ديني معاشرہ قرآن و سنت کي نظر ميں
ديني معاشرہ قرآن و سنت کي نظر ميں
0 Vote
192 View
ديني معاشرہ کيسا ہونا چاہے اس مضمون ميں قرآن و سنت کي روشني ميں اس امرکا جائزہ ليا گيآ ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحيم. بے شک انسان پاک الھي فطرت)روم31) اور اجتماعي زندگي کا حامل ہے اور قرآن مجيد کي تعبير ميں امت واحد ہے کان الناس امۃ واحدۃ (بقرہ 213)انسان امت واحد ہيں ۔اس آيت کي تفيسر ميں علامہ طباطبائي فرماتے ہيں کہ کان الناس امۃ واحدۃ کے معني يہ ہيں کہ انسان سماجي زندگي گذارتاہے وہ اس طرح کہ کوئي بھي شيئي انسان کو سماجي زندگي گذارنے سے بے نياز نہيں کرسکتي ۔ انساني فطرت پر بہت سے عوامل اثر اندازہوتے ہيں ۔دوسري طرف سے مختلف عوامل انسانوں ميں امتياز کا سبب بنتے ہيں ۔قرآن کريم نے انساني نسل کي يگانگت اور فطرت کے ايک ہونے پرتاکيد کرنے کے ساتھ ساتھ اختلافات کي طرف بھي اشارہ کيا ہے جيسے نسل ورنگ زبان و استعداد اور صلاحيت وغيرہ ،يہ تمام امور خداوند حکيم کے ارادے کي بناپر وجود ميں آے ہيں اور انسانوں ميں فطري اختلاف يا تمايز کا سبب ہيں اسي وجہ سے کہا جاتا ہےکہ يہ امور انسان کے لئے برتري کا سبب ہرگز نہيں ہيں۔ارشاد ہورہاہے “يااايھاالناس انا خلقنا کم من ذکروانثي وجعلنا کم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ۔(حجرات 13) “اے لوگو ہم نے تمہيں نراور مادےسے پيدا کيا اور تمہں قوموں اور قبيلوں ميں بانٹ ديا تاکہ پہچانے جاو اور بے شک تم ميں سے خدا کے نزديک سب سے باعزت وہ ہے جس کا تقوي زيادہ ہے”۔ ايک اور آيت ميں ارشاد ہورہا ہے کہ “ومن آياتہ خلق السماوات والارض واختلاف السنتکم و الوانکم “۔(روم 22) “خدا کي نشانيوں ميں آسمان و زمين کي خلقت اور تمہاري گوناگون زبانيں اور رنگ ہيں “۔ ايک دوسري آيت ميں ارشاد ہورہاہے “وقد خلقکم اطوارا۔تمہيں مختلف انداز ميں پيدا کيا (نوح 14) اھم يقسمون رحمت ربک ۔کيا وہ خداکي رحمت کوبانٹتےہيں (زخرف 32) ان آيات سے پتہ چلتاہےکہ خدانے بني نوع انسان کي ذات ميں کچھ ايسي چيزيں رکھي ہيں جن سے ايک طرح کا امتيازپيدا ہوتاہے ليکن قرآن نے ان اختلافات کو برتري کا سبب قرارنہيں ديا ہے بلکہ صرف تقوي اور پرھيزگاري کوہي اپنے نزديک برتري کا سبب بتايا ہے۔ قرآن کريم نے غير فطري اختلاف کي مذمت کي ہے ۔ان اختلافات کا سرچشمہ خودغرضي اور شقاوت(بقرہ176) ،ظلم وطغيان(بقرہ23،آل عمران19،جاثيہ 17،)،بے بنياد شک (نساء197)اورحق کے واضح ہونے کےبعد ان کا انکار کرنا جيسے امور قرارديا ہے۔(يونس 93) قرآن مجيدنے ان ہي امور کي وجہ سے توريت اور انجيل کي حامل امتوں کي مذمت کي ہے کيونکہ وہ مذموم اختلافات کواھميت ديتي تھيں ۔ خداوندمتعال نے انبياءورسل کو توحيد فطري کي طرف دعودينے(انبياء73،ابراھيم11،1،مائدہ 1،اوراحزاب 46،)قيام عدل وانصاف ،نفاذحدود الھي ،اور انسان کو غلط آداب ورسوم اور خرافات ،جھل و ناداني اور غلط قوانين اور طاغوتي قوتوں کے ظلم واستبداد سے نجات دلانے نيز طبقاتي نظام سے رھاکرانے کي ذمہ داري سونپي تھي(نحل64،بقرہ213،حديد 25،نساء13،14،اعراف 157) دوسرےالفاظ ميں يہ کہا جاسکتا ہےکہ پروردگار عالم نے اپنے انبياء ورسل کو “اسلامي امت “کے وجود ميں لانے کي ذمہ داري سونپي تھي ۔ قرآن مجيد بزرگ پرچم دار توحيد حضرت ابراھيم عليہ السلام کي زباني کہتا ہے کہ “ربنا واجعلنا مسلمين لک ومن ذريتنا امۃ مسلمۃ لک (بقرہ 128)پروردگارا ہم دونوں کو اپنا مسلمان اور فرمانبردار قراردے اور ہماري اولاد ميں بھي ايک فرمانبردار امت پيداکر۔ بنابريں رسول اللہ صلي اللہ عليہ والہ وسلم جوکہ خاتم الانبياء ہيں ان کي بعثت کا مقصد بھي عدل وانصاف کاقيام امت واحد کي تشکيل جوکہ عالمگير ،اعتدال پسند ،مثالي اور سب پر شاھد ہوہے ۔بالفاظ ديگر آپ کي رسالت کاھدف آغاز خلقت سے اب تک بہترين امت وجود ميں لانا ہے ۔(انبياء92،مومنوں 52،سباء28،بقرہ 143،آل عمران 110) اس ارادہ الھي کے متحقق ہونے اور اس رسالت کو انجام دينے کے لئے ايمان کامل ،خداداد شرح صدر ،فولادي ارادے،اور رحمت خاص ميں شموليت ،بے پناہ جدوجھد ۔صبر جميل ،بے مثال استقامت جوکہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے شايان شان ہودرکار ہے،اور يہ سارے صفات خدانے اپنے آخري نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کوعطاکرکےانہيں قيامت تک کے لئےنمونہ عمل اور شاھد وشہيد بنايا ہےخداے رحمان و رحيم نے نہ صرف يہ کہ خدا اور روزآخرت سے پراميد لوگوں کے لئے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو اسوۃ حسنہ اور نمونہ عمل قرارديا بلکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي پيروي کو حيات آفرين اور آپ پر ايمان اور آپکي نصرت کو سعادت کا سبب بنايا ،اسي طرح آپ کے احکام سے سرپيچي کرنے اور آپ کي سيرت وسنت کو نظر اندازکرنے کو جھنم ميں داخل ہونے کا سبب قرارديا۔(قصص5،بقرہ 285،شرح 1،احقاف 35،انبياء107،مزمل 7،معارج5،ھود112،بقرہ 143،احزاب 23،انفال 24،اعراف 157،جن 23،احزاب 66)۔ لھذا جس کا عمل رسول اللہ الاعظم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق نہ ہواسے خود کو شيعہ يا سني کہنے کا کوئي حق نہيں ہے ۔ خدانے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي اطاعت کواپني اطاعت قرارديکر يہ کھ ديا ہے، نہ صرف يہ کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سيرت و سنت کي پيروي خداے وحدہ لاشريک کي اطاعت ،حضرت حق کي محبت اور اس سے قربت کا وسيلہ اوراس کي کريمانہ مغفرت کے حصول کا سبب ہے بلکہ صرف اور صرف آنخصرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي اطاعت وفرمانبرداري ہي صراط مستقيم پرگامزن ہونے، ھدايت يافتہ اور نعمت الھي سے سرشار لوگوں کے قافلے ميں شامل ہونے کي ضامن ہے ۔