امام حسن عسکری علیہ السلام کی مختصر سونح حیات
امام حسن عسکری علیہ السلام کی مختصر سونح حیات
0 Vote
48 View
امام حسن عسکری علیہ السلام کا علمی تبحر اور عراق کے ایک عظیم فلسفی کو شکست اہلبیت اطہار علیھم السلام علم الہی کے وہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر ہیں جن کے مقابلہ میں جن کے مقابلے میں آنے والے بزعم خود بڑے بڑے دانشمند اور فلاسفر قطرہ بھی نظر نہیں آئے۔ مورخین کابیان ہے کہ عراق کے ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کویہ خبط سوارہواکہ قرآن مجیدمیں تناقض ثابت کرے اوریہ بتادے کہ قرآن مجیدکی ایک آیت دوسری آیت سے، اورایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتاہے اس نے اس مقصدکی تکمیل کے لیے ”تناقض القرآن“ لکھناشروع کی اوراس درجہ منہمک ہوگیا کہ لوگوں سے ملناجلنا اورکہیں آناجانا سب ترک کردیا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کوجب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کاارادہ فرمایا، آپ کاخیال تھا کہ اس پرکوئی ایسااعتراض کردیاجائے کہ جس کا وہ جواب نہ دینے سے اورمجبورااپنے ارادہ سے بازآجائے ۔ اتفاقا ایک دن آپ کی خدمت میں اس کاایک شاگرد حاضرہوا، حضرت نے اس سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسانہیں ہے جواسحاق کندی کو ”تناقض القرآن“ سے لکھنے سے بازرکھے اس نے عرض کی مولا! میں اس کاشاگردہوں، بھلااس کے سامنے لب کشائی کرسکتاہوں، آپ نے فرمایاکہ اچھایہ توکرسکتے ہو کہ جومیں کہوں وہ اس تک پہنچادو، اس نے کہاکرسکتاہوں، حضرت نے فرمایاکہ پہلے توتم اس سے موانست پیداکرو، اوراس پراعتبارجماؤ جب وہ تم سے مانوس ہوجائے اورتمہاری بات توجہ سے سننے لگے تواس سے کہناکہ مجھے ایک شبہ پیداہوگیاہے آپ اس کودورفرمادیں، جب وہ کہے کہ بیان کروتوکہناکہ ”ان اتاک ہذالمتکلم بہذاالقرآن ہل یجوزمرادہ بماتکلم منہ عن المعانی التی قدظننتہا انک ذہبتھا الیہ“ اگراس کتاب یعنی قرآن کامالک تمہارے پاس اسے لائے توکیاہوسکتاہے کہ اس کلام سے جومطلب اس کاہو، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی ومطالب کے خلاف ہو، جب وہ تمہارا یہ اعتراض سنے گا توچونکہ ذہین آدمی ہے فوراکہے گا کہ بے شک ایساہوسکتاہے جب وہ یہ کہے توتم اس سے کہناکہ پھرکتاب ”تناقض القرآن“ لکھنے سے کیافائدہ؟ کیونکہ تم اس کے جومعنی سمجھ کراس پراعتراض کررہے ہو ،ہوسکتاہے کہ وہ خدائی مقصودکے خلاف ہو، ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اوربرباد ہوجائے گی کیونکہ تناقض توجب ہوسکتاہے کہ تمہارا سمجھاہوا مطلب صحیح اورمقصود خداوندی کے مطابق ہو اورایسا یقینی طورپرنہیں توتناقض کہاں رہا؟ ۔ الغرض وہ شاگرد ،اسحاق کندی کے پاس گیا اوراس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اورکہنے لگا کہ پھرسوال کودہراؤ اس نے پھراعادہ کیا اسحاق تھوڑی دیرکے لیے محو تفکرہوگیا اورکہنے لگا کہ بے شک اس قسم کااحتمال باعتبار لغت اوربلحاظ فکروتدبرممکن ہے پھراپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہواکربولا! میں تمہیں قسم دیتاہوں تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ کہ تمہیں یہ اعتراض کس نے بتایاہے اس نے جواب دیا کہ میرے شفیق استاد یہ میرے ہی ذہن کی پیداوارہے اسحاق نے کہاہرگزنہیں ، یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی چیزنہیں ہے، تم سچ بتاؤ کہ تمہیں کس نے بتایا اوراس اعتراض کی طرف کس نے رہبری کی ہے شاگرد نے کہا کہ سچ تویہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایاتھا اورمیں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پرآپ سے سوال کیاہے اسحاق کندی بولا ”ان جئت بہ “ اب تم نے سچ کہاہے ایسے اعتراضات اورایسی اہم باتیں خاندان رسالت ہی سے برآمدہوسکتی ہیں ”ثم انہ دعا بالنا رواحرق جمیع ماکان الفہ“ پھراس نے آگ منگائی اورکتاب تناقض القرآن کاسارامسودہ نذرآتش کردیا (مناقب ابن شہرآشوب مازندرانی جلد ۵ ص ۱۲۷ ،بحارالانوار جلد ۱۲ ص ۱۷۲ ،دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۸۳) ۔ معتمدعباسی کی خلافت اورامام حسن عسکری علیہ السلام کی گرفتاری ۲۵۶ ہجری میں معتدعباسی خلافت مقبوضہ کے تخت پرمتمکن ہوا، اس نے حکومت کی عنان سنبھالتے ہی اپنے آبائی طرزعمل کواختیارکرنا اورجدی کردارکوپیش کرناشروع کردیا اوردل سے اس کی سعی شروع کردی کہ آل محمدکے وجودسے زمین خالی ہوجائے، یہ اگرچہ حکومت کی باگ ڈوراپنے ہاتھوں میں لیتے ہی ملکی بغاوت کاشکارہوگیاتھا لیکن پھربھی اپنے وظیفے اوراپنے مشن سے غافل نہیں رہا” اس نے حکم دیاکہ عہدحاضرمیں خاندان رسالت کی یادگار،امام حسن عسکری کوقیدکردیاجائے اورانہیں قیدمیں کسی قسم کاسکون نہ دیاجائے حکم حاکم مرگ مفاجات آخرامام علیہ السلام بلاجرم وخطاآزادوفضاسے قیدخانہ میں پہنچادئیے گئے اورآپ پرعلی بن اوتاش نامی ایک ناصبی مسلط کردیاگیا جوآل محمداورال ابی طالب کاسخت ترین دشمن تھا اوراس سے کہہ دیاگیاکہ جوجی چاہے کرو، تم سے کوئی پوچھنے والانہیں ہے ابن اوتاش نے حسب ہدایت آپ پرطرح طرح کی سختیاں شروع کردیں اس نے نہ خداکاخوف کیانہ پیغمبرکی اولادہونے کا لحاظ کیا۔ لیکن اللہ رے آپ کا زہدوتقوی کہ دوچارہی یوم میں دشمن کادل موم ہوگیا اوروہ حضرت کے پیروں پرپڑگیا، آپ کی عبادت گذاری اورتقوی وطہارت دیکھ کر وہ اتنامتاثرہواکہ حضرت کی طرف نظراٹھاکردیکھ نہ سکتاتھا، آپ کی عظمت وجلالت کی وجہ سے سرجھکاکرآتااورچلاجاتا، یہاں تک کہ وہ وقت آگیاکہ دشمن بصیرت آگیں بن کرآپ کامعترف اورماننے والاہوگیا(اعلام الوری ص ۲۱۸) ۔ ابوہاشم داؤدبن قاسم کابیان ہے کہ میں اورمیرے ہمراہ حسن بن محمد القتفی ومحمدبن ابراہیم عمری اوردیگربہت سے حضرات اس قیدخانہ میں آل محمد کی محبت کے جرم کی سزابھگت رہے تھے کہ ناگاہ ہمیں معلوم ہواکہ ہمارے امام زمانہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بھی تشریف لارہے ہیں ہم نے ان کااستقبال کیاوہ تشریف لاکرقیدخانہ میں ہمارے پاس بیٹھ گئے، اوربیٹھتے ہی ایک اندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اگریہ شخص نہ ہوتاتو میں تمہیں یہ بتادیتاکہ اندرونی معاملہ کیاہے اورتم کب رہاہوگے لوگوں نے یہ سن کراس اندھے سے کہا کہ تم ذراہمارے پاس سے چندمنٹ کے لیے ہٹ جاؤ، چنانچہ وہ ہٹ گیا اس کے چلے جانے کے بعدآپ نے فرمایاکہ یہ نابیناقیدی نہیں ہے بلکہ تمہارے لیے حکومت کاجاسوس ہے اس کی جیب میں ایسے کاغذات موجودہیں جواس کی جاسوسی کاثبوت دیتے ہیں یہ سن کرلوگوں نے اس کی تلاشی لی اورواقعہ بالکل صحیح نکلاابوہاشم کہتے ہیں کہ ہم قیدکے ایام گذاررہے تھے کہ ایک دن غلام کھانالایا حضرت نے شام کا لیے کھانانہ لوں گا چنانچہ ایساہی ہواکہ آپ عصرکے وقت قیدخانہ سے برآمدہوگئے۔ (اعلام الوری ص ۲۱۴) ۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت امام یازدہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام قیدوبندکی زندگی گزارنے کے دوران میں ایک دن اپنے خادم ابوالادیان سے ارشادفرماتے ہوئے کہ تم جب اپنے سفرمدائن سے ۱۵/ یوم کے بعد پلٹوگے تو میرے گھرسے شیون وبکاکی آواز آتی ہوگی (جلاء العیون ص ۲۹۹) ۔ نیزآپ کایہ فرمانابھی معقول ہے کہ ۲۶۰ ہجری میں میرے ماننے والوں کے درمیان انقلاب عظیم آئے گا (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۷) ۔ الغرض امام حسن عسکری علیہ السلام کوبتاریخ یکم ربیع الاول ۲۶۰ ہجری معتمدعباسی نے زہردلوادیا اورآپ ۸/ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کوجمعہ کے دن بوقت نمازصبح خلعت حیات ظاہری اتارکر بطرف ملک جاودانی رحلت فرماگئے ”اناللہ وانا الیہ راجعون“ (صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، فصولف المہمہ ،ارجح المطالب ص ۲۶۴ ، جلاء العیون ص ۲۹۶ ،انوارالحسینیہ جلد ۳ ص ۱۲۴) ۔ علماء فریقین کااتفاق ہے کہ آپ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اولادنہیں چھوڑی (مطالب السول ص ۲۹۲ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،نورالابصار ارجح المطالب ۴۶۲ ،کشف الغمہ ص ۱۲۶ ، اعلام الوری ص ۲۱۸) ۔ منبع:http://www.fazellankarani.com