بی بی معصومہ قم سلام اللہ علیہ
بی بی معصومہ قم سلام اللہ علیہ
0 Vote
113 View
امام رضا علیہ السلام نے اپنی زیارت کے لئے فرمایا : جو شخص معرفت کے ساتھ میری زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (۲) امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا: من زارقبر عمتی بقم فلہ الجنۃ (۳) جو قم میں ہماری پھوپھی (فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے گا وہ بہشت کا مستحق ہے۔ جناب عبد العظیم علیہ الرحمۃ کے لئے امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا : اگر عبد العظیم کی قبر کی زیارت کرو گے تو ایسا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہے ۔ (۴) رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: من زارنی او زار احدا من ذریتی زرتہ یوم القیامۃ فانقذتہ من اھوائھا۔ (۵) جو میری یا میری اولاد میں سے کسی کی زیارت کرے گاتو قیامت کے دن میں اس کے دیدار کو پہنچوں گا اور اسے اس دن کے خوف سے نجات دلاوٴں گا ۔ شہر قم کا تاریخی سابقہ بعض حضرات قم کو قدیم شہروں میں شمار کرتے ہیں اور اسے آثار قدیمہ میں سے ایک قدیم اثر سمجھتے ہیں نیز شواہد و قرائن کے ذریعہ استدلال بھی کرتے ہیں مثلا قمی زعفران کا تذکرہ بعض ان کتابوں میں ملتا ہے کہ جو عہد ساسانی سے مربوط ہیں ۔ نیز شاہنامہ فردوسی میں ۲۳ء ھ کے حوادث میں قم کا ذکر بھی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کہ قم اور ساوہ بادشاہ ” تہمورث پیشدادی “ کے ہاتھوں بنا ہے ۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمام دلیلیں مدعا کو ثابت نہیں کرتی ہیں کیونکہ عہد ساسانی میں قم کی جغرافیائی و طبیعی حالت ایسی نہ تھی کہ وہاں شہر بنایا جا تا بلکہ ایسا شہر تہمورث کے ہاتھوں بنا یا جا نا ایک قدیم افسانہ ہے جس کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں ہے علاوہ ازیں شاہنامہ فردوسی میں ۲۳ ء ھ کے حوادث میں قم کا ذکر اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ اس دور میں بھی یہ زمین اسی نام سے موسوم تھی کیونکہ فردوسی نے اپنے اشعار میں محل فتوحات کے نام اس زمانے کے شہرت یافتہ و معروف ناموں سے یاد کیا ہے نہ کہ وہ نام کہ جو زمان فتوحات میں موجود تھے ۔ اسناد تاریخ اور فتوحات ایران کہ جو خلیفہ مسلمین کے ہاتھوں ہوئی اس میں سرزمین قم کو بنام ” شق ثمیرۃ “ یاد کیا گیا ہے ۔ اس بنا پر شہر قم بھی شہر نجف ، کربلا ، مشہد مقدس کی طرح ان شہروں میں شمار ہوتا ہے کہ جو اسلام میں ظاہر ہوئے ہیں ایسی صورت میں اس کے اسباب وجود کو مذہبی و سیاسی رخ سے دیکھنا ہوگا ۔ (۱) قم کی طرف خاندان اشعری کی ہجرت قم اسلامی شہروں میں سے ایک شہر ہے ۔ جس نے خاندان اشعری (۲) کے اس سرزمین پر ۸۳ ھ (۳) میں وارد ہونے اور ان کے سکونت پذیر ہونے کے بعد وجود پیدا کیا ہے اور اس کا نام قم رکھا گیا ۔ یہاں پر لازم ہے کہ خاندان اشعری کی ہجرت کے اسباب و علل پر توضیح دی جائے : خاندان اشعری حاکم کوفہ حجاج کے ظلم و ستم اور اپنے خاندان کی برجستہ شخصیت کے قتل کے بعد امن و سلامتی کا فقدان محسوس کرنے لگے تو جلا وطنی اختیار کر کے ایران کی طرف روانہ ہوگئے چلتے چلتے نہاوند پہنچے ، وہاں ایک وبا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ جاں بحق ہوگئے ۔ لہٰذا وہاں سے دوبارہ کوچ اختیار کرلیا اور اسی طرح آبلہ پائی کرتے ہوئے سرزمین قم پر وارد ہوگئے ان لوگوں کے قم آنے کی علت کیا تھی اس کے لئے ان کے جدبزرگ مالک کی فتوحات کوجنگ قادسیہ میںدیکھناپڑے گا مالک ، فراہان و تفرش اور آشتیان و ساوہ کو فتح کرنے کے بعد قوم دیلم کے ساتھ کہ جو لوگوں کے اموال کو ہڑپ لیتے اور وہاں کے رہنے والوں کی ناموس پر تجاوز کرتے تھے ۔ آمادہٴ پیکار ہوگئے اور انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور نیست و نابود کردیا اور جو ناموس انکے دست ستم سے اسیر تھیں انھیں آزاد کردیا اس زمانے کے لوگ خود کو مالک کا آزاد کردہ سمجھتے تھے ان لوگوں نے اس واقعہ کو ہمیشہ یاد رکھا ۔ قبیلہ اشعری کہ جو اس دیار کے نام سے آشنا تھے مستقل سکونت کے لئے اس سرزمین کی طرف روانہ ہوگئے جب یہ لوگ منزل ” تقرود “ ( جو ساوہ کے قرب و جوار میں ہے ) پہنچے تو احوص نے اس سر سبز و شاداب سرزمین کو سکونت اختیار کرنے کے لئے مناسب سمجھا تو وہاں قیام کے لئے غور و فکر کرنے لگے ۔ اعراب کی منزلگاہ کوہ یزدان ( در میان تقرود و قم )کی وادی میں تھی اسی وجہ سے آہستہ آہستہ خاندان اشعری کے ورود کی خبر یزدان پائدار (یزدانفاذار) زرد تشتیوں کے سردار تک پہنچ گئی ، وہ ان لوگوں کی آمد سے بہت خوش ہوا اور اس امر کی تصمیم کی کہ دیلمیوں کے حملے سے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کو قم میں پناہ گزیں کرے گا نیز ظالم قوم ، دیلم کی سرکوبی نے کہ جو احوص اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ ہوئی تھی یزدانفاذار کو اس سلسلے میں اور مصمم تر کردیا ( وہی حملہ مجدد جو احوص کے ہاتھوں ان منطقوں ہر ہوا تھا ) فتح و ظفر کی خبرسن کر وہ بذات خود احوص کے استقبال کے لئے روانہ ہوگیا اور تشکر کے عنوان سے ان کے سروں پر زعفران اور درہم نچھاور کئے ۔ ان کی قوم کو اس زمانے کے مشہور و معروف قلعے میں جگہ دی ان لوگوں نے اپنی چادروں کے ذریعہ ان قلعوں کے درمیان فاصلہ قائم کیا ۔ عبد اللہ ( احوص کے بھائی ) کے لئے اقامہ نماز اور احکام اسلام کے بیان کی خاطر ایک مسجد کی بنیاد ڈالی ۔ زرد تشتیوں نے مسلمانوں کے ساتھ اتنی صمیمیت و محبت پیدا کرلی کہ آپس میں بردباری و مواسات کے عہد نامے نیز پیمان دفاعی پر دستخط کردیا ۔ اس طرح مسلمان اعراب نے روز بروز اپنے محل سکونت کو وسعت دینا شروع کردیا اور بہت سارے گھر اور کھیتیاں خرید لیں اسی وجہ سے جدا جدا قلعے نئے نئے مکانات بننے کی وجہ سے آپس میں متصل ہونے لگے اس طرح ایک مکمل شہر وجود میں آگیا اور سب سے پہلے مسجد اس شہر میں بنائی گئی ۔ مذکورہ عہد و پیمان یزدانفاذار کی آنکھ بند ہونے تک بخوبی اجرا ہو رہے تھے ۔ اور مسلمانوں و زرد تشت دو قومیں آپس میں صلح و آشتی کی زندگی گزار رہی تھیں ۔ لیکن یزدانفاذار کی موت کے بعد اس کی اولاد مسلمانوں کی روز افزون حشمت و ثروت اور ان کے وسیع و مرتبہ و با جلالت مکانات دیکھ کر خود کو ذلیل و رسوا سمجھنے لگی اور اس سلسلے میں فکر کرنے لگی یہاں تک کے وہ لوگ پیمان شکنی پر آمادہ ہوگئے اور عبد اللہ و احوص ( بزرگان خاندان اشعری ) سے اصرار کرنے لگے کہ اپنی قوم کے ساتھ اس سرزمین سے باہر چلے جائیں عبد اللہ و احوص نے ان لوگوں کو بے حد پند و نصیحت کی اور انھیں وفائے عہد و پیمان کی دعوت دی ، عہد شکنی کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں ڈرایا لیکن قوم زرد تشت اسی طرح اپنی باتوں پر اڑی رہی اور نئے سال کی چودہ تاریخ تک کی مہلت دی تا کہ جو کچھ بھی ہے اسے فروخت کرکے یہاں سے چلے جائیں ۔ اس فاصلہ زمانی میں احوص نے بزرگان قبیلے سے مشورت کے بعد ارادہ کیا کہ سال کے آخری چہارشنبہ میں اس دیار کو زرد تشتیوں اور چالیس قلعوں کے بزرگوں سے نجات دلائیں گے نیز پاک سرشت افراد کے اسلام سے گرویدہ ہونے کی راہنمائی کریں گے ۔ اسی عزم کی بنیاد پر چالیس لوگوں کو مامور کیا کہ اس شب میں کہ جب زرد تشت جشن و خوشحالی اور شراب نوشی میں مشغول ہوں تو یہ لوگ ان قلعوں میں پہنچ کر ان قلعوں کے خداوٴں کو نیست و نابود کردیں ۔ یہ پالیسی بہت اچھی طرح کامیاب ہوئی اور زرد تشتیوں کے فتنہ پرور سردار اس شہر سے نکل بھاگے ۔ قلعہ کفر لجاجت منہدم ہوگیا وہاں کے لوگ آزادی محسوس کرتے ہوئے گروہ در گروہ مسلمان ہونے لگے اور آتشکدے یکی بعد دیگرے خاموش ہو کر مسجدوں میں تبدیل ہوگئے اس طرح سے مسلمانوں نے احوص و عبد اللہ اشعری کی رہبری میں سر بلندی حاصل کی (۴) اور شہر قم بعنوان شہر امامی مذہب معرض وجود میں منصئہ شہود پر ظہور پذیر ہوگیا ۔ اور امامی شیعوں کا فقہی مکتب عبد اللہ بن سعد اور ان کے فرزندوں کے ہاتھوں اس شہر میں قائم ہوا ۔ گزشت زمان کے ساتھ ساتھ قم پیرو فقہ اہلبیت کے شہر سے معروف ہوگیا اس طرح اس شہر نے ایک درخشاں ستارہ کی طرح عالم اسلام کے مطلع پر تابناکی حاصل کر لی ۔ آہستہ آہستہ یہ شہر پیروان امامت و ولایت کا مامن و پناہ گاہ قرار پاگیا ۔ یہاں تک کہ مہاجر شیعوں کی تعداد چھ ۶ ہزار تک پہنچ گئی ۔ (۵) قم کا فرہنگی ، سیاسی سابقہ اہل قم نے ایسی اہمیت و عظمت حاصل کی کہ گویا حکومت اسلامی کے مرکز میں زندگی بسر کر رہے ہیں لہٰذا آغاز ظہور خلافت عباسی میں ۱۳۲ئھ سے لے کر حکومت ہارون کے اواخر تک ان لوگوں نے حکومت وقت کو ٹیکس نہیں دیا اور کسی خلیفہ میں اتنی جراٴت و ہمت نہ ہوئی کہ ان سے مقابلہ کرتا ۔ ہارون الرشید کی خلافت کے زمانے میں جس میں اسلامی حکومت نے بیشترین وسعت حاصل کی ۱۸۴ئھ میں یہ طے پایا کہ محبان اہلبیت کو تحت فشار قرار دیا جائے اور ظلم و ستم کے مخالف اہل قم کی سر کوبی کی جائے ۔ اسی عزم کے تحت ہارون نے عبد اللہ بن کوشید قمی کو حکومت اصفہان ( قم اس وقت اصفہان کے توابع میں شمار ہوتا تھا ) کا حاکم قرار دیا تا کہ وہ پچاس سال سے زیادہ کا ٹیکس قم سے وصول کرے ۔ اس نے اپنے بھائی عاصم کو عامل قرار دیا ۔ عاصم مختلف اذیتوں اور آزار کے با وجود گذشتہ مالیات سے ایک درہم بھی نہ لے سکا لیکن اس نے اسی طرح مظالم کو جاری رکھا یہاں تک کہ بعض بزرگوں نے شفاعت و سفارش کی لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا ان واسطوں کے بے اثر ہونے کے بعد عاصم بعض جان باز افراد کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا ۔یہی واقعہ باعث ہوا کہ عبد اللہ حکومت اصفہان سے معزول ہوگیا لیکن وہ فوراً دارالخلافہ روانہ ہوا اور اس دس ہزار درہم دے کر گزارش کی کہ اسے اس کے عہدے پر باقی رہنے دیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ اصفہان کی تابعیت سے قم خارج ہوجائے ۔ آخر کار قانع کنندہ توضیحات اور حمزہ بن یسع ( از بزرگان قم ) کے بیانات اور شہر کے ٹیکس کے ذمہ دار ہونے کے بعد ہارون نے قم کی استقلالیت کو قبول کرلیا اس کے حدود کی تعیین کے بعد جامع مسجد بنائی گئی نیز امام جمعہ کے لئے ایک منبر نصب کیا گیا ۔ ( یہ استقلال کی علامت تھی ) (۶) استقلال کے وقت اس سرزمین پر دو شہر موجود تھے ایک نیا اسلامی شہر بنام قم اور دوسرا زرد تشتیوں کا شہر بنام ” کلیدان “ حکومتی کارندے اور شہر کا قید خانہ وہیں تھا کیونکہ اہل قم عاملان حکومت کو اپنے شہر میں داخلے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔ ستمگروں سے اہل قم کا مبارزہ اہل قم اپنے زمانے کے ستمگر حاکموں سے ہمیشہ دست و گریباں رہے اور موقع پاکر شورش و انقلاب بھی برپا کرتے تھے ۔ (نیز ٹیکس دینے ) اور حکومت کی اقتصادی حمایت سے پرہیز کرتے تھے ۔ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد اور مامون کے مظالم سے آگاہی کے بعد اہل قم نے ۲۰۳ئھ اس فاجعہ عظیم کی بنیاد پر بعنوان اعتراض اور ولایت و امامت کے مقدس حریم کی حمایت کرتے ہوئے ایک بے سابقہ انقلاب برپا کردیا اور عباسی حکمرانوں کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرلی سالانہ مالیات دینے سے انکار کردیا ۔ اس انقلاب نے دس سال تک طول پکڑا آخر کار علی بن ہشام کی قیادت میں سپاہیوں کی یورش سے بہت سارے بزرگان شہر جن میں یحییٰ بن عمران ( اہل قم کے بزرگ جو اس قیام کے نظام کو سنبھالے تھے ) بھی تھے قتل کردئے گئے شہر کا ایک حصہ بر باد ہو گیا اور گزشتہ مالیات بھی (زبردستی) وصول لی گئی ، اہل شہر آہستہ آہستہ شہر کو بنانے لگے یہاں تک کہ ۲۱۶ ہجری تک شہر پھر ایک اطمینان بخش حالات میں تبدیل ہو گیا ۔ اسی سال ( معتصم کی خلافت کے زمانے میں ) لوگوں نے قم کے دار الحکومت پر حملہ کردیا اور شہر کے عامل ( طلحی ) کو شہر سے باہر نکال دیا اور علم مخالفت بلند کردیا ۔ طلحی کے بھڑکانے پر معتصم نے وصیف ترک کی سر براہی میں سپاہی روانہ کئے تا کہ اہل شہر کو خاموش کیا جائے اس نے بھگائے ہوئے حاکم کی مدد سے مختلف حیلہ و مکر کے ذریعہ شہر میں راستہ بنا لیا اس کے سپاہی اہل شہر کے قتل اور غارت گری میں مشغول ہوگئے اور انقلابی افراد کے گھروں ، باغوں میں آگ لگانے لگے اس طرح شہر کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ۔ لیکن اس تمام قتل و غرت گری نے نفرت و بیزاری کے سوا کچھ نہ دیا ۔ اسی مخالفت و اعتراض کی بنیاد پر ایک شخص کو بنام محمد بن عیسیٰ ( جو کہ ایک خوشخو اور انسان دوست شخص تھا ) قم کی حاکمیت سونپی گئی ۔ نئے حاکم نے اپنی ساجھ بوجھ کے ذریعہ لوگوں کی رضایت حاصل کی اور محبت کی بیچ کو ان کے درمیان چھینٹ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۴۵ ہجری تک شہر میں کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا ۔ آخر کار متوکل ( ایک جسور اور لا ابالی شخص ، جسے مقدسات دین کی اہانت کرتے ہوئے کوئی خوف و ہراس محسوس نہ ہوتا تھا مثلاً علی الاعلان حضرت علی اور حضرت صدیقہ طاہرہ علیہما السلام کو گالی دینا ، مرقد امام حسین علیہ السلام کو تاراج کرنا ) کی خلافت کے زمانے میں عاشق ولایت و امامت اہل قم بزرگان دین کے ساتھ ایسی جسار تیں اور اہانتیں دیکھنے کے بعد اس قدر غصہ ہوئے کہ موقع نکال کر حکومت عباسی کے معارضین مانند حسین کوکبی ( اشراف سادات علوی ) کا ساتھ دے کر ایک چھوٹی سے علوی حکومت تشکیل دےدی اور حکومت کے عمال کو نکال دیا ۔ تین سال تک یہ حکومت برقرار رہی ۔ آخر کار معتمد عباسی نے ”بلادجبل “ کے حاکم کو مامور کیا کہ حکومت علوی کو ختم کر کے قمیوں کے قیام کی سر کوبی کرے ۔ اس نے ایک کثیر فوج کے ساتھ حسین کوکبی کی حکومت کو ختم کرنے کے بعد اہل قم کو سرکوب کرنا اور ان کے بزرگوں کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ بعض کو قید کر دیا ۔ لوگوں پر ظلم وستم کرنے میں اس نے اتنی زیادتی کی کہ ان لوگوں نے امان پانے کے لئے امام حسن عسکری علیہ السلام کی پناہ اختیار کی حضرت نے اس شر عظیم سے نجات پانے کے لئے انہیں ایک دعا تعلیم فرمائی کہ اسے نماز شب میں پڑھیں ، یہ سر کوبیاں ، انقلاب اور ظلم و ستم کے خلاف قیام کے آتش فشاں کو خموش نہ کر سکیں ۔ اسی بنا پر اہل قم نے فقط معتمد سے در گیری کی وجہ سے یعقوب لیث کے ہمراہ ۲۶۳ ہجری میں دوبارہ اس کے مقابلے میں قیام کردیا ۔ یہ انقلاب کبھی کبھی ظہور پذیر ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ معتضد عباسی کی طرف سے یحییٰ بن اسحاق جو شیعہ تھے قم کے حاکم منصوب ہوئے وہ چونکہ نرم خو اور تجربہ کار انسان تھے اس لئے کوشش کی کہ خلفاء کی طرف سے لوگوں کا بغض و کینہ کم ہوجائے اور شورش و ہنگامہ کو روک سکیں وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے ۔ ان کی مدد سے امن و امان اور شہر میں بنیادی اقدامات ہونے لگے ۔ مثلاً اس سرزمین کا آخری آتشکدہ بجھایا گیا ، ایک عظیم منارہ و ماذنہ مسجد ابو الصدیم اشعری کے پاس تعمیر کیا گیا جس کی اذان کی آواز شہر کو دونوں حصوں میں پہنچتی تھی ۔ (۷) فرہنگی ، سیاسی انقلاب اسی زمانے میں علی بن بابویہ نے اپنی مرجعیت عامہ کے ذریع ایک بے نظیر اور پر برکت مکتب کا قم میں قیام کیا جس میں تربیت پانے والوں کی تعداد دو لاکھ تک نقل کی گئی ہے ۔ (۸) ستارہ بابویہ ہی کے طلوع کے بعد حکومت سے مبارزہ کی روش بالکل بدل گئی اور ان لوگوں نے اصولی جنگ شروع کردی۔ ایک طرف تو فرزندان بابویہ کو تقویت بخشی اور ان کی قدرت سے یکی بعد دیگری خلفاء کو ہٹا تے رہے اور طبرستان میں حکومت آل علی علیہ السلام بنام ” ناصر کبیر و ناصر صغیر “ وجود میں لے آئے تو دوسری طرف علمائے اسلام تبلیغ و ترویج معارف دینی کی خاطر قم سے امراء کی خدمت میں پہنچ گئے اور ان میں سے اکثر و بیشتر مقام وزارت و امارت و ریاست پر پہنچ گئے اور نام وزرائے قم زینت بخش تاریخ حکومت و سیاست ہوگیا ۔ حکومت رکن الدولہ دیلمی کے دور میں ابن بابویہ کے مشورہ سے ابن العمید کی وزارت اور آپ کی صلاحدید کا نتیجہ تھا کہ استاد ابن العمید کی دعوت پر شیخ صدوق نے قم سے ری کا سفر اختیار کیا ، نیز گرانقدر علمی و فرہنگی آثار جو اسی ہجرت کا نتیجہ تھے تمام کے تمام اسی بزرگ زعیم شیعی کے سیاسی اقدامات کا ثمرہ ہیں ۔ اسی طرح ابن قولویہ مرحوم کا بغداد کا سفر کرنا اور وہاں مسجد براثا میں مکتب فقہ جعفری کا قیام کرنا نیز مختلف علمی ، فرہنگی اقدامات جنہوں نے تمام عالم اسلام میں وسعت پیدا کی تمام کے تمام قم مکتب ابن بابویہ کی برکتوں سے تھے ۔ یہ اسی پر برکت مکتب کا ثمرہ تھا کہ جس نے محدود انقلاب کو عظیم فرہنگی ، سیاسی انقلاب میں تبدیل کردیا اور بڑے بڑے سیاسی ، فرہنگی عہدے مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تربیت یافتہ افراد کے اختیار میں آگئے اور حکومت عدل و معارف شیعی کی پیاسی بشریت کو اسلام حقیقی اور شیعیت کے صاف و شفاف چشمہ سے سیراب کر دیا (۹) یہ نورانی ستارہ اپنی روز افزون آب و تاب کے ساتھ آج بھی لاکھوں مسلمانوں کی مشعل راہ اور ناامیدوں کی امید ہے در حقیقت قم ام القرائے عالم اسلام ، حرم اہلبیت اور آشیانہ آل محمد علیہم السلام ہے ۔ قم کی مذہبی نورانیت مذہبی اور روحانی اعتبار سے قم کے امتیاز اور اس کی شرافت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ کل سے لے کر آج تک تیرہ سو سال کی مدت میں شیعیت کا مرکز علم و آگہی ، فضیلت و کرامت کا گہوارہ ، حکمت و معرفت کا جوش مارتا ہوا سر چشمہ ، یہی مقدس شہر جسے قم کہا جاتا ہے ۔ آئیں تشیع اور نشر معارف دینی و فرہنگی اسلام کے احیاء میں علمائے قم کی زحمتیں اس حد تک پھلدار ثابت ہوئیں کہ تاج کرامت ان کے سروں سجا دیا گیا ۔ ”لولا القمیون لضاع الدین “(۱۰) ( اگر اہل قم نہ ہوتے تو دین برباد ہو جاتا ) ۔ ہاں قم ایک ایسا شہر ہے جس کی پہلی معنوی بنیاد اصحاب و محبان اہلبیت علیہم السلام نے ڈالی ۔ خاندان اشعری نے ایمان و تولائے آل محمد علیہم السلام کے مسالے سے اس عمارت کو تعمیر کیا اور اس شہر کی بنیاد ۸۳ ہجری (۱۱) میں ڈالی اور امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہما السلام کے زمانے میں اس کی طراحی ہوئی یہ شہر مرکز اسلام کی سر براہی میں ایک مستقل ملک کی طرح خاص مقررات اور مزیت کا حامل تھا حتی اس دور میں بھی کہ جب شیعوں نے گھٹن کا دور دیکھا ہے اہل قم نے بدون تقیہ با کمال آزادی اس دیار مقدس میں آثار واخبار آل محمد علیہم السلام اور انکی تدوین میں کوئی کم و کاست نہ کی نیز اذان کے فلک شگاف نعرہ میں فراز ارتفاعات پر ولایت علی علیہ السلام کی شہادت دیتے تھے ۔ مکتب امامیہ خاندان اشعری کے توسط سے پہلی مرتبہ قم میں افتتاح پذیر ہوا جس میں فقہ شیعہ علی الاعلان پڑھائی جاتی تھی ۔ اس طرح ہدایت کے مشعل اس شہر میں روشن ہو گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل قم ہمیشہ ائمہ معصومین کی عنایت خاصہ کے مورد نظر رہے ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام نے قم اور اہل قم کی فضیلت و عظمت کے بارے میں مختلف حدیثیں ارشاد فرمائی ہیں ان احادیث میں سے کچھ چنندہ حدیثیں ذکر کی جاتی ہیں : ۱- قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لما اسری بن الی السماء حملنی جبرئیل علی کتفہ الایمن فنظرت الی بقعۃ بارض الجبل حمراء احسن لونا من الزعفران و اطیب ریحا من المسک فاذا فیہا شیخ علی راٴسہ برنس فقلت لجبرئیل : ما ہذہ البقعۃ الحمراء التی ہی احسن لونا من الزعفران و اٴطیب ریحا من المسک ؟ قال : بقعۃ شیعتک و شیعۃ وصیک علی علیہ السلام ۔ فقلت: من الشیخ صاحب البرنس ؟ قال : ابلیس ۔ فقلت : فما یرید منہم ؟ قال : یرید ان یصدہم عن ولایۃ امیر الموٴمنین و یدعوہم الی الفسق و الفجور ۔ قلت : یا جبرئیل اہو بنا الیہم ، فاٴہویٰ بنا الیہم اسرع من البرق الخاطف و البصر الامع ، فقلت : قم یا ملعون ! فشارک اعدائہم فی اموالہم و اولادہم فان شیعتی و شیعۃ علیٍ لیس لک علیہم سلطان ، فسمیت قم ۔ (۱۲) ترجمہ : رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں : کہ جب مجھے آسمان کی سیر کرائی گئی تو جبرئیل نے مجھے اپنے داہنے شانے پر اٹھایا تو اس وقت میں نے ” ارض جبل “ میں ایک بقعہ کی طرف دیکھا جو سرخ رنگ اور زعفران سے زیادہ خوش رنگ اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھی ، ناگہاں اس سرزمین پر ایک بوڑھے کو دیکھا جس کے سر پر ایک لمبی سی ٹوپی تھی ۔ میں نے جبریل سے پو چھا! یہ کون سی زمین ہے کہ جس کی سرخی زعفران سے زیادہ خوش رنگ اور جس کی خوشبو مشک سے زیادہ ہے ؟ تو جبرئیل نے جواب دیا : یہ آپ کے اور آپ کے وصی علی علیہ السلام کے شیعوں کا بقعہ ہے ۔ پھر میں نے پوچھا : یہ بوڑھا کون ہے جس کے سر پر ایک لمبی سی ٹوپی ہے ؟ تو جبرئیل نے جواب دیا : ابلیس ہے (یہ سنتے ہی ) میں نے ( جبرئیل سے ) کہا :اے جبرئیل مجھے وہاں لے چلو جبرئیل نے برق رفتاری سے بھی زودتر مجھے وہاں پہنچا دیا ۔ پس میں نے اس سے کہا : اٹھ جا ائے ملعون اور دشمنان شیعہ کے اموال و اولاد و خواتین میں شریک ہو کیونکہ میرے اور علی کے دوستداروں پر تیرا کوئی تسلط نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے اس کا نام ” قم “ ہو گیا ۔ (۱۳) ۲- قال الصادق علیہ السلام : انما سمی قم لان اہلہ یجتمعون مع قائم آل محمد و یقومون معہ و یستقیمون علیہ و ینصرونہ ۔ (۱۴) ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اس شہر کا نام قم اس لئے رکھا گیا کہ اس شہر کے لوگ قائم آل محمد علیہم السلام کے ساتھ اجتماع کریں گے اور ان کے ساتھ قیام کریں گے اور اسپرڈٹے رہیں گے نیز ان کی مدد کریں گے ۔ ۳-قال الامام کاظم علیہ السلام : قم عش آل محمد و ماٴوی شیعتہم ۔ ترجمہ : امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا : قم آشیانہ آل محمد اور شیعوں کی پناہ گاہ ہے ۔ (۱۵) ۴-قال الامام الرضا علیہ السلام : ان للجنۃ ثمانیۃ ابواب و لاہل قم واحد منہا فطوبی لہم ثم طوبی لہم ثم طوبی لہم (۱۶) ترجمہ : امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بہشت کے آٹھ ابواب ہیں ان میں سے ایک اہل قم کے لئے ہے پس ان کے لئے خوشا بحال ۔ (حضرت نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا ) ۵-قال الامام الصادق علیہ السلام : سیاٴ تی زمان تکون بلدۃ قم و اہلہا حجۃ علی الخلائق و ذلک فی زمان غیبۃ قائمنا الی ظہورہ ۔ (۱۷) ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : ایک زمانہ ایسا آئے گا شہر قم اور وہاں کے رہنے والے تمام لوگوں پر حجت ہونگے اور یہ زمانہ ہمارے قائم (عج) کی غیبت میں ہوگا یہاں تک کہ وہ ظہور کریں ۔ ۶-قال الامام الصادق علیہ السلام :تربۃ قم مقدسۃ و اہلہا منا و نحن منھم لا یریدہم جبار بسوء الا عجلت عقوبتہ ما لم یخونوا اخوانہم ۔ (۱۸) ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : تربت قم مقدس ہے اہل قم ہم میں سے ہیں اور ہم ان سے ہیں کوئی ستمگر ان کے ساتھ برائی کا قصد نہیں کرسکتا ہے مگر یہ کہ اس کے عذاب میں تعجیل ہوگی تا وقتیکہ لوگ اپنے دینی بھائی سے خیانت نہ کریں ۔ ۷-قال الامام الصادق علیہ السلام : محشر الناس کلہم الی بیت المقدس الا بقعۃ بارض الجبل یقال لہا قم فانہم یحاسبوا فی حفرہم و یحشرون من حفرہم الی الجنۃ ۔ (۱۹) ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : تمام لوگ بیت المقدس کی طرف محشور ہوں گے مگر سرزمین ” ارض الجبل “ کے افراد جسے قم کہتے ہیں ان لوگوں کا حساب انہی کی قبروں میں ہوگا اور وہیں سے جنت کی طرف محشور ہوں گے ۔ ۸-عن الامام الصادق علیہ السلام : ( ا نہ علیہ السلام اشار الی عیسی بن عبد اللہ ) فقال : سلام اللہ علی اہل قم ، یسقی اللہ بلادہم الغیث و ینزل اللہ علیہم البرکات و یبدل اللہ سیاٴتہم حسنات ہم اہل رکوع و سجود و قیام و قعود ، ہم الفقہاء الفہماء ہم اہل الدرایۃ و الروایۃ و حسن العبادۃ ۔ (۲۰) ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے عیسیٰ بن عبد اللہ قمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اہل قم پر خدا کا سلام ہو ، خدا ان کے شہر کو بارش رحمت سے سیراب کرے اور ان پر برکتیں نازل فرمائے ، ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل ڈالے ۔ یہ لوگ اہل رکوع و سجود و قیام و قعود ہیں یہ لوگ فہمیدہ فقہاء ہیں ۔ یہ لوگ اہل روایت و درایت اور بہترین عبادت کرنے والے ہیں ۔ ۹-قال ابو الصلت الہروی کنت عند الرضا علیہ السلام فدخل علیہ قوم من اہل قم فسلموا علیہ فرد علیہم و قربہم ثم قال لہم : مرحبا بکم و اہلا فاٴنتم شیعتنا حقا ۔ (۲۱) ترجمہ : ابو صلت ہروی کہتے ہیں کہ ہم لوگ امام رضا علیہ السلام کے پاس تھے کہ اسی اثناء میں قم کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے پس ان لوگوں نے حضرت کو سلام کیا تو حضرت نے جواب سلام دیا اور اپنے نزدیک بیٹھا یا پھر ان سے فرمایا ۔ مرحبا خوش آمدید تم لوگ ہمارے حقیقی شیعہ ہو ۔ ۱۰-قال الامام الصادق علیہ السلام : ستخلو کوفۃ من الموٴمنین و یاٴزر عنہا العلم کما تاٴزر الحیۃ فی حجرہا ثم یظہر العلم ببلدۃ یقال لہا قم ، یصیر معدنا للعلم و الفضل ۔ (۲۲) ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : عنقریب کوفہ موٴمنوں سے خالی ہو جائے گا اور علم وہاں سے اس طرح جمع ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں خود کو لپیٹ لیتا ہے پھر ایک شہر میں علم ظاہر ہوگا جسے قم کہتے ہیں اور وہ مرکز علم و فضل قرار پائے گا ۔ ۱۱- روی بعض اصحابنا قال : کنت عند ابی عبد اللہ علیہ السلام جالسا اذ قرء ہذہ الآیۃ : ”فاذا جاء وعد اولٰہما بعثناعلیکم عبادا لنا اولیٰ باٴس شدید فجاسوا خلال الدیار و کان وعدا مفعولا “ (سورۃ بنی اسرائیل / ۵) فقلنا : جعلنا فداک ۔ من ہوٴلاء ؟ فقال ثلاث مرات ہم واللہ اہل قم ۔ (۲۳) ترجمہ : ہمارے بعض اصحاب نے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی اثناء میں آپ نے اس آیہ شریفہ ” فاذا جاء وعد“ (پھر جب ان دو فسانوں میں پہلے کا وقت آپہونچا تو ہم نے تم پر کچھ اپنے بندوں (بخت النصر) اور اس کی فوج مسلط کردیا جو بڑے سخت لڑنے والے تھے تو وہ لوگ تمہارے گھروں میں گھسے( اور خوب قتل و غارت کیا اور خدا کے عذاب کا وعدہ تو پورا ہو کر رہا ) کی تلاوت فرمائی ۔ تو ہم لوگوں نے پوچھا ہماری جانیں آپ پر قربان ہوں اس آیت سے مراد کون لوگ ہیں تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا خدا کی قسم وہ اہل قم ہیں ۔ ۱۲- قال الامام الکاظم علیہ السلام : رجل من اہل قم یدعو الناس الی الحق یجتمع معہ قوم کزبر الحدید لا تزلہم الریاح العواصف و لا یملون من الحرب و لا یجبنون و علی اللہ یتوکلون و العاقبۃ للمتقین ۔ (۲۴) ترجمہ : امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا : اہل قم میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی دعوت دے گا ۔ ایک گروہ آہن کی طرح استحکام کے ساتھ اس کی ہمراہی کرے گا جسے حوادث کی تند ہوائیں ہلا نہیں پائیں گی وہ لوگ جنگ سے تھکن محسوس نہیں کریں گے ، اور نہ ہی ڈریں گے وہ لوگ خدا پر بھروسہ رکھنے والے ہونگے ( بہترین ) عاقبت تو پرہیزگاروں کے لئے ہے ۔ ۱۳- قال الامام الصادق علیہ السلام : ان اللہ احتج بالکوفۃ علی سائر البلاد و بالموٴمنین من اہلہا علی غیرہم من اہل البلاد و احتج ببلدۃ قم علی سائر البلاد و باہلہا علی جمیع اہل المشرق و المغرب من الجن و الانس و لم یدع اللہ قم و اہلہا مستضعفا بل وفقہم و ایدہم ۔ (۲۵) ترجمہ : امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : اللہ نے کوفے کو سارے شہر پر حجت قرار دیا ہے اور وہاں کے با ایمان افراد کو دوسرے شہر کے لوگوں پر حجت قرار دیا ہے اور شہر قم کو دوسرے شہروں پر حجت قرار دیا ہے اور وہاں کے لوگوں کو مشرق و مغرب کے تمام جن و انس پر حجت قرار دیا ہے ۔ خداوند عالم نے قم اور اہل قم کو یونہی نہیں چھوڑدیا کہ مستضعف اور غریب ( فکری و فرہنگی ) ہوجائیں بلکہ انہیں توفیق دی اور ان کی تائید فرمائی ہے ۔ ۱۴- قال الامام الصادق علیہ السلام : ان لِلّٰہِ حرما و ہو مکہ و ان للرسول حرما و ہو المدینہ و ان لامیرالموٴمنین حرما و ہو الکوفۃ و ان لنا حرما و ہو قم و ستدفن فیہا امراٴۃ من اولادی تسمی فاطمۃ فمن زارہا وجبت لہ الجنۃ ۔ (قال الراوی : و کان ہذا الکلام منہ قبل ان یولد الکاظم علیہ السلام )۔ (۲۶) ترجمہ : امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : بے شک خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے ، رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے امیرلموٴمنین علیہ السلام کے لئے ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے ، ہمارے لئے ایک حرم ہے اور وہ قم ہے عنقریب ہماری اولاد میں سے ایک خاتون وہاں دفن کی جائے گی جس کا نام فاطمہ ہوگا جو اس کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی ۔ راوی کہتا ہے کہ امام علیہ السلام نے یہ حدیث اس وقت ارشاد فرمائی تھی کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے ۔ اس کے علاوہ ائمہ معصومین علیہم السلام اہل قم اور وہاں کے بعض بزرگوں کو اپنی عنایتوں کے سایہ میں رکھتے تھے ان کے لئے ھدیئے خلعتیں مثلا انگوٹھی ، کفن کا کپڑا بھیجا کرتے تھے ۔ (۲۷) نیز بعض بزرگوں کے حق میں گرانقدر حدیثیں بیان فرمائی ہیں بطور نمونہ بعض حدیثیں مذکور ہیں : ۱۔ امام رضا علیہ السلام نے زکریا بن آدم سے اس وقت فرمایا کہ جب وہ قم سے باہر جانا چاہتے تھے : قم سے باہر نہ جاوٴ ( کیونکہ ) خدا تمھاری وجہ سے اہل قم سے بلا کو دور رکھتا ہے جس طرح موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کے وجود نے اہل بغداد سے بلا کو دور رکھا ۔ (۲۸) ۲۔ امام صادق علیہ السلام نے عیسیٰ بن عبد اللہ قمی کے بارے میں فرمایا : تم ہمارے اہل بیت میں سے ہو ۔ پھر حضرت نے فرمایا عیسیٰ بن عبد اللہ ایسے انسان ہیں جنھوں نے اپنی حیات و ممات کو ہماری موت و زندگی سے ہم آہنگ کر لیا ہے ۔ (۲۹) ۳۔ امام صادق علیہ السلام نے عمران بن عبد اللہ قمی سے فرمایا : خداوند عالم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم کو اور تمھارے خاندان کو روز قیامت ( جہاں کوئی سایہ نہیں ہوگا ) اپنی رحمت کے سایہ میں قرار دے ۔ (۳۰) ۱۔ گنجینہ آثار قم ( عباس فیضی ) : ج/۱ ، ص/۷۰ ۔ ۲۔ اس قبیلہ نے اوائل بعثت میں یمن سے مدینہ ہجرت کی تھی اور آنحضرت پر ایمان لائے تھے اس قبیلہ کے بزرگ مالک بن عامر بن ہانی ہیں جنھوں نے جنگ قادسیہ میں اپنے ہدایت یافتہ ہونے اور بلند نفسی کا ثبوت پیش کیا آپ عبد اللہ اور احوص کے جد ہیں یہ دونوں بزرگوار قم کے شیعوں کا مرکز بنانے میں بنیادی کردار رکھتے ہیں ۔ ( گنجینہ آثار قم : ج/۱، ص/۱۳۷ ) ۳۔ معجم البلدان : ج/۴، ص/۳۹۷ ۔ ۴۔ تاریخ قدیم قم ( حسن بن محمد بن حسن قمی ) ص/۲۴۵۔ ۲۵۷، باتصرف ۔ ۵۔ گنجینہ آثار قم :عباس فیضی ۔ج/۱ ، ص ۱۵۴ ۶۔ گنجینہ آثار قم : عباس فیض ج/۱ ، ص/۱۵۴ ۔ ۷۔ گنجینہ آثار قم : ج/۱ ، ص/۳۵۳ ۔ ۸۔ مدرک سابق : ص/۱۶۲ ۔ ۹۔ گنجینہ آثار قم : ج/۱ ، ص/۱۶۲ ۔ اضافہ و تصرفات کے ساتھ ۱۰۔ بحار الانوار ج/۶۰، ص/ ۲۱۷ ۱۱۔ معجم البلدان ج/ ۴ ، ص/ ۳۹۷ ۔ ۱۲۔ بحارالانوار : ج/۶۰، ص/ ۲۰۷ ۔ ۱۳۔ یہ حدیث اور اس قسم کی دوسری حدیثیں انسان کو حیران کر دےتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرئیل سے دریافت کیا کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟ کیا العیاذ باللہ جبرئیل کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سے زیادہ علم تھا ؟ واضح ہے کہ اس کا جواب منفی میں ہوگا ۔ تو پھر اس حدیث اور اس قسم کی دوسری حدیثوں کی توجیہ کیا ہو گی ؟ اس سلسلے میں جب ہم تحقیقی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خود اسی موضوع پر بہت روایتیں موجود ہیں ۔ کتاب اصول کافی جو شیعوں کی معتبر کتاب ہے اس میں ایک باب ہے جو کتاب الحجہ کے ابواب میں سے ایک باب ہے جس کا موضوع ہے : ”ان الائمۃ علیہم السلام اذا شاوٴوا انْ یعلمو علموا “ ( یعنی ائمہ علیہم السلام جب معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تب جانتے ہیں )اس موضوع کے تحت کلینی رحمۃ اللہ علیہ نے تین حدیثیں ذکر فرمائی ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک کا مفہوم و منطوق یہی ہے کہ ائمہ موصومین علیہم السلام ہر وقت اپنے علوم وھبی سے استفادہ نہیں کرتے ہیں ۔ خود پیغمبر اسلام نے قضاوت کے سلسلے میں فرمایا کہ میں گواہ ہوں اور قسموں کے ذریعہ حکم نافذ کروں گا ۔ لہٰذا اس قسم کے سوالات جو ائمہ معصومین علیہم السلام اور خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کیا کرتے تھے اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا تھا کہ انھیں اس امر کا علم نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہرجگہ اپنے علوم کو استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ جب ان کی مشیت ہوتی تھی تب علم لدنی سے استفادہ فرماتے تھے ۔ مترجم ۔ ۱۴۔ بحار الانوار : ج / ۶۰ ، ص / ۲۱۶ ۔ ۱۵۔ مدرک سابق : ص / ۱۲۴ ، ۱۶۔ مدرک سابق : ص / ۲۱۵۔ ۱۷۔ مدرک سابق : ص/ ۲۱۳ ۔ ۱۸۔ بحار الانوار : ج/۶۰ ، ص/ ۲۱۸ ۔ ۱۹۔ مدرک سابق ۲۰۔ مدرک سابق : ص/ ۲۱۷ ۔ ۲۱۔ بحار الانوار : ج۶۰ ، ص/ ۲۳۱ ۔ ۲۲۔ مدرک سابق ص/ ۲۱۳ ۔ ۲۳۔ مدرک سابق ص/ ۲۱۶ ۔ ۲۴۔ بحار الانوار : ج/۶۰ ، ص/ ۲۱۶ ۔ ۲۵۔ مدرک سابق ص/ ۲۱۳ ۔ ۲۶ ۔ مدرک سابق ص/ ۲۱۶ ۔ ۲۷۔سفینہ البحار ج/۲ ، ص/ ۴۴۷۔ ۲۸۔ بحار الانوار ج/ ۶۰ ، ص/ ۲۱۷ ۔ ۲۹۔ معجم الرجال الحدیث ج/۱۳ ، ص/ ۲۱۴۔ ۳۰۔ مدرک سابق ص/ ۱۵۸ ۔