔ علمی مطالب، دقت اور عمق کی وجہ سے شیعہ و سنی علما کے درمیان مخصوص اہمیت کی حامل تفسیر ہے۔ قرآن کی تحقیق اور قرآن فہمی میں اسے معتبر منبع مانا جاتا ہے۔ بہت ہی مختصر مدت میں اس تفسیر کے متعلق دسیوں کتابیں، سینکڑوں مقالے، ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری کیلئے تھیسس کافی تعداد میں لکھے جا چکے ہیں۔

اعجاز قرآن، قصص انبیا، روح و نفس، استجابت دعا، توحید، توبہ، رزق، برکت، جہاد اور احباط جیسے عمیق عناوین کی تحقیق اس کے اہم ترین موضوعات میں سے ہیں کہ جن کی تحقیق کرتے ہوئے ان سے متعلق آیات کے ذریعے مطالب بیان کئے گئے ہیں۔

تفسیر المیزان فارسی، انگلش، اردو، ترکی اور اسپینش زبانوں میں ترجمہ اور شائع ہو چکی ہے۔ اس کے اردو مترجم شیخ حسن رضا غدیری ہیں۔

سید محمد حسین طباطبائی اپنے زمانے کے بہت بڑے فلسفی مانے جاتے تھے۔ آپ کی ولادت 29 ذی القعدہ 1321 ھ کو تبریز کے نواحی گاؤں شادگان میں ہوئی۔ 1304 میں دینی تعلیم کے مراحل کیلئے نجف اشرف گئے۔ وہاں محمد حسین غروی اصفہانی، محمد حسین نائینی، حجت کوه کمره ای، حسین بادکوبہ، ابو القاسم خوانساری اور سید علی قاضی جیسے علما سے علم حاصل کیا۔ مقام اجتہاد حاصل کرنے کے بعد 1314 شمسی کو تبریز واپس لوٹ آئے۔ 1325 شمسی سے قم اقامت اختیار کی۔

علامہ طباطبائی قم میں قیام سے وفات تک حوزہ علمیہ قم میں المیزان فی تفسیر القرآن کی تالیف کے ساتھ ساتھ فلسفے اور تفسیر کی تدریس میں ممشغول رہے اور آخرکار 20 سال کی زحمت کے بعد انہوں نے اس تفسیر کو 23 ویں شب قدر سنہ 1392 ھ بمطابق 30 اکتوبر 1972 ء میں مکمل کیا۔ 15 نومبر 1981 ء میں اس جہان کو الوداع کہا۔ آپ کو حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا  میں مسجد بالا سر کے پاس دفن کیا گیا۔ اصول فلسفہ و روش رئالیسم، بدایۃ الحکمۃ، نہایۃ الحکمۃ و شیعہ در اسلام آپ کی علمی کاوشیں ہیں۔

بنیادی طور پر تفسیر میزان قرآن کے ساتھ قرآن کی تفسیر کے اصول پر لکھی گئی ہے۔ اس کا مطلب  یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر کا پہلا معیار خود قرآن ہے۔ علامہ طباطبائی یقین رکھتے ہیں کہ جب خود قرآن تبیاناً لِکُلّ شیء(ہر چیز کا بیان گر) کے ساتھ اپنی تعریف کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنا معنی بیان کرنے میں کسی دوسرے کا محتاج ہو۔یہ صحیح ہے کہ قرآن کا ظاھر اور باطن ہے اور ہم قرآن کی تاویل اور باطنی معنا کے سمجھنے میں قرآن کے شارحین اور حقیقی مفسرین پیغمبر(ص) اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے بیان کے محتاج ہیں لیکن بنیادی طور پر ہم قرآن فہمی میں کسی دوسری چیز کے محتاج نہیں ہیں۔ جہاں محکم آیات مشکل اور متشابہ آیات کی تفسیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں وہاں اسباب نزول، مفسرین کی آراء اور احادیث دوسرے درجے میں قرار پائیں گی۔

تفسیر قرآن کی یہ روش کوئی نئی اختراع نہیں تھی بلکہ بعض کے بقول یہ پہلے سے موجود تھی۔ اس تفسیر میں اس روش پر بہت زیادہ اعتماد کیا گیا ہے اسی وجہ سے یہ تفسیر قرآن بالقرآن کے ساتھ مشہور ہو گئی ہے اور تفسیر میزان کی ہر آیت کی تفسیر میں یہی روش رہی ہے جبکہ دیگر تفاسیر میں اس روش سے کم استفادہ کیا گیا ہے۔

