مارکسزم کا مغالطہ
مارکسزم کا مغالطہ
0 Vote
72 View
بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین و الصلوة والسلام علی رسول اللہ وآلہ الائمة المعصومین۔ قال العظیم فی کتابہ اعوذ با للہ من الشیطان الرجیم ،قل اللھم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشائ۔(١) عدالت اجتماعی کے متعلق اس خطبہ کا آغاز کرنے سے پہلے اپنے محترم سامعین پر یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ہماری بحث عدالت اجتماعی کے حوالہ سے ہے، اقتصاد کے متعلق نہیں ہے ۔ میں نے اسلام میں عدالت اجتماعی کے تمام شعبوں کے متعلق نماز جمعہ کے خطبوں میں بحث کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لہذا اس میں اقتصادی بحث بھی ہو رہی ہے اور روابط اقتصادی کے عنوان کو بھی بیان کیا جا رہا ہے۔ بہرحال ہم سیاسی، اداری، حکومتی، قضاوتی امور کے متعلق بحث تک بھی پہنچیں گے ۔اس وقت ہماری بحث اقتصاد میں عدالت اجتماعی اور مساوات کے متعلق ہے اس مقام پر میں اسلام کا اقتصادی نظام بیان نہیں کرنا چاہتا ، بہرحال گزشتہ خطبوں میں میں نے عرض کیا تھا کہ اسلام آئیڈیل معاشرہ کا خواہاں ہے ۔ ہمیں ایسے معاشرہ کے لیئے زیادہ کام اور تولید کرنا ہو گی اور ہمیں مناسب اور معتدل مصرف کرنا ہو گا، اسلام بھی ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم تولید اور پیداوار زیادہ کریںاور میانہ روی سے خرچ کریں ۔ اس سے قبل میں اجرائی پروگرام کو بیان کرچکا ہوں اس سلسلے میں میں فکری اور اعتقادی مسائل کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اسی سلسلے میں میں نے گزشتہ خطبوں میں مالکیت کا معنی بیان کیا تھا، انسان کی مالکیت کے فرق کو بھی بیان کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ میں استثمار کے معنی کی وضاحت کروں گا کیونکہ آج کل سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں لفظ استثمارکا استعمال عام ہو چکا ہے لہذا میں اس کی وضاحت بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ استثمار کا معنی لفظ استثمار باب استفعال سے ہے اس کا معنی کسی چیز کا سود اور نتیجہ ہے یعنی منافع اور ثمرہ کا کسی شخص ،چیز یا موضوع سے طلب کرنا استثمار کہلاتا ہے لہذا ایک کاشتکار زمین سے نفع حاصل کرنے کے لئے جب اسے آباد کرتا ہے تو لغوی معنی کے اعتبار سے یہ بھی استثمار ہے ۔اسی طرح کسی کام کے نتیجہ سے کسی چیز کا مالک ہونا بھی استثمار ہے استعمار بھی اسی معنی کے مشابہ ہے اور لفظ استعمار بھی باب استفعال سے ہے اور یہ عمران سے ماخوذ ہے اس کے معنی آباد کرنا ہیں اور آہستہ آہستہ اس نے بھی استثمار کی طرح ایک خاص معنی اور مفہوم اختیار کر لیا ہے ۔ استثمار کے لغوی اور اصطلاحی معنی میں فرق منافع لینا ، طالب منافع ہونا اور فوائد حاصل کرنے کی جستجو کرنا استثمار کا لغوی معنی ہے یہ آج کل استعمال ہونے والے معنی سے بالکل مختلف ہے ۔ سیاسی اور فکری محاورات میں استثمار سے مراد یہ ہے کہ کام کوئی کرے اوراس کے منافع ہمیں مل جائیں جب یہ کہا جاتاہے کہ استثمار درست نہیں ہے تو اس سے مراد یہی معنی ہے ۔ ہم اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہیں کہ استثمار کا حقیقی معنی کیا ہے اسلام ، مار کسزم اورسرمایہ داری نظام میں اس کے کیا معنی ہیں ہمیں کون سا معنی مراد لینا چاہیے بہر حال مندرجہ بالا معنی کی روشنی میں استثمار نہ صرف بری چیز ہے بلکہ حرام ہے ۔