Drawer trigger

آیۃ اللّہ العظمیٰ حاج آقا حسین قمی

ولادت اور حصول علم آپ 28 رجب۱282ق میں پیدا ھوئے ۔ آپ كے والد نے آپ كا نام حسین ركھا ۔ آپ ایك مذھبی اور باایمان خاندان سے تعلق ركھتے تھے ۔ آپ كا شجرہ نسب 28 پشتوں سے امام حسن مجتبیٰ (ع) سے ملتا ھے ۔ ستارۂ قم آقا حسین نے ابتدائی تعلیم قم كے ایك مكتب میں شروع كی ۔ اس كے بعد مقدماتی دروسِ، صرف، نحو، منطق كو ان فنون كے ماھر اساتید كی خدمت میں حاصل كیا ۔ 1 بالغ ھونے كے بعد اپنی تعلیم كو مكمل كرنے كی غرض سے تھران تشریف لائے اور حوزۂ تھران میں رسائل مكاسب تك دروس كو جاری ركھا ۔ 22 سال كی عمر میں حج و عمرہ كی نیت سے عازم سفر ھوئے مكہ و مدینہ سے واپس آتے ھوئے نجف اشرف كی زیارت كی اس كے بعد سامراء تشریف لے گئے اور آیۃ اللہ میرزا محمد حسن شیرازی كے دروس می شركت كی اور دو سال تك سامراء میں قیام كرنے كے بعد ۱306ق كو دوبارہ تھران لوٹ آئے ۔2 حوزہ علمیہ تھران میں بزرگان آقا علی مدرس، شیخ علی نوری، میرزا محمود قمی، شیخ فضل اللہ نوری كے حضور میں جدیت كے ساتھ پانچ سال لگاتار كسب فیض و معرفت كیا اس كے بعد نجف و سامراء كی طرف رخت سفر باندھ لیا ۔ 3 آپ نے نجف میں بھت سے بزرگوں كی بزم میں زانوئے ادب تہ كیا منجملہ : حضرات آيات عظام ميرزا حبيب الله رشتى (متوفى 1312 ق) حاج آقا رضا همدانى (متوفى 1322 ق) آخوند ملا على نهاوندى (متوفى 1322 ق) آخوند محمد كاظم خراسانى (متوفى 1329 ق) سيد محمد كاظم يزدى (متوفى 1337 ق) و سيد احمد كربلائی4 آقا حسین ۱32۱ق میں وارد سامراء ھوئے اور محكم ارادہ كے ساتھ آیۃ اللہ میرزا محمد تقی شیرازی كے دروس میں شركت كرنا شروع كیا ۔ استاد بزرگوار نے بھی ان پر ایك خاص عنایت سے كام لیا اور اپنے مقلدین كو اختیاری مسائل میں ان كی طرف ارجاع دینا شروع كر لیا ۔ یہ عمل ان كے درخشاں مستقبل كا سبب بنا اس لئے كہ ان كی طرف ارجاع دینے كا مطلب یہ تھا كہ آیۃ اللہ شیرازی كے بعد اپنے زمانے میں اعلم ھیں ۔ 5 مشھد كے لوگوں كی درخواست كے مطابق آیۃ اللہ شیرازی نے آقا حسین قمی كو مشھد سفر كرنے كا حكم دیا آپ نے امتثال امر كرتے ھوئے رخت سفر باندھ لیا اور چالیس سال كی عمر میں فارغ التحصیل ھو كر مشھد میں منتقل ھو گئے 6 اور وھاں كے لوگوں كی رھبری اور ھدایت كی ذمہ داری اپنے كاندھوں پہ لی ۔ آقا حسین قمی نجف اور سامراء كے تمام اساتید كی جانب سے اجازہ اجتھاد ركھتے تھے اور آیۃ اللہ مرتضیٰ كشمینری سے بھی آپ نے اجازہٌ روائی حاصل كیا تھا ۔ 7 مرجعیت الف : حوزہ علمیہ خراسان كی مدیریت آیۃ اللہ آقا حسین قمی نے مشھد میں منتقل ھونے كے بعد نماز جماعت قائم كرنے كے ذریعے لوگوں كے ساتھ ارتباط برقرار كیا، دینی مسائل كی نشر و اشاعت اور لوگوں كے ساتھ سوالات و جوابات كا سلسلہ شروع كیا اور حوزہ علمیہ كی زعامت اور رھبریت كی ذمہ داری اپنے ھاتھوں میں لی ۔ دینی طالب علموں كے لئے فقہ و اصول كے دروس اپنے گھر میں ركھے ۔ حوزہ خراسان میں آپ كے شاگرد ميرزا حسن بجنوردى، حاج آخوند ملا عباس تربتى، شيخ محمد على كاظمى خراسانى، شيخ فاضل قفقازى، سيد صدرالدين جزايرى، حاج آقا بزرگ اشرفى شاهرودى، ميرزا مهدى حكيم، سيد محمد موسوى لنكرانى، سيد حسين موسوى نسل، شيخ حسينعلى راشد تربتى، شيخ مجتبى قزوينى، شيخ هاشم قزوينى، ميرزا احمد مدرس يزدى، سيد حسن طباطبايى قمى، سيد مهدى طباطبايى قمى، شيخ كاظم دامغانى، شيخ غلامحسن محامى بادكوبه اى، شيخ يوسف بيارجمندى شاهرودى، شيخ على توحيدى بسطامى و شيخ عباس على اسلامی 8 آقا حسین قمی خراسان میں قیام كے دوران اگرچہ شرعی مسائل اور سوالات كے جوابات دیتے تھے لیكن مرجعیت كے عھدہ كو قبول كرنے اور توضیح المسائل كو منتشر كرنے كے لئے كبھی بھی راضی نھیں ھوتے تھے ۔ لیكن لوگوں كے اصرار اور ان كے پاس مسلسل رجوع كرنے كی وجہ سے سنہ۱35۱میں توضیح المسائل، مجمع المسائل كے عنوان سے چاپ ھوئی اور اسی تاریخ سے آپ كی مرجعیت كا آغاز ھوا 9 آیۃ اللہ قمی كی رضا خان كے مذھبی رسومات كی مخالفت میں اقدامات كے ساتھ شدید نوك جھونك اور مسجد گوھر شاد كا خونی قیام اس بات كا باعث بنا كہ پھلوی حكومت نے انھیں تھران میں كچھ دنوں كے لئے نظر بند كر دیا اور آخركار ۱354ق میں عراق ملك بدر كردئے گئے اس كے بعد ان كی مرجعیت كا مركز كربلا میں منتقل ھو گیا ۔ 10 ب : كربلا كے حوزہ علمیہ كو نئی زندگی عطا كرنا كربلا كا حوزہ علمیہ آیۃ اللہ محمد تقی شیرازی كی رحلت كے بعد رو بہ زوال ھو گیا تھا ۔ آپ نے كربلا میں قیام پذیر ھونے كے بعد حوزہ نجف كے علماء اور فضلاء كو تدریس كے لئے دعوت دی اور آیات عظام میلانی، خوئی، سید علی بھبھانی، مھدی شیرازی كو حوزہ علمیہ كربلا كی ترقی اور پیشرفت میں ھمكاری كے لئے بلایا ۔ 11 آیۃ اللہ قمی كی زحمات كی بدولت كربلا كے حوزہ میں پھر سے بھار آگئی اور درس و بحث كے سلسلے دوبارہ سے شروع ھو گئے ۔ كربلا میں ان كے مكتب سے تربیت یافتہ افراد كے چند نام یہ ھیں : شيخ محمد على سرايى، سيد زين العابدين كاشانى حائرى، شيح هادى حائرى شيرازى (پور امينى) شيخ محمد حسين صدقى مازندرانى و شيخ محد رضا جرقويه اى اصفهانى ۔12 آیۃ اللہ قمی آیۃ اللہ سید ابو الحسن اصفھانی كی رحلت كے بعد گیارہ سال كربلا میں رھے اس كے بعد نجف منتقل ھوگئے ۔ ج ۔ مرجعیت مطلقہ نجف اشرف كے علماء اور مجتھدین آیۃ اللہ اصفھانی كی رحلت كے بعد اس تلاش و كوشش میں تھے كہ كس كو مرجعیت مطلقہ اور حوزہ كی سرپرستی سونپی جائے ۔ تنھا وہ شخصیت جو اس عظیم مقام كی سزاوار تھی آیۃ اللہ قمی كی شخصیت تھی ۔ علماء كے بھت اصرار كے بعد آپ نے اس سنگین مسئولیت كو قبول كیا ۔ 13 علماء اور عوام كے كثرت رجوع نے نہ صرف انھیں خوشحال نھیں كیا بلكہ ان كی ناراحتی میں اضافہ كردیا ۔ یھاں تك كہ وہ یہ محسوس كرنے لگے كہ ممكن ھے یہ مسئولیت اور ذمہ داری ان كے دین اور تقویٰ كے لئے خطرناك ثابت ھو ۔ اس وجہ سے اكثر آپ خدا سے دعا كرتے تھے كہ اگر موت میرے دین اور تقویٰ كے لئے بھتر ھے تو جلد از جلد مجھے موت دے دے ۔ 