Drawer trigger

حضرت علی ابن ابیطالب علیہ اسلام مختلف جنگوں میں

نوجوانوں میں سے ایک شخصیت جو ابتداء سے آخر تک رسول خد ا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں فرائض انجام دیتی رھی وہ حضرت علی علیہ السلام ھیں۔ آپ(ع) تمام میدانوں میں فعّال طریقہ سے حاضر تھے اوررسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے محبوب تھے اور اسلام کے آغاز سے ایک جان نثار سپاھی شمار ھوتے تھے۔ علی علیہ السلام، حضرت ابوطالب کے بیٹے اور سب سے بڑے اور مشھور قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ (ع) کی والدہ فاطمہ بنت اسدابن عبد مناف تھیں۔ وہ خاندان بنی ھاشم کی ایک محترم اور عظیم خاتون تھیں۔ اس لحاظ سے علی علیہ السلام پھلے بچہ تھے جو ماںباپ دونوں کی جانب سے ھاشمی تھے ۔[1] علی علیہ السلام معجزانہ طور پرخانہ کعبہ میں پیدا ھو ئے۔اور یہ فضیلت کسی اور کو حاصل نھیں ھوئی ۔ آپ(ع) ولادت کے بعد تین دن تک کعبہ کے اندر رھے۔ اس کے بعد آپ (ع) کی والدہ آپ کو گود میںلئے ھو ئے کعبہ سے باھر آئیں۔[2] حضرت علی علیہ السلام کے والد حضرت ابوطالب (ع) نے اسلام کے بحرانی حالات میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا دفاع کیا ، جب کہ تمام لوگ آنحضرت (ص) کے خلاف متحد ھو چکے تھے۔ یھاں تک کہ بعثت کے دسویں سال حضرت ابوطالب (ع) اور آنحضرت کی شریک حیات حضرت خدیجہ (ع)اس دنیا سے رحلت کر گئیں۔ اس سال کانام ”عام الحزن“ رکھا گیا ۔ حضرت ابوطالب (ع) نے پیغمبر اسلام کی ۸ سال کی عمر سے آپ (ص) کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لی تھی۔ حضرت ابوطالب (ع) کی وفات کے وقت حضرت علی علیہ السلام کی عمر ۶ سال تھی اور آپ(ص)اسی وقت علی علیہ السلام کو اپنے گھر لے آئے۔ چنانچہ حضرت علی (ع)نے آنحضرت (ص) کے گھر میں آپ(ص) کی سرپرستی میں پرورش پائی ۔[3] جبرئیل امین کے غار حرا میں نازل ھونے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے رسالت پر مبعوث ھونے کے بعد جب آنحضرت (ص) (ص) گھر تشریف لائے اور وحی کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کو اطلاع دی تو علی علیہ السلام ، جو کہ اس وقت نو سال کے تھے، نے پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعوت کو قبول کیا لہذاآپ(ص)مردوں میں پھلے مسلمان ھیں۔[4] پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے رسالت پر مبعوث ھونے کے بعد تین سال تک اپنی دعوت کو آشکار نھیں کی۔ تیسرے سال خدا کے حکم سے آنحضرت (ص) مامور ھوئے تا کہ اپنی دعوت کو آشکار فرمائیں اور اس دعوت کا آغاز میں اپنے رشتہ داروں سے کریں۔ اس لئے آنحضرت (ص) نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اور کھانا کھلانے کے بعد فرمایا: اے عبد المطلب کے بیٹو! خدواند متعال نے مجھے عام لوگوں اور بالخصوص تم لوگوں کی رھبری کےلئے بھیجا ھے اور فرماتاھے: <و انذر عشیرتک الاٴقربین> تاریخ طبری، ج ۲، ص ۲۱۲۔ الغدیر،ج ۳،ص ۲۲۶۔ بحار الانوار ، ج ۳۸، ص ۲۶۲۔