غلام معین الدین نعیمی

غلام معین الدین نعیمی
آج کا دور مصرفیتوں کا دور ہے ہماری معاشرت کا انداز بڑی حد تک مشینی ہو گیا ہے زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں سے دلوں کی آبادیاں ویران ہو رہی ہیں فکرونظر کا ذوق اور سوچ کا انداز بدل جانے سے ہمارے ہاں ہیرو شپ کا معیار بھی بہت پست سطح پر آگیا ہے آج کھلاڑی‘ ٹی وی اور بڑی سکرین کے فن کار ہماری نسلوں کے آئیڈیل اور ہیرو قرار پائے ہیں جس کی وجہ سے ماضی و حال کے وہ عظیم سپوت اور روشنی کی وہ برتر قندیلیں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی ہیں لہذا انھیں جاننا اور دوسروں تک ان کے کارناموں کو پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اپنے اسلاف اور خصوصاً اہل علم اسلاف کو یادرکھنا بعد میں آنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور رہنمائی کا ذریعہ بھی اسی لیے ان کی یاد کو تازہ اور ان کی زندگی سے خود کے لیے چراغ راہ بنانا بہت ضروری ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم ان کی حیات کے نشیب و فراز اور ان کی کاوشوں سے آگاہ رہیں۔ بلاشبہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ رب ذوالجلال نے اسے دوسری مخلوقات پر یہ فوقیت علم کی بنا پر عطا کی ہے۔ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا اور زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ اُس کے خاص بندے اسی قلم اور کائنات کے مشاہدے کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کرتے اور اسے آگے بڑھاتے ہیں۔ اللہ کے ایسے ہی خاص بندوں میں سے ایک نام مولانا موصوف کا ہے جنہوں نے علم کے سمندر میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اسی علم کے بحرِ بے کراں بن کر اس کے دامن کو وسیع اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔ اس دنیائے فانی میں بسنے والے ہر انسان کا لمحہ بتدریج اس کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔ زمانہ اسے مبلغ، محدث، مؤرخ، محقق، مقرر، مصلح، مربی و محسن کے خطابات عطا کرتا ہے۔ ایسے شخص کی زندگی سراپا علم و عمل، سراپا جہاد اور عالم انسانیت کے لیے سرچشمہ ہوتی ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے تو محترم و مکرم ہو کر زندگی کے لمحات گزارتا ہےاور اس عالمِ فنا سے منہ موڑتا ہے تو اپنے پیچھے نہ بھلائے جا سکنے والے کارناموں کی ایک تاریخ رقم کر جاتا ہے۔ ایک پورا زمانہ، ایک پورا عہد اس کی شخصیت سے منسوب ہو جاتا ہے۔ مستقبل کے محرر و مؤرخ اسے اوراقِ تاریخ میں یاد گار زمانہ قرار دیتے ہیں۔ آپ کے بارے میں معلومات اپڈیٹ کی جائیں گی۔