سید ریحان عباس

سید ریحان عباس
ڈاکٹر ریحان اعظمی – مختصر سوانحی خاکہ نام: سید ریحان عباس رضوی (ادبی نام: ریحان اعظمی) تاریخ پیدائش: 7 جولائی 1958ء جائے پیدائش: لیاقت آباد، کراچی والد کا نام: سید اقبال حسن رضوی تعلیم: ابتدائی تعلیم: گورنمنٹ اسکول، لیاقت آباد ثانوی تعلیم: سراج الدولہ کالج اعلیٰ تعلیم: جامعہ کراچی سے اُردو ادب میں پی ایچ ڈی ادبی آغاز: 1974ء میں شاعری کا آغاز 13 سال کی عمر میں پہلا مرثیہ تحریر کیا استادِ فن: امید فاضلی اور سبط حسن انجم پیشہ ورانہ سفر: حریت اخبار سے صحافت کا آغاز پاکستان ٹیلی ویژن سے بحیثیت نغمہ نگار وابستہ 4000 سے زائد نغمے، 50000 سے زائد نوحے، 10000 سے زائد منقبتیں تحریر کیں کئی ادبی کتب شائع ہوئیں، جن میں نوائے منبر، ایک آنسو میں کربلا، آیاتِ منقبت نمایاں ہیں مشہور نوحہ خواں: ندیم رضا سرور کے ساتھ طویل اور مقبول ادبی اشتراک ان کے کلام کو میر حسن میر، افتخار زیدی، حسن صادق وغیرہ نے بھی پڑھا اعزازات: 1997ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کے ساتویں تیز ترین شاعر قرار پائے عالمی سطح پر شاعری کے ذریعے شہرت حاصل کی (بھارت، برطانیہ، ایران، عراق، چین، کوریا وغیرہ کے دورے) شخصیت: سادہ طبع، خوش اخلاق، نوجوانوں کے لیے شفقت آمیز رویہ ہر وقت ادب کے فروغ کے لیے کوشاں کبھی کسی کلام کا ہدیہ نہیں لیا وفات: 26 جنوری 2021ء، کراچی پسماندگان: دو بیٹے (ارسلان اعظمی، سلمان اعظمی مرحوم) یادگار پہلو: اردو نوحہ، سلام، مرثیہ کو نئی جہت عطا کی اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہنے والا نام سید ریحان عباس 7 جولائی 1958ء کو کراچی میں سیّد اقبال حسن رضوی کے گھر پیدا ہوئے۔ والدین نے سیّد ریحان عبّاس رضوی نام رکھا۔ کراچی کے علاقے، لیاقت آباد کی گلیوں میں جوان ہوئے، جہاں اُس زمانے میں اہلِ علم کی کثیر تعداد آباد تھی۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول، لیاقت آباد سے حاصل کی، جب کہ ثانوی تعلیم کے لیے سراج الدّولہ کالج کا رُخ کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا اور اُردو ادب میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔اپنے کیرئیر کا آغاز حریّت اخبار سے کیا۔ 1974 ء میں شاعری کا آغاز کیا، تو اُس وقت کے معروف شاعر، امید فاضلی کی شاگردی نصیب ہوئی۔اس سے قبل13 برس کی عُمر کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ریحان اعظمی نے نوحہ گوئی شروع کی اور سب سے پہلے ایک مرثیہ لکھ کر اپنے والد کو دِکھایا۔ اُنہوں نے کہا’’ اس کی اصلاح سبط حسن انجم سے کراؤ‘‘، جو اُس زمانے میں اردو مرثیہ تحت اللفظ کی ایک نایاب آواز اور شاعر بھی تھے۔ جب اُنھوں نے ریحان عبّاس کا مرثیہ پڑھا، تو دو، تین بار معنی خیز نظروں سے اُنھیں دیکھا اور کہا’’ اب تم گھر جاؤ، مَیں شام کو ملنے آؤں گا۔