14 ایك دن كچھ علماء نے آپ كے سامنے تذكرہ كیا كہ آیۃ اللہ بروجردی كو نجف دعوت كریں اور حوزہ كی زعامت ان كے حوالے كریں آپ نے خوشی سے كھلكھلا كر كھا : اے كاش ! وہ آجاتے اور اس ذمہ داری كو مجھ سے لے لیتے، میں آرام سے كربلا واپس چلا جاتا اور اپنے كاموں میں مشغول ھوجاتا ۔ 15 تالیفات آیۃ اللہ آقا حسین قمی كی فقھی تالیفات: حاشيه بر عروة الوثقى (از اول مسائل تقليد تا بخشى از احكام نماز (حاشيه بر رساله ارث و نفقات، حاشيه بر رساله ربائيه رضاعيه، حاشيه بر صحة المعاملات، حاشيه بر مجمع المسائل، الذخيرة الباقية فى العبادات و المعاملات، مختصر الاحكام، طريق النجاة، منتخب الاحكام، مناسك حج، ذخيرة العباد، هداية الانام فى المسائل الحلال و الحرام و رساله احكام 16 قیام كے لئے زمین ھموار كرنا رضا خان كی ڈكٹیٹر شپ كا زمانہ ایك ایسا زمانہ ھے جس میں اكثر علماء نے اس كے خلاف مھم چلائی ھے ۔ ان میں سے ایك آیۃ اللہ قمی بھی ھیں جھنوں نے دیندار لوگوں كو اس جابرانہ حكومت كے خلاف قیام كے لئے آمادہ كیا ۔ ان ایام میں اسلامی اور مذھبی رسومات كو دھیرے دھیرے ایرانی معاشرے سے بركنار كرنا اور عوام كو علماء كی محفلوں سے متنفر كرنا اس وقت كے انگریز سیاست مداروں كا اھم مقصد تھا ۔ اس مقصد تك پھنچنے كے لئے انھوں نے دو عناصر سید ضیاء الدین اور رضا خان كو برسركار پیش كیا ۔ رضا خان ۱302ھ ش میں وزیر اعظم كے عھدہ پر فائز ھوا ۔ پانچویں پارلیمنٹ كی تشكیل كے بعد كہ جس كے اكثر نمایندے ڈیكٹیٹر تھے رضا خان ۱304ھ ش میں تخت بادشاھی پر بیٹھ گیا ۔ رضا خان جب تك تخت سلطنت پر نھیں آیا تھا تب تك عوام كو اپنی طرف جلب كرنے كے لئے ظاھراً اپنے آپ كو متدین اور اسلام كا حامی پیش كرتا تھا اور اپنی منافقانہ چال سے ترقی كا سامان فراھم كرتا تھا لیكن تخت حكومت پر قدم ركھتے ھی اسلامی رسومات كو كنار كیا بلكہ دین اسلام كو ایرانی سماج سے جڑ سے اكھاڑنے كی كوشش میں لگ گیا ۔ 17 علماء اور روحانیوں كا قتل عام اور انھیں كھلے عام ذلیل و خوار كرنا اس كا معمول تھا اور صریحاً مذھب كو جدید تمدن كی ترقی میں ركاوٹ قرار دیتا تھا ۔ 18 رضا خان نے اپنی سلطنت كے دوران جو ایرانی معاشروں سے اسلامی رسم و رواج كو ختم كرنے پر اقدامات كئے ان میں سے بعض درج ذیل ھیں : ۱۔ روحانیوں كے لئے بعض اجباری وظائف ۔ 19 2 ۔ قمری تاریخ كو حذف كركے شمسی تاریخ رایج كرنا ۔ 20 3 ۔ اسكولوں میں لڑكے لڑكیوں كو ایك ساتھ تعلیم دینا ۔ 21 4 ۔ شرعی اور مذھبی رسومات كی جگہ قومی اور عوامی رسومات رائج كرنا ۔ 22 5 ۔ مسجدوں كے دروازے بند كر دینا اور عزاداری ممنوع قرار دینا ۔ رضا خان اس پروپیگنڈہ كو عملی جامہ پھناتے ھوئے اس حد تك پھنچ گیا كہ ایران میں عاشوراء گذر گئی مگر ایك بھی مجلس نھیں ھوئی 23 فقط گنے چنے افراد آدھی رات كے بعد زیر زمینوں میں چھپ كر مجلس مناتے تھے ۔ اس كے باوجود بعض اوقات جاسوسی ھوجاتی تھی اور مجلس كرانے والے افراد كے ساتھ سختی سے پیش آیا جاتا تھا ۔ ایران كے ایك تاریخ نویس لكھتے ھیں : ایام عاشوراء میں عزادای كے بجائے ناچ گانے كی محفلیں لگائی جاتی تھیں ۔ مجھے ٹھیك سے یاد ھے كہ پھلوی حكومت كے دوران شب عاشوراء كو شاہ كے لوگوں كا ایك كاروان سڑكوں پر بینڈ، باجے، ڈھول اور ناچ گانے كے ساتھ پورے شھر میں چكر كاٹتا تھا ۔ اس دوران اگر كوئی معمم یا روحانی لباس میں دكھائی دیتا تھا اس كے پیچھے بھاگتے تھے ۔ 24 6 ۔ روحانی لباس پھننا ممنوع ۔ 25 رضا خان كے مقاصد میں سے ایك مقصد یہ تھا كہ روحانیت كے نام و نشان حتی ان كے لباس كو بھی صفحہ ھستی سے مٹا دے ۔ لھٰذا جو لوگ عمامہ میں رھتے تھے ان پر بھت سختی كا مظاھرہ كیا جاتا تھا ۔ 26 روحانی افراد لباس كے ساتھ گھر یا مدرسہ سے باھر نھیں نكل سكتے تھے ورنہ پلیس كے ھاتھوں گرفتار ھوجاتے تھے ۔ 7 ۔ حجاب ممنوع ۔ رضا خان استعماری طاقتوں كے مقاصد كو پورا كرنے میں مغربی كلچر كو اسلام كے مقابلے میں پیش كرنے كو ایك موثر قدم سمجھتا تھا اس وجہ سے اس نے پردہ كرنے كو ممنوع قرار دے دیا اور بےپردگی اور ناچ گانے كی محفلیں كھلے عام كردیں جن میں مرد اور عورت سب كو ایك ساتھ شركت كی دعوت دی جاتی تھی ۔ 27 امام خمینی رہ اس سلسلے میں فرماتے ھیں : استعمار كی تقلید كا دوسرا بھانہ جو اس بےدین اور بےصلاحیت آدمی نے پیش كیا ھے وہ پردہ كی ممنوعیت ھے ۔ خدا جانتا ھے كہ كتنی خواتین كی ھتك حرمت كی گئی ۔ بعض محفلوں میں لوگ شرم و حیا كی وجہ سے اتنا گریہ كرتے تھے مگر ان كو شرم و حیا نھیں آتی تھی ۔ 28 رضا خانی حكومت نے اس كام كو انجام دینے میں بعض مذھبی شھر جیسے مشھد مقدس اور قم میں زیادہ جدیت سے كام لیا ۔ اس لئے كہ ان شھروں میں اس كی كامیابی باقی شھروں میں اس كے كام كو آسان بنا دے گی لھٰذا اس كا زیادہ دباؤ ان مذھبی شھروں پر تھا سنہ ۱306ھ ش اول نوروز كو رضا خان كا خاندان مكمل بےپردگی كے ساتھ حرم حضرت معصومہ ع میں داخل ھوا كہ جس كی آیۃ اللہ شیخ محمد تقی بافقی رہ نے سخت مزمت كی 29 ۔ مشھد میں بھی یہ كام انجام پا رھا تھا ۔ خراسان كا وزیر رضا خان كی طرف رپورٹ لكھتا ھے : حرم مطھر میں باپردہ خواتین كا داخل ھونا قطعا ممنوع ھو گیا ھے ۔ البتہ خارجی زائرین اس قانون سے مستثنی ھیں ۔ حكومتی اداروں میں باحجاب عورت كو قبول كرنا ممنوع ھو چكا ھے ۔ اور امید ھے كہ جلد ھی عورتوں كی برھنگی پورے مشھد میں پھیل جائے گی ۔ 30 مسجد گوھر شاد كا قیام مشھد میں مقیم علماء اور مجتھدین منجملہ آقا حسین قمی، سید یونس اردبیلی اور میرزا محمد آقا زادہ نے متعدد جلسہ اور میٹینگیں بلائیں جن میں حجاب كی ممنوعیت كا مسئلہ، عزاداری كا مسئلہ اور جوان لڑكے لڑكیوں كے ایك ساتھ مل كر ناچ گانے كے جیسے مسئلوں كے سلسلے میں بحث كی ۔ 31 ایك جلسہ میں جو خود آقا حسین قمی كے گھر میں برگزار ھوا آپ اسلام كی موجودہ حالت كو دیكھ كو گریہ كر رھے تھے اور كھہ رھے تھے كہ آج اسلام كو قربانی كی ضرورت ھے ۔ لوگوں پر واجب ھے كہ قیام كریں ۔ آخر میں یہ طے پایا كہ آقا حسین قمی تھران جائیں اور رضا خان سے آمنے سامنے بات چیت كریں ۔ آپ نے قرآن سے استخارہ كیا استخارہ بھتر آنے كی صورت میں تھران كے سفر كا ارادہ كیا اور اعلان كیا كہ اگر رضا خان اپنے ناجائز كارناموں سے دست بردار نہ ھوگا تو ھم تا دم مرگ اس كا مقابلہ كریں گے ۔ آیۃ اللہ قمی نے اپنے آخری درس میں فرمایا : میرے عقیدہ كے مطابق اگر مخالفین مذھب كے ساتھ مقابلے میں كامیابی مجھ جیسے دس ھزار افراد كے قتل ھونے پر مشروط ھو تو قابل ارزش اور باقیمت ھے ۔ 32 آپ نے رضا خان كو ٹیلی گراف كركے اسے اپنے سفر كی علت سے آگاہ كیا ۔ مشھد سے حركت كرنے سے پھلے مومنین كے ایك گروہ نے ان سے سوال كیا كہ شاہ كے ساتھ ملاقات كركے كیا كریں گے ؟ معظم لہ نے جواب دیا : پھلے اس سے درخواست كروں گا كہ غیر اسلامی كاموں سے دست بردار ھوجائے اگر قبول نہ كیا تو اس كا گلا گھونٹ دوں گا ۔ 33 مومنین اور متدینین افراد آپ سے ملنے كے لئے حضرت عبد العظیم ع كے روضے میں جمع ھوئے اور فداكاری اور جاں فشانی كے لئے اپنی آمادگی كا اعلان كیا ۔ دوسرے ھی دن آپ كے ساتھ ملاقات ممنوع ھوگئی ۔ اور محاصرے میں لے لئے گئے ۔ كچھ دنوں كے بعد رضا خان كے بھیجے ھوئے نمایندے آپ كے پاس آئے اور آپ كو بےادبانہ لھجے میں مخاطب كیا : آپ كے عرایض بادشاہ سلامت كی خدمت میں پھنچے آقا حسین نے ان كی طرف توجہ كئے بغیر كھا : میں خود بادشاہ سے ملاقات كرنا چاھتا ھوں ۔ یہ واقعہ اس وقت كا ھے جب بادشاہ اس ملاقات سے شدید خوف زدہ تھا ۔ آقا حسین قمی كے محاصرے كی خبر مشھد پھنچی لوگوں نے مسجد گوھر شاد میں اجتماع كیا اور مختلف خطباء نے اپنے بیانات رضا خان كے اس اقدام كے خلاف پیش كئے 34 اور لوگوں نے اظھار مخالفت كی ۔ مشھد كے اطراف سے بھی لوگوں نے مسجد گوھر شاد كی طرف جلوس نكالتے ھوئے اپنی مخالفت كا اظھار كیا ۔ نتیجے میں شاہ كے فوجیوں نے گولی چلا كر كئی ھزار افراد كو شھید اور زخمی كردیا عینی شاھدین كے مطابق 57 كامیون بھر كا لاشیں فوجی نیم دستہ اٹھا لے گئے اور آیۃ اللہ حسین قمی كو ملك بدر كركے نجف بھیج دیا گیا ۔ 35 عراق پر قبضہ كرنے والوں كے ساتھ مقابلہ سنہ ۱939ع میں دوسری عالمی جنگ شروع ھوتے ھی انگریز فوجوں نے عراق پر حملہ كیا لیكن عوام نے مل كر ان كا مقابلہ كیا اور عراق میں ان كا نفوذ نہ ھونے دیا ۔ تاریخ نویسوں كے مطابق علماء عصر نے عوام كا انگریزوں سے مقابلہ كرنے میں پورا تعاون كیا ۔ آیۃ اللہ قمی نے ایك فتویٰ صادر كركے لوگوں كو ان كے مقابلے كی دعوت دی اور اسلامی ملك كا دفاع كرنا واجب قرار دیا ۔ 36 اعلان جنگ كی دھمكی سنہ۱320ھ ش میں رضا خان كے ملك بدر ھونے كے بعد ایران ایك سیاسی بحران كا شكار ھوگیا ۔ آیۃ اللہ آقا حسین قمی نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ھوئے امام رضا علیہ السلام كی زیارت اور اپنے گذشتہ اقدامات كا پیچھا كرنے كی غرض سے ایران كا سفر كیا ۔ مشھد پھنچ كر ایك ٹیلی گراف كیا جس میں درج ذیل كاموں كے انجام دینے پر تاكید كی : ۱۔ ممنوعیت حجاب كا قانون لغو كیا جائے ۔ 2 ۔ لڑكے لڑكیوں كے الگ الگ اسكول بنائے جائیں ۔ 3 ۔ نماز جماعت اور مدارس میں دینی اور قرآنی تعلیم دینے پر عائد شدہ پابندی ھٹائی جائے ۔ 4 ۔ حوزہ ھائے علمیہ كو آزادی دی جائے ۔ 5 ۔ ضعیف طبقہ كے افراد سے مالیات كا فشار كم كیا جائے ۔ 6 ۔ بقیع میں مدفون ائمہ علیھم السلام كی قبور كو تعمیر كرایا جائے ۔ 37 ٹیلی گراف ارسال كرنے كے كچھ دن بعد آقا حسین قمی تھران تشریف لے گئے تو معلوم ھوا كہ حكومت آپ كے ٹیلی گراف پر كوئی رد عمل نھیں كرنا چاھتی ۔ آپ نے كھلوایا كہ میں حكومت كے ساتھ جنگ كا اعلان كرنے والا ھوں ۔ لوگوں نے بھی آپ كی حمایت میں صدائیں بلند كیں ۔ حكومت نے جب یہ حیرت ناك منظر دیكھا تو مجبور ھو كر آقا حسین كی فرمائشات قبول كرنے كا ۱2 شھریور۱322ھ ش میں اعلان كیا ۔ 38 آقا حسین اپنی دس سالہ زحمات كا ثمرہ حاصل كركے كربلا واپس چلے گئے ۔ مرتد كو سزا احمد كسروی كی منحرف كنندہ اور خلاف دین كتابوں كے منتشر ھونے سے علماء اور متدین افراد كے بیچ ایك ھلچل مچ گئی ۔ نجف اور كربلا كے حوزوں میں ان كتابوں كے پھنچتے ھی سید نواب صفوی نے انھیں مراجع كرام آیۃ اللہ آقا حسین قمی اور علامہ امینی كو اظھار تاسف كے ساتھ دكھلایا ۔ آقا حسین قمی نے كتابوں كا مطالعہ كرنے كے بعد احمد كسروی كے مرتد ھونے كا فتویٰ صادر كر دیا ۔ 39 نواب صفوی اس شرعی وظیفہ پر عمل كرنے كی غرض سے درس و بحث كو ترك كركے ایران آگئے تا كہ پھلے اسے اس كی سزا كا مزہ چكھائیں آپ 24 اردی بھشت ۱324ھ ش كو مسلح ھو كر كسروی كے قتل كی نیت سے اس كے گھر گئے ۔ اس كو دیكھتے ھی آپ نے حملہ كیا لیكن اسلحہ كے كھیں اٹك جانے كی وجہ سے نشانہ صحیح جگہ پر نھیں لگ پایا آپس میں زد و كوب كے بعد نواب صفوی اس كے قتل میں كامیاب نھیں ھوئے اس حادثہ كے رونما ھونے كے بعد نواب صفوی كو پكڑ كر جیل میں بند كردیا گیا ۔ 40 عوام اور روحانیوں كے دباؤ كی بناء پر كچھ دنوں كے بعد انھیں آزاد كر دیا گیا ۔ آزادی كے بعد دوبارہ كسروی كے قتل كا منصوبہ تیار كیا ۔ آخر كار۱2رمضان ۱324ھ ش كو سید حسین امامی اپنے بھائی سید علی محمد كے ساتھ نواب صفوی كی جانب سے كسروی كے قتل پر مامور ھوئے اور اسے واصل جھنم كر دیا ۔ 41 اخلاق كے آئینہ میں آیۃ اللہ قمی كے چند ایك اخلاقی فضائل كی طرف اشارہ : ۱۔ وعدہ خلافی سے پرھیز ۔ آپ ھمیشہ دوسروں كی تربیت كی غرض سے كھا كرتے تھے كہ مجھے یاد نھیں ھے میں نے زندگی میں كبھی ایك بار بھی وعدہ خلافی كی ھو ۔ 42 2 ۔ شبھائے قدر میں درس و بحث كے جلسات ۔ آپ اپنے علمی دروس اور جلسے ماہ مبارك كی شبھائے قدر میں بھی جاری ركھتے تھے ۔ حالانكہ لوگ سید الشھداء ع كے روضہ میں قرآن پڑھنے، زیارت كرنے اور اعمال انجام دینے میں مشغول رھتے تھے ۔ لیكن آپ درس و بحث میں مشغول ھو جاتے تھے اور كھتے تھے كہ علم حاصل كرنا قرآن پڑھنے اور زیارت كرنے سے بھتر ھے ۔ 43 3 ۔ ھمسفر كے انتخاب كا طریقہ ۔ آپ جب بھی سفر كا ارادہ كرتے تھے تو اپنے ھم مباحث افراد كو بھی ساتھ لے لیتے تھے تاكہ راستہ میں بھی مباحثہ میں مشغول رھیں ۔ 44 آقا حسین قمی دوستی اور رفاقت میں بھت پابند تھے اور دوست كو اسلامی حدود كے اندر دوست ركھتے تھے ۔ اور كبھی بھی حاضر نھیں ھوتے تھے كہ دوستی كی وجہ سے كسی شرعی ضابطہ كا لحاظ نہ كریں ۔ بارھا كھتے تھے كہ میں جھنم كے دروازہ تك دوست كے ساتھ ھوں لیكن دوست كی وجہ سے جھنم میں داخل نھیں ھوں گا ۔ 45 بالائی حصہ پر وقف ھے ایك مرتبہ آیۃ اللہ قمی حرم حضرت امام حسین ع مین نماز جماعت پڑھا رھے تھے كہ یكایك آپ نے نماز توڑ دی اور مامومین نے بھی مجبوراً نماز توڑ دی اور آقا حسین كے پاس آكر وجہ دریافت كرنے لگے آپ نے فرمایا : نماز كے دوران مین متوجہ ھوا كہ جس فرش پر مین كھڑے ھوكر نماز پڑھ رھا ھوں اس پر لكھا ھوا ھے كہ : حرم كے بالائی حصہ پر وقف شدہ فرش ھے ۔ لھٰذا جلدی سے اس فرش كو اٹھاؤ اور اسے اس كی جگہ ركھ آؤ تو دوبارہ نماز ادا كی جائے ۔ 46 4 ۔ بےحد متواضع ۔ ایك دن عرب زبان كے كچھ افراد حرم امام حسین علیہ السلام میں نماز كے لئے آپ كی اقتداء میں كھڑے ھوگئے ۔ نماز تمام كرنے كے بعد آپ كے پاس آئے اور كھا كہ ھم نے آپ كی اقتداء كی ھے حالانكہ ھمیں آپ كی قرائت كے صحیح ھونے پر اطمینان نھیں تھا اس لئے كہ آپ كی زبان ایرانی ھے ۔ آپ نے بھت تواضع كے ساتھ جواب دیا كہ میں ابھی آپ كے سامنے حمد و سورہ كی تلاوت كرتا ھوں تا كہ آپ لوگوں كو اطمینان ھوجائے ۔ 47 رحلت آیۃ اللہ سید ابو الحسن اصفھانی كی رحلت كے بعد مرجعیت آیۃ اللہ آقا حسین قمی كے سپرد كی گئی ۔ آپ اس سنگین ذمہ داری كو قبول كرنے سے غمگین رھتے تھے ۔ لھٰذا نماز حاجت، نماز جعفر طیار پڑھ پڑھ كر خدا سے دعا مانگتے تھے كہ موت جلدی آجائے ۔ 48 آیۃ اللہ سید محمد ھادی میلانی جو آپ كے ساتھ گھرے روابط ركھتے تھے، اس سلسلے میں كھتے ھیں : ایك دن سید الشھداء ع كے حرم میں مشرف ھوا ۔ آقا قمی ضریح كے بالائے سر بیٹھے ھوئے تھے میری طرف اشارہ كیا میں ان كے پاس گیا مجھ سے كھنے لگے : ریاست اور مرجعیت نے میری طرف رخ كیا ھے لیكن میں ڈرتا ھوں كہ كبھی میری وجہ سے دین كو كوئی صدمہ نہ پھنچے لھٰذا میں دعا كرتا ھوں تم آمین كھو ۔ (اس كے بعد آپ نے دعا كی) پروردگارا ! اگر یہ مقام میرے دین كے لئے مضر ھے تو میری روح قبض كرلے ۔ اس كے بعد اتنا گریہ كیا كہ نیچے فرش آنسووں سے تر ھوگیا ۔ 49 تبھی سے ایك سخت بیماری میں مبتلا ھوگئے اور احساس كیا كہ دعا قبول ھوگئی ھے ۔ آخر كار جمعرات كی صبح ۱4 ربیع الاول ۱366ھ ق كو 84 سال كی عمر میں دیار ابدی كی طرف پرواز كرگئے اور جھان اسلام كو اپنے غم سے غمگین كرگئے ۔ آیۃ اللہ قمی كا جسد مطھر شھر بغداد میں مسلمانوں اور مومنین كے حضور میں تشییع جنازہ ھوا اور پھر كربلا لایا گیا كربلا میں بھی ایك جم غفیر نے تشییع جنازہ كرنے كے بعد سید الشھداء ع كے حرم مطھر میں نماز جنازہ قائم كی ۔ اس كے بعد جنازہ كو نجف اشرف میں منتقل كیا گیا اور حرم مطھر امیر المومنین علیہ السلام كا طواف كروا كر آیۃ اللہ اصفھانی كے مقبرہ میں دفن كردیا گیا ۔ 50 منبع : گلشن ابرار؛ گروهی از نویسندگان / ج 1 1 . عنصر فضيلت و تقوا، عباس حاجيانى، ص 13؛ فوائدالرضويه، شيخ عباس قمى، ص 3. 2. اعيان الشيعه ،، سيد محسن امين عاملى، ج 6، ص 169؛ نقباءالبشر، آقا بزرگ تهرانى، ج 2، ص . 3. گذشتہ حوالہ 4. گذشتہ حوالہ مجله حوزه، ش 30، ص 33. 5. عنصر فضيلت و تقوا، ص 30. 6. تاريخ قم، شيخ محمد ناصرالشريعه، ص 262. 7. گنجينه دانشوران، احمد رحيمى، ص 152؛ الغدير، علامه عبدالحسين امينى، ج 4، ص 404. 8. حاج آقا حسين قمى (قامت قيام )، محمد باقر پورامينى، ص 44 - 52. 9. نقباءالبشر، ج 2، ص 654. ۱0. گذشتہ حوالہ ۱۱. عنصر فضيلت و تقوا، ص 16. ۱2. حاج آقا حسين قمى (اقامت قيام )، ص 57 - 59. ۱3. گذشتہ حوالہ ص 61. ۱4. گذشتہ حوالہ ص 62. ۱5. عنصر فضيلت و تقوى، ص 36. ۱6. نقباءالبشر، ج 2، ص 655؛ مجله نور علم، شماره اول دوره دوم ص 5)) معجم المؤ لفين، عمر رضا كحاله، ج 4، ص 61. ۱7. تاريخ معاصر ايران، ص 144؛ قيام گوهرشاد، سينا واحد، ص 20؛ تاريخ بيست ساله ايران، حسين مكى، ج 1، ص 115. ۱8. نهضت امام خمينى، سيد حميد روحانى، ج 3، ص 77. ۱9. تاريخ سياسى معاصر ايران، سيد جلال الدين مدنى، ج 1، ص 118. 20. قيام گوهرشاد، ص 31. 2۱. گذشتہ حوالہ، ص 33. 22. تاريخ سياسى معاصر ايران، ج 1، ص 119. 23. نهضت امام خمينى، ج 3، ص 40 - 46. 24. تاريخ بيست ساله ايران، ج 4، ص 19. 25. واقعه كشف حجاب، ص 50. 26. قيام گوهرشاد، ص 32. 27. تاريخ بيست ساله ايران، ج 6، ص 153. 28. صحيفه نور، ج 1، ص 268. 29. مجاهد شهيد آيدالله حاج شيخ محمد تقى بافقى، محمد رازى، ص 2)) 30. واقعه كشف حجاب، ص 190، سند شماره 1)) 3۱. حاج آقا حسين قمى (قامت قيام ) ص 105. 32. مجله نور علم، شماره اول، سال دوم، ص 84. 33. عنصر فضيلت و تقوا، ص 43. 34 . مجله سروش، ش 1)) ص 88. 35 . قيام گوهرشاد، ص 161. 36. اسرار 2، مايس 1941 اوالحرب العراقيه الانگليزيه، يونس بحرى، ص 14. 37. نهضت روحانيون ايران، على دوانى، ج 2، ص 162؛ ناگفته ها، شهيد عراقى، 19. 38. مجله نور علم، شماره اول سال دوم، ص 89. 39. ناگفته ها، ص 22؛ نواب صفوى (سفير سحر)، سيد على رضا سيد كبارى، ص 55. 40. نواب صفوى (سفير سحر)، ص 55. 4۱. حاج آقا حسين قمى (قامت قيام )، ص 147 . 42. عنصر فضيلت و تقوى، ص 100. 43. اهميت علم و تقوى در اسلام، سيد محمد شيرازى، ص 12. 44. يكصد داستان خواندنى، سيد محمد شيرازى، ص 18. 45. عنصر فضيلت و تقوا، ص 80. 46. حاج آقا حسين قمى (قامت قيام )، ص 164. 47. گذشتہ حوالہ 48. مجله نور علم، شماره اول سال دوم ص 90. 49. عنصر فضيلت و تقوا، ص 35. 50. نقباءالبشر، ج 2، ص 655. منبع:shiastudies.net