حضرت معصومہ (س) کی مختصرسوانح حیات

آپ کا اسم مبارک فاطمہ اور مشہور لقب معصومہ ہے۔آپ کے والد بزرگوار شیعوں کے ساتویں امام حضرت موسی بن جعفر (ع) ہیں آپ کی مادر گرامی حضرت نجمہ خاتون ہیں اور یہی صاحب عظمت خاتون آٹھویں امام کی بھی والدہ محترمہ ہیں ۔ نتیجه میں حضرت معصومہ (س) اور امام رضا (ع) ایک ماں سے ہیں۔ آپ کی ولادت با سعادت اول ذیقعدہ سال ۱۲۳ھجری قمری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ بچپنے میں ہی آپ اپنے شفیق باپ کی شفقت سے محروم ہوگئیں ۔آپ کے والد کی شہادت، ہارون کے قید خانہٴ بغداد میں ہوئی ۔باپ کی شہادت کے بعد آپ اپنے عزیز بھائی حضرت علی بن موسی الرضا (ع) کی آغوش تربیت میں آگئیں ۔ ۲۰۰ ہجری میں مامون عباسی کے بے حداصراراوردھمکیوں کی وجہ سے امام (ع) سفر کرنے پرمجبور ہوئے امام (ع) نے خراسان کے اس سفرمیں اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ہمراہ نہ لیا ۔امام کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے آپ (س) نے بھی وطن کوالوداع کہااوراپنے کچھ بھائیوں اوربھتیجوں کے همراھ خراسان کی جانب روانہ ہوئیں۔ہرشہراورہرمحلے میں آپ کاوالہانہ استقبال ہورہاتھا،یہی وہ وقت تھا کہ جب آپ اپنی پھوپھی حضرت زینب (س) کی سیرت پرعمل کرکے مظلومیت کے پیغام اوراپنے بھائی کی غربت کومومنین اورمسلمانوں تک پہنچارہی تھیں اوراپنی واہلبیت کی مخالفت کااظہاربنی عباس کی فریبی حکومت سے کررہی تھیں ،یہی وجہ تھی کہ جب آپ کا قافلہ شہرساوہ پہنچاتو کچھ دشمنان اہلبیت (ع) جن کے سروں پرحکومت کاہاتھ تھاراستے میں حائل ہوگئے اورحضرت معصومہ (س) کے کاروان سے ان بد کرداروں نے جنگ شروع کردی ۔نتیجتاً کاروان کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔یہاں تک کہ ایک روایت کے مطابق حضرت معصومہ (س) کو بھی زہردیا گیا ۔ بہر کیف حضرت معصومہ (س) اس عظیم غم کے اثر سے یا زہرجفا کی وجہ سے بیمارہوگئیں اب حالت یہ تھی کہ خراسان کے سفرکوجاری وساری رکھناناممکن ہوگیالہٰذا شہرساوہ سے شہرقم کا قصد کیااورآپ نے پوچھا اس شہر (ساوہ)سے شہرقم کتنا فاصلہ ہے ۔اس دوری کو لوگوں نے آپ کو بتایا تو اس وقت آپ نے فرمایا :مجھے قم لے چلو اس لئے کہ میں نے اپنے والد محترم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا :شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔ اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوتے ہی بزرگان قم کے درمیان ایک خوشی کی لہر سی دوڑ گئی اوروہ سب کے سب آپ کے استقبال میں دوڑپڑے۔موسی بن خزرج جو کہ اشعری خاندان کے بزرگ تھے انھوں نے آپ کی مہار ناقہ کو آگے بڑھ کر تھام لیا ۔اور بہت سے لوگ جو سوارہ اور پیادہ تھے پروانوں کی طرح اس کاروان کے ارد گرد چلنے لگے ۔