حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی حیثیت

کسی معصوم کی علمی حیثیت پر روشنی ڈالنا بہت دشوار ہے ،کیونکہ معصوم اور امام زمانہ کو علم لدنی حاصل ہوتا ہے، وہ خدا کی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپور متولد ہوتا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اور معصوم ازلی تھے اس لیے آپ کے علمی کمالات،علمی کارنامے اور آپ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے تاہم میں ان واقعات میں سے مستثنی ازخروارے،لکھتاہوں جن پرعلماء عبورحاصل کرسکے ہیں۔ علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ” علمنامنطق الطیر و اوتینا من کل شئی “ ہمیں طائروں تک کی زبان سکھاگئی ہے اورہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیاہے (مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱) ۔ روضة الصفاء میں ہے کہ ’’بخدا سوگند کہ ما خازنان خدائیم درآسمان زمین الخ‘‘ خدا کی قسم ہم زمین اور آسمان میں خداوندعالم کے خازن علم ہیں اور ہم یہ شجرہ نبوت اور معدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں، لسان الواعظین میں ہے کہ ابو مریم عبدالغفار کا کہنا ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہواکہ : ۱ ۔ مولا کونسا اسلام بہتر ہے ؟ فرمایا: جس سے اپنے برادر مومن کو تکلیف نہ پہنچے ۔  ۲۔  کونسا خلق بہتر ہے؟ فرمایا: صبر اور معاف کردینا   ۳ ۔ کون سا مومن کامل ہے؟ فرمایا: جس کے اخلاق بہتر ہوں  ۴ ۔  کون سا جہاد بہتر ہے؟  فرمایا: جس میں اپنا خون بہہ جائے  ۵ ۔ کونسی نماز بہترہے؟ فرمایا: جس کا قنوت طویل ہو، ۶ ۔ کون سا صدقہ بہترہے؟ فرمایا: جس سے نافرمانی سے نجات ملے،  ۷ ۔ بادشاہان دنیا کے پاس جانے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: میں اچھا نہیں سمجھتا، پوچھاکیوں؟ فرمایاکہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمدورفت سے تین باتیں پیداہوتی ہیں  :  ۱ ۔ محبت دنیا، ۲ ۔فراموشی مرگ،  ۳ ۔ قلت رضائے خدا۔ پوچھا پھر میں نہ جاؤں؟ فرمایا: میں طلب دنیا سے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی سے روکتا ہوں ۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اور اس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم و زہد اور شرف میں ساری دنیا سے فوقیت لے گئے ہیں آپ سے علم القرآن، علم الآثار، علم السنن اور ہرقسم کے علوم، حکم، آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا، بڑے بڑے صحابہ اور نمایاں تابعین، اور عظیم القدر فقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابرین عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایا تھا اور اس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرا فرزند”باقرالعلوم“ ہوگا،علم کی گتھیوں کو سلجھائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی(اعلام الوری ص ۱۵۷ ،علامہ شیخ مفید) علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن اور تفسیر قرآن و علم السیرت و علوم وفنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدر امام محمد باقر علیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین اور امام حسین علیہم السلام کی اولاد میں سے کسی سے ظاہرنہیں ہوئے ۔ (ملاحظہ ہوکتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷ ۔) علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی فیوض و برکات اور کمالات و احسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہوگئی ہو، جس کا دماغ خراب ہوگیاہو اور جس کی طینت و طبیعت فاسد ہوگئی ہو،کوئی شخص انکارنہیں کرسکتا،اسی وجہ سے آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ”باقرالعلوم“ علم کے پھیلانے والے اورجامع العلوم ہیں، آپ کادل صاف، علم و عمل روشن و تابندہ نفس پاک اورخلقت شریف تھی، آپ کے کل اوقات اطاعت خداوندی میں بسرہوتے تھے۔ عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار راسخ اور گہرے نشانات نمایاں ہوگئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اور عاجز وماندہ ہیں آپ کے ہدایات و کلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کااحصاء اس کتاب میں ناممکن ہے(صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔ علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمدباقرعلامہ زمان اورسردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحر اور وسیع الاطلاق تھے (وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰) علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سردار اور متبحر علمی کی وجہ سے باقر مشہور تھے آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اور آپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیاتھا (تذکرةالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱) ۔ علامہ شبراوی لکھتے ہیں کہ امام محمد باقر (ع) کے علمی تذکرے دنیا میں مشہور ہوئے اور آپ کی مدح و ثناء میں بکثرت شعر لکھے گئے، مالک جہنی نے یہ تین شعر لکھے ہیں: ترجمہ  :  جب لوگ قرآن مجید کا علم حاصل کرنا چاہیں تو پورا قبیلہ قریش اس کے بتانے سے عاجز رہے گا، کیونکہ وہ خود محتاج ہے اور اگر فرزند رسول امام محمد باقر(ع) کے منہ سے کوئی بات نکل جائے تو بے حد و حساب مسائل و تحقیقات کے ذخیرے مہیا کر دیں گے یہ حضرات وہ ستارے ہیں جو ہرقسم کی تاریکیون میں چلنے والوں کے لیے چمکتے ہیں اور ان کے انوار سے لوگ راستے پاتے ہیں (الاتحاف ص ۵۲ ،وتاریخ الائمہ ص ۴۱۳) ۔ علامہ ابن شہرآشوب کابیان ہے کہ صرف ایک راوی محمدبن مسلم نے آپ سے تیس ہزارحدیثیں روایت کی ہیں (مناقب جلد ۵ ص ۱۱) ۔ حضرت امام محمدباقر علیہ السلام اور اسلام میں سکے کی ابتدا مورخ شہیر ذاکرحسین تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۴۲ میں لکھتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے ۷۵ ھ میں امام محمدباقر علیہ السلام کی صلاح سے اسلامی سکہ جاری کیا اس سے پہلے روم و ایران کا سکہ اسلامی ممالک میں بھی جاری تھا۔ اس واقعہ کی تفصیل علامہ دمیری کے حوالہ سے یہ ہے کہ ایک دن علامہ کسائی سے خلیفہ ہارون رشید عباسی نے پوچھا کہ اسلام میں درہم ودینارکے سکے، کب اورکیونکر رائج ہوئے انہوں نے کہا کہ سکوں کا اجراخلیفہ عبدالملک بن مروان نے کیا ہے لیکن اس کی تفصیل سے نا واقف ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ ان کے اجراء اور ایجاد کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی،ہارون الرشیدنے کہا کہ بات یہ ہے کہ زمانہ سابق میں جو کاغذ وغیرہ ممالک اسلامیہ میں مستعمل ہوتے تھے وہ مصر میں تیارہوا کرتے تھے جہاں اس وقت نصرانیوں کی حکومت تھی،اور وہ تمام کے تمام بادشاہ روم کے مذہب برتھے وہاں کے کاغذ پر جو ضرب یعنی (ٹریڈمارک) ہوتا تھا،اس میں بزبان روم(اب،ابن،روح القدس لکھاہواتھا ،فلم یزل ذلک کذالک فی صدرالاسلام کلہ بمعنی علوما کان علیہ ،الخ)۔ اوریہی چیز اسلام میں جتنے دور گذرے تھے سب میں رائج تھی یہاں تک کہ جب عبدالملک بن مروان کازمانہ آیا، تو چونکہ وہ بڑا ذہین اورہوشیار تھا،لہذا اس نے ترجمہ کرا کے گورنر مصر کو لکھاکہ تم رومی ٹریڈمارک کو موقوف و متروک کردو،یعنی کاغذ کپڑے وغیرہ جو اب تیارہوں ان میں یہ نشانات نہ لگنے دو بلکہ ان پر یہ لکھوادو ”شہداللہ انہ لاالہ الاہو“ چنانچہ اس حکم پر عمل درآمد کیاگیا جب اس نئے مارک کے کاغذوں کا جن پر کلمہ توحید ثبت تھا، رواج پایا تو قیصرروم کوبے انتہا ناگوار گزرا اس نے تحفہ تحائف بھیج کر عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت کو لکھاکہ کاغذ وغیرہ پر جو”مارک“ پہلے تھا وہی بدستورجاری کرو، عبدالملک نے ہدایا لینے سے انکار کردیا اور سفیر کو تحائف وہدایا سمیت واپس بھیج دیا اور اس کے خط کاجواب تک نہ دیا قیصرروم نے تحائف کو دوگنا کرکے پھر بھیجااور لکھاکہ تم نے میرے تحائف کو کم سمجھ کر واپس کردیا،اس لیے اب اضافہ کرکے بھیج رہاہوں اسے قبول کرلو اور کاغذ سے نیا”مارک“ ہٹادو، عبدالملک نے پھر ہدایا واپس کردیا اورمثل سابق کوئی جواب نہیں دیااس کے بعدقیصرروم نے تیسری مرتبہ خط لکھااورتحائف وہدایابھیجے اورخط میں لکھاکہ تم نے میرے خطوط کے جوابات نہیں دئیے ،اورنہ میری بات قبول کی اب میں قسم کھا کر کہتاہوں کہ اگرتم نے اب بھی رومی ٹریڈمارک کوازسرنو رواج نہ دیا اور توحیدکے جملے کاغذ سے نہ ہٹائے تو میں تمہارے رسول کو گالیاں،سکہ درہم ودینار پرنقش کراکے تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردوں گا اورتم کچھ نہ کرسکو گے دیکھو اب جو میں نے تم کولکھاہے اسے پڑھ کرارفص جبینک عرقا،اپنی پیشانی کاپسینہ پوچھ ڈالواور جومیں کہتاہوں اس پرعمل کرو تاکہ ہمارے اورتمہارے درمیان جورشتہ محبت قائم ہے بدستورباقی رہے۔ عبدالملک ابن مروان نے جس وقت اس خط کوپڑھا اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ،ہاتھ کے طوطے اڑگئے اورنظروں میں دنیاتاریک ہوگئی اس نے کمال اضطراب میں علماء فضلاء اہل الرائے اورسیاست دانوں کوفورا جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا اورکہاکہ کوئی ایسی بات سوچو کہ سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے یا سراسر اسلام کامیاب ہوجائے، سب نے سرجوڑکر بہت دیرتک غورکیا لیکن کوئی ایسی رائے نہ دے سکے جس پرعمل کیاجاسکتا”فلم یجد عنداحدمنہم رایایعمل بہ“ جب بادشاہ ان کی کسی رائے سے مطمئین نہ ہوسکا تواور زیادہ پریشان ہوا اوردل میں کہنے لگا میرے پالنے والے اب کیا کروں ابھی وہ اسی تردد میں بیٹھا تھاکہ اس کا وزیراعظم”ابن زنباع“ بول اٹھا،بادشاہ تو یقیناجانتاہے کہ اس اہم موقع پراسلام کی مشکل کشائی کون کرسکتاہے ،لیکن عمدا اس کی طرف رخ نہیں کرتا،بادشاہ نے کہا”ویحک من“ خداتجھے سمجھے،توبتاتوسہی وہ کون ہے؟ وزیراعظم نے عرض کی ”علیک بالباقرمن اہل بیت النبی“ میں فرزند رسول امام محمدباقرعلیہ السلام کی طرف اشارہ کررہاہوں اور وہی اس آڑے وقت میں تیرے کام آسکتے ہیں ،عبدالملک بن مروان نے جونہی آپ کانام سنا قال صدقت کہنے لگا خداکی قسم تم نے سچ کہا اورصحیح رہبری کی ہے۔ اس کے بعداسی وقت فورااپنے عامل مدینہ کولکھا کہ اس وقت اسلام پرایک سخت مصیبت آگئی ہے اوراس کادفع ہوناامام محمدباقرکے بغیرناممکن ہے،لہذا جس طرح ہوسکے انھیں راضی کرکے میرے پاس بھیج دو،دیکھواس سلسلہ میں جو مصارف ہوں گے،وہ بذمہ حکومت ہوں گے۔ عبدالملک نے دوخواست طلبی، مدینہ ارسال کرنے کے بعدشاہ روم کے سفیرکو نظر بندکردیا،اورحکم دیاکہ جب تک میں اس مسئلہ کوحل نہ کرسکوں اسے پایہ تخت سے جانے نہ دیاجائے۔ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں عبدالملک بن مروان کاپیغام پہنچااورآپ فوراعازم سفرہوگئے اوراہل مدینہ سے فرمایاکہ چونکہ اسلام کاکام ہے لہذا میں تمام اپنے کاموں پراس سفرکو ترجیح دیتاہوں الغرض آپ وہاں سے روانہ ہوکرعبدالملک کے پاس جاپہنچے، بادشاہ چونکہ سخت پریشان تھا،اس لیے اسے نے آپ کے استقبال کے فورا بعدعرض مدعاکردیا،امام علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا”لایعظم ہذاعلیک فانہ لیس بشئی“ اے بادشاہ سن، مجھے بعلم امامت معلوم ہے کہ خدائے قادر وتوانا قیصرروم کواس فعل قبیح پر قدرت ہی نہ دے گا اور پھرایسی صورت میں جب کہ اس نے تیرے ہاتھوں میں اس سے عہدہ برآہونے کی طاقت دے رکھی ہے بادشاہ نے عرض کی یابن رسول اللہ وہ کونسی طاقت ہے جومجھے نصیب ہے اورجس کے ذریعہ سے میں کامیابی حاصل کرسکتاہوں۔ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ تم اسی وقت حکاک اور کاریگروں کوبلاؤ اوران سے درہم ودینارکے سکے ڈھلواؤ اور ممالک اسلامیہ میں رائج کردو، اس نے پوچھاکہ ان کی کیا شکل وصورت ہوگی اور وہ کس طرح ڈھلیں گے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ سکہ کے ایک طرف کلمہ توحید دوسری طرف پیغمراسلام کانام نامی اور ضرب سکہ کا سن لکھاجائے اس کے بعداس کے اوزان بتائے آپ نے کہاکہ درہم کے تین سکے اس وقت جاری ہیں ایک بغلی جودس مثقال کے دس ہوتے ہیں دوسرے سمری خفاف جوچھ مثقال کے دس ہوتے ہیں تیسرے پانچ مثقال کے دس ،یہ کل ۲۱/ مثقال ہوئے اس کوتین پرتقسیم کرنے پرحاصل تقسیم ۷/ مثقال ہوئے،اسی سات مثقال کے دس درہم بنوا،اوراسی سات مثقال کی قیمت سونے کے دینارتیارکرجس کا خوردہ دس درہم ہو،سکہ کانقش چونکہ فارسی میں ہے اس لیے اسی فارسی میں رہنے دیاجائے ،اوردینارکاسکہ رومی حرفوں میں ہے لہذااسے رومی ہی حرفوں میں کندہ کرایاجائے اورڈھالنے کی مشین (سانچہ) شیشے کابنوایاجائے تاکہ سب ہم وزن تیارہوسکیں۔ عبدالملک نے آپ کے حکم کے مطابق تمام سکے ڈھلوالیے اور سب کام درست کرلیا اس کے بعدحضرت کی خدمت میں حاضرہوکردریافت کیاکہ اب کیاکروں؟ ”امرہ محمدبن علی“ آپ نے حکم دیاکہ ان سکوں کو تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردے، اورساتھ ہی ایک سخت حکم نافذکردے جس میں یہ ہوکہ اسی سکہ کو استعمال کیاجائے اور رومی سکے خلاف قانون قراردیئے گئے اب جوخلاف ورزی کرے گااسے سخت سزادی جائے گی ،اوربوقت ضرورت اسے قتل بھی کیاجاسکے گا۔ عبدالملک بن مروان نے تعمیل ارشادکے بعد سفیرروم کو رہاکرکے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہناکہ ہم نے اپنے سکے ڈھلواکررائج کردیے اورتمہارے سکہ کوغیرقانونی قراردے دیا اب تم سے جوہ وسکے کرلو۔ سفیرروم یہاں سے رہاہ وکرجب اپنے قیصرکے پاس پہنچااوراس سے ساری داستان بتائی تووہ حیران رہ گیا،اورسرڈال کردیرتک خاموش بیٹھاسوچتارہا، لوگوں نے کہابادشاہ تونے جو یہ کہاتھا کہ میں مسلمانوں کے پیغمبرکو سکوں پرگالیاں کنداکرادوں گا اب اس پرعمل کیوں نہیں کرتے اس نے کہاکہ اب گالیاں کندا کرکے کیاکروں گااب توان کے ممالک میں میراسکہ ہی نہیں چل رہااورلین دین ہی نہیں ہورہا(حیواة االحیوان دمیری المتوفی ۹۰۸ ھ جلد ۱ طبع مصر ۱۳۵۶ ھ)۔ آپ کے بعض علمی ہدایات و ارشادات علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جابرجعفی کابیان ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام سے ملاتوآپ نے فرمایا اے جابرمیں دنیا سے بالکل بے فکرہوں کیونکہ جس کے دل میں دین خالص ہو وہ دنیاکوکچھ نہیں سمجھتا،اور تمہیں معلوم ہوناچاہئے کہ دنیاچھوڑی ہوئی سواری اتاراہواکپڑا اور استعمال کی ہوئی عورت ہے مومن دنیاکی بقاسے مطمئن نہیں ہوتا اوراس کی دیکھی ہوئی چیزوں کی وجہ سے نورخدااس سے پوشیدہ نہیں ہوتا مومن کوتقوی اختیارکرناچاہئے کہ وہ ہروقت اسے متنبہ اوربیدارکھتاہے سنودنیاایک سرائے فانی ہے ’’نزلت بہ وارتحلت منہ “ اس میں آناجانالگارہتاہے آج آئے اورکل گئے اوردنیاایک خواب ہے جوکمال کے ماننددیکھی جاتی ہے اورجب جاگ اٹھے توکچھ نہیں … آپ نے فرمایا تکبربہت بری چیزہے ،یہ جس قدرانسان میں پیداہوگا اسی قدراس کی عقل گھٹے گی ،کمینے شخص کاحربہ گالیاں بکناہے ۔ ایک عالم کی موت کوابلیس نوے عابدوں کے مرنے سے بہتر سمجھتا ہے ایک ہزار عابد سے وہ ایک عالم بہتر ہے جو اپنے علم سے فائدہ پہنچارہاہو۔ میرے ماننے والے وہ ہیں جواللہ کی اطاعت کریں آنسوؤں کی بڑی قیمت ہے رونے والا بخشاجاتاہے اورجس رخسارپر آنسوجاری ہوں وہ ذلیل نہیں ہوتا۔ سستی اور زیادہ تیزی برائیوں کی کنجی ہے ۔ خداکے نزدیک بہترین عبادت پاک دامنی ہے انسان کو چاہئے کہ اپنے پیٹ اور اپنی شرمگاہوں کومحفوظ رکھیں۔ دعاسے قضابھی ٹل جاتی ہے ۔ نیکی بہترین خیرات ہے بدترین عیب یہ ہے کہ انسان کواپنی آنکھ کی شہتیر دکھائی نہ دے،اور دوسرے کی آنکھ کا تنکانظرآئے ،یعنی اپنے بڑے گناہ کی پرواہ نہ ہو، اوردوسروں کے چھوٹے عیب اسے بڑے نظر آئیں اور خودعمل نہ کرے، صرف دوسروں کوتعلیم دے۔ جو خوشحالی میں ساتھ دے اورتنگ دستی میں دور رہے ،وہ تمہارابھائی اور دوست نہیں ہے (مطالب السؤل ص ۲۷۲) ۔ علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ جب کوئی نعمت ملے تو کہو الحمدللہ اورجب کوئی تکلیف پہنچے توکہو”لاحول ولاقوة الاباللہ“ اورجب روزی تنگ ہوتو کہو استغفراللہ ۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے،جتنی محبت تمہارے دل میں ہوگی ،اتنی ہی تمہارے بھائی اور دوست کے دل میں بھی ہوگی ۔ تین چیزیں خدا نے تین چیزوں میں پوشیدہ رکھی ہیں : ۱ ۔ اپنی رضااپنی اطاعت میں ،کسی فرمانبرداری کوحقیرنہ سمجھو شایداسی میں خداکی رضاہو۔ ۲ ۔ اپنی ناراضی اپنی معصیت میں، کسی گناہ کومعمولی نہ جانو توشایدخدا اسی سے ناراض ہوجائے۔ ۳ ۔  اپنی دوستی یااپنے ولی، مخلوقات میں کسی شخص کو حقیرنہ سمجھو، شایدوہی ولی اللہ ہو (نورالابصار ص ۱۳۱ ،اتحاف ص ۹۳) ۔ احادیث آئمہ میں ہے امام محمدباقرعلیہ السلام فرماتے ہیں انسان کوجتنی عقل دی گئی ہے اسی کے مطابق اس سے قیامت میں حساب وکتاب ہوگا۔ ایک نفع پہنچانے والاعالم سترہزارعابدوں سے بہترہے ،عالم کی صحبت میں تھوڑی دیربیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہترہے خدا ان علماء پر رحم و کرم فرمائے جواحیاء علم کرتے اور تقوی کو فروغ دیتے ہیں ۔ علم کی زکواة یہ ہے کہ مخلوق خداکو تعلیم دی جائے ۔ قرآن مجید کے بارے میں تم جتناجانتے ہو اتناہی بیان کرو۔ بندوں پرخداکا حق یہ ہے کہ جوجانتاہو اسے بتائے اورجو نہ جانتاہواس کے جواب میں خاموش ہوجائے ۔ علم حاصل کرنے کے بعداسے پھیلاو،اس لیے کہ علم کوبند رکھنے سے شیطان کاغلبہ ہوتاہے ۔ معلم اورمتعلم کا ثواب برابرہے ۔  جس کی تعلیم کی غرض یہ ہوکہ وہ … علماء سے بحث کرے ،جہلا پررعب جمائے اورلوگوں کواپنی طرف مائل کرے وہ جہنمی ہے ،دینی راستہ دکھلانے والا اورراستہ پانے والا دونوں ثواب کی میزان کے لحاظ سے برابرہیں۔ جودینی راستہ دکھلانے والا اور راستہ پانے والا دونوں ثواب کی میزان کے لحاظ سے برابرہیں ۔جودینیات میں غلط کہتاہو اسے صحیح بنادو، ذات الہی وہ ہے، جوعقل انسانی میں نہ سماسکے اورحدودمیں محدودنہ ہوسکے ۔ اس کی ذات فہم و ادراک سے بالاتر ہے خداہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، خداکی ذات کے بارے میں بحث نہ کرو،ورنہ حیران ہو جاؤگے ۔ اجل کی دو قسمیں ہیں ایک اجل محتوم،دوسرے اجل موقوف، دوسری سے خداکے سواکوئی واقف نہیں، زمین حجت خداکے سواکوئی واقف نہیں ،زمین حجت خداکے بغیرباقی نہیں رہ سکتی۔ امت بے امام کی مثال بھیڑ کے اس گلے کی ہے،جس کا کوئی بھی نگران نہ ہو۔ امام محمدباقرعلیہ السلام سے روح کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں پوچھاگیا توفرمایاکہ روح ہواکی مانندمتحرک ہے اوریہ ریح سے مشتق ہے ، ہم جنس ہونے کی وجہ سے اسے روح کہاجاتاہے یہ روح جو جانداروں کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ،وہ تمام ریحوں سے پاکیزہ ترہے۔ …روح مخلوق اورمصنوع ہے اورحادث اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی ہے۔ …وہ ایسی لطیف شئے ہے جس میں نہ کسی قسم کی گرانی اورسنگینی ہے نہ سبکی، وہ ایک باریک اوررقیق شئے ہے جوقالب کثیف میں پوشیدہ ہے،اس کی مثال اس مشک جیسی ہے جس میں ہوا بھردو،ہوا بھرنے سے وہ پھول جائے گی لیکن اس کے وزن میں اضافہ نہ ہوگا۔۔ روح باقی ہے اور بدن سے نکلنے کے بعد فنا نہیں ہوتی، یہ نفخ صور کے وقت ہی فناہوگی۔ آپ سے خداوندعالم کے صفات کے بارے میں پوچھاگیا توآپ نے فرمایا،کہ وہ سمیع و بصیر ہے اور آلہ سمع و بصرکے بغیرسنتا اور دیکھتاہے،رئیس معتزلہ عمربن عبیدنے آپ سے دریافت کیاکہ”من یحال علیہ غضبی“ ابوخالد کابلی نے آپ سے پوچھاکہ قول خدا”فامنواباللہ ورسولہ والنورالذی انزلنا“ میں،نورسے کیامرادہے؟آپ نے فرمایا”واللہ النورالائمة من آل محمد“ خداکی قسم نورسے ہم آل محمدمرادہیں۔ آپ سے دریافت کیاگیاکہ یوم ندعواکل اناس بامامہم سے کون لوگ مرادہیں آپ نے فرمایاوہ رسول اللہ ہیں اوران کے بعدان کی اولادسے آئمہ ہوں گے، انہیں کی طرف آیت میں اشارہ فرمایاگیاہے جوانہیں دوست رکھے گااوران کی تصدیق کرے گاوہی نجات پائے گااورجو ان کی مخالفت کرے گاجہنم میں جائے گا، ایک مرتبہ طاؤس یمانی نے حضرت کی خدمت میں حاضرہوکریہ سوال کیاکہ وہ کونسی چیزہے جس کاتھوڑااستعمال حلال تھا اورزیادہ استعمال حرام،آپ نے فرمایاکہ وہ نہرطالوت کاپانی تھاجس کاصرف ایک چلو پیناحلال تھا اوراس سے زیادہ حرام پوچھا وہ کون ساروزہ تھاجس میں کھاناپیناجائزتھا،فرمایا وہ جناب مریم کا روزہ صمت تھا جس میں صرف نہ بولنے کاروزہ تھا ،کھاناپیناحلال تھا، پوچھا وہ کون سی شئے ہے جوصرف کرنے سے کم ہوتی ہے بڑھتی نہیں، فرمایاکہ وہ عمرہے ۔ پوچھاوہ کون سی شئے ہے جوبڑھتی ہے گھٹتی نہیں ،فرمایاوہ سمندرکاپانی ہے ،پوچھاوہ کونسی چیزہے جوصرف ایک باراڑی پھرنہ اڑی،فرمایاوہ کوہ طورہے جوایک بارحکم خداسے اڑکربنی اسرائیل کے سروں پرآگیاتھا۔ پوچھاوہ کون لوگ ہیں جن کی سچی گواہی خدانے جھوٹی قراردی،فرمایاوہ منافقوں کی تصدیق رسالت ہے جودل سے نہ تھی۔ پوچھابنی آدم کا ۱/۳ حصہ کب ہلاک ہوا،فرمایاایساکبھی نہیں ہوا،تم یہ پوچھوکہ انسان کا ۱/۴ حصہ کب ہلاک ہواتومیں بتاؤں کہ یہ اس وقت ہواجب قابیل نے ہابیل کوقتل کیا،کیونکہ اس وقت چارآدمی تھے آدم،حوا،ہابیل اورقابیل ،پوچھاپھرنسل انسانی کس طرح بڑھی فرمایاجناب شیث سے جوقتل ہابیل کے بعدبطن حواسے پیداہوئے۔ امام محمدباقرعلیہ السلام کی شہادت آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض وبرکات کی وجہ سے اسلام کوبرابرفروغ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود ہشام بن عبدالملک نے آپ کو زہرکے ذریعہ شہیدکرا دیا اورآپ بتاریخ ۷/ ذی الحجہ ۱۱۴ ھ یوم دوشنبہ مدینہ منورہ میں انتقال فرما گئے اس وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی آپ جنت البقیع میں دفن ہوئے (کشف الغمہ ص ۹۳ ،جلاء العیون ص ۲۶۴ ،جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ ص ۴۴۹ ،انوارالحسینہ ص ۴۸ ، شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، روضة الشہداء ص ۴۳۴) ۔ علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی فرماتے ہیں ”مات مسموماکابیہ“ آپ اپنے پدربزرگوار امام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہر سے شہیدکردیئے گئے (نورالابصار ص ۳۱ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔ آپ کی شہادت ہشام کے حکم سے ابراہیم بن ولید والی مدینہ کی زہر خورانی کے ذریعہ واقع ہوئی ہے ایک روایت میں ہے کہ خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کی مرسلہ زہرآلود زین کے ذریعہ سے واقع ہوئی تھی (جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۸) ۔ شہادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے بہت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی اور کہا کہ بیٹا میرے کانوں میں میرے والد ماجد کی آوازیں آرہی ہیں وہ مجھے جلدبلا رہے ہیں (نورالابصار ص ۱۳۱) ۔ آپ نے غسل و کفن کے متعلق خاص طور سے ہدایت کی کیونکہ امام راجز امام نشوید امام کوامام ہی غسل دے سکتا ہے (شواہدالنبوت ص ۱۸۱) ۔ علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی فرمایا کہ ۸۰۰/ درہم میری عزاداری اور میرے ماتم پرصرف کرنا اور ایسا انتظام کرناکہ دس سال تک منیٰ میں بزمانہ حج میری مظلمومیت کا ماتم کیاجائے (جلاء العیون ص ۲۶۴) ۔ علماء کابیان ہے کہ وصیتوں میں یہ بھی تھا کہ میرے بندہائے کفن قبر میں کھول دینا اورمیری قبر چارانگل سے زیادہ اونچی نہ کرنا(جنات الخلود ص ۲۷) ۔