د ین کی حقیقت
د ین کی حقیقت
0 Vote
141 View
دین کی تعریف لغوی تعریف عربی میں دین کے معنی، اطاعت اور جزا کے ھیں۔ صاحب مقاییس اللغة کے مطابق اس لفظ کی اصل انقیادو ذلّ ھے اوردین اطاعت کے معنی میں ھے۔ مفردات میں راغب کھتے ھیں: ”دین ، اطاعت اور جزا کے معنی میں ھے۔ شریعت کو اسلئے دین کہا جاتا ھے کیونکہ اس کی اطاعت کی جانی چاہئے ۔“ قرآن کریم میں ”دین“ کا استعمال قرآن کریم میں دین، مختلف معانی میں استعمال ھوا ھے ۔ کبھی جزا اور حساب(۱) کے معنی میں تو کبھی قانون و شریعت(۲) اور کبھی اطاعت اور بندگی(۳) کے معنی میں۔ دین کے اصطلاحی معنی مغربی دانشمند اس سلسلے میں مختلف نظریات کے حامل ھیں اور انھوںنے دین کی مختلف تعریفیں کی ھیں جن میں کچھ مندرجہ ذیل ھیں: (۱) دین الوھیت کے مقابلے میں پیدا ھونے والے ان احساسات ، اعمال اور معنوی حالات کو کھا جاتا ھے جو تنھائی اور خلوت میں کسی فرد کے دل میں پیدا ھوتے ھیں۔ (ولیم جیمز) (۲) دین، عقائد،اعمال، رسوم اور دینی مراکز پر مشتمل اس مجموعے کا نام ھے جس کو مختلف افراد، مختلف معاشروں میں تشکیل دیتے ھیں۔ (پرسنز) (۳) دین اس حقیقت کے اعتراف کا نام ھے کہ تمام موجودات اس موجود کا مظھر اور عکس ھیں جو ھمارے علم و ادراک سے بالاتر ھے۔ (ھربرٹ اسپانسر) ھر چند بعض دانشمند حضرات کا نظریہ یہ ھے کہ دین کی تعریف نھایت دشوار بلکہ ناممکن ھے لیکن پھر بھی یہ نظریہ ھمیں اس بات سے نھیں روکتاکہ ھم مباحث علمی کے سائے میں لفظ دین سے متعلق اپنا مقصد اور ھدف مشخص کریں۔ بھر حال دین سے ھماری مراد مندرجہ ذیل ھے: عقائد اور احکامات عملی کا وہ مجموعہ جو اس مجموعے کے لانے والے اور ان عقائد اور احکام عملی کے پیروؤں کے دعوے کے مطابق خالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ھے۔ دین حق، صرف وھی دین ھو سکتا ھے جو خالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ھو۔ اس صورت میں ایسا الھی دین حقیقت سے مطابقت رکھتے ھوئے یقینی طور پرانسانی سعادت کاضامن ھو سکتا ھے۔ مسلمان دانشمندوں کے ایک گروہ نے دین کی مندرجہ ذیل تعریف کی ھے: وہ مجموعہ جسے خداوند عالم نے بشر کی ھدایت اور سعادت کی خاطر بذریعہ وحی پیغمبروں اور رسولوں کے ذریعہ انسانوں کے حوالے کیاھے۔ یہ ایک ایسی تعریف ھے جو صرف دین حق پرھی منطبق ھوسکتی ھے اور جس کا دائرہ گذشتہ تعریف سے محدود ترھے۔ بھرحال، قابل غور یہ ھے کہ خالق کائنات پر اعتقاد اور یقین، بھت سے افراد کے نزدیک دین کے بنیادی اراکین میں سے ھے۔ لھٰذا ھر وہ مکتب جو مارکسزم کی مانند مذکورہ نظریہ کا مخالف ھے ، دین نھیں کھلا یاجاسکتا ھے۔ دین کی مختلف جھات مسلم دانشمندوں نے دین اسلام کی مجموعی تعلیمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: (۱) عقائد : یہ حصہ، دین کی ان تعلیمات پر مشتمل ھے جو ھمیں جھان ھستی ،خالق ھستی اور مبداٴ ومنتھا ئے ھستی کی صحیح اور حقیقی شناخت سے روشناس کراتا ھے اس سے قطع نظر کہ ایسی ذات پر اعتقاد اوریقین مسلمان ھونے کی شرط ھے یا نھیں۔ لھٰذا ھر وہ دینی تفسیر جو مخلوقات کے اوصاف کو بیان کرتی ھو اس حصے میں آجاتی ھے یھیں سے یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ھے کہ عقائد دین، اصول دین سے عام اور وسیع ھیں۔ اصول دین میں عقائد دین کا فقط وھی حصہ شامل ھوتا ھے جس کا جاننا اور اس پر اعتقاد و یقین رکھنا مسلمان ھونے کی شرط ھوتی ھے مثلا توحید، نبوت اور قیامت۔ وہ علم جو دینی عقائدکوبطورعام بیان کرتاھے وہ علم کلام ھے اور اسی وجہ سے اس کو علم عقائد بھی کھا جاتا ھے۔ (۲) علم اخلاق: علم اخلاق تعلیمات اسلامی کا وہ حصہ ھے جو اچھی اور بری بشری عادتوں ، انسانی نیک صفات اور ان کے حصول نیز ان سے مزین و آراستہ ھونے کو بیان کرتا ھے مثلا تقویٰ، عدالت، صداقت اور امانت وغیرہ۔ شھید استاد مطھری کے الفاظ میں: اخلاق یعنی روحانی صفات اور معنوی خصلت و عادات کی رو سے وہ مسائل ، احکام وقوانین جن کے ذریعے ایک اچھا انسان بنا جا سکتا ھے۔ علم اخلاق اسلامی تعلیمات کے اس حصے کی تشریح و تفسیر کرتا ھے۔ (۳) احکام: یہ حصہ فعل و عمل سے متعلق ھے یعنی وہ تعلیمات جنھیںانسان کو سیکھنا چاھئے اورکون سے امور انجام دینا ضروری ھیں( واجبات) ، کن اعمال کو انجام دینا بھتر ھے (مستحبات) اور کون سے امور قطعاً انجام نھیں دنیا چاھئے (حرام) ، کون سے امور ایسے ھیں جن کا انجام نہ دینا بھتر ھے(مکروہ) اور ایسے امور اور اعمال کونسے ھیں جن کا انجام دینا یا نہ دینا مساوی ھے (مباحات)۔ دینی تعلیمات کے اس حصہ کی وضاحت، علم فقہ میں کی جاتی ھے۔ جو کچھ بیان کیا گیا ھے وہ دین کی مختلف جھات کے بارے میں مشھور اسلامی علماء کے نظریات پر مبنی ھے۔ مغربی دانشمند ، مذکورہ تینوںجھتوں کو قبول کرتے ھوئے کچھ دوسری جھتوں کے بھی قائل ھیں۔ ان جھتوں میں سے ایک جھت دینی داستانیں ھیں۔ ادیان الٰھی کی مقدس کتابوں میں ایسی کھانیاں اور قصے بیان ھوئے ھیں جن کے مضامین مقدس اور محرک ھیں۔ ساتھ ھی ساتھ اخلاقی اور معنوی تاثیر کے بھی حامل ھیں مثلاً پیغمبروں کے قصے۔ اس طرح کی مختلف مثالیں خود قرآن کریم میں بھی وافر مقدار میں موجود ھیں۔ ان داستانوںاور قصوں کو بیان کرنے کا ھدف یہ نھیں ھے کہ علم میں اضافے کی خاطر تاریخی واقعات کو بیان کردیا جائے بلکہ ھدف یہ ھے کہ بشریت کی اصلاح، اس کی تربیت کی جائے اور گذشتہ افراد کے واقعات و حادثات سے عبرت اور پند و نصیحت حاصل کی جائے۔ مغربی دین شناس دانشمندوںکے نظریات کا محور عیسائی اور یھودی مذھب ھے اور چونکہ ان ادیان کی مقدس کتابوںمیں جعلی اورخلاف عقل داستانیں موجود ھیں لھذاوہ یہ کھنے پر مجبور ھوگئے ھیں کہ مختلف ادیان میںوارد شدہ داستانیں ، جعلی اور ساختہ شدہ ھوسکتی ھیں کیونکہ ان داستانوں کو بیان کرنے کا اصل ھدف تعلیم و تربیت ھے۔ یہ بات قرآن کریم میں بیان شدھ داستانوں سے متعلق قطعاً قابل قبول نھیں ھے کیونکہ قرآن مجید، حق محض ھے اور باطل اس میں داخل بھی نھیں ھوسکتا: ”لَا یَاٴ تِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ“ (۴) (جس کے قریب سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آ بھی نھیں سکتا کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ھوئی کتاب ھے ۔) البتہ ھم بھی اس بات کے قائل ھیں کہ قرآن کی بعض آیتیں تمثیل و مثال کا پھلو لئے ھوئے ھیں (۵) یعنی حقیقت معقول کو لباس محسوس پھنا کر پیش کیا گیا ھے لیکن داستان کے تمثیل اور جعلی ھونے میں بھت بڑا فرق ھے۔ ضرورت دین سب سے پھلے ھمیں یہ دیکھنا چاھئے کہ کون سا عامل یا عوامل ادیان کے صحیح ھونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کو ضروری قرار دیتے ھیں اور کیوں دین حق کو پھچاننا اور اس پر عمل پیرا ھونا چاھئے۔ ایک آزاد فکر و نظر کے حامل شخص کی عقل اس سلسلے میں تحقیق و جستجو کو لازم اور ضروری شمار کرتی ھے اور اس کی مخالفت کو کسی بھی صورت میں قبول نھیںکرتی۔ ایک انسان کے لئے ضروری ھے کہ وہ عقلی حکم کی بنا پر تحقیق کرے کہ نبوت اور رسالت کا دعویٰ کرنے والے واقعی خدا کے بھیجے ھوئے پیغمبر تھے یا نھیں اور اس تحقیق و جستجو کے سفر میں وھاں تک بڑھتا چلا جائے کہ اس کو اطمینان حاصل ھو جائے کہ وہ سب کے سب غلط اور جھوٹے تھے یا پھر اگر برحق تھے تو ان کی تعلیمات کو سمجھے اوران پر عمل پیرا ھوجائے کیونکہ: (۱) انسان ذاتاً اپنی سعادت اور کمال کا طالب ھے اور یہ طلب کمال و سعادت اس کی حبّ ذات سے سرچشمہ حاصل کرتی ھے۔ یھی حب ذات انسانی کا رگزاریوں اور فعالیتوں کی اصلی محرک ھوتی ھے۔ (۲) پیغمبری کا دعویٰ کرنے والا یھی وعویٰ کرتا ھے: ”اگرکوئی میری تعلیمات کو قبول کرلے اور ان پر عمل پیرا ھوجائے تو ابدی سعادت حاصل کرلے گا اوراگر قبول نہ کرے تو ھمیشہ کے لئے عذاب و سزا کا حقدار ھو جائے گا۔“ (۳) اس دعوے کی صحت کا احتمال ھے کیونکہ انسان نبوت کے مدعی کے دعوے کے باطل ھونے کا یقین نھیں رکھتا۔ (۴) کیونکہ مُحتَمَل ( انسان کی ابدی سعادت و شقاوت )ایک قوی عامل ھے اور کوئی بھی مسئلہ اس قدر اھم نھیں ھوسکتا ، ھر چند کسی کی نظرمیں اس دعوے کی صحت کا احتمال کم ھو لیکن عقل یھی کھتی ھے کہ اس دعوے کے صحیح یا غیر صحیح ھونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے بالخصوص اس وقت جب یہ احتمال بھت زیادھ قوی اور مستحکم ھو۔ مثال کے طور پر اگر کوئی نابینا شخص کھیں جاتے ھوئے کسی ایسے شخص سے ملاقات کرے جو اس سے یہ کھے کہ اگر تم دس قدم بھی آگے بڑھے تو ایسے کنویں میں جا گرو گے کہ پھر کبھی اس سے باھر نہ نکل سکوگے اور اگر داھنے طرف دس قدم آگے بڑھے تو ایسے باغ میںداخل ھو جاو گے کہ ھمیشہ اس باغ میں موجود نعمتوں سے لطف اندوز ھوتے رھو گے۔ نابینا شخص اگر دوسرے شخص کے قول کے صحیح ھونے کا احتمال دے تو اس کی عقل اس سے کھے گی کہ اس دوسرے شخص کے قول کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے یا کم از کم احتیاطاً اپنا راستہ موڑدے۔ لھٰذا ، اگر انساان کو علم ھو جائے کہ گذشتہ طویل تاریخ میں ایسے والا صفات افراد آئے ھیں جنھوں نے یہ دعوا کیا ھے کہ وہ خداوند عالم کی طرف سے اس لئے بھیجے گئے ھیں تاکہ انسانوں کو ابدی سعادت سے ھمکنار کرسکیں اور دوسری طرف اس بات کا بھی مشاھدہ کرے کہ ان عظیم افراد نے اپنے پیغام کو پھونچانے میں کوئی کوتاھی نھیں برتی ھے نیز ھدایت انسان میں کوئی بھی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا ہے ساتھ ہی ساتھ مختلف النوع مشکلات و مسائل کا سامنا کیا ھے حتی اپنی جان تک دے دی ھے تو عقل کا تقاضا یھی ھے کہ ان عظیم افراد کے دعوے کے صحیح یا غیر صحیح ھونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ھے کہ دفع ضرر یا نقصان ، عقل کے مسلم احکامات میں سے ھے اور یہ حکم، احتمال اور محتمل کے شدید یا ضعیف ھونے کی بنا پر، شدید یا ضعیف ھوجاتا ھے جتنا انسان کے لئے اس نقصان کے پھونچنے کا احتمال زیادہ ھوگا اور جتنا محتمل شدید ھوگا اتنا ھی اس نقصان اور ضرر سے متعلق عقل کاحکم بھی شدید اور سخت ھوجائے گا۔ دین سے متعلق و ہ محتمل ضرر کہ جودین کے قبول نہ کئے جانے کی صورت میں انسان کی طرف پلٹ جاتا ھے ، ابدی شقاوت اور بدبختی کاباعث بنتاھے اور کیونکہ یہ نقصان ( محتمل) بھت عظیم اور خطرناک ھے، ھر چند دین کے برحق ھونے کا احتمال جتنا بھی کم ھو، لھذا احتمالی ضررکے دفع کرنے سے متعلق عقل کا حکم اپنی جگہ پر مسلم اور باقی ھے۔ حب ذات کے علاوہ ایک دوسرا سبب بھی موجود ھے جوانسان کو ھمیشہ اس بات کے لئے اکساتا رھتا ھے کہ وہ دین سے متعلق تحقیق و جستجو کرے اور وہ حقائق سے متعلق شناخت حاصل کرے ۔ انسان فطرتاً حقیقت جو ھے اور جستجو گری کی حس ھمیشہ اس کی جان سے چمٹی رھتی ھے۔ یھی وہ حس ھے جو آدمی کو اس بات پر اکساتی رھتی ھے کہ وہ مسائل دینی کے صحیح یا غیر صحیح ھونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے۔ کیا اس کائنات کا کوئی خالق ھے؟اگر ھے تو وہ خالق کون ھے؟ اس کے صفات کیا ھیں؟ خدا سے انسان کا رابطہ کس طرح کا ھے؟ کیا انسان مادی بدن کے علاوہ غیر مادی روح بھی رکھتا ھے؟ کیا اس دنیوی زندگی کے علاوہ بھی دوسری کوئی زندگی ھے اور اس زندگی سے اس زندگی کا کیا رابطہ ھے؟ یہ سوالات اور اس طرح کے سینکڑوں سوالات ایک حقیقت جو، انسان کا دامن کبھی نھیں چھوڑتے اور اس وقت تک چمٹے رھتے ھیں جب تک اسے ایسے جوابات نہ مل جائیں جو اس کو مطمئن کرسکیں۔ ھر دین کا عقائد پر مبنی حصہ درحقیقت اس طرح کے سوالوں سے متعلق اس دین کے جوابات ھی ھیں۔ بشر کی دین سے توقعات (مذکورہ عنوان ،دین یا دینداری کے فوائد، دین کی کارگزاریاں یا انسان کو دین کی ضرورت جیسی سرخیوں کے تحت بھی بیان کیا جا سکتا ھے ۔) گذشتہ مباحث میں ادیان کے بارے میں تحقیق و جستجو سے متعلق بحث کی گئی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ایک آزاد اور وشن فکرانسان عقلی حکم کے تحت دین کے بارے میں تحقیق و جستجو کے لئے کافی مقدار میں دلائل رکھتا ھے۔ اب وقت آگیا ھے کہ ھم خود اپنی ذات سے یہ سوال کریں کہ آخر انسان کو دین کی ضرورت ھی کیوں ھوتی ھے اور دین بشریت کو کون کونسے فائدے پھونچاتا ھے۔ دوسرے الفاظ میں ، ”بشر کی دین سے توقعات کیا ھیں؟ اس سوال کا اجمالی اور مختصر جواب تویھی ھے کہ 6دین سے یہ توقع اور امید رکھتا ھے کہ دین اس کو دنیا و آخرت میں ابدی کمال اور سعادت تک رھنمائی کرےگا اور یہ ایک بھت بڑی اور اھم توقع ھے کہ جس کی فقط دین ھی برآوری کرسکتا ھے اور جس کا دین کے علاوہ کوئی مترادف یامتبادل طریقھ بھی نھیں ھے۔ البتہ اس بنیادی اور وسیع ضرورت کے علاوہ دوسری توقعات اور ضرورتیں بھی موجود ھیں۔ مختصراً انسان کی دین سے وابستہ توقعات مندرجہ ذیل ھیں: (۱) دین قابل اثبات اور استدلال ھو یعنی عقل و منطق اس کی پشت پناھی کرتی ھو۔ دوسرے الفاظ میں دین کے اصول وتعلیمات عقل کے نزدیک باطل اور غیر قابل قبول نہ ھوں۔ (۲) دین انسان کی زندگی کو معنی و مفھوم بخشنے والا ھو یعنی انسان کو ایک حیثیت عطا کرنے اور اس فکر و نظریے کو اس کے ذھن سے خارج کرنے والا کہ زندگی لا یعنی اور بیکار ھے۔ (۳) دین باھدف، شوق و عشق پیدا کرنے والاا ورانسانی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ھو۔ (۴) انسانی اور اجتماعی اھداف کو تقدس بخشنے والی قدرت کا حامل ھو۔ (۵) ذمہ داریوں اور وظائف و تکالیف کا احساس دلانے والا ھو۔ مندرجہ بالا نکات میں سے پھلا اور دوسرانکتہ بنیادی اور اصلی ھے۔ پھلا اس لئے اھم ھے کیونکہ کسی دین کے اصول عقائد کا منطقی اور عقلی ھونا اس دین کو قابل قبول بنانے میں نھایت موثرثابت ھوتا ھے اور شک و شبھات اور سوالات و مشکلات کو برطرف کرتا ھے۔ دوسرا اس لئے اھم ھے کیونکہ ھماری دنیوی زندگی ھمیشہ رنج و الم اور مصائب و مشکلات میں بسر ھوتی ھے ان مشکلات و مسائل میں سے بعض غور و فکر اور تدبیر و ترقی علم و سائنس کی بنا پر حل ھوجاتے ھیں اور بعض اصلاً کسی بھی طرح حل ھونے کا نام نھیں لیتے۔ مثال کے طور پر: الف: انسان حقیقت جو اور جستجو گر ھے اور اس لئے کہ کھیں وہ جاھل یا خاطی نہ رہ جائے ھمیشہ پریشان رھتا ھے۔ ب: انسان خیر کا طالب ھے اور چاھتا ھے کہ غلطیوں اور خطاؤں سے پاک و منزہ رھے۔ یہ سوچ کر کہ وہ بدکردار اور غلط کاریوںمیں گرفتار ھو گیا ھے، ھمیشہ رنجیدہ رھتا ھے۔ ج: انسان زندگی جاوید کا خواھاں ھوتا ھے اور موت اس کی زندگی کے خاتمے کے عنوان سے اس کو ھر اساں کرتی رھتی ھے۔ د: انسان لامتناھی اورلامحد ود افکار و نظریات کا حامل اور خواھاں ھوتا ھے لھٰذا محدودیت اور نقائص اس کی ذھنی پریشانیوں کا باعث بنتے ھیں۔ ہ: انسان یہ مشاھدہ کرکے کہ وہ اپنی پیدائش کے زمانے ھی سے جسمانی یا عقلی طور پر دوسرے افراد کے مقابلے میں پسماندہ ھے، ذھنی کوفت و پریشانی کا شکار رھتاھے۔ فقط دین ھی وہ ذریعہ ھے جو انسانی زندگی کو باھدف اور معنی و مفھوم عطا کرکے انسان کی پریشانیوں اور رنج و آلام کو آسان اور برداشت کے قابل بنادیتا ھے۔ اگرانسان یہ جان لے کہ اس کائنات کا خلق کرنے والا ایک حکیم اورر حمان و رحیم خالق ھے کہ جو کسی بھی بندے کے ساتھ بخل سے پیش نھیں آتاھے، سارے انسان اس کے نزدیک مساوی ھیں، اس کے نزدیک تقویٰ سے بڑھکر تقرب کا اور کوئی دوسرا اھم ذریعہ نھیں ھے نیز وہ عادل ھے اور کسی بھی مخلوق پر ذرہ برابر ظلم و ستم روا نھیں رکھتاتو اچانک ایسے انسان کے تمام مسائل و مشکلات، آسان اور رضائے خالق میں تبدیل ھوجاتے ھیں اور ایسے شخص کے تمام رنج و غم اس عاشق کے رنج و غم کی طرح شیریں اور لطف آور ھو جاتے ھیں جنھیں وہ اپنے معشوق کے وصال اور قرب کی خاطر ھنس کھیل کر برداشت کرجاتا ھے۔ یھی وہ درد و غم ھے جس کو عاشقان اور عارفان کسی بھی قیمت پر فروخت کرنے کیلئے راضی نھیں ھوتے دین کی بشریت سے وابستہ توقعات ظاھر ھے کہ دین ، عقائد اور احکام کا ایک مجموعہ ھے لھٰذا اس سے اس بات کی توقع نھیں رکھی جاسکتی کہ وہ انسان یا غیر انسان سے کسی طرح کی توقع رکھتا ھوگا بلکہ یھاں دین کی بشر سے وابستہ توقعات سے مراد شارع اور دین کو نازل کرنے والے یعنی خداوند عالم کی بشر سے وابستہ توقعات ھیں۔ مختصراً، شارع کی ایک انسان سے یھی توقعات ھو سکتی ھیں کہ وہ دینی عقائد کو قبول کرتے ھوئے ان پریقین محکم اور ایمان کامل لائے، دین کے احکام اور قوانین کو عملی جامہ پہنائے نیزاپنے کردار و گفتار کو دین کے مطابق ڈھالتے ھوئے صفات رزیلھ کوخود سے دور اور صفات حسنہ سے خود کو آراستہ کرے۔ واضح ھے کہ مذکورہ امور درحقیقت انسان ھی کے لئے اور اس کو منفعت بخشنے والے ھیں یعنی جب یہ کہا جاتا ھے کہ دین انسان سے مذکورہ امور کی انجام آوری چاھتا ھے تو اس سے مراد یہ قطعاً نھیں ھوتی ھے کہ انسان اپنی ذات میں سے کچھ سرمایہ دین کے نام وقف کردے یا اپنی ذات سے کچھ کم کردے اور دین کے اوپر انبار لگادے بلکہ ان امور کی انجا م دھی صرف اور صرف انسان کے لئے مفید اور اس کے مفادات سے وابستہ ھے۔ دوسرے الفاظ میں دین،بشر سے یہ چاھتا ھے کہ بشر خود کو کمال پر پھونچائے اور خدا کی برتر و اعلیٰ نعمتوں سے لطف و اندوز ھو۔(قُلْ مَا سَاَٴلْتُکُمْ مِنْ اٴَجْرٍ فَھوَ لَکُمْ) یعنی کھہ دیجئے کہ میں جو اجر مانگ رھا ھوں وہ بھی تمھارے ھی لئے ھے۔ (۶) دین کی طرف رغبت کے اسباب دین ایک ایسی حقیقت ھے جس کی تاریخ، بشریت کی تاریخ کے ساتھ ساتھ رواں دواں ھے۔ اس واضح اور آشکار حقیقت کے با وجود ایسے افراد بھی گزرے ھیں جودین کے منکر رھے ھیں۔ خدا پر اعتقاد اور اس کی پرستش، مبداٴ ھستی کے عنوان سے ھرزمان و مکان میں تمام بشری معاشروں میں مختلف تھذیب و فرھنگ کے ساتھ ساتھ مختلف شکل و صورت میں موجود رھی ھے اور ھے۔ اس ناقابل انکار حقیقت نے ایسے لوگوں کو جو دین کی حقانیت کے قائل نھیں ھیں اور دینی عقائد کو باطل شمار کرتے ھیں، اس بات پر مجبور کردیا ھے کہ وہ ابتدائے تاریخ بشریت سے اب تک لوگوں کے دین پر اعتقاد اور یقین کی توجیہ کریں اور اپنے اعتبار سے اس کے لئے(باطل) دلائل پیش کریں اور یہ بتائیں کہ کیوں بشر دین کی طرف راغب ھوتا ھے؟ حقیقت تو یہ ھے کہ ایسے اشخاص کے نزدیک جو اس کائنات کے خالق یعنی خدا کو نھیں پھچانتے ھیں، انسانیت کے اس عظیم کارواں کااپنے خالق پر اعتقاد و یقین اور اس کی پرستش نھایت وحشت ناک اور خوفناک ھوتی ھے اور اسی لئے وہ کسی نہ کسی طرح اس کی توجیہ اور تاویل کرکے اپنا دامن جھاڑنا چاھتے ھیں۔ اس بارے میں جو نظریات بیان ھوئے ھیں وہ کبھی کبھی تو اتنے بے بنیاد اور باطل ھوتے ھیں کہ عقل متعجب ھوکر رہ جاتی ھے ۔ ان نظریات میں سے بعض نظریات کی وضاحت مندرجہ ذیل ھے: (۱) نظریہٴ خوف فرائڈ (SIGMOND FREUD) نے خدا اور دین پر اعتقاد و یقین کا سرچشمہ خوف کو بتایا ھے البتہ اس سے قبل بھی یہ نظریہ پایا گیا ھے۔ شاید سب سے پھلے جس شخص نے یہ نظریہ پیش کیا تھا روم کا مشھور شاعر ٹیٹوس لوکر ٹیس ( متوفی : ۹۹ ءء )ھے ۔ اس کا قول تھا کہ خوف ھی تھاکہ جس نے خداؤں کو پیدا کیا ھے۔ بھرحال یہ وہ نظریہ ھے کہ جس کی رو سے طبیعی اسباب مثلاً سیلاب ، طوفان، زلزلہ، بیمار ی و موت اس بات کے موجب ھوگئے ھیں کہ انسان ان تمام خوف آور طبیعی اسباب کو مشترکہ طور پر خدا کا نام دے دے۔ فرائڈ کے مطابق خدا، انسان کی خلق کردہ مخلوق ھے نہ کہ اس کا خالق۔ فرائڈ کے بقول درحقیقت بشری ذھن میں دینی عقائد پر اعتقاد و ایمان ان اسباب کے نقصانات اور ضرر سے محفوظ رھنے کی خواھش کی بنا پر پیداھوتا ھے۔ زمانہٴ اول کا بشر ان اسباب کے نقصانات اور اثرات کے خوف اور ڈر سے آھستہ آھستہ ایک ایسی صاحب قدرت ھستی کا قائل ھوگیا جو اس کے اعتبار سے ان تمام اسباب پر غالب اور مسلط تھی تاکہ اس طرح اس عظیم اور قادر ھستی کے حضور دعا، مناجات،قربانی، عبادت وغیرہ کرکے اس ھستی کی محبت و لطف کو ابھارے اورنتیجةً خود کو ان خطرات سے محفوظ کرلے۔ (۲)نظریہٴ جہالت ویل ڈورانٹ (WILL DURANT) اور برٹرانڈرسل(BERTRAND RUSSELL) کی مانند بعض افراد اس نظریے کے قائل ھیں کہ شروعاتی زمانے کے انسانوں نے جھالت اور لاعلمی کی بنا پر اپنے اندر خدا اور دین پراعتقاد پیدا کرلیا تھا۔ یہ جاھل انسان جب چاند گرھن، سورج گرھن، آندھی اور بارش وغیرہ جیسے قدرتی واقعات وحادثات سے روبرو ھوتا تھا اور ان جیسے واقعات کی کوئی طبیعی اور ظاھری علت تلاش نھیں پاتا تھا تو لا محالہ ایک فرضی علت تلاش کرلیتا تھا اور اس علت کا نام ”خدا“ رکھ دیتا تھااور پھر مذکورہ تمام حادثات کو اس خدا سے منسوب کردیتا تھا۔خدا انسان پر اپنا عذاب نازل نہ کرے اور اسے زمینی اور آسمانی بلاؤں میں گرفتار نہ کرے لھذا وہ خدا کے سامنے خضوع و خشوع کے ساتھ سربسجود ھوجاتا تھا۔ مذکورہ دو نظر یوں پر تبصرہ ۱) یہ دونوں نظریے فرضی اور احتمالی ھیں اور ان کے تاریخی اثبات و ثبوت پر کوئی دلیل موجود نھیں ھے۔ ۲) اگر اس فرض کو تسلیم کربھی لیا جائے کہ تمام یا بعض انسان خوف یا جھالت کی بناپر خدا کو باور کرلیا کرتے تھے اور اس کی پرستش کرتے تھے تب بھی منطقی لحاظ سے یہ نیتحہ اخذ نھیں کیا جاسکتا کہ ”خدا موجود نھیں ھے اور تمام ادیان باطل اور لغو ھیں“ اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ یہ تمام نظریات صحیح ھیں توصرف اتنا ھی ثابت ھوتا ھے کہ دین اور خدا پر بشر کا اعتقاد و یقین غلط روش اورطریقے پر مبنی ھے اور یہ غیر از نفی وجود خدا اور نفی حقانیت دین ھے۔ مثلاً، تاریخ بشریت میں ایسے نہ جانے کتنے اختراعات و اکتشافات پائے جاتے ھیں جو شھرت طلبی، ثروت طلبی یا عزت و مقام طلبی کی بنیاد پر وجود میں آئے ھیںجو یقینا غیر اخلاقی اور غیر صحیح افکار و اقدام تھے لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ غیر اخلاقی افکار کی بنیاد پر وجود میںآنے والے علمی اختراعات و اکتشافات بھی غلط یا باطل قرار پا جائیں گے ۔ مختصراً یوں بھی کہا جاسکتا ھے کہ ان نظریات میں کسی فعل کو انجام دینے کا ”جذبہ“ اور اس فعل کا ”حصول‘ مخلوط ھوگئے ھیں یعنی ایک شےٴ کے باطل ھونے کودوسری کا باطل ھونا فرض کرلیا گیا ھے۔ ۳) ایسے بھت سے حقائق ھیں جو ان دونوں مذکورہ نظریات کے برخلاف گفتگو کرتے نظر آتے ھیں مثلاً : اولاً: تاریخ گواہ ھے کہ دین کو انسان تک پھونچانے والے اور بشر کو خدا کی طرف دعوت دینے والے پیغمبر ھمیشہ دلیر اور شجاع ترین افرادھوا کرتے تھے اور سخت ترین حالات اور مشکلات سے بھی ھنس کھیل کر گزرجاتے تھے۔ ثانیاً: نہ جانے کتنے ایسے ڈر پوک اور بزدل افراد گزرے ھیں جو خدا پر ذرہ برابر اعتقاد نھیں رکھتے تھے اور آج بھی ایسے افراد دیکھے جا سکتے ھیں۔ ثالثاً: اگر خدا پر یقین و اعتقاد کی بنیاد طبیعی حادثات و واقعات ھیں تب تو موجودہ دور میں خدا پر ایمان باطل ،ختم یا کم از کم قلیل ھو جانا چاھئے کیونکہ آج انسان بھت سے طبیعی حادثات و واقعات پر غلبہ حاصل کرچکا ھے۔ اس کے بر خلاف آج ھم یہ مشاھدہ کرتے ھیں کہ آج بھی خدا پر ایمان اور اس کی پرستش دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر رائج اور موجود ھے۔ نظریہٴ جھالت کی تردید کرنے والے موارد بھی وافر مقدار میں موجود ھیں۔ اس سلسلہ میں صرف اتنا تذکرہ کافی ھے کہ دنیا میں ایسے بھت سے دانشمند پائے گئے ھیں جودل کی گھرائیوں سے خدا پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے مثلاً نیوٹن (ISAAQ NEOTON) ، گیلیلیو (GALILEO) آئن انسٹائن اور نہ جانے ایسے ھزاروں کتنے افراد اور آج بھی ایسے خدا پر ایمان رکھنے والے افراد کا مشاھدہ کیا جا سکتا ھے ۔ ۴)ھمارے اعتبار سے دین کی طرف انسان کی رغبت کی وجوھا ت دو ھیں: پھلی یہ کہ تاریخ کے شروعاتی دور ھی سے بشر یہ سمجھتا آیا ھے کہ ھر شئے ایک علت چاھتی ھے اور ایسی شےٴ جو ممکن الوجود ھو،اس کے لئے محال ھے خود بخود پیدا ھوسکے۔ دوسری وجہ یہ ھے کہ وجود خدا اور اس کی پرستش پر ایک طرح کا پو شیدہ یقین وایمان تمام انسانوں کے دل کے کسی نہ کسی گوشے میں رھتا ھے یعنی جس طرح حقیقت طلبی اور حسن پرستی فطری طور پر ھمیشہ سے تمام انسانوں میں پائی جاتی رھی ھے اسی طرح سے خدا شناسی اور خداپرستی بھی ھمیشہ سے بشریت کا خاصہ رھی ھے اور یھی وہ فطرت الٰھی ھے جو ان کو خدا پر ایمان و یقین کی طرف کھینچتی رھتی ھے۔ دین کی طرف انسان کی رغبت سے متعلق اور بھی بھت سے نظریات بیان ھوئے ھیں لیکن ان سب کی وضاحت اور نقد ظاھرھے ان مباحث کو طولانی کردے گی جو یھاں مناسب نھیں ھے۔ مذکورہ نظریات کی وضاحت اور نقد سے واضح طور پر یہ حقیقت سامنے آجاتی ھے کہ ان نظریات کو پیش کرنے والے افراد شدید تعصبات کی بنیاد پر دین کی مخالفت اور نفی کربیٹھے ھیںنیز یہ کہ محبت یا بغض کی زیادتی بھی اکثر عقل کو اندھا کردیتی ھے۔ علاوہ از یں،ان نظریات کے بانیوںنے پھلے ھی سے یہ فرض کرلیا ھے کہ خدا اور دین پر ایمان و اعتقادکیلئے کوئی عقلی اور منطقی دلیل موجود نھیں ھے لھٰذا اسی وجہ سے اس سلسلے میں لغو دلائل دینے پرمجبور ھوگئے ھیں اور اس رغبت کے وجود میں آنے کی وجہ کچھ خاص نفساتی جذبات اور پھلووں کو قرار دے بیٹھے ھیں۔ مثلاً یھی کہ پھلے زمانے کا انسان طبیعی حادثات کی علت اور وجہ نھیں جانتا تھا لھٰذا انھیں سحرو جادو پر محمول کردیا کرتا تھا لیکن اگر یہ واضح ھوجائے کہ دین کی طرف رغبت کے مناسب عقلی اور منطقی دلائل موجود ھیں تو ان نظریات کی اھمیت خود بخود ختم ھو جائے گی۔ مغربی دنیا میں دین سے فرار کے اسباب ھم سبھی جانتے ھیں کہ بالخصوص اٹھارھویں صدی کے بعد یوروپ میں عوام کا ایک بڑا طبقہ کفر اور بے دینی کی طرف مائل ھوگیا ھے اور ایسابھت کم ھوتا ھے کہ عام طور پر کسی دین کو اختیار کیا جائے۔ مغرب میں کفر کی طرف رغبت اور دین سے فرار کے مختلف اسباب و علل ھیں جن میں سے بعض ذیل میںبیان کئے جا رھے ھیں: (۱) دینی تعلیمات کی توضیح و تشریح میں کلیسا کی نارسائی مغربی دنیا میں رھبران دین اور ان میں بھی بالخصوص کلیسا کی جانب سے کی گئدینی تعلیمات نھایت غیر معقول اور حد درجہ غیر قابل قبول تھی۔ بدیھی اور واضح ھے کہ عقل انسانی، انسان کو قطعاً اتنا آزاد نھیں چھوڑ تی کہ وہ کسی بھی نظریے کو آنکھ بند کر کے بے چوں چراقبول اور اختیار کر لے ۔ لھٰذا کسی بھی دین یا مکتب کے کامیاب اور غلبہ حاصل کرنے کی پھلی شرط یہ ھے کہ وہ عقل سلیم کے مطابق ھو۔ مثال کے طور پر ، کلیسا میں خدا کو انسان نمابنا کر پیش کیا جاتا تھا اور خدا کو انسانی شکل و صورت میں عوام کے حوالہ کیا جاتاتھا کہ خدا بدن رکھتا ھے ، اس کی آنکھیں بھی ھیں اور ھاتھ پیر بھی ھیں بالکل دوسرے انسانوں کی طرح لیکن بھت بڑھا چڑھا کر اور بزرگ و قدرتمند بنا کر۔ اگر کسی کے سامنے اس کے بچپنے میں اس طرح خدا کی تصویر و خاکہ پیش کیا جائے اور وہ شخص عقلی شعور و رشد یا مراتب علم تک رسائی کرکے اس بات کا یقین و علم حاصل کرلے کہ خدا اس طرح موجود نھیں ھوسکتا جیسا کہ اس کے بچپن میں اس کے سامنے پیش کیا گیا تھاتو ممکن ھے کہ وہ خدا کے بارے میں اپنے نظریات کی تصحیح کے بجائے خدا کے اصل وجود کا ھی انکار کر بیٹھے۔ فلیمارین اپنی کتاب GOD IN NATURE میں لکھتا ھے : کلیسا میں خدا کی شناخت اس طرح کرائی جاتی تھی کہ اس کی داھنی اور بائیں آنکھ کے درمیان چھ ھزار فرسخ کا فاصلہ ھے۔ (۲) کلیسا کی سختیاں اور اذیت رسانیاں کلیسا تعلیمات دینی سے متعلق اپنی مخصوص تشریح و تفسیر کو رواج دینے اور لوگوں کو ان پر تھوپنے میں ذرّہ برابرپیچھے نھیں رھتاتھا اور اس سلسلہ میں ھر طرح کی زیادتی اور ظلم و تشدد روا تھا۔ یھاں تک کہ ایسے علمی موضوعات کی مخالفت پر بھی سزا ئیں دی جاتی تھیں جو براہ راست دین سے مربوط نھیں ھوتے تھے لیکن کلیسا انھیں قبول نھیں کرتا تھا مثلاً یہ کہ زمین گھوم رھی ھے۔ کلیسا کا نظریہ یہ تھا کہ زمین اپنے مدار پر بغیرحرکت کے موجود ھے اور سورج اس کے گرد حرکت کررھا ھے ۔ قرون وسطیٰ میں کلیسا نے انکوئیزیشن (INQUISITION) یا محاکمہٴ تفتیش عقائد نام کے محکمے قائم کررکھے تھے جن کی ذمہ داری یہ تھی کہ ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو کلیسا کے افکار کے مخالف ھیں اور شناخت کرکے انھیں ان کے ”جرم “ کے مطابق سزا دیں۔ WILL DURANT ان محکموں کے ذریعہ دی جانے والی سزاؤں اور سختیوں کے بارے میں رقم طراز ھے : سزا دینے کے طریقے علاقوں اور جگھوں کے اعتبار سے مختلف تھے۔ کبھی ایسا ھوتا تھا کہ ملزم کے دونوں ھاتھوں کو پشت سے باندھ کر اسے سولی پر چڑھا دیاجاتا تھا اور کبھی ایساھوتا تھا کہ اس کو اس قدر سختی سے باندھ دیا جاتا تھا کہ وہ اصلاً حرکت بھی نہ کرسکے اور پھر اس کے دھن میں اتنا پانی انڈیلا جاتا تھا کہ وہ شخص دم گھٹنے کی وجہ سے مرجاتا تھا یا پھر یہ کہ اس کے بازوؤں اور پنڈلیوں کو رسیوں سے اتنا کس کر باندھا جاتا تھا کہ رسی گوشت کو چھیل کر ھڈی میں پیوست ھو جاتی تھی(۷) ایک دوسری جگہ DURANT لکھتا ھے : ۱۴۸۰ ءء سے ۱۴۸۸ ءء تک یعنی ۸/سال کی مدت میں ۸۸۰۰/افراد کو جلایا اور ۹۶۴۹۴/افراد کو سخت ترین سزائیںدی گئی تھیں۔ ۱۴۰۸ ءء سے ۱۸۰۸ ءء تک ۳۱۹۱۲ سے زیادہ افراد نذر آتش کئے گئے اور ۲۹۱۴۵۰ سے زیادہ افراد کو سخت ترین سزائیں دی گئیں تھیں۔(۸) (۳) مفاہیم فلسفی کی نارسائی یہ ایک ایسا سبب ھے کہ جس کی وضاحت کے لئے ضروری ھے کہ کچھ عمیق فلسفی مطالب و مباحث کا تذکرہ کیا جائے جو یھاں مناسب نھیں ھے کیونکہ ھمارے مباحث طوالت اختیار کرجائیں گے۔ یھاں صرف اتنا اشارہ کافی ھے کہ مغربی دنیا میں فلسفہٴ الھٰیات اور علم کلام، بھت سی ایسی طویل و عریض مشکلات کا شکار تھے کہ وجود خدا اور دوسرے تمام دینی عقائد کی عقلی ، منطقی اور صحیح و حقیقی وضاحت نھیں کرپاتے تھے۔ مغرب میں فلسفی نظریات بالخصوص مسائل الھٰیات کس قدرکمزور اور بے بنیاد تھے ، اس کی مزید وضاحت کے لئے BERTRAND RUSSELL کی مندرجہ ذیل عبارت کافی حد تک مناسب ھے ۔ RUSSELL خدا کے وجود میں شک رکھتا ھے اور عملی طور پر بے دین ھے۔ وہ اپنی کتاب "WHY I AM NOT A CHRISTIAN" میں لکھتا ھے : ”اس برھان ( برھان علت اولیہ) کی بنیاد اس پر منحصر ھے کہ اس کائنات میں ھم جو کچھ دیکھتے ھیں ، اس کی ایک علت ھے اور اگر علتوں کی اس زنجیر کے آخری سرے تک جایا جائے تو بالآخر علت اولیہ تک رسائی ھوجائے گی اور اس علت اولیہ کو علت العلل یا خدا کا نام دیاجاتا ھے ۔ “ RUSSELL آگے چل کر اس مذکورہ استدلال پرتبصرہ کرتا ھے: ”میں اپنی جوانی کے دور میں ان مسائل سے متعلق زیادہ غور و خوض نھیں کیا کرتا تھا۔ ایک مدت تک میں نے برھان علت العلل کو قبول بھی کیا تھا۔ یھاں تک کہ میں نے اپنی عمر کے اٹھارھویں سال میں قدم رکھا اور اسی زمانے میں JOHN STUART کی سوانح حیات کے مطالعے کے دوران یہ جملہ میری نظرسے گزرا: ”میرے باپ نے مجھ سے کہا کہ یہ سوال کہ کس نے مجھے خلق کیا ھے؟ ایک ایسا سوال ھے کہ جس کا کوئی جواب نھیں ھے کیونکہ فوراً ھی یہ سوال بھی پیدا ھوتا ھے کہ پھر ”خدا کو کس نے خلق کیا ھے؟“۔ اس جملے نے بڑی آسانی سے برھان علت العلل کو میری نظر میں باطل کردیا اور میری نگاہ میں یہ برھا ن ابھی تک بے بنیاد ھے۔ اگر ھر شےٴ علت کی محتاج ھے تو لامحالہ خدا کوبھی ایک علت کا محتاج ھونا چاھئے اوریھیں سے یہ برھان باطل ھوجاتا ھے۔ اگر کوئی شخص فلسفہٴ اسلامی سے ذرہ برابر بھی آشنائی رکھتا ھو تو اس کو پھلے ھی مرحلے میں RUSSELL کے مذکورہ دعوے کی خامیاں نظر آجائیں گی۔ RUSSELL کے اعتبار سے قانون علیت یہ ھے کہ ”ھر موجود ،محتاج علت ھے“۔ جب کہ حقیقی قانون علیت یہ ھےکہ ”ھر ممکن، محتاج علت ھے۔“ لھٰذا اس کائنات کی علت اولیہ ،ازل سے خوبخود اس قاعدے سے باھر ھے۔ مثلاً، جس طرح قاعدہٴ ”ھر فاسق ، جھوٹا ھوتا ھے“ روز اول سے انسان عادل کے دائرے سے باھر ھے۔ پیش نظر مباحث، بعض دوسرے مباحث فلسفی کے محتاج ھیں جن کی یھاں گنجائش نھیں ھے۔ (۴) مفاہیم اجتماعی کی نارسائی مغرب میں یہ نظریہ رواج پا چکا ھے کہ معاشرے پر دینی حکومت کا نتیجہ پوری طرح آزادی کا خاتمہ، ڈکٹیٹر شپ اور ایسے لوگوں کی جبر آمیز حکومت ھے جو خدا کی طرف سے خود کو لوگوں پر حاکم گردانتے ھیں۔ عوام یہ سوچتے تھے کہ اگر خدا کو قبول کرلیا تولازمی طور پر قدرت ھائے مطلقہ کی ڈکٹیٹر شپ کو بھی لامحالہ قبول کرنا پڑے گا اس طرح کہ کوئی بھی شخص آزاد نھیں ھوگا۔ لھٰذا خدا کو قبول کرنا اجتماعی قید و بند کے مترادف ھے۔ پس اگر اجتماعی آزادی کی خواھش ھے تو خدا کا انکار کرنا ھوگا۔ بھرحال اجتماعی آزادی کو ترجیح دی گئی اور خدا کا انکار کردیا گیا۔ اسلام جوکہ زمانہ حاضر میں واحد ایسا دین ھے جو کسی بھی طرح کی تبدیلی و تغیر اور تحریف سے محفوظ ھے ، نے رھبران دین کیلئے اس نکتہ پر نھاےت تاکید کی ھے کہ اگر وہ عوام پر حق رکھتے ھیں تو عوام بھی ان پر حق رکھتے ھیں۔مثال کے طورپر حضرت علی ﷼کے خطبے کا مندرجہ اقتباس قابل غور ھے: ---”پروردگار نے ولی امر ھونے کی بناپرتم پر میرا ایک حق قرار دیا ھے اور تمھارا بھی میرے اوپر ایک طرح کا ایک حق ھے ۔۔۔۔ حق ھمیشہ دو طرفہ ھوتا ھے ۔ یہ کسی کا اس وقت تک ساتھ نھیں دیتا ھے جب تک اس کے ذمے کوئی حق ثابت نہ کردے اور کسی کے خلاف فیصلہ نھیں کرتا ھے جب تک اسے کوئی حق نہ دلوادے ۔ اگر کوئی ھستی ایسی ممکن ھے جس کا دوسروں پر حق ھو اور اس پر کسی کا حق نہ ہو تو وہ صرف پروردگار کی ھستی ھے کہ وہ ھر شئے پر قادر ھے اور اس کے تمام فیصلے عد ل وانصاف پر مبنی ھوتے ھیں ۔ “(۹) (۵) مسائل الٰہیات سے متعلق سرسری اظہار نظر اسقدر خدا شناسی بالکل سادہ اور فطری ھے جتنی کہ عوام الناس کا وظیفہ اور ذمہ داری ھے کہ سمجھیں اور اس پر ایمان لائیں لیکن مسائل فلسفی کے ادق اور عمیق مباحث نھایت پیچیدہ اور گنجلک ھیں اور اس قدر پیچیدہ اور گنجلک ھیں کہ ھر شخص اس وادی میں داخل بھی نھیں ھوسکتا۔ مباحث صفات و اسمائے الٰھی ، قضاو قدر الٰھی، جبرو اختیار وغیرہ اسی طرح کے دشوارترین مسائل ھیں اور بقول حضرت علی علیہ السلام ”دریائے عمیق“ ھیں لیکن نھایت افسوس ناک بات ھے کہ مغرب میں بھی اور مشرق میں بھی ھر کس و ناکس اپنے اندر اتنی جراٴت پیدا کرلیتا ھے کہ ان دشوارترین مباحث پر اپنے نظریات پیش کردے جس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ یہ مذکورہ مسائل و مباحث غلط اور غیر صحیح طور پر عوام تک منتقل ھوجاتے ھیں اور عوام حقانیت دین سے متعلق تردد و شک کا شکار ھوجاتے ھیں۔ شھید مرتضیٰ مطھری اس سلسلے میں ایک داستان نقل فرماتے ھیں: خدا نے اونٹ کو پرکیوں نھیں دئے جب کہ کبوتر کو دئیے ھیں؟ اس سوال کے جواب میں ایک شخص نے کہا: اگر کبوتر کی طرح اونٹ کے بھی پرھوتے تو ھماری زندگی تلخ ھو گئی ھوتی۔ اونٹ پر واز کرتا اور ھمارے لکڑی اور مٹی سے بنے مکانوں کو تباہ کردیتا۔ ایک دوسرے شخص سے سوال کیا گیا کہ خدا کے وجود پر کیا دلیل ھے؟ اس نے کہا: تل ھی سے تاڑ بنتا ھے۔ (۱۰) دلیل کا کمزور ھونا ھرگز دعوے کے باطل ھونے کا سبب نھیں بن سکتا لیکن نفسیاتی طور پر جب بھی کسی دعوے کے لئے کوئی کمزور دلیل پیش کی جاتی ھے توسننے والا دعوے کے صحیح ھونے کے بارے میں ھی تردید کا شکار ھو جاتا ھے بلکہ کبھی کبھی تو ایک قدم آگے بڑھ کر اس کو اس دعوے کے باطل ھونے کا یقین بھی ھوجاتا ھے۔ نادان افراد کی جانب سے عقائد اور دینی تعلیمات کی غلط اور غیر صحیح تفسیر و تشریح بھی بسا اوقات بے دینی کی طرف تمائل کا سبب بن جاتی ھے۔ (۶) دین کو دنیاوی سعادت میں حائل بتا کر پیش کرنا انسان کچھ ایسے جذبات اور غریزوںکامالک ھے جنھیں حکمت الٰھی نے اسکے اندر ودیعت کیا ھے تاکہ وہ اپنی زندگی کو سروسامان عطا کرسکے اور اس ھدف تک پھونچ سکے جس کے پیش نظر اس کو خلق کیا گیا ھے۔ تمایل جنسی، فرزند طلبی، علم و معرفت سے محبت اور خوبصورتی کی چاھت مذکورہ جذبات و غرائز کی کچھ مثالیں ھیں۔ اگرچہ انسان کو ان جذبات و غرائز کا تابع محض نھیں ھونا چاھئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ناممکن ھے کہ وہ انھیں چھوڑ دے یا مکمل طور پر ان کی مخالفت کربیٹھے۔ لھٰذا بھتر یہ ھے کہ جذبات و غرائز میں اعتدال سے کام لینا چاھئے۔ اب اگر دین اور خدا کے نام پر ان غرائز کی مکمل طور پر نفی اور مخالفت کردی جائے اور مثلاً تجرد و رھبانیت کو مقدس اور شادی کو پست سمجھ لیا جائے نیز دولت و قدرت کوتباھی ، بربادی و بدبختی کی علت اور فقر و کمزوری کو خوش بختی کی علامت تسلیم کرلیا جائے تو فطری طور پر یھی ھوگا کہ انسان دین سے کنارہ کش اور خدا کا منکر ھوجائے گا کیونکہ یہ تمام خواھشات و غرائز انسانی طبیعت میں دخیل ھیں اور انسان ان سے حد درجہ متاثر ھوتا ھے۔ افسوسناک بات یہ ھے کہ جو مرض کبھی مغربی دنیا میں پھیل گیا تھا اور آج تک اس کا اثر باقی ھے اس کو بعض نیم حکیم قسم کے افراد بسا اوقات مسلمانوں کے درمیان بھی رائج کرنا چاھتے ھیں۔ BERTRAND RUSSELL کھتا ھے: ”کلیسا کے تعلیمات، بشر کو دو طرح کی بدبختیوں اور محرومیوں میں قرار دیتے ھیں: یا دنیا کی نعمتوں سے محرومی یاآخرت کی نعمتوں اور لذائز سے کنارہ کشی۔ کلیسا کے مطابق انسان کے لئے ضروری ھے کہ ان دونوں محرومیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے ۔ یا دنیا میں ذلیل و خوار ھو اور اس کے بدلے میں آخرت کی نعمتوں سے لطلف اندوز ھو یا اس کے برعکس اگر دنیا میں عیش و عشرت چاھتا ھے تو آخرت میں پریشانیاں اور سختیاں برداشت کرے۔“ (۱۱) لیکن کلیسا کا یہ نظریہ بالکل بے بنیاد اور باطل ھے۔ حقیقی دین دنیا و آخرت دونوں کی سعادت کی ذمہ داری کو قبول کرتا ھے اور اگر کوئی شخص دین سے فرار اختیار کرتا ھے توآخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ھوگا۔ کسی بھی عاقل انسان کے ذھن میں یہ سوال پیدا ھوسکتا ھے کہ کیوں خدا نے بشر کو اس بات پر مجبور کیا ھے کہ وہ دنیا و آخرت میں سے کسی ایک کو قبول کرے؟ کیا خدا بخیل ھے؟! حقیقت یہ ھے کہ دینی تکالیف و وظائف کی انجام دھی آخرت کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی کو بھی باعزت اور باسعادت بناتی ھے۔ اس سلسلے میں ھم ایک بار پھر علامہ شھید مرتضیٰ مطھری کی طرف رجوع کرتے ھیں: ”بعض مبلغین کی خلاف حقیقت ،تعلیم اور تبلیغ اس بات کی موجب ھوتی ھے کہ بشر دین سے متنفر ھوجائے اور یہ فرض کرلے کہ خداشناسی محرومیت، ذلت و خواری اور اس دنیا میں مشکلات و پریشانیوں کا لازمہ ھے۔“ (۱۲) (۷) فساد اخلاقی و عملی دین کی قبولیت انسانی زندگی میں بعض شرائط و قیود کی موجب ھوتی ھے۔اس وجہ سے ایسے لوگ جو شھو ت پرستی اور ھوا وھوس میں غرق ھوتے ھیں، دین کو اپنی آزادی میں مخل گردانتے ھیں لھٰذا دین کا انکار کرکے خود کو آزاد سمجھ لیتے ھیں۔ قرآن کریم فرماتا ھے: جو لوگ قیامت کے واقع ھونے میں تردید کے شکار ھیں درحقیقت ان کا یہ شک کوئی علمی شک نھیںھے بلکہ اپنی شھوت پرستی اور بے راہ روی کی بنیاد پر قیامت کا انکار کرتے ھیں۔ (بلْ یُرِیْدُ الْاٴِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَہ) اور قیامت کے حساب و کتاب سے بے پرواہ ھوکر ساری عمر گناہ کرتے ھیں۔ (۱۳) دوسری طرف یہ بھی حقیقت ھے کہ فساد اخلاقی و عملی، حق و حقیقت کو قبول کرنے میں مانع ھوتا ھے۔ توحید ایک ایسا تخم ھے جو صرف پاک و پاکیزہ زمین ھی میں رشد پاسکتاھے۔ بنجر اور ریتیلی زمین اس بیج کو تباہ و برباد کردیتی ھے۔ اگر انسان اپنے عمل میں شھوت پر ست و مادہ پرست ھوجائے توآھستہ آھستہ اس کے افکار و خیالات بھی قاعدہٴ ”اصل انطباق با جامعہ“کے تحت اس روحی اوراخلاقی فضا کے مطابق ھوجاتے ھیں۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن مجید کی ھدایت کو فقط متقین کےلئے قراردیاھے(ذلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھدیً لِلْمُتَّقِیْن)یہ وہ کتاب ھے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نھیںھے یہ صاحبان تقویٰ اورپرھیزگار لوگوں کیلئے مجسم ھدایت ھے (۱۴) اور اس کے انذار و عذاب کو ان لوگوں سے مخصوص کردیا ھے جو شھوت پرستی وفساد اخلاقی ا ورجنسی میں غرق ھوتے ھیں۔ (اِنْ ھوَ اِلَّا ذِکْرٌ وَّقُرَآنٌ مُّبِیْن لینذر من کان حیاً ویحق القول علی الکافرین)یہ تو ایک نصیحت اور کھلا ھوا روشن قرآن ھے تاکہ اس کے ذریعہ زندہ افراد کوعذاب الٰھی سے ڈرائیں اورکفار پرحجت تمام ھوجائے (۱۵) گزشتھ دوتین صدیوں میں مغربی دنیا میں مفاسد اخلاقی واجتماعی کی شدت و زیادتی نے لوگوں کو اخلاقیات و معنویات کی فضا سے دور کردیا ھے ۔جس کی وجہ سے اعتقادی نقطہٴ نظر سے بھی لوگ معارف و تعلیمات دینی سے برگشتہ ھوگئے ھیں۔ ثُمَّ کَانَ عَاقِبَةَ الَّذِیْنَ اَٴساوٴُا السُّوٓاٴیٰ اٴَنْ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللهِ اور اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ھوا کہ انھوں نے خدا کی نشانیوں کو جھٹلادیا۔ (۱۶) یھی وہ حربہ تھا جس کی وجہ سے مغربی دنیا کے عیسائیوں نے اسپین کی ناقابل تسخیر حکومت کو مسلمانوں کے ھاتھوں سے چھین لیا تھا۔ انھوں نے وھاں مسلمانوں کو عیش و عشرت ، شھوت پرستی، جام وشراب میں غرق کردیا اور پھر بڑی آسانی سے مسلمانوں کو اس سرزمین سے باھر نکال دیا۔ حوالہ جات: ۱۔فاتحہ/۴: مالک یوم الدین ، نیز صافات/۵۳، واقعہ / ۸۷، حجر/۳۵،ذاریات ۲۔ توبہ /۳۳: ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق ۳۔ یونس / ۲۲: دعوا اللہ مخلصین لہ الدین ۴۔فصلت/۴۲: ۵۔مثلاً حشر/۳۱، فصلت/ ۱۱، لیکن توجہ رکھنی چاھٔے کہ کسی بھی آیت کو تمثیل پر حمل کرنا فقط اسی صورت میں جایز ھے جب قرائن و شواھد تمثیل پر دلالت کرتے ہوں ۔ ۶۔سبا ۴۷ ۷۔ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن ، ج ۱۸، ص ۳۵۰ ۸۔ ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن ، ج ۱۸، ص ۳۶۰ ۹۔ نھج البلاغہ ۔ خطبہ ۲۱۶ ۱۰۔شھید مرتضیٰ مطھری، علل گرایش بہ مادی گری ، ص ۱۰۸ ۱۱۔منقول از شھید مرتضیٰ مطھری، علل گرایش بہ مادی گری ، ص ۱۲ ۱۲۔ وہی مدرک صفحہ/ ۱۱۳ ۱۳۔ قیامت/۵ ۱۴۔بقرہ :۲ ۱۵۔یٰس:۷۰۔۶۹ ۱۶۔روم:۱۰ منبع:alhassanain.com