۲۳ربیع الاول سال ۲۰۱ ہجری وہ عظیم الشان تاریخ تھی جب آپ کے مقدس قدم قم کی سرزمین پر آئے ۔پھر اس محلّے میں جسے آج کل میدان میر کے نام سے یاد کیاجاتاہے حضرت کی سواری موسی بن خزرج کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی نتیجتاً آپ کی میزبانی کاعظیم شرف موسی بن خزرج کو ملا۔اس عظیم ہستی نے صرف سترہ(۱۷)دن اس شہرمیں زندگی گزاری اور ان ایام میں آپ اپنے خدا سے رازونیاز کی باتیں کرتیں اوراس کی عبادت میں مشغول رہیں ۔معصومہ (س) کی جائے عبادت اورقیامگاہ مدرسہ ستیہ جو آج کل ”بیت النور “کے نام سے مشہور ہے حضرت (س) کے عقیدتمندوں کی زیارتگاہ بنی ہوئی ہے ۔ آخرکارروزدہم ربیع الثانی اورایک قول کے مطابق(دوازدہم ربیع الثانی) ۲۰۱ ھ قبل اس کے آپ کی چشم مبارک برادرعزیز کے چہرہ منور کی زیارت کرتی ،غریب الوطنی میں بہت زیادہ غم اندوہ دیکھنے کے بعد بند ہوگئیں۔ قم کی سر زمین آپ کے غم میں ماتم کدہ بن گئی ۔قم کے لوگوں نے کافی عزت واحترام کے ساتھ آپ کی تشییع جنازہ باغ بابلان جو کہ اس وقت شہر سے باہر تھاوہاں آپ کی قبراطہر آمادہ کی گئی ۔اب جو سب سے بڑی مشکل اہل قم کے لئے تھی وہ یہ کہ ایسا کون باکمال شخص ہوسکتاہے جوآپ کے جسم اطہر کو سپرد لحد کرے ابھی اہل قم اس مشکل کاحل سوچ ہی رہے تھے کہ ناگاہ دوسوار جو نقاب پوش تھے قبلہ کی جانب سے نظر آنے لگے اوربہت بڑی عجلت کے ساتھ وہ مجمع کے قریب آئے نماز پڑھنے کے بعد ان میں سے ایک بزرگوار قبر میں اترے اوردوسرے بزرگوار نے جسم اطہر کواٹھایا اوراس قبر میں اترے ہوئے بزرگوار کے حوالے کیاتا کہ اس نورانی پیکرکوسپرد خاک کریں۔ یہ دو شخصیتیں جو ابھی کچھ دیر پہلے آئیں تھیں انھوں نے تمام مراسم بنحوِ احسن انجام دے کراورکسی سے کچھ کہے بغیر واپس روانہ ہوگئیں۔ ان دو شخصیتیں متعلق کها جاتا ھے کہ یه حجت پروردگار یعنی امام رضا (ع) اور حضرت امام جواد (ع) تھیں ۔حضرت معصومہ (س) کے جسم اطہر کی تدفین کے بعد موسی بن خزرج نے ایک حصیری سائبان آپ کی قبر اطہر پر ڈال دیا۔اس کے بعد حضرت زینب جو امام جواد (ع) کی اولاد میں سے تھیں انھوں نے ۲۵۶ھ میں پہلا گنبد اپنی عظیم پھوپھی کی قبر اطہر کے لئے تعمیر کروایا ۔ اسی علامت کی وجہ سے اس عظیم خاتون کی تربت پاک محبان اہلبیت (ع) کے لئے قبلہ ہوگئی جہاں نماز مودت ادا کرنے کے لئے محبان اہلبیت (ع) جوق درجوق آنے لگے ۔ عاشقان ولایت وامامت کے لئے یہ بارگاہ دار الشفاء ہوگئی جس میں مضطرب دلوں کو سکون ملنے لگا ۔ مشکل کشاء کی بیٹی ،لوگوں کی بڑی بڑی مشکلوں کی مشکل کشائی کرتی رہیں اور ناامیدوں کے لئے مرکز امیدبن گئیں ۔هم اس کریمه اهل بیت حضرت فاطمه معصومه (س) کی ولادت با سعادت کے موقع پر تمام مومنین کوهدیه تبریک وتهنیت پیش کرتےہیں ۔ منبع:jafariah.com