Drawer trigger

آیۃ اللّہ العظمی سید محمد تقی خوانساری

ولادت سے ھجرت تك آپ ماہ رمضان سنہ 1247 ق میں خوانسار شھر میں سید اسد اللہ كے دولت خانہ میں پیدا ھوئے آپ كا نام محمد ركھا گیا ۔ آپ بچپنے میں ھی نھایت ذھین اور تیز و طرار تھے ۔ كم سنی میں ھی دینی اور معنوی چیزوں كی طرف زیادہ لگاؤ تھا آپ نے ابتداء ھی سے ایك مكتب میں خوش نویسی سیكھی اور قرآن كو اپنے خوش خط سے ساتھ لكھ كر ایك مسجد میں وقف كر دیا ۔ خوانسار كا حوزہ اس زمانے میں آپ كے آباء و اجداد اور دوسرے بزرگوں كے توسط سے پررونق تھا ۔ آپ نے اس حوزہ میں قدم ركھ كر اس كی رونق كو دوبالا كر دیا آپ نے اٹھارہ سال كی عمر میں حوزہ كے مقدماتی دروس حتی فقہ و اصول كے ایك دورہ پر عبور حاصل كرلیا ۔ 1 بزرگ علماء كے درسوں میں شركت سید محمد تقی اپنے والد كے مشورہ سے اپنی تعلیمات كو پایہ تكمیل تك پھنچانے كے لئے حوزہ نجف میں تشریف لے گئے ۔ نجف پھنچتے ھی بڑے بڑے علماء اور محققین كے دروس میں شركت كرنا شروع كر دیا ۔ آپ نے چار سال آیۃ اللہ آخوند خراسانی كے درس فقہ میں شركت كی ۔ اس كے ساتھ ساتھ آیۃ اللہ سید محمد كاظم طباطبائی كے درس اصول میں بھی جاتے رھے ۔ ان دو بزرگوں كے انتقال كے بعد آیۃ اللہ نائینی كے درس اصول اور آیۃ اللہ آقا ضیاء عراقی كے درس فقہ میں شركت كی ۔ آقا ضیاء عراقی آپ كی شخصیت كی قدردانی كرتے ھوئے فرماتے ھیں: آقا خوانساری كی شان اور منزلت كی حفاظت كو اپنے اوپر فرض سمجھتا ھوں بعد میں جب آپ ایران واپس چلے آئے تھے تو آقا عراقی نے آپ كے لئے مجتھد ھونے كا اجازت نامہ بھیجا ۔ 2 میدان جھاد میں پھلی عالم گیر جنگ كے شروع ھونے كے بعد جب عثمانی حكومت جرمنی كے مفاد میں وارد جنگ ھوئی تو خود عثمانی حكومت كی زمین بھی جنگی علاقوں میں شامل ھوگئی ۔ 28 آبان 1293ش كو بصرہ اور اس كے اطراف كا علاقہ انگریزی فوج كے كنٹرول میں ھوگیا ۔ عثمانی حكومت نے مجبور ھو كر عراق كے علماء سے مدد مانگی ۔ عراقی علماء كو بھی عراق كی زمین پامال ھوتے ھوئے دیكھ كر برداشت نہ ھوا اس وجہ سے اكثر علماء اور مراجع عظام نے جھاد كا حكم دے دیا ۔ اور اپنے بیٹوں كو میدان جنگ میں بھیج دیا اور بعض مجتھدین خود میدان جھاد میں نكل آئے ۔ محمد تقی خوانساری بھی آیۃ اللہ سید مصطفی كاشانی كے لشكر كے ساتھ میدان جنگ میں داخل ھوئے یہ گروہ دجلہ اور فرات میں كشتیوں پر سوار ھو كر بصرہ كے اطراف میں سب سے آگے والی صفوں میں شامل ھو گیا ۔ آپ جنگ میں خط مقدم "سب سے پھلی صف" میں لڑ رھے تھے ایك ھزار تیر جو آپ كے پاس تھے تمام ٹكنیكوں كے ساتھ دشمنوں پر استعمال كئے اور دشمن كو سامنے سے حملہ كرنے سے روك دیا ۔ جنگ كا نقشہ بدل گیا انگریزوں نے بغداد پر قبضہ كر لیا اور جو لوگ ان كا مقابلہ كر رھے تھے ان كو اسیر كرنا شروع كر دیا ۔ آپ كا جنگ میں ایك پاؤں زخمی ھو چكا تھا اسی حال میں آپ كو اسیر كر لیا گیا ۔ انگریزوں نے تمام اسراء كو سنگاپور جیل میں بھیج دیا آپ نے جیل كے اندر دروس كا سلسلہ شروع كردیا ۔ جیل میں موجود افراد كو منطق اور فلسفہ كا درس دیتے تھے ۔ اور خود ایك ھندوستانی راجہ سے جو آپ كے ساتھ جیل میں تھا انگریزی سیكھتے تھے ۔ جیل كے افسر كو جب آپ كی علمی صلاحیت كا پتہ چلا تو آپ كو بلا كر ایك گمراہ كنندہ كتاب كے ترجمہ كرنے كی پیشكش كی ۔ آپ نے سختی سے منع كر دیا اس وجہ سے اس نے سب كو آزاد كر دیا مگر آپ كو جلدی آزاد نھیں كیا آپ تقریبا چار سال جیل میں رھے ۔3 مرجعیت آیۃ اللہ خوانساری جیل سے رھائی پانے كے بعد خوانسار اپنے وطن واپس چلے گئے اس زمانے میں اراك كے حوزہ سلطان آباد كا بھت چرچا تھا آیۃ اللہ حائری وھاں درس كھتے تھے آپ نے بھی چند روز خوانسار ٹھھرنے كے بعد اراك كا رخ كیا اور آیۃ اللہ حائری كے درس میں شركت كی اور ساتھ ساتھ خود بھی اصول و فقہ اور فلسفہ كا درس دینے لگے ۔ كچھ ھی عرصہ میں آیۃ اللہ حائری كے نزدیك ترین مشاوروں میں شمار ھونے لگے اسی وجہ سے حوزہ علمیہ قم كی تأسیس میں آپ كا بھی كافی حد تك رول تھا ۔ آیۃ اللہ حائری كے ساتھ آپ بھی قم منتقل ھو گئے ۔ 1315ش میں جب آیۃ اللہ حائری كا سایہ حوزہ علمیہ قم كے سر سے اٹھا تو آیۃ اللہ صدر آیۃ اللہ حجت اور آیۃ اللہ خوانساری كہ جو تینوں آیۃ اللہ حائری كے برجستہ شاگرد تھے نے حوزہ كی ذمہ داری سنبھالی آپ اس كے باوجود كہ علمی صلاحیت اور اخلاقی فضائل سے آراستہ اور پیراستہ تھے مرجعیت كے میدان میں پیش قدم نھیں ھوئے ۔ لیكن شیخ محمد صدوقی، شیخ مجتبی عراقی اور دوسرے دوستوں نے بھت اصرار كے بعد آپ كی مرجعیت كا اعلان كروایا ۔ اور آپ كو آیۃ اللہ حائری كے باقی بچے ھوئے درس خارج كو پورا كرنے كے لئے ان كی جگہ پر بٹھا دیا ۔ دھیرے دھیرے آپ كی علمی شخصیت كا پورے ایران میں چرچا ھو گیا آیۃ اللہ اصفھانی نے احتیاطی مسائل میں لوگوں كو آپ كی طرف ارجاع دینا شروع كر دیا لیكن ان سب چیزوں كے باوجود آپ اور آیۃاللہ صدر اور آیۃ اللہ حجت نے دینی رھبریت كے اندر وحدت كو باقی ركھنے كی خاطر آیۃ اللہ بروجردی كو قم بلایا اور بھت اصرار كرنے كے بعد ان كو اس مسند مرجعیت پر بٹھادیا ۔ آپ كے درس و تدریس كا سلسلہ جو ایك زمانے میں نجف سے شروع ھوا تھا اب تك پوری دقتوں اور گھرایوں كے ساتھ درس خارج كی صورت میں جاری و ساری رھا اور اس ٹھاٹھیں مارتے ھوئے دریائے علم سے سینكڑوں تشنگان علم سیراب ھوتے رھے ۔ آپ كے علمی آثار، فقھی فتاویٰ اور نظریات كے علاوہ درس خارج كی تقریرات ھیں جھنیں آپ كے شاگردوں نے جمع كیا تھا ۔ 4 نماز كی شھرت آیۃ اللہ خونساری كی نماز ھر عام و خاص كے ورد زباں تھی ۔ وہ جب نماز كے لئے كھڑے ھوتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے مخاطب سے آمنے سامنے ھم كلام ھیں ۔ نماز كی حالت میں خدا پر یقین ان كے پورے جسم سے نمایاں ھوتا تھا ۔ آپ خود اس سلسلہ میں كھتے ھیں: جب میں نماز كے لئے كھڑا ھوتا ھوں تو مجھے ایسا لگتا ھے جیسے میں خدا سے آمنے سامنے گفتگو كر رھا ھوں ۔ آپ كے اس معنوی كمال كی بناء پر آیۃ اللہ سید احمد خوانساری نے مدرسہ فیضیہ كی نماز جماعت آپ كے حوالے كر دی ۔ اور ھر كوئی آپ كی اقتداء میں نماز پڑھنے كی كوشش كرتا تھا ۔ بعض اوقات جب آپ تشریف نھیں لاتے تھے تو آیۃ اللہ امام خمینی آ پ كی جگہ نماز پڑھاتے تھے ۔ نماز جمعہ چونكہ آپ كی نظر میں احتیاطاً واجب تھی كئی سالوں كے بعد 1320ھ ش میں آپ كے ذریعے مدرسہ فیضیہ میں قائم ھوئی كچھ ھی عرصہ كے بعد مدرسہ فیضیہ نماز جمعہ كے لئے كم پڑنے لگا اس وجہ سے نماز جمعہ كو مسجد امام حسن عسكری ع میں منتقل كر دیا گیا ۔ اس نماز جمعہ كا قائم ھونا اتنا موثر ثابت ھوا كہ اس كے بعد دھیرے دھیرے دوسرے شھروں میں بھی نماز جماعت قائم ھونے لگی ۔ 5 نماز باران آیۃ اللہ خوانساری كی معنوی اور عرفانی كمالات كی ایك ھلكی سی جھلك وہ نماز استسقاء یا نماز طلب باران ھے جو آپ نے سرزمین قم پر اس وقت پڑھائی جب قم میں دو سال خشك سالی اور قحط كی وجہ سے لوگوں كا جینا حرام ھو گیا تھا ۔ یہ واقعہ 1323ھ ش كا ھے جب قحط كی وجہ سے لوگ پریشان حال تھے ۔ ایك دن بھت سے لوگ جمع ھو كر آیۃ اللہ صدر اور آیۃ اللہ حجت اور آیۃ اللہ خوانساری كے پاس گئے اور بارش كے لئے دعا اور نیائش كا مطالبہ كیا ۔ آیۃ اللہ صدر اور آیۃ اللہ حجت نے كھا كہ تم لوگ شرعی وظائف پر عمل كرو خدا زمین اور آسمان كی رحمتوں كے دروازے تم پر كھول دے گا ۔ لیكن آیۃ اللہ خوانساری نے نفی میں جواب نھیں دیا بلكہ لوگوں كو نماز استسقاء پڑھنے كے لئے آمادہ كیا ۔ شھر میں اعلان عمومی كرا دیا كہ جمعہ كے روز نماز استسقاء پڑھی جائے گی ۔ بعض لوگوں نے آپ كو انجام كار سے خوف دلانے كی كوشش كی كہ اگر بارش نہ ھو تو كیا ھوگا ۔ لیكن آپ نے جواب میں كھا كہ ھمارا كام اپنی تكلیف اور فریضہ پر عمل كرنا ھے كام كا نتیجہ خدا كے اوپر ھے روز جمعہ آگیا لوگوں كی نگاھیں آیۃ اللہ خوانساری پر جمی ھوئی ھیں ۔ آپ پورے اطمینان كے ساتھ پابرھنہ تحت الحنك ڈالے ھوئے صحرائے خاكفرج كی طرف روانہ ھو گئے بیس ھزار لوگوں نے آپ كے پیچھے نماز پڑھی نماز استسقاء تمام ھوگئی مگر اس دن بارش نھیں ھوئی آپ نے دوسرے دن درس میں پھر نماز پڑھنے كا اعلان كیا ۔ دوسرے روز نماز قم نو كے پیچھے صحراء میں قائم ھوئی اسی دن شام كو غروب كے وقت قم كی سرزمین پر ایسی بارش ھوئی جس كی وجہ سے بجلی كی تاریں ٹوٹ گئی ۔ اس واقعہ كی رپوٹ بی بی سی نے لندن سے منتشر كی ۔ 6 ایك نمونۂ حج سنہ 1338ھ ش تك سات سال ھو رھے تھے كہ ایران حج سے محروم تھا اسی سال ایران كو حج كی اجازت ملی تو سب سے زیادہ علماء اور روحانیوں نے اس حج میں شركت كی ۔ یھاں تك كہ اس سال كے حج كو حجۃ العلماء كا نام دیا گیا ۔ بڑے بڑے علماء اور آیات عظام جیسے آیۃ اللہ میرزا محمد فیض، آیۃ اللہ خوانساری اور دوسرے حضرات نے تمام شوق و جذبہ كے ساتھ شركت كی ۔ انھیں ایام میں آیۃ اللہ خوانساری كا مكہ میں داخل ھونا آپسی یك جھتی اور وحدت كا باعث بنا ۔ آپ كی طرف سے رؤیت ھلال كا اعلان كیا جانا اور بلا اختلاف سب كا قبول كر لینا وحدت كی ایك جھلك تھی اور جب بعض شیعوں نے آپ سے نماز جماعت پڑھانے كا تقاضا كیا تو آپ نے ان كی درخواست مسترد كر كے اھل سنت كی جماعت میں شركت كی ۔ چوں كہ یہ حج وحدت، ھمدلی اور اتحاد بین المسلمین كا حج تھا ۔ مدینہ میں جتنا عرصہ آپ قیام پذیر رھے ۔ مختلف مذاھب كے لوگوں كی آپ كے پاس رفت و آمد رھی ۔ از جملہ مصر كے علماء كا ایك گروہ شیخ حسن البناء كی سرپرستی میں كہ جو اخوان المسلمین كے بزرگ اور مرشد تھے آپ كی خدمت میں آیا ۔ آپ كے ساتھ دوستانہ طریقہ سے گفتگو ھوئی ۔ آپ نے اتحاد اور ایك دوسرے كے قریب آنے كی تاكید كی جواب میں مصری خطباء اور علماء نے آپ كی تائید كی ۔ 7 ھیجان آور فتاویٰ آیۃ اللہ خوانساری آیۃ اللہ حسین قمی كے ساتھ ساتھ ممنوعیت حجاب كے خلاف احتجاج كرنے میں شریك تھے ۔ آپ نے اس خطرناك ماحول میں پردے كے واجب اور ضروری ھونے كا فتویٰ دیا ۔ 8 فلسطین پر جب اسرائیلیوں نے حملہ اور قبضہ كرنا چاھا ۔ تو آیۃ اللہ خوانساری نے آیۃ اللہ كاشانی كے ساتھ مل كر فتویٰ دیا كہ فلسطین كے مسلمانوں كی مدد كرنا اور صھیونیست سے جنگ اور مقابلہ كرنا سب مسلمانوں پر واجب ھے ۔ اس فتوے كے بعد ھزاروں اسلام كے فداكار فلسطین كی طرف روانہ ھونے كے لئے تیار ھوگئے ۔ لیكن حكومت وقت نے راستہ میں ركاوٹیں ایجاد كركے فسلطین جانے سے منع كردیا ۔ 9 آیۃ اللہ خوانساری، آیۃ اللہ كاشانی كے شانہ بہ شانہ چلتے تھے آپ نے ایران كے تیل كو قوم كا سرمایہ قرار دے كر غیروں كے ھاتھوں كو تیل كی طرف بھڑنے سے روك دیا ۔ پارلیمنٹ كے سترھویں الیكشن میں شركت كرنے كو ضروری اور واجب قرار دیا اس فتویٰ كے بعد تھران میں الیكشن كے دوران ھلچل مچ گئی ۔10 موسم خزاں سنہ1331ھ ش میں جب ھمدان كے لوگ اور علماء آیۃ اللہ خوانساری كی نامساعد حالت سے باخبر ھوئے تو آپ سے درخواست كی كہ موسم گرما كو ھمدان كی پر لطف ھوا میں گذاریں ۔ آپ ان كی درخواست قبول كرتے ھوئے آیۃ اللہ اراكی، آیۃ اللہ آخوند ملا علی ھمدانی، امام خمینی اور اپنے بڑے بیٹے سید محمد باقر كے ساتھ ھمدان تشریف لے گئے ۔ آیۃ اللہ خوانساری بڑے استقبال كے ساتھ شھر میں داخل ھوئے ۔ آپ كے معنوی اور عرفانی كمالات كی وجہ سے لوگوں نے اصرار كیا كہ آپ جامع مسجد میں نماز پڑھائیں ۔ ایك دن آپ مسجد میں نماز پڑھانے جارھے تھے كہ راستے میں دل كا دورہ پڑا اور آخركار1371ق 7 ذی الحجہ ظھر كے وقت اپنے معبود حقیقی كی دعوت پر لبیك كھہ گئے ۔ آپ كے جسد مبارك كو قم روضہ حضرت معصومہ ع میں لایا گیا اور آپ كے استاد آیۃ اللہ حائری كی آغوش میں دفن كر دیا ۔ 11 منبع: گلشن ابرار؛ گروهی از نویسندگان / ج 2 1. مجله مجموعه حكمت، سال اول، ش 12، ص 12 - 17؛ آثارالحجه، محمد شريف رازى، ج 1، ص 143. 2. همان؛ نقباءالبشر، آقا بزرگ تهرانى، ج 1، ص 226؛ مجله نور علم، شماره اول، دوره دوم، ص ؛ علماء معاصرين، واعظ خيابانى تبريزى، ص 211؛ تاريخ قم، ص 252. 3. الشيعه والدولة القومية فى العراق، حسن العلوى ص 52 - 5 7؛ نگاهى به انقلاب 1920 عراق، محمد صادقى تهرانى، ص 7 و 8؛ ايران در جنگ 1918 - 1912، مورخ الدوله سپهر، ص 70؛ نهضت روحانيون ايران، على دوانى، ج 1، ص 212؛ نهضت شيعيان در انقلاب اسلامى عراق، عبدالله فهد نفيسى، ترجمه كاظم چايچيان، ص 76؛ مجموعه حكمت، ص 18 - 20؛ مجله نرو علم، ص 99-101؛ لمعات اجتماعية من تاريخ العراق الحديث، على الوردى، ج 4، ص 350 - 352. 4. مجله مجموعه حكمت، ص 20 - 22؛ علماء معاصرين، ص 311؛ اثارالحجه، ج 1، ص 15، 16، 146 5. مجله حوزه، شماره 36، علماء معاصرين، ص 312؛ مجله مجموعه حكمت، ص 22 تا 33. 6. مجله حوزه، ش 12، ص 28 و ش 36، ص 37؛ علماء معاصرين، ص 312؛ مجله مجموعه حكمت، ص 22، 29 - 35؛ مجله كيهان فرهنگى، سال سوم، ش 12، ص 7. 7. مجموعه حكمت، ص 43 - 46؛ آثارالحجه، ج 1، ص 153 و 154. 8. آثارالحجه، ج 1، ص 155. 9. مجله مجموعه حكمت، ص 9. 10. همان، ص 35 - 37؛ روحانيت و اسرار فاش نشده از نهضت ملى شدن صنعت نفت، ص 88 - 90؛ مجله تاريخ و فرهنگ معاصر، ش 5. 11. مجله مجموعه حكمت، ص 49 - 51؛ مجله حوزه ش 12، ص 43؛ مجموعه اى از مكتوبات، سخنرانيها و پيامهاى آية الله كاشانى، ج 3، ص 56، گنجينه دانشمندان، محمد شريف رازى، ج 1، ص . منبع:shiastudies.net