ماہ رمضان المبارک کے پہلے دن کی دعا/دعائیہ فقرات کی مختصر تشریح
ماہ رمضان المبارک کے پہلے دن کی دعا/دعائیہ فقرات کی مختصر تشریح
0 Vote
311 View
ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی
ماہ رمضان المبارک کے پہلے دن کی دعا:اللَّهُمَّ اجْعَلْ صِيَامِي فِيهِ صِيَامَ الصَّائِمِينَ وَ قِيَامِي فِيهِ قِيَامَ الْقَائِمِينَ وَ نَبِّهْنِي فِيهِ عَنْ نَوْمَةِ الْغَافِلِينَوَ هَبْ لِي جُرْمِي فِيهِ يَا إِلَهَ الْعَالَمِينَ وَ اعْفُ عَنِّي يَا عَافِياً عَنِ الْمُجْرِمِينَ۔ترجمہ: اے معبود! میرا آج کا روزہ حقیقی روزے داروں جیسا قرار دےاور میری عبادت کوسچے عبادت گزاروں جیسی قرار دے اور مجھ کو ہوشیار کر دے غافلوں کی نیند سے اور میرے گناہ کو بخش دے اے عالمین کے معبود اور مجھ کو معاف کر دے اے گنہگاروں کے معاف کرنے والے۔
اہم نکات (1)ایسی توفیق کی درخواست جس سے حقیقی روزہ دار بنا جاسکے۔(2)انماز اور شب زندہ داری انجام دینے کی درخواست(3) درگاہ رب العزت میں عفو و بخشش کی درخواست۔ |
دعائیہ فِقرات کی مختصر تشریح
۱– اللَّهُمَّ اجْعَلْ صِيَامِي فِيهِ صِيَامَ الصَّائِمِينَ وَ قِيَامِي فِيهِ قِيَامَ الْقَائِمِينَ:
اس دعائیہ جملہ سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ اعمال وعبادات کے دو رُخ ہیں؛ ایک ظاہر دوسرا باطن، اس دعا کے ذریعہ درحقیقت ہم درخواست کرتے ہیں کہ ظاہری روزہ کے ذریعہ حقیقی اور واقعی روزہ تک رسائی حاصل کرلیں، اور ظاہرِ نماز سے حقیقتِ نماز تک پہنچ جائیں،کیونکہ انسان ایک ایسے وجود کا حامل ہے، جو دو عناصر پر مشتمل ہے، ایک اس کا وجودِ حیوانی، دوسرا اس کا وجودِ روحانی،روزہ اصل میں جز ءِثانی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے اس کی تقویت و توانائی کا سامان فراہم کرتاہے،کیونکہ اگر روزہ رکھ کر بھی روح، جلوۂ ربانی کے لیے ترستی، روتی اور تڑپتی رہے اور بَہمیت ہنستی، کھیلتی، اچھلتی کودتی اور دندناتی پھرتی رہے، گویا جیسے تھے ویسے ہی رہیں، روزہ بس روز جیسا ہی رہے، تو ایسا بے روح روزہ ایسے ہی ہیں جیسے کوئی پھول ہو، مگر خوشبو نہ ہو،کوئی جسم ہو، مگر روح نہ ہو، کوئی چراغ ہو مگر روشنی نہ ہو، روحِ لطیف، نگاہ ِعفیف، روزہ حصول مقاصد کا وسیلہ نہ بنے تو ایسا ویسا روزہ اللہ کو مقصود و مطلوب و منظور نہیں، ماہ رمضان میں صیام و قیام کا اہتمام، تلاوت قرآن کے انصرام کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ’’نور تجلی جو خاک میں پنہاں ہے،‘‘ فربہ اور توانا بن کر ’’اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز ‘‘ کا مصداق بن جائے۔
۲– وَ نَبِّهْنِي فِيهِ عَنْ نَوْمَةِ الْغَافِلِينَ:
نماز اور روزہ کی حقیقت تک پہنچنے کا لازمہ یہ ہے کہ انسان خواب غفلت سے بیدار ہوجائے۔
غفلت کے اسباب ۱– دنیا میں رونما ہوئے حادثات و واقعات سے عبرت نہ لینا: پیغمبر اسلام 1فرماتے ہیں: غافل ترین شخص وہ ہے جو دنیا کے بدلتے حالات سے عبرت نہ حاصل کرے [1]۔
۲– عمر کو بیہودہ برباد کرنا: حضرت علی Aفرماتے ہیں:غفلت کے لئے کیا یہی کافی نہیں کہ انسان اپنی عمر کو ایسی جگہ برباد کرے جو اسکی نجات کا باعث نہ ہو [2]۔
۳– لااُبالی پَن:جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا:غافل کی تین نشانیاں ہیں: کھویا کھویا رہنا،کہیں گُم رہنا،بھولکڑ ہونا[3]۔
غفلت کا انجام
۱– بے وقوفی: حضرت علی A:غافل بے وقوف ہے[4]۔ 2۔ قساوت قلب:امام باقر A: غفلت سے بچو کیونکہ اس سے قلب سخت ہوجاتا ہے[5]۔3۔ ہلاکت: حضرت علی A:جسکی غفلت کا دورانیہ جتنا زیادہ طولانی ہوگا وہ اتنی ہی جلدی ہلاک و برباد ہوگا[6]۔ 4۔ قلب کا مردہ ہوجانا:حضرت علی Aجس کسی پر غفلت حاوی ہوجائے اسکا دل مَر جاتا ہے[7]۔ 5۔ بصیرت کا ختم ہوجانا:حضرت علی A: غفلت کا بڑھتا رہنا عقل کو اندھا بنا دیتا ہے[8]۔ 6۔ گھاٹا:امام علی A:جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا وہ فائدہ میں رہا اور جو اس سے غافل رہا وہ سراسر گھاٹے میں رہے گا[9]۔
غفلت کےاسباب و عوامل
11– موال و اولاد: قرآن کریم : اے ایمان والو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں خدا کی یاد سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گا وہی لوگ گھاٹا اٹھانے والے ہیں[10]؛ 2–آرام و آسائش: قرآن کریم …۔اصل بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے بزرگوں کو عزّت دنیا عطا کردی تو یہ تیری یاد سے غافل ہوگئے[11] …۔۔ 3–زیادہ کی ہوس: أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ؛ تمہیں باہمی مقابلۂ کثرت مال و اولاد نے غافل بنادیا [12]۔
۳– وَ هَبْ لِي جُرْمِي فِيهِ يَا إِلَهَ الْعَالَمِينَ وَ اعْفُ عَنِّي يَا عَافِياً عَنِ الْمُجْرِمِينَ:
اور اس آخری فقرہ میں درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے گناہوں کو بخش دے کہ خدا کی عادت ہی بخشنا ہے لیکن حقوق العباد کے سلسلہ میں اگر کوئی خطا ہوئی ہو تو اسکی معافی خود جاکر جس کے حق میں تقصیر کی ہے اس سے مانگنی ہوگی۔۔۔
[1]– بحارالانوار، ج 77، ص 112 [2]– غررالحکم، ماده غفل [3]– تفسیر نور الثقلین، ج 2، ص 815 [4]– نهج البلاغه، خ 153 [5]– بحارالانوار، ج 78، ص 164 [6]– غررالحکم، ماده غفل [7]– غررالحکم، ماده غفل [8]– غررالحکم، ماده غفل [9]– نهج البلاغه، حکمت 208 [10]– منافقون/ 9 [11]– فرقان/ 18 [12]– تکاثر/ 1