(نساء59،نساء 80،آل عمران 31،نساء 69) اسي وجہ سے اس آيۃ کريمہ “وماآتاکم الرسول فخذوہ و مانھاکم عنہ فانتھوا واتقوااللہ ان اللہ شديد العقاب (حشر7) اور جوکچھ بھي رسول تمہيں ديدے اسے لےلو اور جس چيز سے منع کردے اس سے رک جاؤاور اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے ۔اس آيت کي روسے سب سے پہلے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پرنازل ہونے والي کتاب يعني قرآن مجيد کے حوالے سے بے توجہي اور بے عملي کا خاتمہ کرکے اس پرعمل پيرا ہونا چاہيے ورنہ احاديث کےمطابق خود قرآن بارگاہ احديت ميں شکايت کرے گا ۔ دوسرےيہ کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پرسبقت لےجانے اوران کي آواز سےاپني آوازاونچي کرنے ،دوسروں کي سيرت وسنت کوآپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سيرت وسنت پرترجيح دينے يا آپ کي سنت کو ترک کرنے سے ہرحالت ميں پرہيز کرنا لازمي اورواجب ہے ورنہ ہم سعادت سے محروم اور عذاب اليم کے مستحق ہوجاييں گے ۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سيرت طيبہ چونکہ توحيد پرمبني اورتربيت خاص الھي کا نتيجہ ہے لھذا اس کا کوئي ثاني نہيں ہوسکتا اسي وجہ سے ائمہ اھل بيت عليھم السلام نے آپ کي سيرت پرہي عمل کيا اور ذرہ برابراس سے نہيں ہٹے اور ہميں بھي اسي پرعمل کرنےکي تلقين کي ہے (ديکھيں نہج البلاغہ خطبہ 110)نواسہ رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم حضرت امام حسين عليہ نے بھي اپنے انقلاب کا آغاز اس جملے سے کيا کہ آپ مدينے سے روانہ ہوتے وقت فرماتے ہيں “اسير بسيرۃ جدي وابي “ميں آپنے نانا اور باباکي سيرت پرعمل کرونگا ۔(فرقان 30،حجرات 1،2،) ايک اھم بات يہ ہےکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سيرت طيبہ کي جوصراط مستقيم کي تجلي ہے صحيح شناخت کوئي آسان کام نہيں ہے کيونکہ اصحاب و عقيدتمندوں نےبہت سي باتيں اس ميں ملادي ہيں اور فتوحات اسلاميہ کے تحت قلمرواسلام ميں شامل ہونے والي قوموں کي رسوم بھي سيرت نبوي ميں خلط ملط کردي گئي ہيں لھذاحقيقي سيرت النبي کو خلط شدہ امور سے منزہ کرنے کےلئےجہاں صاف ذہن اورتبحر علمي کي ضرورت ہےوہيں تعصب اور فرقہ وارانہ ذھنيت سے مبراہونے کي بھي ضرورت ہے۔ زير نظر مضمون ميں ديني معاشرےکي تشکيل ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سيرت وسنت پراختصار سے روشني ڈالي گئي ہے اور يہ بيان کرنے کي سعي کي گئي ہےکہ آپ نے ديني معاشرے کو وجود ميں لانے کےلئے کيا حکمت علي اپنائي تھي جس کا حکم خدانے آپ کو دياتھا۔رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي يہ حکمت عملي آج بھي ہمارے لئے نمونہ عمل ہے اور اس پرعمل کرکے مسلمان امت واحدہ اور مثالي امت بن سکتےہيں کيونکہ يہ ذمہ داري آج ہم سب پرعائد ہوتي ہے اور ہم کسي بھي طرح اس سے خود کونہيں بچاسکتے اورنہ ہماراکوئي عذر ہي قابل قبول ہے ۔اگر خدا چاہتاتو خود بغير کسي رکاوٹ کےعالمگيراسلامي امت کو وجود بخش سکتاتھاليکن اس نے يہ ذمہ داري مسلمانوں کي فرد فرد کوسونپي ہے تاکہ معلوم ہوجاے کہ کون نيک ہے اور کس نے اپنا فريضہ انجام ديا ہے ۔ارشاد رب العزت ہے “ولوشاءلجعلکم امۃ واحدہ ولکن ليبلوکم في مااتاکم فاستبقوا الخيرات الي اللہ مرجعکم جميعافينبئکم بماکنتم فيہ تختلفون”(مائد48) “اور خدا چاہتاتو سب کو ايک ہي امت بناديتا ليکن وہ اپنے دئيے ہوے قانون سے تمہاري آزمائش کرناچاہتاہے لھذا تم سب نيکيوں کي طرف سبقت لے جاو کہ تم سب کي بازگشت اللہ ہي کي طرف ہے وہاں وہ تمہيں ان باتوں سے باخبر کرے گا جن ميں اختلاف کررہےتھے “(مائدہ 48) دين کي اساسي اجتماعي تعليمات قرآني آيات و روايات سے ديني معاشرہ قائم کرنے کے بارےميں دين کي تعليمات اور اصولوں کا استنباط کيا جاسکتاہے ۔کچھ اصول حسب ذيل ہيں ۔ 1۔فردي اور اجتماعي زندگي ميں عدل وانصاف کا قيام (سورہ مائدہ 5) 2۔اتحاد و محبت ومھرباني سے اختلافات حل کرنا (انفال 16) 3۔کارخير ميں تعاون اورگناہ وتعدي ميں عدم تعاون (مائدہ 2) 4۔احسان و خيرات ،انفاق و غربت سے مقابلہ ،معاملات مين صداقت و نيکي ۔ 5۔اجتماعي نگراني يعني امر بالمعروف و نہي ازمنکر (اعراف 199) 6۔ہرطرح کي اخلاقي ،مالي ،انتظامي ،اور سياسي بدعنوانيوں سے پرھيز ۔ 7۔انتظامي امور کي تنظيم آئيے ان اصولوں پراختصار سے نظر ڈالتےہيں ۔ عدل و انصاف خدانے عدل وانصاف کا حکم دياہے(نحل90) اورانبياء کي بعثت کا بنيادي ھدف بھي يہي ہے ۔سورہ حديد ميں ارشاد ہوتا ہے”ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دليلوں اور کتاب و ميزان کے ساتھ بھيجا تاکہ لوگ انصاف قائم کرسکيں ۔ اسي اساس پر خداکے آخري رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کوبھي يہ ذمہ داري سونپي گئي کہ آپ عدل و انصاف قائم کرين سورہ شوري ميں رسول اللہ کي زباني ارشاد ہوتا ہےکہ “مجھے بھيجاگيا ہےتاکہ ميں تمہارے ساتھ انصاف سے پيش آوں “۔ آپ کو يہ بھي ذمہ داري سونپي گئي تھي کہ امت اسلامي کو عدل و انصاف پرعمل کرنے کي دعوت ديں سورہ مائدہ ميں ارشاد ہوتاہے کہ “عدل وانصاف اختيارکرو کيونکہ يہ تقوي سے نزديک ہے “(مائدہ 8) درحقيقت قرآن کريم کي نگاہ ميں مومن اور ايماني معاشرے کي پہچان ہي عدل و انصاف ہے نہ ظلم برداشت کرتاہے اورنہ ظلم کرتا ہے ۔