Drawer trigger

فضائلِ علی علیہ السلام اُم المومنین حضرتِ عائشہ کی نظر میں

حضرتِ عائشہ،حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ کی بیٹی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔ معتبر تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرتِ عائشہ کا رویہ حضرت علی علیہ السلام،جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اُن کے دو فرزندانِ ارجمندکے ساتھ اچھا نہ تھا اوراس کااظہار جنگ ِجمل میں مکمل طور پر ہوا۔ وہ کھل کر حضرت علی علیہ السلام کے مقابل آگئیں جبکہ پیغمبر اکرمنے واضح طور پر پیروی اور اطاعت ِعلی علیہ السلام کا حکم دیا تھا۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ فضائل و کمالاتِ علی علیہ السلام اور اہلِ بیت ِ اطہار  اس قدر زیادہ ہیں کہ کوئی بھی ان کو چھپا نہیں سکتا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے چمکتے آفتاب کی روشنی کو کوئی بھی چیز ڈھانپ نہیں سکتی۔ حضرتِ عائشہ بھی باوجودیکہ اُن کی سوچ علی علیہ السلام کے بارے میں مختلف تھی، حضرتِ علی  کے فضائل کی معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔آئیے اب اُن کے کلام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ (الف)۔ عَنْ ھِشٰامِ بْنِ عُرْوَةٍ،عَنْ اَبِیْہِ،عَنْ عٰائِشَۃَ قٰالَتْ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ ذِکْرُ عَلِیٍّ عِبٰادَةٌ۔ ”ہشام بن عروہ اپنے والد سے اور وہ حضرتِ عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرتِ عائشہ نے کہا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی کا ذکر کرنا عبادت ہے“۔ حوالہ جات 1۔       ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث243،صفحہ206۔ 2۔       ابن عساکر،تاریخ دمشق،بابِ حالِ امام علی ،ج2ص408حدیث914شرح محمودی 3۔       ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ358۔ 4۔       متقی ہندی،کنزالعمال میں،جلد11،صفحہ601۔ 5۔       سیوطی،تاریخ الخلفاء میں،صفحہ172۔ 6۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،بابِ مناقب السبعون،ص281،حدیث46 اور312۔ ۔۔۔۔۔۔ (ب)۔   عَنْ عٰائِشَۃَ،اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ خَرَجَ وَعَلَیْہِ مَرْطٌ مُرَجَّلٌ مِنْ شَعْرٍأَسْوَدٍ،فَجٰاءَ الْحَسَنُ فَأَدْخَلَہُ،ثُمَّ جٰاءَ الْحُسَیْنُ فَاَدْخَلَہُ،ثُمَّ فٰاطِمَۃٌ،ثُمَّ عَلِیُّ،ثُمَّ قٰالَ:اِنَّمٰایُرِیْدُاللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَھْلَ الْبَیْتِ۔۔۔۔۔۔ ”حضرتِ عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر آئے۔ انہوں نے چادر اوڑھی ہوئی تھی جو سیاہ ریشوں سے بنی ہوئی تھی۔ اتنے میں حضرتِ حسن علیہ السلام آئے، آپ نے انہیں چادر کے اندر کرلیا۔پھر امام حسین علیہ السلام آئے، آپ نے انہیں بھی چادر کے اندر کرلیا۔ اس کے بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا اور علی علیہ السلام تشریف لائے، وہ بھی چادر کے اندر آگئے(جب یہ ہستیاں چادر کے اندر آگئیں) تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اِنَّمٰا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرا۔ ”اے اہلِ بیت ! سوائے اس کے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر قسم کے رجس سے دوررکھے اور تم کو ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔ حوالہ زمخشری،تفسیر کشاف،ج1،ص369،ذیل آیت61،سورئہ آلِ عمران’فَمَنْ حَاجَّکَ‘۔ ۔۔۔۔۔۔ (ج)۔   عَنْ عٰائِشَۃَ۔۔۔۔قٰالَتْ:رَحِمَ اللّٰہُ عَلِیّاً لَقَدْکٰانَ عَلَی الْحَقِّ۔۔ ”حضرتِ عائشہ کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ علی  پر رحمت نازل فرمائے، بیشک وہ حق پر تھے“۔ حوالہ  ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ305،حدیث14۔ ۔۔۔۔۔۔ (د)۔    