Drawer trigger

علی قرآنی آیات کی روشنی میں ۲

سولہویں آیت علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰہِ وَرُسُلِہ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّھَدَآءُعِنْدَ رَبِّھِمْ۔ لَھُمْ اَجْرُھُمْ وَنُوْرُھُمْْ۔ ”اور جو لوگ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی تو اپنے پروردگارکے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ اُن کا اجر اور اُن کا نور اُن ہی کیلئے ہوگا“(سورئہ حدید،آیت19) تشریح اس میں کوئی شک نہیں کہ سچائی اور راست گوئی ایسی صفت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ہمیں یہ صفت حضرتِ علی کے وجودِ پاکِ میں روزِ روشن کی طرح نظر آتی ہے۔ اگرچہ اہلِ سنت میں خلیفہٴ اوّل ہی صدیق کے طور پر مشہور ہیں لیکن بہت سی روایات جو اہلِ سنت اور شیعہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں، اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفت ِسچائی اور راست گوئی ہر لحاظ سے مکمل طور پر حضرت علی علیہ السلام کے وجودِ پاک میں نظر آتی ہے۔ چند روایاتِ ذیل پرتوجہ فرمائیں: (ا)۔      عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَوْلِہ تعٰالٰی”وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰہِ وَرُسُلِہ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ“قال صدیقُ ھَذِہ الْاُمَّةِ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب ھُوَ الصِّدِّ یقُ الْاَکْبَرُ وَالْفَارُوْقُ الْاَعْظَمُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت ِشریفہ”وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰہِ وَرُسُلِہ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْن“کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس اُمت کے صدیق علی ابن ابی طالب ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیقِ اکبر بھی ہیں اور فاروقِ(حق اور باطل کو جدا کرنے والا) اعظم بھی“۔ (ب)۔عَنْ عبدالرحمٰنِ بن ابی لیلٰی عَنْ اَبِیْہِ قٰالَ رسولُاللّٰہِ اَلصِّدِّیْقُوْنَ ثَلاٰ ثَۃٌ: حَبِیبُ النَّجَّارِ، موٴمِنُ آلِ یٰسِینَ وَحِزْبِیْلُ مُوٴمِنُ آلِ فِرْعَوْنَ وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطالِبٍ وَھُوَ اَفْضَلُھُمْ۔ ”عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تین افراد صدیق ہیں اور وہ ہیں:حبیب ِنجار، مومنِ آلِ یاسین اور حزبیل مومنِ آلِ فرعون اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور علی علیہ السلام اُن سب سے افضل ہیں“۔ (ج)۔    عَنْ عُبادِ بنِ عَبْداللّٰہِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیّاً علیہ السلام یقولُ: أَ نَا الصِّدِّیقُ الْاَکْبَرُ لَایقُولُھَا بَعْدِیْ اِلَّا کَذَّابٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ۔ ”عباد بن عبداللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی صدیقِ اکبر ہوں اور میرے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو صدیقِ اکبر نہیں کہلا سکتا لیکن سوائے جھوٹے اور کذاب کے اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی(یعنی سب سے پہلے خدا اور اُس کے رسول پر میں ایمان لایا)“۔ (د)۔     اسی طرح سب علمائے اہلِ سنت مثلاً حافظ ابی نعیم، ثعلبی، حافظ بن عساکر، سیوطی اور دوسرے بہت سے مفسرین سورئہ توبہ آیت119”اِتَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن“میں ابن عباس اور دوسروں سے بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ”الصادقین“ سے مراد علی ہیں ۔ روایت اس طرح سے ہے: عَنْ ابنِ عباس فِی قولہ تعٰالٰی’اِتَّقُواللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ‘ قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلَامُ خٰاصَّۃً۔۔۔۔۔۔۔“ ”ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔       ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد2،صفحہ282،حدیث812،اشاعت ِ اوّل۔ 2۔       ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، صفحہ246،247، حدیث296۔ 3۔       گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ236اور باب24،صفحہ123۔ 4۔       حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل۔ 5۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب 42،صفحہ146۔ 6۔       نسائی، کتاب خصائصِ امیرالموٴمنین ، حدیث6،صفحہ38۔ 7۔       سیوطی ،کتاب اللئالی المصنوعہ، بابِ فضائلِ علی ، جلد1،صفحہ160۔ 8۔       احمد بن حنبل، کتاب الفضائل، بابِ فضائلِ امیر الموٴمنین ،حدیث117،صفحہ78۔ 9۔       حافظ المزی،کتاب تہذیب الکمال، ترجمہ العلاء بن صالح، جلد4،صفحہ193۔ سترہویں آیت اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی ھُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِہ وَبِالْمُوٴْمِنِیْنَ۔یٰٓاَ یُّھَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ۔ ”وہ وہی ہے جس نے اپنی امداد سے اور مومنین کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی تھی۔ اے نبی! تمہارے لئے اللہ اور موٴمنین میں سے جو تمہارا اتباع کرتے ہیں، وہی کافی ہیں ہیں“۔(سورئہ انفال: آیات62،64)۔ تشریح کچھ مفسرین نے ان آیات کے ضمن میں خصوصاً آیت :64کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں کے قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر کے کچھ افراد پیغمبر اسلام کی خدمت میں مکروفریب سے حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ” اے پیغمبر خدا! ہم حاضر ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی پیروی کریں اور مدد کریں“۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہہ رہا ہے کہ ہرگز کسی غیر پر اعتماد نہ کریں بلکہ اللہ اور وہ موٴمنین جو آپ کی اتباع کرتے ہیں، آپ کے لئے کافی ہیں، انہی پر اعتماد کریں(تفسیر تبیان، جلد5،صفحہ152)۔ اہلِ سنت اور شیعہ علماء کی کثیر تعداد روایات لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں مومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ اگرچہ دوسرے موٴمنین بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان آیتوں کے مصداق(پوری طرح آیت کے مطابق) علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ تمام مشکلات اور سخت حالات میں علی علیہ السلام کے وجودِ مقدس پر فخر کیا۔ ذیل میں لکھی گئی دو روایات پر توجہ فرمائیں: (ا)۔      عَنْ اَبِیْ ھُریرةِ قَالَ: قال رسولُ اللّٰہ رَأَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِلَی السَّمٰاءِ عَلَی الْعَرْشِ۔مَکْتُوْباً: لَااِلٰہَ اِلّٰا أَنَا وَحْدِیْ لَا شَرِیْکَ لِیْ وَمحمدًعَبْدِی وَرَسُوْلِی اَیَّدْتُہُ بِعَلیٍّ(قال)فَذٰلِکَ قَوْلُہُ”ھُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہ وَبِالْمُوٴْمِنِیْن“۔ ”ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شب ِمعراج میں نے دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا :’میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں تنہا اور لاشریک ہوں اور محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے علی کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد کی ہے اور اس آیت ِ شریفہ”ھُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِہ وَبِالْمُوٴْمِنِیْنَ“ میں بھی اسی طرف اشارہ ہے“۔ (ب)۔    حافظ حسکانی جو اہلِ سنت کے نامور عالم ہیں، کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں جو معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت”یٰٓاَ یُّھَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ“ کی تفسیرمیں فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے جو ہمیشہ رسول اللہ کے مددگار و حامی و ناصر رہے ہیں۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔       ابن عساکر، تاریخ دمشق میں حدیث926، باب احوالِ امیرالموٴمنین ، ج2،ص419 2۔       گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ234۔ 3۔       سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد3،صفحہ216،اشاعت ِ دوم، صفحہ199۔ 4۔       حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ299،جلد1،صفحہ223اور اشاعت ِ اوّل میں جلد1،صفحہ230،شمارہ305۔ 5۔       ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب مناقب ِ علی علیہ السلام، جلد9،صفحہ121۔ 6۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب 23،صفحہ109 اور باب2ص21 7۔       ذہبی، میزان الاعتدال، ج1،ص269،حدیث1006اور ص530،ج1،شمارہ1977۔ 8۔       المحب الطبری، کتاب ریاض النضرہ، جلد2،صفحہ172۔ 9۔       متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد6،صفحہ158، اشاعت ِ اوّل۔ اٹھارہویں آیت حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوتِ قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے وَلَوْنَشَآءُ لَاَرَیْنَکَھُمْ فَلَعَرَفْتَھُمْ بِسِیْمٰھُمْ۔وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ۔ ”اور اگر ہم چاہیں تو ہم اُن لوگوں کو تمہیں دکھلا دیں پھر تم اُن لوگوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان لو اور تم اُن کو اُن کی بات کے لہجے سے ضرور پہچان لوگے“۔(سورئہ محمد، آیت:30)۔ تشریح اس آیت ِشریفہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اسلام کومنافقین کی اور شقاوتِ قلبی رکھنے والے انسانوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے :”اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں اُن کی شناخت کروادیں گے“ تاکہ صرف اُن کی چال ڈھال اور قیافہ دیکھنے سے ہی اُن کو پہچا ن لو۔ اس کے علاوہ اُن کے لہجہ و کلام سے بھی پہچان سکتے ہو کہ اُن کے ناپاک دلوں میں کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے بولنے کا انداز کیا تھا کہ پروردگار نے اُس کو منافقین کے پہچاننے کا ایک اہم طریقہ بتایا۔اس ضمن میں اہلِ سنت اور شیعہ علماء نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کیلئے شدید دشمنی اور کینہ پایا جاتا تھا۔ البتہ وہ اپنی اس دشمنی اور کینہ کو رسول اللہ کی زندگی میں واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ شاید وہ اس میں اپنی بھلائی اور فائدہ نہیں دیکھتے تھے ۔ اس لئے وہ موقع بہ موقع رسول اللہ اور مسلمانوں کے پاس آکر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کرتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔ اُن کی اس چال کا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کمزور کرنا اور اُن کی محبوبیت کو کم کرنا تھا۔ لیکن خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کرکے اُن کے مکروفریب کو باطل کردیا اور اُن کے ناپاک چہروں کو سب کے سامنے آشکار کردیا۔ اس ضمن میں دو روایات پر توجہ فرمائیں: (ا)۔      عَنْ اَبی سعیدُالخَدْری فِی قولہ عزوجل”وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ“ قال بِبُغْضِھِمْ عَلَیّاً عَلَیْہِ السَّلَام۔ ”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ اس آیت’وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ‘ کی تفسیر میں فرمایاکہ یہ علی کی دشمنی اور بغض کی وجہ سے ہے(یعنی دشمنیِ علی اُن کی زبان سے ظاہر ہوجاتی ہے)“۔ (ب)۔    درج ذیل روایت کو اکثر مفسرین نے اس آیت کی بحث کے دوران ذکر کیا ہے اور رسول اکرم کے خاص صحابہ کی زبان سے بیان کی گئی ہے جیسے ابی سعید اور دوسروں نے نقل کیا ہے: کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ بِبُغْضِھِمْ عَلِیّاً۔ ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو اُن کی علی علیہ السلام سے دشمنی کے سبب پہچانتے تھے“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔       حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، جلد2،صفحہ178،حدیث883،اشاعت ِ اوّل۔ 2۔       ابن عساکر، تاریخ دمشق ،ج2، ص421،حدیث929،بابِ احوالِ علی ،اشاعت2 3۔       گنجی شافعی،کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ235۔ 4۔       ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیرالموٴمنین ، حدیث359،362،صفحہ315۔ 5۔       سیوطی، تفسیر المدرالمنثور، جلد6،صفحہ74اورتاریخ الخلفاء،صفحہ170۔ 6۔       ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد3،صفحہ110۔ 7۔       بلاذری، انساب الاشراف، جلد2،صفحہ96،حدیث19،اشاعت اوّل از بیروت۔ 8۔       متقی ہندی کنزالعمال، جلد1،صفحہ251،اشاعت اوّل اور اسی طرح احمد بن حنبل ۔ کتاب فضائل میں اور ابن اثیر کتاب جامع الاصول میں، طبری کتاب ریاض النضرہ میں اور بہت سے دوسرے۔ اُنیسویں آیت علی صالح المو منین ہیں وَاِنْ تَظٰھَرَاعَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَمَوْلَہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُوٴْمِنِیْنَ۔ ”اور اگر تم دونوں ہمارے رسول کے برخلاف ایک دوسرے کے پشت و پناہ بنو تو اللہ ، جبرئیل اور صالح مومنین اُس کے مددگار ہیں“۔(سورئہ تحریم:آیت4) تشریح یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ اگرچہ کلمہ”صالح الموٴمنین“ اپنے اندر وسیع تر معنی رکھتا ہے اور تمام صالح مومنین اور پرہیز گار اس میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن مومنِ کامل اور اکمل ترین انسان کون ہے؟اس کے لئے ہمیں روایات سے مدد لینا ہوگی اور روایات کو دیکھنا ہوگا۔ تحقیق کرنے پر بڑی آسانی سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ شیعہ علماء سے منقول روایات کے علاوہ اہلِ سنت نے بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان سب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ متذکرہ بالا آیت میں صالح مومنین سے مراد ذاتِ مقدسِ امیر الموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ یہاں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں: (ا)۔      عَنْ اَسماءِ بنتِ عُمَیس قٰالَتْ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقْرَأُ ھٰذِہِ الآیَة:وَاِنْ تَظٰھَرَاعَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَمَوْلَہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُوٴْمِنِیْنَ، قَالَ صَالِحُ المُوٴمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْطَالِب۔ ”اسماء بنت عمیس روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے یہ آیت سنی”وَاِنْ تَظٰھَرَاعَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَمَوْلٰہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُوٴْمِنِیْنَ“آیت پڑھنے کے بعد پیغمبر خدا نے فرمایا کہ صالح الموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔ (ب)۔    عَنْ السُّدی عَن ابنِ عَبَّاس، فِی قَولِہ عَزَّوَجَلَّ’وَصَالِحُ المُوٴمِنِیْنَ قَالَ:ھُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِب۔ ”سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کہ جس میں صالح المومنین کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔ (ج)۔    عَنْ مُجٰاھِد فی قَولِہِ تَعٰالٰی:”وَصَالِحُ المُوٴمِنِیْنَ“ قَالَ: صَالِحُ المُوٴمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب۔ ”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں جہاں صالح الموٴمنین کا تذکرہ ہے، وہاں صالح الموٴمنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔       حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث984 اور 985،جلد2،صفحہ257۔ 2۔      حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب67،جلد1،صفحہ363۔ 3۔       سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ244اور اشاعت ِ دیگر صفحہ269،270۔ 4۔       