مصنف ابتدا میں ایک سیاق سے مربوط چند آیات کا مجموعہ ذکر کرتے ہیں پھر لغت اور دوسری آیات میں اس لغت کے استعمال کے ذریعے آیات کے مفرد الفاظ کے معانی بیان کرتے ہیں اور لغوی اور اشتقاقی ابحاث بیان کرتے ہیں۔پھر بیان آیات کے عنوان کے تحت ہر آیت کی جدا جدا تفسیر اور مفہوم بیان کرتے ہیں۔ ضروری مقامات پر سنی اور شیعہ دوسرے مفسرین کے آرا پر نقد و نظر بیان کیا جاتا ہے۔ آخر میں بحث روائی کے عنوان کے تحت سنی اور شیعہ تفاسیر میں ان آیات سے مربوط احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔

اسی طرح تفسیر کے دوران موضوع کی مناسبت سے فلسفی، اجتماعی، تاریخی یا علمی انداز میں تحلیلی اور توصیفی ابحاث ذکر کی جاتی ہیں کہ جو حقیقت میں آیات کی بیشتر توضیح کی ایک کوشش ہوتی ہے۔

علامہ طباطبائی کے مختلف علوم پر تسلط کی وجہ سے ایک جامع تفسیر ہے اور اس میں دین کی مختلف ابحاث کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔علامہ کی قرآن پر حیرت انگیز گرفت اولائلر دقت نظر کی وجہ سے تفسیر میزان میں کئی دفعہ اور متعدد مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک سیاق سے متعلق آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ قرار دینے کے ذریعے دلائل عقلی اور قرآنی د کے استشہاد کی مدد سے مفاہیم اور مصادیق کو بیان کرتے ہیں۔ علمی اعتبار سے حق و انصاف یہ ہے کہ تفسیر میزان مضبوط روش اور دقت مضامین کی وجہ سے اور جہان اسلام کے اہل سنت اور شیعہ کی جانب سے بہت زیادہ مورد توجہ ہے۔

یہ تفسیر ہر لحاظ سے اہم ترین خصوصیات کی حامل ہے مثلا: گذشتہ تفسیروں میں عام طور پر ایسا ہوتا تھا کہ جب کسی آیت میں مختلف احتمالات ہوتے تو مفسر صرف احتمالات کو ترجیح دیئے بغیر نقل کرتا جبکہ اس تفسیر میں ایسا نہیں ہے بلکہ ایسے موارد میں دیگر آیات و قرآئن کی مدد سے کسی ایک معنا کو ترجیح اور مقصود کو واضح کیا ہے۔ استجابت دعا، توحید، توبہ، رزق، برکت، جہاد، احباط جیسی دینی اور قرآنی اصطلاحات کو دیگر آیات کی مدد سے واضح اور توضیح دی گئی ہے۔ تفسیر میزان سے پہلے ایک موضوع سے متعلق آیات کو ایک جگہ ذکر کرکے ان سے ایک نتیجہ حاصل کرنے کی روش نہیں تھی لیکن علامہ بہت سے مقامات پر اس روش کو بروئے کار لائے ہیں۔ مثلا احباط سے متعلق تمام آیات کو ایک جگہ ذکر کر کے اس سے بیان کیا کہ قرآن کی اس سے مراد کیا ہے۔ قصص انبیا سے آگاہی کیلئے علامہ کا کام ایک بہترین مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ مقائسہ کیا اور ان میں تحریف شدہ مقامات کے وضاحت کی ہے۔ تفسیر میزان کی واضح خصوصیات میں سے ایک جانب شبہات کی طرف توجہ، مخالفین کے اعتراضات اور ان کی تحقیق ہے تو دوسری جانب علمی،فلسفی اور کلامی ابحاث کا لحاظ کرتے ہوئے مختلف ادوار کے ساتھ دین کی تطبیق کی کوشش ہے۔

پیش نظر اس دوسری جلد کے کچھ موضوعات:نزول قرآن: کب ، کیوں اور کیونکر، دعا: حقیقت، اہمیت اور آثار، اصول معاشرت اور اجتماعی زندگی کی بنیادیں، جہاد اور اس کا قرآنی مفہوم، معاشرے میں دفاع کی ضرورت  و کیفیت، حج تمتّع اور اس کی تشریعی صورت۔

پیش نظر یہ دوسری جلد سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۸۳ سے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۶تک کی تفسیر پر مشتمل ہے۔