قرآن کا کہنا ہے”لاتظلمون ولاتظلمون “(بقرہ 279) قرآن کريم ايسے معاشرےکا خواہاں ہے جس ميں ہرشخص عدل وانصاف پرعمل کرنا پنافريضہ سمجھتاہوگرچہ يہ بيوي بچوں اور قريبي رشتہ داروں کے نقصان ميں ہي کيوں نہ ہو۔سورہ نساءميں ارشادہوتاہے “اے ايمان والو عدل وانصاف پرعمل کرو اوراللہ کے لئۓگواہ بنو چاہے اپني ذات يا اپنے والدين اوراقرباءکے خلاف ہي کيوں نہ ہوخواہ وہ غني ہوں يا فقير ہوں ،اللہ دونوں کےلئے تم سے اولي ہے ۔ان آيات قرآني سےمعلوم ہوتا ہےکہ عدل و انصاف صرف مومنين سے مخصوص نہيں ہے بلکہ اس کا دائرہ اس قدر وسيع اور ھمہ گير ہےکہ دشمنوں کو بھي شامل ہے قرآن کہتا ہےکہ دشمنوں کےساتھ بھي عدل وانصاف سے پيش آؤ۔ سورہ مائدہ کي آٹھويں آيت ميں ارشادہورہاہےکہ”ياايھاالذين آمنوا کونوا قوامين للہ شھداءبالقسط ولايجرمنکم شنآن قوم علي الاتعدلوا اعدلوا ھواقرب للتقوي واتقوااللہ ان اللہ خبيربماتعملون(مائدہ8) اے ايمان والو خداکے لۓ قيام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہي دينے والے بنواور خبردار کسي قوم کي عداوت تمہں اس بات پرآمادہ نہ کردے کہ انصاف کوترک کردو انصاف کرو کہ يہي تقوي سے قريب ترہے اوراللہ سے ڈرتےرہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ۔ تفسير نمونہ ميں اس آيت کي تفسير کے ذيل ميں آيا ہے”اس آيت ميں نفاذعدل وانصاف کے بارے ميں ايک بنيادي اور کلي قانوں بيان کياجارہاہے يہاں يہ تاکيد کي جارہي ہے کہ عدل وانصاف بغير کسي امتياز کے تمام لوگوں کے لئے ہونا چاہيے اس آيت ميں تمام اھل ايمان کوعدل وانصاف پرعمل کرنے کا حکم دياجارہاہے ۔حکم يہ ہےکہ بہرحال ہرکام اور ہرعصر وزمانے ميں عدل وانصاف پرعمل ہونا چاہئے تاکہ عدل و انصاف پرعمل درآمد کرنا ہماري سرشت ميں شامل ہوجاے اور يہ ہماري عادت بن جاے اور اس سےانحراف ہماري طبيعت اور ضمير کے لئےناپسنديدہ بن جاے ۔ عدالت کے معني پرشيئ اور شخص کو اس کے مقام پررکھنا ہے (نہج البلاغہ حکمت 437)اس کادائرہ نہايت وسيع ہے جسميں حکم و قضاوت رفتاروگفتار اور زندگي کا ہرشعبہ شامل ہے ۔(نساء58،انعام 152،اسراء35،انعام 141) رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اوراميرالمومنين حضرت علي عليہ السلام مالي اوراقتصادي مسائل اور بيت المال کي تقسيم ميں اس باريک بيني سے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتےتھے کہ سب کےلئےعام زندگي اور نسبي خوش حالي ممکن ہوسکے اور کسي خاص گروہ کے ہاتھوں دولت وثروت کے انبار نہ لگ جائيں اور قرآن کي اس آيت کا عملي مصداق سامنے آجاے کہ “سارامال صرف مالداروں کے درميان گھوم پھرکرنہ رہ جاے “(حشر 7) اسي وجہ سے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کے منصفانہ اقدامات سے کچھ لوگ ان کے مخالف بن گئے اور ان کي راہ ميں رکاوٹيں کھڑي کرنے لگے ليکن رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور ان کے جانشين نے کبھي بھي مصلحت کي بناپرعدل وانصاف سے عدول نہيں کيا ۔ اس طرح ہميں معلوم ہوتاہے کہ عدل و انصاف کا نفاذ آسان کام نہيں ہے اس لئے شديد مصائب جھيلنے پڑتے ہيں ،نفاذعدل وانصاف کي سختيوں کو يہ آيۃ مبارکہ بيان کررہي ہے “فاحکم بين الناس بالحق ولاتتبع الھوي (ص26)تم لوگوں کے درميان برحق فيصلہ کرو اور خواھشات کي پيروي نہ کرو کہ وہ راہ خدا سےمنحرف کرديں بے شک جولوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہيں ان کے لئے شديد عذاب ہے” رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي تعليمات پرمبني معاشرے ميں ہرانسان کا عادل اور منصف ہونا محض ايک خوبصورت ودلکش نعرہ نہيں ہے بلکہ ايک طويل مدت پروگرام ہے جوچاربنيادوں پر مشتمل ہے 1بينات ،2کتاب ،3ميزان ،4حديد (حديد 25) رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سيرت کي روسے بے بنياد بہانوں کي بناپر عدل وانصاف سے دستبردار نہيں ہوا جاسکتا ۔انس بن مالک کہتے ہيں کہ ميں نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے سنا ہےکہ “من ولي عشرا فلم يعدل فيھم جاء يوم القيامۃ ويداہ ورجلاہ وراسہ في ثقب فاس”کسي شخص کو اگر دس افراد کي سرپرستي سونپي گئي ہواور وہ ان کے ساتھ عدل وانصاف نہ کرسکے تو قيامت کے دن اسے ہاتھوں ميں ہتھکڑياں اور پيروں ميں بيڑياں اور سرپرلوہے کا ايک خود پہنا کرجسميں لگام لگي ہوگي لاياجاے گا۔(شيخ صدوق 260) يہاں اس بات کا ذکرکرنا ضروري ہے کہ اسلام جس عدل وانصاف کا قائل ہے وہ کوئي حکم تعبدي نہيں ہے بلکہ اسلامي عدالت سے معاشرے ميں استقامت استحکام اور ترقي و سلامتي آتي ہے ۔الملک يبقي مع الکفر ولايبقي مع الظلم ۔کي رسااور معني دار تعبير سے يہ پتہ چلتاہے کہ خطروں اور عدم سلامتي کي بنيادي وجہ بے انصافي اور ظلم ہے ۔علامہ طباطبائي تفسير ميزان ميں کہتے ہيں کہ اگر معاشرے مين حق کي پيروي اور عدل و انصاف کا نفاذ ہوجاے تو وہ معاشرہ اپنے پيروں پر کھڑاہوجاتاہے اور مضمحل نہيں ہوسکتا نتيجے ميں ايسے معاشرے ميں خوش حالي پھيل جاتي ہے اور غربت کا خاتمہ ہوجاتاہے ۔(الميزان ۔ج5،109۔) اتحاد ،اختلافات سے پرہيزاور آپسي محبت اتحاد پيدا کرنا ،اختلافات کا حل ،خاص طور سے ديني اختلافات کو حل کرنا، برادري اور محبت کي فضا بنانا ،حسد اور کينہ توزي کے اسباب کا ازالہ ،اور پيار ومحبت پھيلانا ديني معاشرہ قائم کرنے کے بنيادي لوازمات ہيں ۔ رب العزت نے قرآن ميں تمام مومنين کو برادر قراردياہے (حجرات)اور انہيں امت واحدہ اور عظيم امت ميں شامل کرتے ہوئے اپنا بندہ کہا ہے “ان ھذہ امتکم امۃ واحدہ”اور بے شک يہ تمہارادين ايک ہي دين اسلام ہے اور ميں تم سب کا پروردگار ہوں لھذا ميري ہي عبادت کيا کرو۔