جامع ترمذی، ج ۱ تا ۲
جامع ترمذی، ج ۱ تا ۲
Author :
Interpreter :
Publisher :
Publication year :
2007
Publish location :
کراچی پاکستان
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
جامع ترمذی، ج ۱ تا ۲
امام ترمذی کی جامع ترمذی کو جو مقام ملا وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ جامع ترمذی کو بہت سے محاسن کی بنا پر انفرادیت حاصل ہے۔ جرح و تعدیل کا بیان، معمول بہا اورمتروکہ روایات کی وضاحت اور قبول و تاویل میں اختلاف اور علما کی تشریحات ایسی خصوصیات ہیں جو صرف جامع ترمذی سے مخصوص ہیں۔ جامع ترمذی کی اسی اہمیت کے پیش نظر متقدمین اور متاخرین نے اس کی بہت سی شروحات لکھی ہیں۔
علمِ حدیث کے اس خوبصورت مجموعہ کو ترتیب دینے والے مصنف کا نام "امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن موسیٰ بن ضحاک ترمذی "ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ علم حدیث کے ان ماہرین میں سے ایک ہیں جن کی علمِ حدیث میں پیروی کی جاتی ہے۔ ان کی تصنیف "جامع ترمذی" کو علمِ حدیث کا تیسرا بڑا ماخذ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ بعض محققین نے سنن ابو داؤد کو جامع ترمذی پر ترجیح دی ہے، تاہم عام طور پر اہل علم کے نزدیک صحیح بخاری و صحیح مسلم کے بعد جامع ترمذی ہی علمِ حدیث کی سب سے مستند کتاب ہے۔ پیدائش: امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ 209ھ میں وسطِ ایشیاء کے شہر "بلخ" کے نواحی قصبہ "ترمذ" میں پیدا ہوئے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا نام ان کے اسی وطن کی طرف منسوب ہے۔ اساتذہ و مشائخ: امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے علمِ حدیث کی طلب میں عراق، خراسان، حجاز کے مختلف بلادو امصار کا سفر کیا اور اپنے زمانے کے تمام اکابر محدثین سے اخذ و استفادہ کیا۔ آپ کے مشہور اساتذہ میں سے چند ایک کے اسماء درج ذیل ہیں: 1. امام ابو عبد اللہ محمد بن اسمٰعیل بخاری الجعفی رحمۃ اللہ علیہ (صحیح بخاری کے مؤلف) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "جامع" میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے 50 روایات نقل کی ہیں۔ 2. امام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ (صحیح مسلم کے مؤلف) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "جامع" میں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے صرف ایک روایت نقل کی ہے۔ 3. امام ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمٰن دارمی رحمۃ اللہ علیہ (سنن دارمی کے مؤلف) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "جامع" میں امام دارمی کے حوالہ سے 59 روایات نقل کی ہیں۔ ان کے علاوہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے دیگر بہت سے مشائخ سے استفادہ کیا ہے۔ تلامذہ و مسترشدین: امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک خلقِ کثیر نے استفادہ کیا۔ امیر المؤمنین فی الحدیث، امام ابو عبد اللہ محمد بن اسمٰعیل بخاری نے بھی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سے بعض احادیث کا سماع کیا ہے، جس کی تصریح خود امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے جامع ترمذی میں کی ہے۔ کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحشر، رقم الحدیث 3225 کتاب المناقب ، باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث 3861 (مذکورۃ بالا نمبر جامع ترمذی کے اسی نسخے کے ہیں جس کے مترجم ابو العلاء محمد محی الدین جہانگیری مدظلہ العالی ہیں) اس کے علاوہ ابو حامد احمد بن عبد اللہ مروزی، احمد بن یوسف نسفی، ابو حارث اسد بن حمدویہ، داؤد بن نصر بذدوی، محمد بن مکی، محمد بن منذرہروی اور دیگر بہت سے افراد امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کی صف میں شامل ہیں، جن کا ذکر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے "تہذیب التہذیب" میں کیا ہے۔ ثنائے علماء: اکابر محدثین نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو بھر پور خراج تحسین پیش کیا ہے۔ امام حاکم، عمر بن علک کا یہ بیان کرتے ہیں: جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے خراسان میں علم ، پرہیز گاری و زہد میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے پایہ کا کوئی شخص نہیں چھوڑا۔ شیخ ادریسی فرماتے ہیں: امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ان آئمہ میں سے ایک ہیں، علمِ حدیث میں جن کی پیروی کی جاتی ہے۔ تصانیف: امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، جن کا اجمالی تعارف درج ذیل ہے: 1. جامع ترمذی: علمِ حدیث کا مشہور ماخذ، جس کا تعارف اگلے صفحات میں آ رہا ہے۔ 2. کتاب العلل: اس میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث کے سند یا متن میں موجود خفیہ علتوں کی نشاندیہ کی ہے، اس نام سے مصنف نے دو کتابیں مرتب کی ہیں: العلل الکبیر اور العلل الصغیر۔ 3. الشمائل المحمدیہ: یہ کتاب "شمائل ترمذی" کے نام سے مشہور ہے، جس میں نبی اکرم ﷺ کے شمائل سے متعلق روایات اکٹھی کی گئی ہیں۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے سوائح نگاروں نے ان کی بعض دیگر تصانیف کا بھی ذکر کیا ہے، جن کے بارے میں ہمیں آگاہی حاصل نہیں ہو سکی۔ وفات: امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال 70 سال کی عمر میں، 13 رجب المرجب 279ھ میں ترمذ میں ہوا اور وہیں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