قرآن مجید کی آیات اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات اسے اچھا نہیں سمجھتیں بلکہ ہمیں بتاتی ہیں کہ انسان جو کام کرتا ہے اس کا منافع اور ثمرہ اسی کا ہے ۔ وان لیس للا نسان الا ما سعی۔(2) انسان جو کوشش اور سعی کرتا ہے وہ اسی کے لئے ہے ۔ بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن صرف ایک خاص کلام ہے ثواب اور اخروی جزاء کو ہی بیان کرتا ہے یہ ان کی اپنی رائے ہے قرآن مجید تو ہر مسئلہ کو بیان کرتا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے ۔ لایکلف اللہ نفساالاوسعھا لھا ما کسبت وعلیہا مااکتسبت ۔(3) خدا وند عالم ہر کسی پر اتنا بوجھ ڈالتا ہے جتنی اس میں طاقت ہو ۔ جو کچھ اسے ملا ہے وہ اس کا اپنا ہے اور جو چیز وہ اپنے قبضے میں لائے اس کی مسئو لیت بھی اس کی گردن پر ہے۔ قرآن مجید میں اس مطلب پر کافی آیات موجود ہیں جو کام اور کسب کو انسان کی ذات کے لئے قرار دیتی ہیں اور یہ بھی بتاتی ہیں کہ کام کرنے سے جتنی بچت اور منافع حاصل ہو وہ بھی اسی کا ہے یہ آیات اس قدر واضح ہیں جنہیں بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ مزدور پر ظلم جائز نہیں ہے اس مطلب پر ائمہ معصومین علیہم السلام کی بہت سی روایات بھی دلالت کرتی ہیں میں صرف ایک روایت بیان کر کے اپنی بات کو آگے بڑھاتا ہوں ۔ اسلام میں مزدور پر ظلم کرنا درست نہیں ہے اس سلسلے میں حضرت پیغمبرۖ اسلام ارشاد فرماتے ہیں۔ من اظلم اجیرا اجرتہ احبط اللہ عملہ۔ جو شخص مزدور پر ظلم کرے اور اسے اس کی مناسب اجرت ادا نہ کرے تو خداوند متعال اُس کے اعمال ضائع کر دیتا ہے ۔ (4) اُس شخص کو جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہوگی اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت تک دوسرے کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ حضرت پیغمبرۖ اسلام اور حضرت امیر علیہ السلام کی وصیتوں میں ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص مزدورپر ظلم کرے تو ؛ فعلیہ لعنة اللہ؛ یعنی اس شخص پر خدا کی لعنت ہو۔ جو مزدور کو اس کی مناسب اور صحیح اجرت نہیں دیتا اور اس پر ظلم کرتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی اِس مطلب پر کافی روایات بیان ہوئی ہیں ایک روایت اس طرح ہے کہ برے اور گھٹیا گناہ کی کئی صورتیں ہیں یعنی اپنی بیوی کا حق مہر ادا نہ کرنا اور مزدور کو منا سب ا ور صحیح اجرت ادا نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ (5) بعض روایات میں کلی مفہوم موجود ہے مثلاً فجنات ایدیھم لا تکون الا لا فواھھم۔ انسان جو کچھ اپنے لئے بو تا ہے وہ اسی کے لئے ہے ۔ اس مطلب پر مزید روایات کی جمع آوری ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ اسلام کے واضح احکام میں سے ہے اور مزدوروں پرظلم بہت بڑاگناہ ہے اورعذاب الہی کا موجب ہے ۔ اس کی وجہ سے انسان خدا کی لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے لہذا انسان کو استثمار سے دوری اختیار کرنی چاہیے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کام کوئی کرے اور اس کی محنت کا پھل دوسرے لے جائیں میں نے آہستہ آہستہ ایک علمی بحث کوانتہائی سادہ الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کو استثمار کا اصطلاحی معنی معلوم ہو جائے اور آپ یہ جان لیں کہ اسلام میں استثمار سے کیا مراد ہے ؟اور انسان دوسرے لوگوں کی محنت کے پھل کو کس طرح غصب کرتا ہے؟