احقاق الحق، ج ۲، ص”اور پیغمبر! آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے“[5] پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے تین بار اس مطلب کو دھرایا، لیکن علی علیہ السلام کے علاوہ کسی نے پیغمبر اکرم (ص) کی آواز پر لبیک نہ کھا، جبکہ اس وقت علی علیہ السلام صرف ۱۳ سال کے تھے۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے علی(ع)! تم ھی میرے بھائی ، جانشین، وارث اور وزیر ھو۔ [6] بستر رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر علی علیہ السلام کی جان نثاری بعثت کے تیرھویں سال قریش کے سرداروں نے ایک سازش کے تحت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ اس کام کے لئے ھر قبیلہ سے ایک شخص کاانتخاب کیا، تاکہ رات کے وقت آنحضرت(ص) پر حملہ کرکے آپ(ص) کو شھید کرڈالیں ۔ رسول خدا (ص) نے علی علیہ ال السلام سے اپنے بستر ا پر سونے کو کھا تاکہ دشمن یہ نہ سمجھ سکیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھجرت کر گئے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی عمر اس وقت ۲۳ سال تھی، آپ (ع) نے رسول خدا (ص) کی خواھش کو دل سے قبول کیا اور آنحضرت (ص) کے بستر پر سو گئے۔ رسول خدا (ص) شھر سے باھر نکل کر مکہ کے نزدیک واقع غارثور میں تشریف گئے۔اس رات کے آخری حصہ میں چالیس افراد نے رسول خدا (ص)کے گھر پر حملہ کیا اور رسول خدا(ص) کے بسترپر علی علیہ السلام کو پایا   [7] جنگ بدر تاریخ اسلام میںحق وباطل کا پھلا معر کہ جنگ بدر تھا ۔یہ جنگ   ۲ھجری میں کفارمکہ کے سرداروں اور اسلام کے سپاھیوں کے درمیان بدر نامی جگہ پر واقع ھوئی۔بدر کا مقام مدینہ سے ۲۸ فرسخ دور اور بحر الاحمر سے چھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ھے۔کفّارکا لشکر ایک ھزار سے زائد افراد پر مشتمل تھا اور سب کے سب جنگی ساز وسامان سے مسلح تھے ۔لیکن رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فوج صرف ۳۱۳ سپاھی تھے ۔اس جنگ میں لشکر کفّارکے تین نامور پھلوان عتبہ،اس کا بھائی شیبہ اوراس کا بیٹا ولید ،علی علیہ السلام، جناب حمزہ اورجناب عبیدہ کے ھاتھوں قتل ھوئے۔اس جنگ میں علی علیہ السلام کی عمر ۲۵ سال تھی۔ [8] جنگ احد جنگ بدر کے ایک سال بعد،مشرکین نے اپنی فوج کو نئے سرے سے منظم اور مسلح کر کے مختلف قبیلوں سے تین ھزار جنگجو ابو سفیان کی سرکردگی میںروانہ کئے اور تمام جنگی سازوسامان سے لیس ھو کر اس فوج نے مدینہ سے ایک فرسخ کی دوری پر کوہ احد کے دامن میں پڑاؤ ڈالا۔رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے سات سو سپا ھیوں پرمشتمل ایک فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔آنحضرت (ص) نے عبد اللہ ابن جبیر کی سر کرد گی میںپچاس تیراندازوں کو لشکر اسلام کے پیچھے ایک پھاڑ کے درہ پر مامور کیا اور حکم دیاکہ اس جگہ کو کسی بھی حالت میں نہ چھوڑیں۔ لشکر کفّارسے ، طلحہ ا بن ابی طلحہ، ابو سعید ا بن طلحہ، حرث ا بن ابی طلحہ، ابوعزیز ا بن طلحہ، عبد اللہ ابن ابی جمیلہ او رارطات ابن سر جیل نامی کئی پھلوان با لترتیب میدان کارزار میں آئے اور یہ سب، ۲۶ سالہ نوجوان حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھوں قتل کئے گئے۔ اسلام کے سپاھی جنگ کی ابتدا ء میں فتحیاب ھو ئے۔ لیکن تیراندازوں کے درہ کو چھوڑنے کی وجہ سے خالدا بن ولید کی سرکردگی میں دشمن کے سواروں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور انھیں شکست دیدی۔ اس جنگ میں ستر مسلمان شھید ھوئے، جن میں حضرت حمزہ (ع) بھی تھے۔ بعض سپاھیوں ، من جملہ علی (ع) نے رسول خدا کا مشکل سے دفاع کیا۔ علی علیہ السلام کے بدن پر اس جنگ میں ۹۰ زخم آئے، اسی جنگ میں یہ آسمانی آواز سنی گئی” لافتی الا علی لا سیف الا ذولفقار“:”علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی جوان نھیں اور ذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نھیں [9] جنگ خندق(احزاب) شوال ۵   ھجری میں مشرکین مکہ نے مدینہ میں بچے کچھے یھودیوں اور دوسرے قبائل کی مدد سے ایک ھزار سپاھیوں پر مشتمل ایک فوج تشکیل دی اور مسلمانوں کو نابود کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس جنگ میں لشکر کفّارکا اسی (۸۰) سالہ نامور پھلوان عمروا بن عبدود بھی شریک تھا۔ وہ جنگ بدر میں زخمی ھواتھا لہذا اس کے دل میں مسلمانوں کے متعلق کینہ تھا اور اس نے قسم کھائی تھی کہ جب تک رسول خدا (ص) اور مسلمانوں سے انتقام نھیںلوں گا اس وقت تک اپنے بدن پر تیل کی مالش نھیں کروں گا!! مدینہ میں داخل ھونے کے بعد یھودیوں کے قبیلہء بنی قریضہ نے ،رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کئے ھوئے اپنے عھد وپیمان کو توڑ کر کفار کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا!مسلمانوں نے سلمان فارسی ۻ کے مشورے پر مدینہ کے اطراف میںخندق کھودی تاکہ دشمن شھر میں داخل نہ ھوسکیں۔مسلمان ۲۸ دن تک محاصرہ میں رھے ،یھاں تک کہ کفار کا پھلوان عمروا بن عبدود نے خندق کو عبور کر کے مسلمانوں کو مقابلہ کی دعوت دی ۔علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی شخص اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نھیں ھوا کیونکہ عمرو بن عبدود ایک زبر دست پھلوان تھا ۔علی علیہ السلام میدان میں تشریف لائے۔جب علی علیہ السلام کاعمرو ابن عبدود سے مقا بلہ ھوا تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:آج کل ایمان کل کفر کے مقا بلہ میں ھے۔“ اس مقابلہ میں حضرت علی (ع) نے دشمن کو ھلاک کر دیا اور اس کے سر کو تن سے جدا کر کے رسول خدا(ص) کے سامنے ڈال دیا ۔رسول خدا(ص) نے فر مایا:”بیشک خندق میں علی(ع) کی ضربت جن وانس کی عبادت سے افضل ھے۔“ علی علیہ السلام نے جس وقت یہ گرانقدرخدمت اسلام اور مسلمانوں کے حق میں انجام دی،اس وقت آپ ۲۷سالہ جوان تھے۔اس جنگ کے بعدرسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ،حضرت علی علیہ السلام کی سرکر دگی میں ایک لشکر کو لے کر بنی قریضہ کے یھو دیوں کی طرف روانہ ھو ئے۔یھودیوں کے سر دارحی ابن اخطب کے مارے جانے کے بعدشھر مدینہ کے باشندے یھو دیوں کے خطرہ سے مکمل طور پر محفوظ ھوئے اوریھودیوں کا مال ومنال اور ان کی عورتیںمسلمانوں کے قبضہ میں آگئیں۔ [10] علی علیہ السلام کے ھاتھوں خیبر کی فتح ۷ ھجری میں خیبر کے یھودیوں نے ایک منصوبہ بنایا۔