عَنْ جَمیعِ بْنِ عُمَیْرٍقٰالَ دَخَلْتُ عَلیٰ عٰائِشَۃَ،فَقُلْتُ لَھٰا:مَنْ کٰانَ اَحَبُّ النّٰاسِ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ قٰالَتْ:أَمّٰامِنَ الرِّجٰالِ فَعَلِیٌّ،وَأَمّٰامِنَ النِّسٰاءِ فَفٰاطِمَۃُ۔ ”جمیع بن عمیر سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ تک پہنچا اور میں نے اُن سے پوچھا کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب ترین شخص کون ہے؟حضرت عائشہ نے کہا کہ مردوں میں حضرت علی علیہ السلام اور عورتوں میں جنابِ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں“۔ حوالہ جات 1۔       حاکم، المستدرک میں،جلد3،صفحہ154،157۔ 2۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب55،صفحہ202،241۔ 3۔       ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حالِ امام علی ،جلد2،صفحہ167،شرح محمودی۔ 4۔       ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ355اور دوسرے۔ ۔۔۔۔۔۔ (ھ)۔   عَنْ شُرَیْحِ بْنِ ھٰانِی،عَنْ اَبِیہِ،عَنْ عٰائِشَۃَ قٰالَتْ:مٰاخَلَقَ اللّٰہُ خَلْقاً کٰانَ اَحَبُّ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ مِنْ عَلِیٍّ۔ ”شریح بن ہانی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ اللہ نے کسی کو خلق ہی نہیں کیا جو رسول اللہ کو علی  سے زیادہ محبوب ہو“۔ حوالہ ابن کثیر،تاریخ دمشق ،بابِ حالِ امام علی ،ج2،ص162،حدیث648،شرح محمودی ۔۔۔۔۔۔ (و)۔   عَنْ عَطٰاءٍ قٰالَ:سَأَلْتُ عٰائِشَۃَ عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلام فَقٰالَتْ:ذٰاکَ خَیْرُالْبَشَرِلاٰ یَشُکُّ فِیْہِ اِلّٰاکٰافِرٌ۔ ”عطاء سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ علی علیہ السلام سب انسانوں سے بہتر ہیں اور اس میں سوائے کافر کے کوئی شک نہیں کرسکتا“۔ حوالہ 1۔       ابن عساکر،تاریخ دمشق ،بابِ حالِ امیرالموٴمنین ،جلد2،صفحہ448،حدیث972۔ 2۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب مودة الثالثہ،صفحہ293۔ ۔۔۔۔۔۔ (ز)۔ ۔۔۔۔۔حَدَّثْنٰا جَعْفَرُبْنُ بَرْقٰان قٰالَ:بَلَغَنِی اَنَّ عٰائِشَۃَ کٰانَتْ تَقُولُ:زَیِّنُوْامَجٰالِسَکُمْ بِذِکْرِعَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِب۔ ”جعفر بن برقان سے روایت ہے کہ مجھ تک یہ حدیث ِ رسول حضرت عائشہ کے ذریعے سے پہنچی ،وہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اپنی مجلسوں کو ذکر ِعلی سے زینت دو“۔ ۔۔۔۔۔۔ (ح)۔عٰائِشَۃُ رَفَعَتْہُ:اِنَّ اللّٰہَ قَدْعَھِدَ اِلیٰ مَنْ خَرَجَ عَلیٰ عَلِیٍّ فَھُوَ کٰافِرٌفِی النّٰارِ،قِیْلَ:لِمَ خَرَجْتِ عَلَیْہِ؟قٰالَتْ:أَنَا نَسِیْتُ ھٰذَاالْحَدِیْثَ یَومَ الْجَمَلِ حَتّٰی ذَکَرْتُہُ بِالْبَصْرَةِ وَأَ  نَااَسْتَغْفِرُاللّٰہَ۔ ”حضرت عائشہ سے حدیث ِمرفوع(پیغمبر اکرم)روایت ہے کہ بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی بھی علی علیہ السلام سے جنگ کرے گا، وہ کافر ہے اور جہنم میں جائے گا۔ اُن سے پوچھا گیا تو پھر آپ نے کیوں علی علیہ السلام سے جنگ کی؟ کہنے لگیں کہ جنگ ِجمل کے روز میں یہ حدیث بھول گئی تھی جب مجھے یہ حدیث یاد آئی تو میں نے اللہ سے توبہ کرلی“۔ حوالہ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مودة الثالثہ،صفحہ294۔ (ط)۔    عَنْ عَطَاءِ بْنِ اَبِی رَبَاحٍ، عَنْ عٰائِشَۃَ، قٰالَتْ: عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طٰالِبٍ اَعْلَمُکُمْ بِالسُّنَّةِ۔ ”عطا ابن ابی رباح روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ سنّتِ پیغمبر میں عالم ترین شخص علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔ حوالہ جات 1۔       سیوطی، تاریخ الخلفاء میں،صفحہ171۔ 2۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب3،صفحہ343۔ 3۔       