شیخ ابو محمد حسن بن علی حرانی

شیخ ابو محمد حسن بن علی حرانی
حسن بن علی بن حسین بن شُعبَہ حَرّانی، ابن شعبہ حرانی کے نام سے معروف، قدیم ترین شیعہ محدث اور کتاب تُحَف ُالعقول کے مؤلف ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے حسین بن علی بن صادق بحرانی کی کتاب رسالہ اخلاق سے نقل کیا ہے کہ ابن شعبہ ان علماء میں سے تھے جن سے شیخ مفید جیسے عالم نے روایات نقل کی ہیں اور یہ شیخ صدوق کے معاصرین میں سے تھے۔ جبکہ رجالی مآخذ و منابع میں ملتا ہے کہ شیخ مفید نے ابن شعبہ حرانی نامی کسی بھی راوی سے کوئی حدیث نقل نہیں کی ہے۔
حسن بن علی بن حسین بن شُعبَہ حَرّانی، ابن شعبہ حرانی کے نام سے مشہور تھے اور ان کی نسبت حلب کے مشہور خاندان شُعبہ سے تھی۔ان کی تاریخ پیدائش اور وفات کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے نیز شیعہ رجال کی قدیم کتب میں بھی کوئی دقیق اطلاع نہیں ملتی ہے۔ابن شعبہ حرانی کی علمی و دینی شخصیت کے بارے میں سب سے پہلے دسویں صدی ہجری کے مشہور عالم ابراہیم بن سلیمان قطیفی کے اقوال پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ شہید ثالث قاضی سید نور اللہ شوشتری کے بقول، قطیفی نے اپنی کتاب الوافیہ میں جناب حرّانی کو ’’شیخِ، عالم، فاضل، عاملِ اور فقیہ‘‘ جیسے عنوان سے یاد کیا ہے۔ اور حسین بن علی بن صادق بحرانی کے اس رسالہ کے مطابق جو انھوں نے اخلاق اور سیر و سلوک کے موضوع پر لکھا تھا، ابن شعبہ کو قدیم امامیہ علماء میں شمار کیا ہے اور شیخ مفید نے ان کی کتاب تحف العقول کے کچھ مطالب نقل کئے ہیں۔ لہذا ابن شعبہ حرانی کے سلسلہ میں بعد کے علماء نے جو کچھ نقل کیا ہے انھیں دو بزرگوں یعنی ابن صادق بحرانی اور قطیفی سے نقل کیا ہے۔ آقا بزرگ تہرانی نے بحرانی کے رقم کردہ مطالب سے یہ استفادہ کیا ہے کہ شیخ مفید نے بھی ان سے روایت نقل کی ہے اور نیز یہ بھی رقم کیا ہے کہ یہ شیخ صدوق کے ہم عصر تھے۔جبکہ اگر التمحیص نامی کتاب کے مقدمہ پر اعتماد کیا جائے تو اس میں مرقوم ہے کہ شیخ مفید نے کسی بھی حرانی نام کے شخص سے مطلق کوئی حدیث نقل نہیں کی ہے۔
ابن شعبہ حرانی کی سب سے اہم کتاب تحف العقول فیما جاء من الحِکم و المواعظ من آل الرسول ہے جبکہ کچھ علماء کتاب التمحیص کو بھی انھیں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
کتاب تحف العقول ہی ابن شعبہ حرانی کی ہمہ گیر شہرت کا سبب قرار پائی۔ یہ کتاب مختلف و متعدد قسم کی حدیثوں پر مشتمل ہے چنانچہ اس میں کچھ حدیثیں اصول، کچھ فروع دین، اور کچھ میں آداب و اخلاق کا تذکرہ ہے اور جبکہ کچھ میں آئمہ معصومین علیہم السلام کے حکیمانہ اقوال و مواعظ مرقوم ہیں۔ اس گرانقدر کتاب میں امام مہدی علیہ السلام کے علاوہ، پیغمبر اکرمؐ اور تقریباً جملہ آئمہ معصومین علیہم السلام کے منتخب اقوال جمع کئے گئے ہیں اور کتاب کے خاتمہ میں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ خداوند عالم کی گفتگو، نیز انجیل میں مذکور حضرت عیسی مسیح کی اپنی امت کو نصیحتیں، اور آخر میں وہ نصیحتیں مرقوم ہیں جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی مفضّل بن عمر نے شیعوں اور اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کے لئے بیان فرمائی تھیں۔
کتاب تحف العقول ان آخری چند صدیوں میں مسلسل شیعہ علماء کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور حدیثی و فقہی کتابوں میں مسلسل اس سے نقل روایات کی گئیں ہیں۔ البتہ آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی ابن شعبہ حرانی کے فضل و شرف و ورع کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ، تحف العقول کی احادیث کے مُرسل ہونے کی بنیاد پر احکام شرعی کے استنباط کرنے کے سلسلہ میں ان روایات کی طرف استناد کرنے کو جائز نہیں جانتے ہیں۔
التمحیص، ایک ایسی کتاب ہے جس میں اللہ کی طرف سے مؤمنین کی آزمائش اور امتحان کے اسباب اور طریقوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ صبر، زہد اور رضائے خدا کے بارے میں روایات کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ اس کتاب (التمحیص) کے اصلی مؤلف کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کچھ لوگ اسے ابن شعبہ حرانی کی تألیف شمار کرتے ہیں تو کچھ لوگ ابن ہمام اسکافی کو اس کا مؤلف بتلاتے ہیں چنانچہ قطیفی کے مطابق حرّ عاملی اور مرحوم افندی اصفہانی اسے حرانی کی تألیف شمار کرتے ہیں۔ جبکہ ان نے مقابل، علامہ مجلسی اور محدث نوری اس کتاب کو حرانی یا ابن ہمام میں کسی ایک کی طرف منسوب کرنے میں شک و تردید کے شکار ہیں اور کسی مطمئن نتیجہ تک نہیں پہونچ سکے ۔
موحدی ابطحی نے اسی کتاب (التمحیص) کے مقدمہ میں ان افراد کے قول پر تبصرہ کیا ہے کہ جو اس کو حرانی یا ابن ہمام کی طرف منسوب کرنے میں شک و تریدید میں مبتلا ہیں اور اس نتیجہ تک پہونچتے ہیں کہ یہ کتاب در حقیقت محمد بن ہمام کی ہے لیکن اس امر میں شک ہے کہ کسی دوسرے نے ان سے اس کتاب کو نقل کیا ہے یا نہیں اور اس صورت میں اس کتاب کی روایتں با واسطہ تو ابن ہمام کی ہیں لیکن اس کی تألیف کا امتیاز ابن شعبہ حرانی کے حصہ میں جاتا ہے یا یہ کتاب حرانی نے ابن ہمام سے املا کرکے لکھی ہے تو پھر اس کتاب کی نسبت ابن ہمام کی طرف دینا ٹھیک ہوگی اور اس دوسری قسم کے ہمارے پاس بہت سے نمونے موجود ہیں جیسا کہ امالی شیخ مفید، امالی سید مرتضی اور امالی شیخ طوسی وغیرہ۔