اس بحث کے بعد اب ہم استثمار کے حوالے سے تفصیلی بحث کرتے ہیں کہ اس کے کیا کیا احکام ہیں؟ اور انسان دوسروں کے کام کی اجرت کس طرح غصب کرتا ہے ؟ مارکسزم اور استثمار مارکسزم کے نظریہ پر عمل کرنے والے لوگوں نے استثمار کے مفہوم کی انتہائی غلط اور غیر حقیقی وضاحت کی ہے۔ گزشتہ بحث میں ،میں اس کی طرف اشارہ کر چکا ہوں کہ وہ بنیادی عامل جس کی وجہ سے انسان کسی چیز کا مستحق قرار پاتا ہے اور وہ چیزاس کی ملکیت میں آجاتی ہے وہ کام یابالواسطہ ہوتا ہے یا بلاواسطہ ہوتا ہے ۔ (اس مقدمہ کو گزشتہ ہفتہ کے خطبہ میں بیان کر چکا ہوں اب تفصیلاً اس کے متعلق بحث کو بیان کرنا چاہتا ہوں) اگر ہم غور کریں تو جس جس چیز کے ہم مالک ہیں ان تمام چیزوں کو اللہ نے خلق کیا ہے ہم اس کے حقیقی مالک کس طرح بن سکتے ہیں ، ان تمام چیزوں کا حقیقی مالک صرف اور صرف وہ خدا ہے جو ہمارا اور ان سب چیزوں کا خالق ہے۔انرجی کے منابع ،معدنیات،سمندر،جنگل اور کائنات کی تمام نعمتیں اللہ تعالی نے ہمارے لیئے خلق فرمائی ہیں۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے والارض وضعھا للانام۔ نعمتیں اور زمین کے تمام ذخائر کو اللہ تعالی نے لوگوں کے لیئے قرار دیا ہے۔(6) اسلام میں کام کی اہمیت میں اپنی عبا کا کیسے مالک بنا ہوں اورآپ زمین وغیرہ کے کس طرح مالک ہیں ہمارے پاس ملکیت کی دلیل صرف کام ہے خوا ہ وہ کام بالواسطہ ہو یابلاواسطہ ہو۔ جب ہم نے جائز کام کی بدولت زمین سے کچھ حاصل کیا ہے تو وہ ہماری ملکیت ہے ،البتہ بعد میں ہماری اپنی خواہش اور مرضی سے دوسرے کی ملکیت بھی بن سکتی ہے مثلا وراثت کی صورت میں اولاد یا وقف وغیرہ کی صورت میں دوسروں کے ہاتھ آسکتی ہے بہرحال ہم لوگ کام اور محنت کے ذریعے طبعی اور قدرتی وسائل حاصل کر سکتے ہیں۔ بہرحال مالکیت کی اساس کام ہے ہمیں اس کی طرف توجہ کرنا چاہیے ہم کام سے سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم نے محنت مزدوری سے پیسہ اکٹھا کر کے گھر بنایا ہے تو یہ ہماری ملکیت ہے اسے کرایہ پر دینا اور کرایہ وصول کرنا سب جائز ہے ۔ اب اگر ہم کوئی نیا کام نہیں کرتے بلکہ صرف مکان کو کرایہ پر ہی دیئے ہوئے ہیں تو یہ بھی کام کہلاتا ہے حتی اگر آپ اسے بیچتے ہیں تو یہ بھی کام ہے ایک اور مثال عرض کرتا ہوں۔ مثلاً میں نے درخت لگائے ،یا اپنی بھیڑ بکریوں سے اون حاصل کی اور اسے ایک پیداوار کے عنوان سے پیش کیا اب اس رقم سے میں نے مچھلی فارم بنایااس کی اپنی جگہ پر اہمیت اور مالیت ہے ۔میں اس فارم کو مچھلیاں پکڑنے والے کے سپرد کرتا ہوں۔ اور وہ شخص فارم سے مچھلیاں پکڑ کر لاتا ہے تو یہ شخص میرے فارم بنانے کی وجہ سے یہ کام کر رہا ہے اور میں اس سے اس فارم کا کرایہ وصول کر لیتا ہوں تو یہی میرا کام ہے اور میں اس کام کی بدولت روپیہ حاصل کرتا ہوں المختصر انسان بالواسطہ یا بلا واسطہ کام کر سکتا ہے اور اس سے استفادہ بھی کر سکتا ہے ۔ مارکسزم کا مغالطہ مارکس اور مار کسزم نے بہت بڑا مغالطہ کیا ہے ان کا نظریہ ہے کہ اس دنیا میں جتنی پیداوار ہوتی ہے اور نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں ان میں صرف اور صرف خود کام کرنے کی قدرو قیمت ہے ہمیں اپنے سابقہ کاموں کو مد نظر نہیں رکھنا چاہیے اور ہمیں نئے نئے کام کرنا چاہیے۔ ان کے نزدیک یہ سب کام اسی کی مالکیت ہیں جو اس وقت کام کر رہا ہے مثلًا آپ کا کارخانہ ہے اور آپ ٥روپے کے حساب سے خام مال کار خانہ میں لاتے ہیں اور پھر یہ پچاس یا ١٠٠ روپے کے بعد کپڑے کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور بازار میں پہنچ جاتا ہے۔ ان کے نزدیک کپڑے کی اس کے بعد خام مال کی نسبت جو اضافی قدر وقیمت ہے یہ مزدوری کے کام کی وجہ سے ہے لیکن یہ لوگ پہلے سے موجود چیزیں مثلاً کار خانے ،بلڈنگ ،مشینری اور دوسری ضروریات کی چیزوں کو مدنظر نہیں رکھتے ،ان کے نزدیک ساری قدر وقیمت اس ہونے والے کام کی بنیاد پر ہے جو آج ہوا ہے۔ لہذا ہر شخص کار خانے کے بغیر مزدور کو ٥ اور ٥٠ کی نسبت کو مد نظر رکھ کر پیسہ وصول کرے تو یہ استثمار کہلاتا ہے ۔ اور اسی کو غصب بھی کہتے ہیں۔البتہ اس قانون کو پرائیویٹ کار خانوں میں قابل عمل سمجھا جاتا ہے جہاں گورنمنٹ اورعوامی چیزوں کا تعلق ہے اس کا اس سے واضح فرق ہے کیونکہ اس منافع کو گورنمنٹ حاصل کرتی ہے کیونکہ ان کی نظر میں حکومت عوام کی نمائندگی کرتی ہے اور وہ خود مزدوروں کو ان کی اجرت دیتی ہے۔ یہ لوگ پرائیویٹ اداروں سے کم اجرت دیتے ہیں اور اسکے دعوے دار ہیں کہ یہ مزدوروں کی حکومت ہے یہ مزدوروں میں کوئی فرق روا نہیں رکھتی اور اگر اسی طرح کام پیداوار اور ان کی قدر وقیمت جیسے مسائل کا سامنا ہو تو ہمارے لئے ضروری نہیں ہے کہ ہم پرائیوٹ ادارے میں مزدوری کے عنوان سے کام کریں۔ مارکس ازم کے نظریہ کو مد نظر رکھتے ہوئے انسان کو کام اور محنت مزدوری کا کوئی حق نہیں ہے انہیں مزدوری کے لئے کسی کارخانے میں ملازمت دینا بھی ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک مزدور جو کچھ تیار کرتا ہے اس پر اسے کوئی حق نہیں ہے مگر یہ کہ اس نے ہی کام میںسرمایہ لگایا ہو تب مالک کو کچھ حاصل ہو سکتا ہے مثلاً کسی کے پاس ١٠٠٠ روپیہ ہے اور وہ ہر سال ١٠٠ روپیہ اس لئے لے سکتا ہے تا کہ اپنے ١٠٠٠ روپیہ کو ادا کرے۔ یہ ایک قسم کا طریق کار ہے اس قسم کی مزدوری یا ملکیت پرائیوٹ ادارے میں درست نہیں ہے ۔ مار کسزم کے استدلال پر اشکال جس مسئلہ کی انہوں نے وضاحت نہیں کی ہے وہ یہ ہے کہ ممکن ہے ایک مزدور نے محنت ومشقت سے کام کر کے کچھ رقم اکٹھی کی ہے اور چار کمروں کا گھر بنا لیا ہے اور ایک کمرہ کو کرایہ پر دینا چاہتا ہے تو ان کے مطابق یہ درست نہیں ہے اور اسے یہ لوگ استثمار کا نام دیتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں اسے صرف رقم خرچ کرنے کا حق ہے ۔ اسے اپنی رقم کے مطابق ایک گھر خریدنا یا بنانا ہے اپنی رقم سے اضافی پیسہ لینا دوسرے لوگوں کا استثمار ہے ۔ اس طرح مثلاً ایک مزدور نے محنت اور کوشش کے ساتھ ایک گاڑی حاصل کی اور اسے اجارہ اور کرایہ پر کسی کو دے دیتا ہے تا کہ وہ محنت مزدوری کرے کچھ خود کمائے اور کچھ اسے لا کر دے تو مارکس ازم کے نظریہ کے مطابق یہ دوسروں کااستثمار ہے۔دوسروں سے جگا ٹیکس لینے کے مترادف ہے۔ لہذا ان کی نظر میں جتنی رقم خرچ کر سکتا ہے اس اندازے کے مطابق حاصل کرنا اس کے لئے درست ہے اور بس۔ ان کا استثمار کا یہ معنی مراد لینا انتہائی غلط اور نامنا سب ہے کیونکہ انسان اپنے کام اور محنت سے حاصل کر دہ چیز سے مزید کچھ حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتاہے۔ اگر وہ مزید کام کرنا چاہے تو یہ دوسروں کے سرمایہ اور منافع کو ناروا کھانے کے مترادف ہے۔ سرما یہ داری نظام اور مزدوری دوسری طرف یہ سرمایہ داری نظام کے قائل لوگ بھی مزدور کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔سرمایہ داری نظام کام کو مختلف تقاضوں کے تابع سمجھتا ہے یہ لوگ اپنی مرضی کے مطابق مزدورکو تنخواہ دینے کے قائل ہیں خواہ مزدور کے ساتھ زیادتی ہی کیوں نہ ہو رہی ہو اور اپنے اقتصادی کاموں کی جس قدر اجرت وصول کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص امریکہ میں رہتے ہوئے بنگلہ دیش یا افریقہ میں اپنا کار خانہ لگالیتا ہے کیونکہ ان ممالک میں مزدور کم اجرت پر میسر آجاتے ہیں اسی طرح یورپ کے مغربی ممالک نے یورپ کے مشرقی ممالک جیسے یوگوسلاویہ ، بلغاریہ ،مجارستان اور لہستان میں کارخانے لگارکھے ہیں اور اپنی مصنوعات وہاں تیار کرتے ہیں کیونکہ یہاں مزدوروں کی اجرت کم ہے ۔ لہذا یہ لوگ پیسہ کمانے کے چکر میں ہیں انہیں جہاں سستے مزدور مل جاتے ہیں وہاں سرمایہ کاری شروع کر دیتے ہیں اسی وجہ سے مغربی ممالک پسماندہ ممالک میں سرمایہ کاری کر کے اپنی مصنوعات مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اور انہیں دوسری جگہ پر فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ مزدور کو اس کا مناسب حق بھی ادا نہیں کرتے ۔ اسلام میں مزدوری کام کے متعلق اسلام کا طریقہ کار یہ نہیں ہے اس علمی اور دقیق بحث کو سکولوں میں بھی بیان کیا جانا چاہیے ۔لیکن میں نماز جمعہ کے خطبہ میں انتہائی سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کر رہا ہوں تاکہ ہمارے ملک کے نوجوان خاص توجہ دیں۔ بہرحال عدالت اجتماعی کی اقتصادی مسائل کے متعلق بحث کو بیان کر کے مناسب نتیجہ لینا چاہتا ہوں اسلام کہتا ہے کہ ایک مزدور کو اس کا حق دیا جائے اسی طرح کارخانہ اس کی مشینری زمین بلڈنگ مچھلی فارم گاڑی غرض سب کچھ کرایہ پر دیا جا سکتا ہے اور اس سے مکمل استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مقام پر ایک دقیق فقہی بحث ہے آیا کارخانے سے صرف اجرت لی جا سکتی ہے یا اس کے ساتھ شریک بھی ہو سکتے ہیں تولیدی کاموں میں سرمایہ داری کرنے کے ساتھ ساتھ اجرت بھی لے سکتے ہیں مثلاً کارخانے کو کرایہ پر دے کر اس کے منافع میں شریک نہیں ہو سکتے،فقہی لحاظ سے یہاں کافی دقیق مباحث ہیں جنہیں کسی اور وقت کے لیئے اٹھا رکھتا ہوں ۔بہرحال اسلام مجسم کام کو بھی قبول کرتا ہے خواہ وہ اشیاء کی شکل میں ہو یا کام کرنے کے اوزار کی شکل میں ہو ان سب پر اجرت بھی ہے اوریہ محدود بھی نہیں ہیں ۔ مارکس ازم اور ہمارے درمیان اہم اختلاف یہی ہمارے اور مارکسزم کے درمیان سب سے بڑا ختلاف ہے ان کے نزدیک کوئی شخص بھی تولید کے وسائل کا مالک نہیں بن سکتا ،گاڑی، پانی، زمین اور کارخانے وغیرہ اگر پیداوار اور تولید کے حوالہ سے ان کے پاس ہیں تو یہ قابل ملکیت نہیں ہیں۔ یہ سب حکومت کا مال ہے جبکہ اسلام اس نظریہ کو تسلیم نہیں کرتا اسلام ان کی ملکیت کا قائل ہے۔ البتہ جس طرح سرمایہ داری نظام افراط کا قائل ہے اسلام اس افراط کو قبول نہیں کرتا اس کی وضاحت میں بعد میں بیان کئے جانے والے خطبہ میں کروں گا ۔ ایک پیداوار کے مختلف عناصر اس مقام پر ایک بنیادی نکتہ کی وضاحت ضروری ہے اس معاشرہ میں جتنی تولید بھی ہوتی ہے یا قدرت ہمیں کچھ چیزیں عطا کرتی ہے اس کے مختلف پہلو ہیں۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جو کسی کی ملکیت نہیں ہیں ایسی چیزیں یاحکومت کی ہیں یا معاشرہ کے تمام افراد اس کے مالک ہیں مثلا خام مال، قدرتی وسائل وغیرہ ا ور بعض چیزوں کے ہم مالک ہوتے ہیں اور بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا خاص افراد کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ معاشرے کے تمام افراد کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔مثلا جب کوئی مشینری تیار کی جاتی ہے تو یہ کام بہت سے افراد مل کر کرتے ہیں ۔ ان قدرتی وسائل ،انرجی،مدیریت کے ساتھ ساتھ بہت سے عوامل شریک کار ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کارخانہ کے منافع کی تقسیم کس طرح کی جائے تا کہ ہم عدالت اجتماعی کے اس نکتہ تک پہنچ جائیں جو ہمارا مطلوب ہے ۔بہرحال اگر کوئی یہ کہے کہ ان تمام چیزوں کا کوئی مالک نہیں ہے تو اس کا طرز عمل اور طرح کا ہوگا اور اگر یہ سمجھے کہ اس کا کوئی مالک ہے تو اس کا طرز عمل پہلے سے مختلف ہوگا۔ ہم نے گزشتہ خطبہ میں عرض کیا تھا اس ساری کائنات کا خالق و مالک خدا ہے اور مذکورہ آیت کی رو سے خدا کے بعد ان چیزوں کے ہم انسان مالک ہیں قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ ایک اسلامی اور شرعی حکومت کو ہم پر حق ولایت حاصل ہے اور وہ زمین پر خدا کی نمائندہ ہے ۔ جتنے قدرتی وسائل خدا نے لوگوں کے حوالے کیے ہیں وہ سب ولی امر کے زیر نطر ہیں،اسلامی حکومت خدا کی نمائندہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے اموال کی متصدی ہے ،مثلا ًتمام قدرتی اور طبعی منابع اور خام مال جسے اس کائنات سے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ کسی کی ملکیت کے بغیر نہیں ہے۔ ایک طرف تو معاشرے کے وہ افراد ہیں جو ان ذخائر کے مالک ہیں دوسری طرف خدا اور عوام کے نمائندے کی حکومت ہے اور ایک کارخانے کے مالک اور کاری گر ہیں جنہوں نے اسے قابل استفادہ شکل میں تیار کیا ہے ۔ کام اور حقوق کی ایک بحث لوگوں کی ایک جماعت نے مل کر مثلا ایک چیز (گاڑی) بنائی ہے اس کے لیئے کوئلہ، قدرتی ذخائر،انرجی تیل اور نہ جانے کن کن وسائل سے استفادہ کیا گیا ہے ، یہ مجموعی چیز عوام الناس کا مال ہے اور حکومت ان کی نمائندہ ہے۔ ہم اس سے کس طرح استفادہ کریں آیا اس نمائندہ حکومت کی رائے کو مدنظر رکھا جائے گا اور اس خدا کا حق ہے جس کی یہ حکومت نمائندہ ہے ہمیں ان تمام حقوق کا خیال کرنا ہو گا اس کے تمام عوامل اور شرائط موجود ہوں گے تو ہم قدرتی ذخائر سے استفادہ کر سکیں گے۔ہم انفال کی بحث میں بیان کر یں گے ،دریا اور سمندر تمام لوگو ں کی ملکیت ہیں یعنی اس کی مچھلیاں اور دوسری چیزوں کے سب لوگ مالک ہیں اب اگر کوئی شخص دریا سے مچھلیوں کا شکار کرتا ہے تو یہ اسی کا حق ہے البتہ یہ ضروری ہے کہ ایک مقدار معاشرہ کے لیئے اور ایک مقدار شکار کے آلات فراہم کرنے والے کے لیئے اور ایک مقدار پر اس مزدور کاحق ہے۔ المختصر اس تقسیم میں ایک بنیادی تعادل کو برقرار رکھنا ضروری ہے ۔ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو ان تمام چیزوں کا مالک خدا اور اس کے بعد اس کے حقیقی نمائندے یعنی انبیا ء ائمہ علیہم السلام اور اسلامی حکومتیں ان قدرتی ذخائر کی مالک ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید کا فرمان ہے۔ وانفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ۔(7) ان تمام چیزوں پر جن پر خداوند عالم نے تمہیں اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔ان کا انفاق کروقران مجید میں اموالکم اور رزقکم میں موجود لام اور کاف زبر کے ساتھ بھی استعمال ہوا ہے۔ خداوندعالم ان لوگوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے تم اللہ کے جانشین ہو لہذا تم زمین میں تصرف کر سکتے ہو اسی طرح ان اموال کو بخشش کے عنوان سے بھی دے سکتے ہو ایک اور مقام پر اللہ کا ارشاد ہے ۔ واتوا ھم من مال اللہ الذی اتاکم۔(8) خدا نے تمہیں جو مال ودولت عطا فرمایا ہے اس سے بخشش کیا کرو۔ یہ آیات ہمیں پیغام دے رہی ہیں کہ ہم اپنے ذاتی اموال میں بھی خود کومستقل مالک تصور نہ کرین بلکہ اس مال میں سے اللہ کی راہ میں غریبوں پر بھی خرچ کریں ۔ بعض ڈرائیورحضرات نے اپنی گاڑیوں پر یہ شعر لکھا ہوتا ہے جو اسی مطلب پر دلالت کرتا ہے۔ درحقیقت مالک اصلی خدا است این امانت چند روزی نزد ما است حقیقت میں ہماری ان چیزوں کی اصلی مالک اللہ کی ذات ہے ہمارے پاس تو چند روز کے لیئے امانت کے طور پر موجود ہیں۔ روح مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ اس کائنات کے اموال پر ہم مستقل نہیں ہیں بلکہ اس مال میں کافی لوگ شریک ہیں ہم نے جو کام کیا ہے وہ خداوند عالم کی عطا کردہ طاقت و قوت کی وجہ سے وجود میں آیا ہے اور ہمارا خالق بھی خدا ہے لہذا ہمارے اموال میںخدا کی مخلوق بھی ہمارے ساتھ شریک ہے ۔ اللہ کا جانشین انسان اس زمین پر اللہ کا جانشین ہے لہذاخدا کا خلیفہ ہونے کے حوالہ سے ان تمام دنیاوی اموال کو خدا کی ملکیت سمجھتے ہوئے اس میں تصرف کریں حتی کہ انفاق کرتے ہوئے بھی ہمیں اس چیز کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ ہم خدا کے مال سے ہی بخشش کر رہے ہیں۔ حقیقت میں خداوند عالم کے ارادے اور اجازت سے ہم اس قابل ہوئے ہیں۔ گزشتہ دونوں خطبوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اصل مالک خدا ہے اس کے بعد ہماری ملکیت ہے اور ہماری ملکیت بھی خدا کی نیابت کے عنوان سے ہے ہمارے لئے کچھ حدود ہیں ان میں رہتے ہوئے ہم ایک چیز کے مالک ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی بیان کرچکے ہیں کہ شرعی اور اسلامی حکومت اللہ کی نمائندہ ہے یہی حکومت معاشرہ کی نمائندہ بھی ہے اور جن اموال کا خداوند متعال نے مندرجہ ذیل آیت میں ارشاد فرمایا ہے والارض وضعھا للانام۔(9) اس زمین کو انسانوں کے لئے خلق کیا ہے۔ لہذاخدا نے زمین کو ہم لوگوں کے لئے بنایا ہے یہ حکومت اس کی نظارت کرنے والی ہے۔ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ قدرتی وسائل کے ذریعے سے جو ملکیت حاصل ہوتی ہے وہ کام کی بدولت ہے کیونکہ کام کے بغیر ہم کسی چیز پر تصرف کا حق نہیںر کھتے۔ علماء اور فقہاء حضرات نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی کے گھر سیلاب کا پانی جمع ہوجاتا ہے تو وہ اس پانی کو کسی کام مثلا ًکھیتی باڑی اور حیازت(10)کے قصد سے استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اس پانی کے آپ مالک نہیں ہیں ۔ یعنی کام کے بغیر آپ کسی چیز کے مالک نہیں بن سکتے اگر آپ کوئی چیز کرایہ پر حاصل کریں اور خود کام کرنے کے بجائے کسی اور کو زیادہ پیسوں پر دیں تو یہ درست نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔ مثلًا آپ نے ایک لاکھ کے ٹھیکہ پر زمین لی اور اسے ایک لاکھ پچاس ہزار میں دینا چاہیں تو یہ درست نہیں ہے۔ البتہ اگر آپ نے اس پر کوئی کام کیا ہو مثلاً کنواں کھودا ہو اور اسے زیادہ استفادہ کے قابل بنایا ہو تب درست ہے اسی طرح آپ نے سڑک بنانے کے لیئے حکومت سے معاملہ کیا ہے مثلاً آپ کا معاملہ ایک میٹر کا ایک لاکھ تھا اور آپ کسی اور کمپنی کو ایک لاکھ دس ہزار پر اس وقت تک ٹھیکے پر نہیں دے سکتے جب تک آپ اس پر کوئی کام نہ کریں۔ المختصر بغیر کام کے کسی قسم کا اضافہ یا زیادتی درست نہیں ہے ۔ جب ایک مال پر آپ کی ملکیت ثابت ہو جاتی ہے تو اسے آپ دوسروں کو بخش سکتے ہیں ۔البتہ فلاحی اور رفاہی کاموں میں مسئلہ کے حوالہ سے کچھ فرق ہے بہرحال بغیر خدمت اور کام کے کسی قسم کا پیسہ لینا حرام ہے۔ اسلام اور استثمار اسلام کے نزدیک استثمار یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے کے کام سے ناحق فائدہ نہیں اٹھا سکتا جب کسی شخص کو مزدوری کے لیئے گھر لایا جاتا ہے اور وہ شخص کچھ پیسہ اکھٹا کر کے اپنا گھر بنا لیتا ہے یہ گھر اس کی اپنی ملکیت ہے ہم اس سے یہ گھر نہیں لے سکتے اگر یہ گھر غصب کریں گے تو یہ استثمار ہے ۔جس طرح ہم پہلے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث بیان کر چکے ہیں کہ اگر کوئی شخص مزدور کو اس کا صحیح حق ادا نہ کرے تو اس نے مزدور پر ظلم کیا ہے ۔ حضرت اس حدیث کے ذیل میں ارشاد فرماتے ہیں ۔اگر کسی نے اپنے ہمسائے کی ایک بالشت زمین پر نا حق قبضہ جما لیا تو یہ زمین لعنت کے طوق کی طرح اس کی گردن میں آویزاں ہو جائے گی(11)اگر مزدور کو اس کی مناسب مزدوری نہ دی جائے تو یہ ظلم ہے۔ اسی طرح کسی بھی چیز مثلًا لباس گھر وغیرہ کا غصب کرنا بھی ظلم ہے اسے ایک اصول کے عنوان سے قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے ۔ ولا تاکلوااموالکم بینکم بالباطل۔(12) اپنے اموال کا ناحق تصرف نہ کرو۔ انشا اللہ اگلے خطبہ میں یہ بیان کروں گا کہ شرعی ملکیت کو وجود میں لانے کے عوامل کیا ہیں؟ تاکہ ہمارے معاشرے پر واضح ہو جائے کہ اسلام میں مال و دولت اکھٹا کرنے کی ایسی کوئی راہ نہیں ہے کہ انسان سو کر اٹھے اورکوئی کام کرنے کے بغیرقارون کے خزانہ کا مالک بن جائے۔ بہرحال اگلی بحث میں ہم ایسی راہوں کی وضاحت کریں گے جن کے ذریعے اسلام نے مال جمع کرنے کی اجازت دی ہے اور ان راہوں کی وضاحت بھی کریں گے جن کے ذریعے مال و دولت کا حاصل کرنا درست نہیں ہے۔یعنی معاشرے میں موجود شرعی اور غیر شرعی خطوط کی وضاحت بیان کی جائے گی۔ (١)آل عمران:٢٦ (2)نجم:٣٩ (3)بقرہ:٢٨٦۔ (4)بحار الانوار ٢٤:١٢ (5) بحار الانوار ج١٠٣ ص ٣٥٠ اس مقام پر پیغمبر اسلام سے اس مضمون کی روایات موجود ہیں۔ہو سکتا ہے اللہ تعالی ہر کسی کو معاف کر دے لیکن اس شخص کو کبھی معاف نہیں کرے گاجو اپنی بیوی کے حق مہر کا انکار کر دے،کسی مزدور کی اجرت غصب کر لے،یا کسی آزاد انسان کو بیچ دے۔اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں بہت برے گناہوں میں سے ایک گناہ خودکشی،بیوی کے حق مہر کاانکار اور مزدور کی اجرت کو غصب کرنا ہے ۔ (6)رحمن:١٠ (7)حدید:٧ (8) نور:٣٣ (9)رحمن:١٠ (10)حیازت کا لغوی معنی کسی چیز کو اکھٹا کرناہے جب کہ اصطلاح میں مباحات کو حاصل کرنے کے لیئے اچھی نیت کے ساتھ مناسب کام کرنا حیازت ہے ۔باالفاظ دیگرمباحات کو قابل استفادہ بنانا حیازت ہے اور یہ ملکیت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے مثلًا کوئی شخص کچھ مقدار مباح پانی کو کھیتی باڑی کے لیئے استعمال کرتا ہے یا دریا کے پانی سے ملکیت کا قصد کرتے ہوئے کچھ جواہرات وغیرہ تلاش کرتا ہے تو یہ اس کا مال شمار ہو گا اور اسے مکمل طور پر تصرف کا حق حاصل ہے۔ بہرحال اچھی نیت کے ساتھ مباح چیزوں (ایسی چیزیں جن کا استعمال شرعا ً حرام اور مکروہ نہ ہو مباح کہلاتی ہیں ) کو مناسب طریقے سے حاصل کرنے کے ساتھ انسان اس کا مالک بن جاتا ہے۔ (11)اس حدیث کا عربی متن اس طرح ہے۔ من خان جازہ شبرا ٠ ٠جعلہ ٠٠طوقا فی عنقہ۔ (12)بقرہ:١٨٨ منبع:shiastudies.net