ابن عبدالبر،کتاب استیعاب ، شرح حالِ علی ،جلد3،صفحہ1104،حدیث1855۔ 4۔       ابن عساکر،تاریخ دمشق ،باب حالِ امام علی ،ج3حدیث1079ص48شرح محمودی 5۔       بلاذری،کتاب انساب الاشراف میں۔ ،بابِ شرح حالِ علی ،جلد2،حدیث86،صفحہ 124،اشاعت اوّل، بیروت اور دوسرے۔ (ی)۔   عَنْ عَطٰاءٍ عَنْ عٰائِشَۃَ قٰالَتْ:عَلِیٌّ اَعْلَمُ اَصْحٰابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ۔ ”عطاء حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرتِ عائشہ نے کہا کہ اصحابِ پیغمبر میں سب سے بڑے عالم حضرت علی علیہ السلام تھے“۔ حوالہ بوستانِ معرفت، صفحہ658،نقل از کتاب شواہد التنزیل(مصنف حسکانی)جزو اوّل،صفحہ35،حدیث40۔ (ک)۔   عَنْ عٰائِشَۃَ،قٰالَتْ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ،وَھُوَفِی بَیْتِھٰالَمّٰاحَضَرَہُ الْمَوْتُ:اُدْعُوا لِیْ حَبِیْبِی (قٰالَتْ) فَدَعَوْتُ لَہُ اَبَابَکرَ فَنَظَرَاِلَیْہِ ثُمَّ وَضَعَ رَأسَہُ ثُمَّ قٰالَ:اُدْعُوْا لِیْ حَبِیْبِی۔فَدَعُوْا لَہُ عُمَرَ،فَلَمّٰانَظَرَاِلَیْہِ وَضَعَ رَأسَہُ،ثُمَّ قٰالَ:اُدْعُوْا لِی حَبِیْبِی، فَقُلْتُ:وَیْلَکُمْ اُدْعُوالَہُ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طٰالِبٍ،فَوَاللّٰہِ مٰا یُرِیْدُ غَیْرُہُ(فَدَعُوْاعَلِیّاً فَأَتٰاہُ)فَلَمّٰا أَتٰاہُ أَفْرَدَالثُّوبَ الَّذِی کٰانَ عَلَیْہِ ثُمَّ أَدْخَلَہُ فِیْہِ فَلَمْ یَزَلْ یَحْتَضِنَہُ حَتّٰی قُبِضَ وَیَدُہُ عَلَیْہِ۔ ”حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب رحلت ِپیغمبر کا وقت قریب تھا تو آپ نے فرمایا کہ میرے حبیب کو میرے نزدیک بلاؤ۔ پس ہم نے حضرت ابوبکر کو بلایا۔ پیغمبر اکرمنے ایک نگاہ کی اور اپنا سرجھکا دیا۔پھر فرمایا کہ میرے حبیب کو میرے نزدیک بلاؤ۔ پس ہم نے حضرت عمر کو بلالیا۔ پیغمبر اسلام نے ایک نگاہ کی اور پھر اپنا سرجھکا دیا۔ پھر فرمایا کہ میرے حبیب کو میرے نزدیک بلاؤ۔ میں نے کہا حیف ہے، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ان کیلئے بلاؤ۔خدا کی قسم! آپ نے علی علیہ السلام کے سوا کسی کو نہیں چاہا ہے۔ پس علی علیہ السلام کو بلایا گیا۔ جس وقت وہ آئے تو پیغمبر نے وہ چادرجو خود اوڑھی ہوئی تھی، اُس میں علی علیہ السلام کو داخل کیا اور پھر اُن سے جدا نہ ہوئے،یہاں تک کہ رحلت فرمائی اور اس حالت میں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ علی علیہ السلام کے بدن پر تھا“۔ حوالہ جات 1۔       ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ360(روایت عبداللہ بن عمر سے)۔ 2۔       ابن عساکر، تاریخ دمشق ،بابِ شرح حالِ امام علی علیہ السلام ،ج3،ص14،حدیث 1027،شرح محمودی۔ 3۔       حاکم، المستدرک میں،جلد3،صفحہ138،139۔ 4 ۔      ذھبی، کتاب میزان الاعتدال میں،جلد2،صفحہ482،شمارہ4530۔ 5۔       سیوطی،اللئالی المصنوعہ میں،جلد 1،صفحہ193،اشاعت ِ اوّل۔ 6۔       مناقب ِ خوارزمی، جلد1،صفحہ38،باب4۔ (ل)۔    عَنْ عٰائِشَۃَ قٰالَتْ:رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ اِلْتَزَمَ عَلِیّاً وَقَبَّلَہُ وَ(ھُوَ)یَقُوْلُ:بِأَبِی الْوَحِیْدَ الشَّھِیْدَ،بِأَبِی الْوَحِیْدَ الشَّھِیْدَ۔ ”حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ اُن کو اپنے ساتھ چمٹایا ہوا تھا اور اُن کا منہ چوم رہے تھے اور یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اے شہید ِتنہا!میرے والد تم پر فدا۔ اے شہید ِتنہا! میرے والد تم پر فدا“۔ حوالہ جات 1۔       ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد9،صفحہ138۔ 2۔       ابن عساکر،تاریخ دمشق،بابِ حال علی ،ج3،ص285،حدیث1376،شرح محمودی 3۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب59،صفحہ339۔ 4۔       متقی ہندی،کنزالعمال میں،جلد11،صفحہ617(اشاعت ِ بیروت، پنجم)۔ ۔۔۔۔۔ منبع:islaminurdu.com