انھوں نے مدینہ کے شمال مغرب میں دو سو کلو میٹر کے فاصلہ پرواقع خیبر کے سات قلعوں میں سے بعض کو جنگی اسلحوں سے بھر دیا ۔ان قلعوں میں چودہ ھزار یھودی رھائش پذیر تھے۔رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) چودہ سو پیدل سپاھیوں اور دوسوشھسوا روں کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ھوئے اور لشکر کا پرچم علی علیہ السلام کو دیا جواس وقت تیس سال کے جوان تھے۔ اس جنگ میں عمر اور ابو بکر نے شکست کھائی ۔یھاں تک کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حکم سے علی علیہ السلام میدان جنگ میں آئے اور یھودیوں کے نامور پھلوان مرحب پربجلی کی طرح ٹوٹ پڑے اور ایک کاری ضرب سے اس کا کام تمام کیا۔اس کے بعد مسلمانوں نے حملہ کیا اور علی علیہ السلام نے خیبر کے آھنی دروازہ کواکھاڑ کر سپر کے مانند ھاتھ میں اٹھا لیا۔اس جنگ میں یھودیوں کے تین پھلوان مرحب،حارث اور یاسر علی علیہ السلام کے ھاتھوں قتل ھوئے اور خیبر فتح ھوا۔جنگ کے خاتمہ پر چالیس آدمیوں کی مدد سے در خیبرکو دوبارہ اپنی جگہ پر نصب کیا گیا۔ [11] فتح مکہ ۸ھ کو مکہ،پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ھاتھوں جنگ و خونریزی کے بغیر فتح ھوا۔پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بارہ ھزار افراد کے ھمراہ مکہ میں داخل ھوئے اور خانہ کعبہ میں موجود تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔اس کے بعد علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ(ص)کے دوش مبارک پرقدم رکھ کرکعبہ کی دیوار پرچڑھیں اور بتوں کو توڑ یں۔علی علیہ السلام نے اطاعت کی ،بتوں کو توڑ نے کے بعددیوار سے نیچے آئے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے پوچھا:آپ(ص)نے اتر تے وقت کیوں میرے شانوں پر قدم نہ رکھے؟ علی علیہ السلام نے عرض کی:اوپر چڑھتے وقت آپ(ص) نے حکم فر مایا اور میں اوپر چڑھا،لیکن اتر تے وقت نھیں فرمایاکہ کیا کروں ،اسی لئے چھلانگ لگاکراترا اور اس سے بے ادبی مقصود نھیں تھی، خدا کا شکر ھے کچھ نھیں ھو [12] جی ھاں ، اسلام کا یہ عظیم پھلوان ،ھر اس کارزار میں حاضر ھوتا تھا جھاں پر دشمن اورکفار اسلام اور مسلمانوں کو نابود کرنے کے لئے آتے تھے، اور وہ ان کے مقابلہ میں دل و جان سے اسلام و مسلمین کا دفاع کرتا تھا۔ اس طرح اس دلاور پھلوان کو ایسے فخر و مباھات نصیب ھوئے کہ دوسرے ان سے محروم رھے۔ آپ کے بھائی جعفرا بن ابیطالب(ع) جعفرا بن ابیطالب(ع) ، پیغمبر اسلام (ص) کے صحابی اور حضرت علی علیہ السلام کے بھائی ھیں، جو آپ(ع) سے دس سال بڑے تھے۔ وہ ایک دلاور پھلوان اور اولین مسلمانوں میں سے تھے۔ وہ جعفر طیار کے نام سے مشھور ھیں، کیونکہ انھوں نے ایک جنگ میں اپنے دونوں بازو قربان کئے اور رسول خدا (ص) نے ان کے بارے میں فرمایاکہ خدواند متعال نے ان کے دوبازؤں کے عوض انھیں بھشت میں دو پر عطا کئے ھیں۔ اسی لئے جعفر طیار کے نام سے مشھور [13]ھوئے۔ پیغمبر اسلام (ص) جعفر طیار سے کافی محبت کرتے تھے۔ انھوں نے ۵   ھجری میں دوسرے مسلمانوں کے ھمراہ حبشہ کی طرف ھجرت کی اور وھاں پر مھاجرین کے گروہ کے ترجمان کی حیثیت سے منتخب ھوئے، جبکہ اس وقت صرف ۲۴ سالہ جوان تھے۔ ھجرت کر کے جانے والے مسلمان   ۷   ھجری تک حبشہ ھیں رھے اور اس کے بعد واپس مدینہ لوٹے۔ حبشہ سے مسلمانوں کی واپسی عین اس وقت ھوئی جب پیغمبر اسلام (ص) خیبر فتح کر کے مدینہ واپس لو ٹے ۔ پیغمبر اکر م(ص) نے جوں ھی انھیں دیکھا، اپنے چچا زاد بھائی کے احترام میں اپنی جگہ سے کھڑے ھوگئے، اپنی باھوں کو ان کی گردن میں ڈالا اور ان کے ما تھے کو چوما اور رونے لگے۔ اس کے بعد فرمایا :میں نھیں جانتا کہ میں کس چیز کی خوشی مناؤ ں،جعفر کے آنے کی یا فتح خیبر کی [14] ۸ -   ھجری میں، یعنی حبشہ سے لوٹنے کے ایک سال بعد، جعفر طیار، رسول خدا (ص) کے حکم سے ، رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے تین ھزار جنگجوؤں پر مشتمل ایک لشکر کے سپہ سالار کی حیثیت سے اردن کی طرف روانہ ھوئے۔ اسلام کے سپاھی مدینہ سے روانہ ھو کر اردن کی سرزمین میں”موتہ“ کی جگہ پر رومیوں سے نبرد آزماھوئے۔ اس جنگ میں بھادری کے ساتھ لڑنے کے بعد جعفر کے دونوں بازو کٹ گئے، اس کے بعد انھوں نے پرچم اسلام کو اپنے سینے سے لگا لیا ، یھاں تک کہ شھید ھوگئے، ان کو اس حالت میں دفن کیا گیا کہ ، بدن پر ستر (۷۰) زخم لگے ھوئے تھے [15] جب رسول خدا (ص) کو جعفر کی شھادت کی خبر ملی توآپ(ص) نے روتے ھوئے فرمایا: جعفر جیسے شخص کے لئے ضرور رونا چاہئے۔ -------------------------------------------- حوالہ [1] تاریخ انبیاء ج ۱، ص ۷۶بحار الانوار ج ۳۵، ص ۶۸، شرح نھج البلاغہ حدیدی، ج ۱، ص ۶ [2] مستدرک حا کم، ج ۳، ص ۴۸۳۔ کفایہ المطالب، ص۲۶۰، الغدیر ، ج ۶، ص ۲۲ [3] اصول کافی، ج ۱، ص ۴۴۔ الغدیر، ج ۷، ص ۳۳۰۔ بحار الانوار ، ج ۳۵، ص ۶۸ تا ۱۸۳ [4] تاریخ طبری، ج ۲، ص ۲۱۲۔ الغدیر،ج ۳،ص ۲۲۶۔ بحار الانوار ، ج ۳۸، ص ۲۶۲۔احقاق الحق، ج ۲، ص [5] شعراء/۲۱۴، تفسیر فرات ، ص ۱۱۲ [6] احقاق الحق ج ۶، ص ۴۴۹، بحار الانوار، ج ۳۸، ص ۲۴۴، مناقب ابن شھر آشوب ، ج ۲،ص ۱۸۰، کنزالعمال ، ج ۶، ص ۳۹۷ [7] احقاق الحق، ج ۳، ص ۲۶ و ج ۶، ص ۴۷۹۔ بحار الانوار ج ۱۹، ص ۶۰۔ سیرہ حلبیہ ج ۲، ص ۲۶ [8] احقاق الحق، ج ۸، ص ۳۵۲۔ بحار الانوار ، ج ۴۱ ، ص ۸۰۔ ارشادمفید ، ج ۱، ص ۶۲ [9] احقاق الحق، ج ۸، ص ۳۵۹۔ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ۳، ص ۴۰۱۔ تذکرة الخواص، ص ۳۰، تاریخ طبری ، ج ۳، ص ۳۷ [10] احقاق الحق ج۸،ص۳۷۸ ،مستدرک حاکم ج ۳ص۳۲۔تاریخ بغداد ج۱۳،ص۱۹ ۔مقتل الحسین خوارزمی ص۴۵ [11] احقاق الحق ج۵،ص ۴۲۰۔کنز العمال ج۵ ،ص۲۸۳۔ارشاد مفید ج۱،ص۱۱۴ ۔مستدرک الصحیحین ج۳ ص۳۷ [12] احقاق الحق، ج ۸، ص ۶۸۲۔ سیرہ ابن ھشام ج ۲، ص ۴۲۹۔ اسد الغابہ ، ج ۳، ص ۱۰۲۔ الاصابہ ، ج ۱، ص ۳۱۸ [13] الاعلام زرکلی ، ج ۲، ص ۱۲۵، الاصابہ، ج ۱، ص۲۳۷، صفة الصفوہ،ج ۱، ص ۲۰۵، مقاتل الطالبین،ص ۳ [14] الاستیعاب فی ھامش الاصابہ، ج ۱، ص ۲۱۲۔ حلینہ الاولیاء ، ج ۱، ص ۱۱۴، طبقات ابن سعد ، ج ۴، ص ۱۲۵ [15] الاصابہ ، ج ۱، ص ۲۳۹، سیرہ حلبیہ، ج ۲، ص ۷۸۶، معجم البلدان ، ج ۵، ص ۲۱۹، الاعلام زرکلی، ج ۳، ص ۱۲۵ منبع:shiaarticles.com