امالی الشیخ المفید
امالی الشیخ المفید
Author :
Interpreter :
Publisher :
Publish location :
لاہور پاکستان
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
امالی الشیخ المفید
امالی لغتِ عرب کا لفظ ہے جو اردو زبان و ادب میں شاذ و نادر ہی مستعمل ہے اور نہ ہی اردو میں اس کا نعم البدل موجود ہے ہاں البتہ انگریزی زبان کا ایک لفظ جو اب اردو لغت کا بھی حصہ بن چکا ہے امال کا ہم معنیٰ ہے اور وہ ہے نوٹس(NOTES)۔ بزرگ علمائے اعلام کا وطیرہ تھا کہ اپنی تالیفات و تصنیفات کی اساس کے طور پر اور اپنی یادداشتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے گاہے گاہے نوٹس بناتے رہا کرتے تھے جن پر بعد از آن ان پر اپنی تحریروں کی بنیاد رکھتے اور ان سے بھرپور فائدہ اٹحاتے تھے، یہ نوٹس معلومات کا خزینہ ہوا کرتے تھے۔
الأمالی شیخ مفید عربی زبان میں تالیف کی گئی شیخ مفید (متوفی 413 ھ) کی کتاب ہے جس میں اخلاقی، اعتقادی اور تاریخ اسلام سے مربوط احادیث ہیں۔ امالی املا کے معنی میں ہے۔ شیخ مفید نے اس کتاب کو سات سال کے عرصے میں رمضان کے مہینوں میں 42 جلسات کی ضمن میں اپنے شاگردوں کو املا کرایا ہے۔ نجاشی نے اس کتاب کو الأمالی المتفرقات کے نام سے ذکر کیا ہے کیونکہ اس کا املا سنہ 404 ھ سے 411 ھ کے درمیان مکمل ہوا ہے۔
تراجم و سوانح سے مربوط منابع میں تقریبا 30 سے زیادہ کتابیں امالی کے نام سے موجود ہیں۔ جن میں الامالی (شیخ صدوق)، امالی (شیخ مفید)، الامالی (سید مرتضی) اور الامالی (شیخ طوسی) بزرگ علماء کی مشہور ترین کتب امالی ہیں۔ امالی املاء کے معنی میں ہے جس میں استاد کلاس یا مجلس درس میں حفظا یا کتاب دیکھ کر مطالب کو اپنے شاگردوں کیلئے پڑھتے ہیں اور شاگرد انہیں من و عن نوٹ کرتے ہیں۔ اسی بنا پر اسے المجالس اور عرض المجالس بھی کہا جاتا ہے۔
اس کتاب کی احادیث 1 رمضان سنہ 404 ھ سے 27 رمضان سنہ 411 ھ کے عرصے میں 42 جلسات کے ضمن میں املاء کی گئی ہیں۔ سنہ 405 ھ اور 406 ھ میں نامعلوم علت کی بنا پر کوئی جلسہ برگزار نہیں ہوا۔ پہلے سال کی تمام مجلسیں بغداد میں ضمرۃ ابو الحسن علی بن محمد بن عبدالرحمان فارسی-ان کی حالات زندگی سے متعلق کوئی معلومات میسر نہیں- کے گھر میں برگزار ہوئیں پھر اگلے سالوں میں یہ مجلسیں بغداد میں مسجد شیخ مفید منتقل ہوئیں جس کے نتیجے میں یہ جلسات زیادہ عمومی ہوئیں۔
اکثر مجالس ماہ رمضان میں لیکن کبھی کبھار شعبان اور رجب میں بھی برگزار ہوئی ہیں اسی طرح یہ جلسات ہمیشہ ہفتے کے دن برگزار ہوتے تھے لیکن کبھی کبھار پیر اور بدھ کے دن بھی برگزار ہوئی ہیں۔
سنہ 407 ھ کو باقی سالوں کی نسبت زیادہ جلسات یعنی 12 جلسات برگزار ہوئیں اور سنہ 408 ھ میں صرف دو جلسات برگزار ہوئی ہیں۔
یہ کتاب 42 جلسات اور مجموعی طور پر 387 احادیث پر مشتمل ہیں۔ جلسہ نمبر 23 میں سب سے زیادہ 27 احادیث اور جلسہ نمبر 31 میں سب سے کم یعنی صرف 4 احادیث موجود ہیں۔
اس کتاب میں احادیث کے ضمن میں اخلاقی، اعتقادی اور تاریخی موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کے مضامین کی تفصیل کچھ یوں ہیں:
فرشتوں کے توسط سے انسان کے اعمال کا ثبت ہونا۔
اہل بیت کی محبت بہشت میں داخل ہونے کا سبب ہے۔
علیؑ، فاطمہ(س)، حسنین(ع) اور ان کے شیعوں کے فضائل۔
طالب علم کی فضیلت۔
بیماری گناہ کی مغفرت کا موجب بنتی ہے۔
اہل بیتؑ کی شناخت اور اعمال کی قبولیت کا ولایت پر موقوف ہونا۔
قیامت کے دن پیغمبر اکرمؐ سے سب سے زیادہ قریب شخص۔
عثمان و بنی امیہ کی داستان، بیت المال میں ان کو دوسروں پر ترجیح دینا اور عمار پر تشدد۔
صبح و شام کی بعض دعائیں پیغمبر اکرمؐ کا شیعوں کیلئے استغفار۔
بلند آرزؤوں اور نفس پرستی سے متعلق امام علیؑ کے موعظے۔
محاسبہ نفس سے متعلق امام سجادؑ کا موعظہ۔
ظالموں سے نہ ڈرنے اور اہل بیت سے متعلق زید بن علی کا قول۔
محمد بن حنفیہ کے نصایح۔
مستجاب فریضے کے بعد کی دعا۔
امام علیؑ کا اپنے شیعوں کو تقیہ کا حکم دینا۔
پیغمبر اکرمؐ کا آخری خطبہ۔
تمام مخلوقات کو ولایت اہل بیت کی طرف دعوت۔
امام علیؑ کا دشمن جاہلیت کی موت مرے گا۔
مؤمنین کی حاجت روائی۔
جب خدا اپنے کسی بندے پر نیکی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین سے آشنا کر دیتا ہے۔
زہد کے بارے میں امام علیؑ کا کلام۔
غیبت کرنے کا کفارہ۔
اہل بیتؑ کی مصیبت میں گریہ کرنے کی فضیلت اور ...
کتاب أمالی، شیخ مفید کی معتبر کتابوں میں سے ہے۔ علامہ مجلسی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ہمیں اس کتاب کے بہت قدیمی نسخے ملے جن کے صحیح ہونے پر کافی شواہد موجود ہیں۔