‘‘ شام کو جب گھر آئے، تو اقبال حسن رضوی سے کہا کہ’’ تمھاری طبیعت اور صحبت کا ثمر تمھیں ملنے والا ہے۔ مستقبل میں خُوب صُورت اندازِ فکر رکھنے والا شاعر صاحبانِ ادب کو میّسر ہوگا۔‘‘اور ایسا ہی ہوا۔ نہ صرف شاعری، بلکہ ڈاکٹر ریحان اعظمی کی نغمہ نگاری بھی بلندیوں کو چُھونے لگی۔ وہ طویل عرصہ پاکستان ٹیلی ویژن سے بحیثیت نغمہ نگار وابستہ رہے۔ اس دَوران4 ہزار سے زاید نغمات سپردِ قلم کیے، جن میں’’ ہوا ہوا، اے ہوا‘‘ اور ’’خوش بُو بن کر مہک رہا ہے، سارا پاکستان‘‘ جیسے نغمے شامل ہیں۔ ’’ہوا ہوا، اے ہوا‘‘ کو معروف گلوکار حسن جہانگیر نے گایا، جو بے حد مقبول ہوا۔ ریحان اعظمی پاکستان ہاکی ٹیم کے بہت اچھے کھلاڑی بھی رہے، تاہم کچھ عرصے بعد اُن کے اندر ایک ایسی تبدیلی آئی، جس نے اُن کی زندگی ہی بدل ڈالی۔شہرت کی بلندی پر رومانی شاعری کو خیر باد کہا اور حمد و سلام، نعت، نوحہ، منقبت اور مرثیے سے تعلق قائم کر لیا اور پھر باقی زندگی ان ہی کے لیے وقف کر دی۔ ریحان عبّاس کی شہرت کا ستارہ اُس وقت چمکا، جب مشہور نوحہ خواں، ندیم رضا سرور سے اُن کی جوڑی بنی اور دنیا اس نوجوان کو ڈاکٹر ریحان اعظمی کے نام سے جاننے لگی۔ اُنہوں نے ندیم سرور کے لیے دو نوحے لکھے ، جو مقبولِ عام ہوئے۔ریحان اعظمی اپنی کتاب’’ ایک آنسو میں کربلا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ندیم سرور 1986ء میں میرے پاس آئے اور مَیں نے دو نوحے لکھ دیے۔ اُس کے بعد سرور نے مکمل طور پر مجھ پر اکتفا کرلیا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی میری وجہ سے سرور اور سرور کی وجہ سے مَیں، دنیا میں جہاں بھی اردو نوحہ سُنا جاتا ہے، جانے پہچانے جاتے ہیں۔‘‘ خود ندیم سرور کا کہنا ہے کہ’’ لوگ مجھ سے ریحان کے علاوہ کسی دوسرے کا کلام سُننا ہی نہیں چاہتے۔ میری آواز اور ریحان کا کلام ایک جسم، دو قالب کی حیثیت اختیار کر چُکے ہیں۔ مَیں خود بھی شاید کسی دوسرے کا کلام پڑھ کر مطمئن نہیں ہوں۔‘‘ ہر سال محرّم میں نوحہ خوانوں کی خواہش ہوتی کہ ریحان اعظمی اُنہیں اپنا کلام دیں تاکہ اُنہیں عوامی پذیرائی حاصل ہو۔ریحان اعظمی نے پچاس ہزار سے زاید نوحے تحریر کیے، جب کہ دس ہزار سے زاید منقبتیں بھی لکھیں۔رثائی ادب میں اُن کی 25سے زاید کتب شایع ہوچُکی ہیں، جن میں’’ نوائے منبر‘‘،’’ غم‘‘، ’’آیاتِ منقبت‘‘، ’’ایک آنسو میں کربلا‘‘ اور’’ریحانِ کربلا‘‘ شامل ہیں۔ ان کی کتب کے ہندی، گجراتی، سنسکرت، تامل اور رومن زبان میں بھی ترجمے ہوچُکے ہیں۔ ریحان اعظمی کو 1997 ء میں گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں ساتویں تیز ترین شاعری کرنے والے شاعر کا اعزاز ملا۔ اُنہوں نے بحثیت شاعر بھارت، برطانیہ، کوریا، چین، ایران، عراق، شام اور دیگر ممالک کا دَورہ بھی کیا۔ یہ بھی ایک قابلِ تقلید حقیقت ہے کہ اُنہوں نے کبھی کسی کلام کا ہدیہ نہیں لیا۔ ایک انٹرویو میں جب اُن سے سوال کیا گیا کہ’’ آپ کا کلام پڑھ کر لوگوں نے دولت کے انبار اور پذیرائی کے ریکارڈ توڑ ڈالے، آپ کو کبھی کسی نے کچھ دیا؟‘‘ تو اُنہوں نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ’’ کوئی بھی نوحہ خواں بتائے کہ اُس نے کبھی کسی کلام کے لیے ریحان اعظمی کو ایک پائی بھی دی ہو۔‘‘ ریحان اعظمی نے عالمی اور قومی سطح پر کئی تمغے اپنے نام کیے، تاہم ایک انٹرویو میں اُنھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ’’ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اُنھیں صدارتی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا، وزیرِ اعلیٰ ہاؤس سے مبارک باد کے پیغامات بھی موصول ہوئے، مگر صبح جب اخبار میں پڑھا، تو ایوارڈ کسی اور کو دے دیا گیا تھا۔‘‘۔جب کراچی میں ٹارگٹ کلنگ زوروں پر تھی، تو اُنھوں نے شہر کی حالتِ زار اور قتل و غارت پر بھی اشعار کہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں؎ ’’اب تو بس ایک کام شہر میں ہے…طے شدہ قتل ِعام شہر میں ہے…بہہ رہا ہے گلی گلی میں لہو…بے خطا انتقام شہر میں ہے…اُٹھ رہے ہیں گلی گلی تابوت…بس یہی صبح و شام شہر میں ہے…پانی منہگا ہے، خون سستا ہے…پھر بھی زندہ عوام شہر میں ہے۔‘‘ اِس بلند مرتبہ شاعر نے کئی برسوں تک مسلسل اپنے قلم کی طاقت، نظریات و احساسات، حُبِ اہلِ بیتؓ، کربلا سے تمسّک، حضرت امام حسینؓ اور اُن کے جاں نثار ساتھیوں سے والہانہ عشق کا مظاہرہ اپنے کلام کی صُورت کیا۔ریحان اعظمی کے کئی شہرہ آفاق نوحے میر حسن میر، حسن صادق رضا زیدی، افتخار زیدی اور دیگر نوحہ خوانوں نے بھی پڑھے۔ لوگ اُن سے قبروں کے کتبوں کے لیے بھی اشعار لکھواتے، جو وہ کسی فیس کے بغیر خندہ پیشانی سے لکھ دیا کرتے۔ کئی بار سخت علیل ہو کر اسپتال میں داخل رہے، یہاں تک کہ اُن کی موت کی خبریں تک نشر ہوگئیں، مگر موت کا دن 26 جنوری 2021ء ہی معیّن تھا۔ اُنھیں طبیعت خراب ہونے پر کراچی کے ایک نجی اسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اُنھوں نے دو بیٹوں کو سوگوار چھوڑا۔ چھوٹے بیٹے، ارسلان اعظمی بھی معروف شاعر ہیں۔ ریحان اعظمی کو جہاں دیگر بہت سے صدمات سہنے پڑے اور زندگی میں کافی اونچ نیچ دیکھی، وہاں اُن کے لیے جواں سال فرزند، سلمان اعظمی کی موت کا صدمہ بھی بہت ہی بھاری تھا۔ ایک باپ کے لیے اِس سے بڑھ کر کیا صدمہ ہوسکتا ہے کہ اُس کا جواں سال فرزند اُس کے ہاتھوں میں جان دے دے۔ اُنہوں نے جواں سال بیٹے کی جدائی کا غم سہا اور اس غم پر اہلِ بیتؓ کی خوشی کو مقدّم رکھ کر پُرسہ دینے والوں سے التجا کی کہ’’ آج اہلِ بیتؓ کی خوشی کی تاریخ ہے، آج جشن کی محفل ہوگی، بیٹے کا پُرسہ ہمیں بعد میں دیجیے گا۔‘‘ ریحان اعظمی نے نوحے اور مرثیے میں نئے اسلوب متعارف کروائے۔ نئی نسل کے شعراء کے لیے سوچ کے نئے زاویے متعیّن کیے۔ بلاشبہ، اُردو اد ب میں اُنھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں تو ریحان اعظمی صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر بات کی جاسکتی ہے لیکن اس تحریر میں ہم ان نکات کو پیش کررہے ہیں کہ جوریحان اعظمی سے ملاقاتوں اور نشستوں کی روداد کی بنیاد پر ذاتی مشاہدات پر مشتمل ہیں۔ دنیائے ادب میں قدم رکھتے ہی سید ریحان عباس رضوی نے ریحان اعظمی کی حیثیت سے اپنی دبنگ ادبی حیثیت منوالی تھی۔ انہیں قریب سے جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ایک سادہ زیست آدمی تھے۔ زندگی گذارنے کے لیے انہیں جو آمدن درکار تھی، اس کے لیے انہیں بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ ریحان اعظمی کی شخصیت پر ایک نظر بدقسمتی سے ادب اور وہ بھی اردو ادب، یہ کوئی ایسا شعبہ نہیں کہ ادیب ہوتے ہی آپ پر ہن برسنے لگے۔ البتہ ادب میں نام کمانا پیسے کمانے کی نسبت بہت زیادہ آسان ہے۔ یوں ریحان اعظمی نے جتنا نام کمایا، اتنے پیسے نہ کماسکے۔ اردو ادب کی قد آور شخصیات کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، نہیں معلوم، لیکن یہ المیہ قابل نظر انداز نہیں۔ ریحان اعظمی صاحب کی شاعری بات ہورہی تھی ریحان اعظمی صاحب کے ذرایع آمدن کی۔ مجھ حقیر کی ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ رہا۔ 1980ع کے عشرے کے وسط سے، لڑکپن کے دور سے انکی شاعری سے مانوس تھا۔ اسی کے عشرے کے اواخر سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ریحان اعظمی انیس سو نوے کے عشرے میں: انیس سو نوے کے عشرے میں ریحان اعظمی جب شہرت کی بلندیوں پر فائز تھے تب بھی اخبارات و جرائد کے دفاتر میں نوکری کرنے پر مجبور تھے۔ کالم کلوچ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ ایک اسکول میں بھی ملازمت کرتے رہے۔ ریحان اعظمی کی شخصیت کا خاصا: یہ صرف ریحان اعظمی کی شخصیت کا خاصا تھا کہ کوئی بھی لڑکا یا نوجوان، ان سے فرمائش کرتا، درخواست کرتا کہ ریحان بھائی کوئی کلام لکھ دیں، توبلا تاخیر اسی وقت کھڑے کھڑے یہ فرمائش پوری کردیتے۔ نوجوانوں کے لیے انکا رویہ شفقت آمیز رہا؛مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرے پاس کاغذ تک نہیں تھا اور اگلے دن کہیں سلام پڑھنا تھا۔ شب بیداری کے اس وقت کہیں سے کوئی کاپی کاغذ خریدنا ممکن نہیں تھا۔ بحالت مجبوری سگریٹ کے ایک پیکٹ کے اندر کے کاغذ کو نکال کر ان سے کلام لکھوایا۔ کبھی ڈائری پیش کی تو اس پر انہوں نے کلام لکھ دیا۔ انکے ہاتھ کا لکھا وہ کلام آج بھی محفوظ ہونا چاہیے،۔ جب ہم نے یہ شعبہ اپنے دوستوں کے حوالے کیا تو وہ ڈائریاں بھی دوستوں کے حوالے کردیں کہ اب آپ استفادہ فرمائیے۔ ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے: بات یہاں تک محدود نہیں تھی۔ نوجوانوں کے لیے انکا رویہ شفقت آمیز رہا۔ حتیٰ کہ اگر ان کے پاس کوئی نوآموز لڑکا بھی اپنی لکھی تحریر لے کر سناتا تو اسکی اصلاح کرتے وقت بھی اسے کمتری کا احساس نہ ہونے دیتے۔ ریحان اعظمی کی شخصیت پر ایک نظر: ردیف و قافیہ کے ہم وزن ہونے کو جتنی آسان عملی مثال سے سمجھاتے، شاید ہی کسی استاد میں یہ صلاحیت ہو۔ وہ ایک شخصیت نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ بہت اچھے انسان۔ ملنسار!: کوئی شخص انکے لیے اجنبی نہیں تھا۔ وہ سب کے لیے انکے اپنے ریحان بھائی تھے۔ ہنس مکھ شاعر و ادیب و صحافی و معلم اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت اچھے انسان۔ ملنسار!۔ دیگر ادبی شخصیات اور ریحان اعظمی میں فرق: دیگر ادبی شخصیات اور ریحان اعظمی میں جو سب سے بڑا فرق ہے وہ یہ کہ وہ عوام کے لیے ہمہ وقت خندہ پیشانی کے ساتھ گھلنے ملنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کیا کرتے تھے۔ قدرت نے انہیں اتنی شہرت اسی لیے عطا کی کہ ریحان اعظمی میں مشہور بڑی شخصیات والی رعونت کا شائبہ تک نہ تھا۔ نوحہ و سلام و مرثیہ کو حیات نو بخشنے والا: اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو ادب میں نوحہ و سلام و مرثیہ کو حیات نو بخشنے میں ڈاکٹر ریحان اعظمی نے جو کردار ادا کیا ہے، ماضی میں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ اردو نوحہ کی دنیا میں پہچان ہے تو اس میں ایک بہت بڑا حصہ ریحان اعظمی کا ہے۔ مانا کہ اعظم گڑھ کے کیفی اعظمی اردو ادب میں بہت بڑا نام ہیں لیکن یہ کیفی صاحب کے مداحوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا میں جو شہرت ریحان اعظمی کے حصے میں آئی، وہ کیفی اعظمی صاحب سمیت کسی کو بھی نہ ملی۔ عالمی سطح کی شہرت: جس نے انکی شاعری پر تکیہ کیا اس کو بھی اللہ نے عالمی سطح کی شہرت عطاکی۔ خواہ وہ نوحہ خواں سید ندیم رضا سرور ہوں یا سید ناصر حسین زیدی۔ حتیٰ کہ صرف نوحہ و مرثیہ و سلام ہی نہیں۔ بلکہ انکی غزلوں کو نغموں کی صورت میں گانے والے گلوکار حسن جہانگیر کی شہرت کاسبب بھی ریحان اعظمی کی شاعری ہے۔ ریحان اعظمی کی رحلت نے سوگ میں مبتلا کردیا،یقینا سید ریحان عباس رضوی عرف ڈاکٹر ریحان اعظمی کی رحلت نے مجھ سمیت انکے مداحوں کو سوگ میں مبتلا کردیا ہے۔ لیکن یہ اللہ کا حتمی و اٹل قانون ہے: کل نفس ذائقۃ الموت۔ انا للہ و اناالیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ کے معصوم اولیاء سے عقیدت و محبت ریحان اعظمی کے لیے ایک ایسا سرمایہ ہے کہ جو اب انہیں دارالبقاء میں بہت کام آئے گا۔ریحان صاحب کی جاں سوز رحلت نے اردو ادب کے شعبہ نوحہ و مرثیہ و سلام میں جو خلا چھوڑا ہے، اسے پر کرنے کے لیے ریحان بھائی جیسے ہنس مکھ آدمی کی ضرورت ہے۔