ابن مغازلی، مناقب ِ امیر الموٴمنین میں، حدیث316،صفحہ269،اشاعت ِ اوّل۔ 5۔       گنجی شافعی، کتاب کفایت الطالب میں، باب30،صفحہ137۔ 6۔       متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں،حدیث لا شیٴ، جلد1،صفحہ237، اشاعت ِ اوّل۔ 7۔       ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد2،صفحہ425، اشاعت ِ دوم، حدیث932،933۔ 8۔       ابن حجر فتح الباری میں، جلد13،صفحہ27۔ بیسویں آیت قیامت کے دن لوگوں سے ولایت ِعلی کے بارے میں سوال کیا جائے گا وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ۔ ”اور ان کو ٹھرا ؤ کہ ابھی ان سے سوالات کئے جائیں گے“۔(سورئہ صافات:آیت24) تشریح سورئہ مبارکہ صافات کے ایک حصہ میں جہاں پروردگار قیامت اور اس کے متعلقہ مسائل اور عذابِ عظیم جو مشرکین اور گمراہوں کے انتظار میں ہے، کے بارے میں بیان فرماتا ہے، اس آیت”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ“ سے اپنے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو اُس دن دوسرے احکام کے ساتھ یہ اہم حکم دے گا اور وہ حکم یہ ہوگا کہ اے میرے فرشتو ! ان کو روک لو ، ابھی ان سے سوال کیا جائیگا۔ لوگوں کے اس سوال پر کہ قیامت والے دن اس آیت کے مطابق کونسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اہلِ سنت اور شیعہ مفسرین نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ کچھ نے کہا ہے کہ توحید کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کچھ نے کہا ہے کہ اُس دن لوگوں سے بدعتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو وہ دنیا میں چھوڑ گئے، کچھ اوروں نے مختلف دیگر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ جوابات آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہلِ سنت اور شیعہ کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جن کے مطابق باقی اہم سوالوں کے علاوہ جو مجرموں سے پوچھے جائیں گے، ولایت ِعلی ابن ابی طالب کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں: (ا)۔      عَنْ اَبِیْ سعید خدری، عَنْ النبی فی قولہ تعالٰی”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ“ قال: عَنْ وِلَایَۃَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب۔ ”ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ“ کی تفسیر میں فرمایا کہ ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔ (ب)۔وَرَوِیٰ اَبُوالْاَحْوَضِ عَنْ أَبی اسحٰاقِ فی قولِہِ تعٰالٰی:”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ“قَالَ یَعنی مِنْ وِلَایَۃِ  عَلِیِّ ابنِ اَبِی طَالِب اِنَّہُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِہِ بَرَاةً بِوِلَایۃِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب۔ ”ابو احوض، ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیہٴ شریفہ ”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ“ کی تفسیر میں کہا کہ ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائیگااور مزید کہا: ”اِنَّہُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِہِ بَرَاةً بِوِلَایَۃِ  عَلِی“ ’ کسی کو پل صراط سے گزرنے کا حق حاصل نہ ہوگا مگر وہ جس کے ہاتھ میں ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہما السلام کا پروانہ ہوگا‘۔ (ج)۔    عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولِہ عَزَّوَجَلَّ”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْن“قَالَ:عَنْ وِلَایۃِ علی ابنِ ابی طالب۔ ”ابن عباس سے اس آیت”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْن“ کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔       حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب4،جلد1،صفحہ79۔ 2۔       حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ787،جلد2،صفحہ106،اشاعت اوّل۔ 3۔       ذہبی، کتاب میزان الاعتدال، بابِ حالِ علی بن حاتم، ج3،ص118،شمارہ5802۔ 4۔       گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ247۔ 5۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب37،صفحہ133اور اسی کتاب میں بابِ مناقب ،صفحہ282،حدیث51۔ 6۔       خوارزمی، کتاب مناقب، باب17،صفحہ195۔ 7۔       ہیثمی، کتاب صواعق المحرقہ، صفحہ89اور کتاب لسان المیزان،جلد4،صفحہ211۔ 8۔       ابن جوزی، کتاب تذکرة الخواص، باب دوم، صفحہ21۔ اکیسویں آیت اللہ تعالیٰ نے جنگوں اور مشکلات میں مسلمانوں کی مدد علی کے وسیلہ سے کی وَرَدَّاللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِغَیْظِھِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا۔وَکَفَی اللّٰہُ الْمُوٴْمِنِیْنَ الْقِتَالَ۔وَکَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا۔ ”اور اُن لوگوں کو جو کافر ہوگئے تھے، اللہ نے اُن کے غصے ہی کی حالت میں لوٹا دیا کہ وہ کسی مراد کو نہ پہنچیں اور اللہ نے مومنوں پر لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اللہ صاحب ِقوت اور صاحب ِ غلبہ ہے“۔(سورئہ احزاب: آیت25)۔ تشریح یہ آیت سورئہ احزاب سے ہے جس کی کچھ دوسری آیتیں جنگ ِ خندق(جنگ ِ احزاب) کے متعلق ہیں۔ جنگ ِ خندق ایسی جنگ ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کو کامیابی معجزانہ طور پر نصیب ہوئی اور بغیر کسی وسیع قتل و غارت کے کفار شکست خوردہ اور مایوس ہوکر مدینہ کے محاصرے کو توڑ کر ناکام واپس اپنے علاقوں کی طرف چلے گئے۔اس میں مددِ غیبی کی ایک شکل تو قدرت کی طرف سے زبردست طوفان اور سخت ترین سرد ہوائیں چلیں جس نے کفار کے حوصلے پست کردئیے ۔ اُن کے دلوں میں خدائی طاقت کا رعب اور ڈر بیٹھ گیا اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے طاقتور ترین پہلوان اور جنگجو یعنی عمر بن عبدود پر وہ کاری ضرب لگائی کہ وہ نیست و نابود ہوگیا۔ اس سے کفار کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ کفارکے بڑے بڑے سرداروں کے حوصلے پست ہوگئے۔ اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری اور کارکردگی اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ”لَمُبارِزَةُ عَلِی ابنِ ابی طالب لِعُمروبنِ عَبدُوَدیَومَ الْخَنْدَقِ اَفْضَلُ مِنْ اَعْمٰالِ اُمَّتِیْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ“ ”حضرت علی علیہ السلام کی جنگ ِ خندق میں ایک ضربت میری تمام اُمت کی قیامت تک کی عبادت سے افضل ہے“۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد3،صفحہ32۔ شیخ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، باب23،صفحہ109اور باب46،ص161اوربہت سے دوسرے۔ اب اس آیت کی تفسیر میں چند ایک روایات بیان کی جارہی ہیں جو توجہ طلب ہیں: (ا)۔      عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اِنّہ کَانَ یَقْرَاُ ھٰذِہِ الایۃ”وَکَفَی اللّٰہُ الْمُوٴْمِنِیْنَ الْقِتَالَ“ بِعَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْہِ السَّلَام۔ ”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ وہ یہ آیت ”وَکَفَی اللّٰہُ الْمُوٴْمِنِیْنَ الْقِتَال“ تلاوت فرمارہے تھے اور اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی ذاتِ مقدس کو لے رہے تھے“۔ (ب)۔    عَنْ عبداللّٰہِ بن مسعود قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ عمروبن عَبْدُوَدْ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، اَنْزَلَ اللّٰہُ تعالٰی:”وَکَفَی اللّٰہُ الْمُوٴْمِنِیْنَ الْقِتَال“بِعَلِیٌّ۔ ”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے جنگ ِ خندق میں عمربن عبدود کو ہلاک کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ”وَکَفَی اللّٰہُ الْمُوٴْمِنِیْنَ الْقِتَال“ حضرت علی علیہ السلام (کے عمل) کی خاطر نازل فرمائی“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔       حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل میں، شمارہ629،جلد2،صفحہ3۔ 2۔       ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب حالِ امیرالموٴمنین ، شمارہ927،جلد2،صفحہ420،اشاعت دوم(شرح محمودی)۔ 3        ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، شمارہ4149،جلد2،صفحہ380۔ 4۔       گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ234۔ 5۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب23،صفحہ108اور باب46،ص161۔ 6۔       سیوطی تفسیر الدالمنثور میں، جلد5،صفحہ209۔ بائیسویں آیت علی ا ورفاطمہ علم و معرفت کے دریائے بیکراں ہیں اور حسن و حسین اُن کے انتہائی قیمتی موتی ہیں مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۔بَیْنَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ۔فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَآ تُکَذِّبٰنِ۔یَخْرُجُ مِنْھُمَاالُّلوٴْ وَالْمَرْجَانُ۔ ”اُس نے دودریا بہادئیے، وہ باہم ملتے ہیں اور اُن دونوں کے مابین پردہ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتا۔پھر تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اُن دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں“۔(سورئہ رحمٰن:آیات19تا21)۔ تشریح وہ افراد جو قرآن اور علومِ قرآن سے واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتابِ آسمانی اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک آیت بعض اوقات چند معنی رکھتی ہو اور بعض اوقات بیسیوں معنی رکھتی ہو جبکہ اُن کا ہر معنی اپنی جگہ قابلِ توجہ اور اہمیت کا حامل ہو اور وہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہ رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر یہ چند آیات جو سورئہ رحمٰن سے ہیں اوراوپر بیان کی گئی ہیں، اس طرح کی آیات ہیں جن کے مختلف معنی نکل سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو ان آیات کو ظاہری اعتبار سے دیکھتے ہیں تو اُن کے اذہان میں یہی معنی آتے ہیں کہ کرئہ ارض کے بڑے بڑے دریا اور سمندر جو اس کے تین چوتھائی حصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر بڑے بڑے قیمتی گوہر اور معدنیات موجود ہیں، یہ خدائے بزرگ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں۔ یہ سب ،انسان کو غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ خدا نے انسان کیلئے کس طرح یہ دریااور سمندر پھیلائے اور اُن میں بیش بہا نعمتیں پیدا کیں۔ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ان آیات کے دوسرے مطالب ہیں جو مقصودِ خالق ہیں۔ روایات اور اطلاعات جو اسلامی تاریخ میں موجود ہیں، اُن کو بغور دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان آیات سے دو عظیم ہستیوں کا تعارف کروانا مقصود ہے۔ وہ ہستیاں جو علم و معرفت اور کمال کے دریائے بیکراں ہیں اور ان سے ملنے والے دو قیمتی موتی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں۔توضیح کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں: عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰہ عنہ فی قولہ تعالٰی”مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن“قال:علی و فاطمہ،”بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ“ اَلنّبی،”یَخْرُجُ مِنْھُمَاالُّلوٴْ وَالْمَرْجَانُ“قال:اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْن علیہماالسلام۔ ”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ تفسیر”مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن“سے مراد علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔”بَیْنَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ“ سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جنابِ علی علیہ السلام اور جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے درمیان وہ واسطہ ہے جس سے یہ صحیح بندگی خدا اور اُس کی عبودیت کے لئے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اُن کی ذاتِ گرامی سے خود بھی فیض یاب ہوتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بطور نمونہ اُن کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنتے ہیں)۔”یَخْرُجُ مِنْھُمَاالُّلوٴْوَالْمَرْجَانُ“سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں۔ یہ قابلِ توجہ بات ہے کہ درج بالا روایت کو علمائے اہلِ سنت نے دوسرے صحابہ سے بھی نقل کیا ہے اور شیعہ علماء نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے اور یہ روایت بجائے خود بہت اہمیت کی حامل ہے۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔       سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ158اور دوسری اشاعت میں ج6،ص142 2۔       حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل ، حدیث919،ج2،ص209،اشاعت اوّل،ج2،صفحہ212،اشاعت دوم۔ 3۔       ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، صفحہ339،حدیث 390۔ 4۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب39،صفحہ138۔ 5۔       ثعلبی، تفسیر ثعلبی میں جلد4،صفحہ289۔ 6۔       حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی “،اس آیت کی تشریح میں۔ 7۔       شبلنجی، کتاب نورابصار میں، صفحہ101۔ 8۔       خوارزمی، کتاب مقتل الحسین ، صفحہ112۔ 9۔       کراجکی، کتاب کنزالفوائد میں، صفحہ366۔ تئیسویں آیت علی اور اہلِ بیت سے محبت نیکی ہے اور اِن سے بغض گناہ ہے مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہ خَیْرٌ مِّنْھَا وَھُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ۔وَمَنْ جَآءَ بِالسَّےِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ۔ھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ ”جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا پس اُس کیلئے اس کا عوض اس سے بہتر موجود ہے اور وہ اُس دن خوف سے امن میں ہوں گے اور جو بدی لے کر آئے گا وہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جو کچھ تم کرتے تھے، اُسی کا بدلہ تمہیں ملے گا“(سورئہ نمل:آیت89اور90) تشریح اس آیت میں دو الفاظ یعنی ”حَسَنَۃِ“اور ”سیٰۃ“ استعمال ہوئے ہیں۔آیت کا اصلی مقصد بھی انہی کو سمجھانا ہے کہ نیکی اور بدی اصل میں کہتے کسے ہیں کیونکہ اس کا انسان کی مادّی اور روحانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ”حَسَنَۃِ“اور ”سیٰۃ“ ، یہ دوالفاظ اس آیت میں اور قرآن کی دیگر آیات میں استعمال ہوئے ہیں۔ان الفاظ کے مفہوم اور معنی نہایت وسیع ہیں مثلاً”حَسَنَۃِ“میں تمام نیک اور پسندیدہ اعمال شامل ہیں اور ان میں سرفہرست خدا پر ایمان، اُس کے پیغمبر پر ایمان اور حضرت علی علیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام کی ولایت پر ایمان ہے اور “سیٰۃ“میں تمام قبیح اور ناپسندیدہ اعمال شامل ہیں جو انسان کو خدا اور اُس کے رسول اور اُس کے اولیائے حق کے خلاف سرکشی پر ابھارتے ہیں اور یہ ”حَسَنَة“کی مکمل ضد ہے۔ لیکن ان کلمات کی تفاسیر اور تعابیر جو ہم تک آئمہ معصومین کے ذریعے سے پہنچی ہیں اور جسے بہت سے علمائے اہلِ سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ”حَسَنَة“ سے مراد قبولِ ولایت ِ امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اُن کی اولاد ہیں اور “سیٰۃ“ سے مرادعدمِ قبولِ ولایت ِعلی اور اولادِ علی ہے۔درج ذیل روایت میں اسی بات کی تفسیر ہے: عَنْ ابی عبدِاللّٰہِ الجَدَلِی قال: قٰال لی علی علیہ السلام:اَلٰا اُنَبِّئُکَ بِالْحَسَنَۃِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِھٰااَدْخَلَہُ اللّٰہُ الجَنَّۃَ وَبِالسَّیۃِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِھٰااَکَبَّہُ اللّٰہُ فِی النّٰارِوَلَمْ یُقْبَلُ لَہ عَمَلاً؟ قُلْتُ بلٰی ثُمَّ قَرَأَ(امیرالموٴمنین) مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ خَیْرُ مِنْھٰاوَھُمْ مِنْ فَزَعِ یَوٴْمَئِذٍآمِنُوْنَ وَمَنْ جٰاءَ بالسَّیّئَۃِ فَکُبَّتْ وَجُوْھَھُمْ فِی النَّارِھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ثُمَّ قٰالَ: یٰا أَبٰاعَبْدِاللّٰہِ، اَلْحَسَنَةُ حُبُّنٰاوَالسَّیِّئَۃُ بُغْضُنَا۔ ”ابو عبداللہ جدلی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ امیر الموٴمنین علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا میں تجھے اُس نیک عمل کی خبر نہ دوں کہ جو کوئی اُس کو انجام دے گا، پروردگار اُس کو بہشت میں داخل کرے گا اور کیا تجھے اُس بدعمل کی خبر نہ دوں کہ اُسے جو کوئی انجام دے گا، پروردگار اُسے جہنم میں پھینکے گااور اُس کاکوئی دوسراعمل بھی قبول نہ ہوگا‘۔ میں نے عرض کی:’ہاں مولا! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے باخبرکریں‘۔ حضرت علی علیہ السلام نے پھر یہ آیت پڑھی: مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ خَیْرٌ مِّنْھَا وَھُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ۔وَمَنْ جَآءَ بِالسَّےِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ۔ھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ پھر فرمایاحَسَنَۃِہم اہلِ بیت سے محبت ہے اورسَےِّئَةِ اہلِ بیت سے بغض و دشمنی ہے۔ اسی طرح بعض دوسری روایات میں آیاہے کہ آپ نے اس بارے میں فرمایا: ”اَلْحَسَنَۃُ مَعْرِفَةُ الْوِلَایَۃِ  وَحُبُّنٰا اَھْلِ الْبَیْتِ وَالسِّئَۃُ اِنْکَارُالْوِلَایَۃِ  وَبُغْضُنَا اَھْلَ الْبَیْتِ“۔ ”حَسَنَۃ یعنی معرفت ِ ولایت ِعلی علیہ السلام اورہم اہلِ بیت سے محبت ہے اور سَّیئَۃِ یعنی انکارِ ولایت علی علیہ السلام اور ہم اہلِ بیت سے بغض و دشمنی ہے“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔       حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب61،جلد2،صفحہ299۔ 2۔       حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث582،587،ج1،ص426،428 3۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب24،صفحہ113۔ 4۔       ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد2۔ 5۔       الحنینی کتاب خصائص الوحی المبین، صفحہ128۔ 6۔       رشید الدین، مناقب آلِ علی ، جلد2،صفحہ225،عنوان درجاتِ علی عند قیام الساعة۔ چوبیسویں آیت اللہ تعالیٰ علی کے وسیلہ سے کفارو مشرکین سے انتقام لیتا ہے فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ۔ ”پس اگر تم کو ہم لے جائیں گے تو ہم اُن سے بھی ضرور ہی بدلہ لینے والے ہیں“۔ (سورئہ زخرف:آیت41)۔ تشریح سورئہ مبارکہ زخرف میں اللہ تعالیٰ کفار کی حرکتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے پیغمبر کی تسلی اور سکون کی خاطر فرمارہا ہے کہ کفار کی چالوں کی وجہ سے اسلام کے مستقبل کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ اگر وہ کفر، ظلم اور انتقام جوئی کو ترک نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یقینا اُن سے انتقام لے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بشری زندگی کے مختلف زمانوں میں اپنے قابلِ دید اور ناقابلِ دید لشکروں سے کفار، منافق اور مشرکوں سے انتقام لیتا رہا ہے اور اُن کوسزائیں دیتا رہا ہے اور یہ عمل اُس کیلئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ اُس کی ذات”فَعَّالٌ لِمٰا یُرِیْد“”وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے“۔ اللہ تعالیٰ کے انتقام کی کوئی مثال دیکھنی ہو تو وہ انتقام ہے جس کا ارادہ تو خدا کی ذات نے کیااور اُسے انجام علی علیہ السلام نے دیا۔ تمام علماء اور مفسرین اہلِ سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت ِ مذکورسے مراد وجودِ پاکِ حضرت علی علیہ السلام ہے کیونکہ آپ نے تمام کفار و منافقین سے اُن مظالم اور زیادتیوں کا جو انہوں نے پیغمبر اسلام پر کی تھیں، کا بدلہ لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان اور دانشمند حضرات حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اعمال سے رسول اللہ کی زندگی میں اور اُن کی ظاہری زندگی کے بعد کفار کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی اور منافقین کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مایوس کردیا تھا۔حق اور صراطِ مستقیم کو عیاں کردیا۔ اس ضمن میں چند روایات نیچے درج کی جارہی ہیں جو آپ کی توجہ کی طالب ہیں: (ا)۔      عَنْ جَابِرقٰالَ:لَمَّا نَزَلَتْ عَلٰی رَسُوْلِاللّٰہ”فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“قٰالَ بِعَلیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْہِ السَّلَام۔ ”جابر ابن عبداللہ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت”فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ رسولِ خدا پر نازل ہوئی توآپ نے آیت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ علی علیہ السلام کے وسیلہ سے انتقامِ الٰہی لیا جائے گا“۔ (ب)۔    عَنْ حُذَیْفَۃِ بن الیَمٰانِ قٰالَ فِی قولہ تعالٰی”فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ یَعْنِی بِعَلِی بن ابی طالب علیہ السلام۔ ”حذیفہ بن یمان سے روایت کی گئی ہے ، انہوں نے اس آیت”فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ کی تفسیر میں فرمایا کہ علی علیہ السلام کے وسیلہ سے انتقام لیا جائے گا“۔ (ج)۔    عَنْ جابربن عبداللّٰہ عَنِ النَّبی فی قولہ’فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ‘نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ اِنَّہ یَنْتَقِمُ مِنَ النَّاکِثِیْنَ وَالقَاسِطِینَ بَعْدِی۔ ”جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم نے اس آیت”فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ علی میرے بعد ناکثین(بیعت توڑنے والے اصحابِ جنگ ِ جمل) اور قاسطین(جنگ ِ صفین میں لشکر معاویہ) سے انتقام لیں گے“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔       سیوطی ،تفسیر الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ20،آیت ِ مذکور کے ضمن میں۔ 2۔       ابن مغازلی شافعی، حدیث366کتاب ”مناقب ِ امیر الموٴمنین “، ص275اور320 3۔       حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، حدیث851، جلد2،صفحہ152، اشاعت اوّل۔ 4۔       شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة میں، باب26،صفحہ114اور اسی کتاب میں باب(مناقب)70،صفحہ287،حدیث24۔ 5۔       طبرانی، کتاب معجم الکبیر میں، جلد3،صفحہ111۔ پچیسویں آیت علی نے اپنی جانِ مبارک کامعاملہ اللہ تعالیٰ سے طے کرلیا وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ۔ ”اور آدمیوں میں سے ایسابھی ہے جو رضائے خدا حاصل کرنے کیلئے اپنے نفس کو فروخت کرتا ہے“۔(سورئہ بقرہ: آیت207)۔ تشریح پیغمبر اسلام کا مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا اور اُس سے ہی متعلق دوسرے اُمور ایسے موضوع ہیں جن پر تقریباً تمام تاریخ دانوں نے اپنی اپنی تواریخ میں لکھا ہے اور اس واقعہ میں پیغمبر اسلام کی بردباری ،صبروتحمل اور اُن کے وفادار اصحاب کی شان بیان کی ہے۔ ہجرتِ پیغمبر میں سب سے اہم واقعہ ہجرت کی رات کا ہے جب پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سوئے اور کفارِ مکہ جو جنگی ہتھیاروں سے لیس تھے ، کی طرف سے کسی بھی وقت حملہ کے منتظر رہے۔ نصف شب کے قریب مسلح کفار جنہوں نے نبی اکرم کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا، داخلِ منزل ہوئے۔ حضرت علی علیہ السلام بستر سے اُٹھے اور مقابلہ کیلئے تیار ہوئے۔ کفارِ مکہ نے جب حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے۔ اس طرح کفارِ مکہ کے تمام ارادے خاک میں مل گئے اور پیغمبر خدا کچھ دنوں بعد صحیح و سلامت مدینہ پہنچ گئے۔ بہت سے شیعہ اور اہلِ سنت علماء نے آیت ِ مذکور کو علی علیہ السلام کی فداکاری سے منسوب کیا ہے اور اس کی تائید میں بہت سی روایات نقل کی ہیں جن میں سے چند ایک بطورِ نمونہ درج کی جارہی ہیں، ملاحظہ ہوں: (ا)۔      عَنْ علی بن الحسین فی قولہ تعالٰی’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ‘قال نَزَلَتْ فِیْ عَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلَام حینَ بٰاتَ عَلٰی فِراشِ رَسُولِ اللّٰہِ۔ (المیزان) ”علی ابن الحسین امام زین العابدین علیہما السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت”وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہ“کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جب وہ شب ِہجرت پیغمبر خدا کے بستر پر سوئے تھے“۔ (ب)۔    رَوَی السُّدیُّ عَنْ اِبْنِ عَبَّاس قٰالَ نَزَلَتْ ھٰذِہِ الایۃُ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْہَ السَّلَام حِینَ ھَرَبَ النَّبِیعَنِ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْغٰارِ ونٰام علی عَلٰی فِراشِ النَّبی۔(مجمع البیان) ”سدی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ یہ آیت ”وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہ“ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام کفار کے شر سے بچنے کیلئے مدینہ کیلئے ہجرت کرتے ہوئے غارِ ثور کی طرف چلے اور علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سوئے۔ اسی طرح بہت سے علماء نے من جملہ صاحب ِمجمع البیان نے اس آیت کے بارے میں درج ذیل روایت بیان فرمائی ہے جو بہت زیادہ اہمیت کی حامل اور قابلِ توجہ ہے۔ روایت اس طرح ہے: لَمَّانَامَ عَلِیٌّ فِراشَہ قَامَ جِبْرَائِیلُ عِنْدَ رَاسِہِ وَمِیْکَائِیلُ عِنْدَ رِجْلَیْہِ وَجِبْرَائِیلُ یُنٰادِی بَخٌ بَخٌ مَنْ مِثْلُکَ یابْنَ اَبِیْ طَالِب؟ یُبٰاھِی اللّٰہُ بِکَ الْمَلٰائِکَۃُ۔ ”جب حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے بستر پر(شب ِہجرت)سوئے تو جبرئیل سرہانے کی طرف اور میکائیل پاؤں کی طرف کھڑے ہوگئے اور جبرئیل نے بہ آواز بلند کہا:’مبارک ہو،مبارک ہو، تم جیسا(باایمان اور فداکار) کون ہے؟ خداوند پاک فرشتوں کو مخاطب کرکے تم پر فخر کررہا ہے‘۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔       فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد5،صفحہ204،اشاعت دوم،تہران۔ آیت ِ مذکورکے بارے میں۔ 2۔       گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ239۔ 3۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ105،باب21۔ 4۔       ثعلبی، کتاب احیاء العلوم، جلد3،صفحہ238۔ 5۔       شبلنجی، کتاب نورالابصار میں، صفحہ86۔ منبع:islaminurdu.com