(انبياء 92مومنون52) خدانےاتحاد کو نعمت قرارديے کر تمام انسانوں کو اتحاد کي دعوت دي ہے ارشاد ہوتاہے “واعتصموا بحبل اللہ جميعا ولاتفرقوا ۔واذکرونمعت اللہ عليکم اذکنتم اعداءفالف بين قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا۔(آل عمران 103)اور اللہ کي رسي کو مضبوطي سے پکڑے رہو اور آپس ميں تفرقہ نہ پيداکرو اور اللہ کي نعمت کوياد کرو کہ تم لوگ آپس ميں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں ميں الفت پيداکردي توتم اس کي نعمت سے بھائي بھائي بن گئے ۔ قرآن کريم انسانوں سے مطالبہ کرتاہےکہ تقوي اختيارکرکے اپنےاختلافات حل کريں ۔ارشاد ہوتا ہے فاتقواللہ وااصلحوا بينکم (انفال 1)تقوي اختيارکرو اور آپسي اختلافات حل کرو (آپس ميں اصلاح کرو)۔ حکم قرآني ہےکہ گھريلو اختلافات اور مسائل حل کرکے گھرانے ميں چين و سکون کاماحول بناے رکھيں (بقرہ 224،نساء35،114)۔ سورہ حجرات ميں حکم خداوندي ہےکہ “وان طائفتان من المومنين اقتتلو فاصحلوا بينھما”اگر مومنين کے دوگروہ لڑبيٹھيں توان ميں صلح کراو ۔قران نے اس طرح کے صلح پسندانہ اقدامات کوبھائيوں کے درميان اصلاحي اقدامات سے تعبير کيا ہے ارشاد ہوتاہے “انماالمومنون اخوہ فاصلحوابين اخويکم “بے شک مومنين آپس ميں بھائي بھائي ہيں لھذااپے بھائيوں کے درميان صلح و صفائي رکھو(حجرات 10) خدانے قرآن ميں خاص طورسے دين ميں تفرقہ اندازي کي مذمت کي ہے اوراسے عذاب کا سبب قرارديا ہے (آل عمران 105،اور اسلامي امت کو اس سے دور رہنے اورپرھيزکرنے کا حکم دياہے (شوري 13)اور صراحتا مذھب و دين ميں تفرقہ ڈالنے والوں کو سنت وسيرت پيغمبر صلي اللہ عليہ والہ وسلم سے دور اور آنحضرت کوان سے بيزار بتايا ہے ۔سورہ انعام ميں ارشاد ہوتاہے “جن لوگوں نے اپنے دين ميں تفرقہ پيداکيا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کا کوئي تعلق نہيں ہے ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے پھروہ انہيں ان کے اعمال کےبارےميں باخبر کرے گا(انعام 159) خدا مسلمانوں کے درميان تنازعے اور تصادم کو ہرگز دوست نہيں رکھتاکيونکہ اس سے مسلمان کمزورپڑجاتے ہيں اور ان کي عظمت وعزت ميں کمي آجاتي ہے بنابريں قرآن کي نظر ميں اتحاد وانسجام ايک طرح کي طاقت ہے جس کا حصول ضروري ہے اور اس کے ذريعے دشمن کو ڈرانا چاہيے تاکہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسي بھي طرح کا قدم اٹھانے کي جرات نہ کرسکے۔(انفال 46،آل عمران 152،انفال 60) قرآن کريم نے حبل اللہ کو مضبوطي سے تھامنےاورخدا و رسول و اولي الامر کي اطاعت کو اتحاد کا محورقرارديا ہے اسي طرح طاغوت کو حکم بنانے جاہليت کي پيروي کرنے نيز خداو رسول اور آپکي سنت سے روگرداني ،اور اپنے اختلافات ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے فيصلے کو تسليم نہ کرنے کو عدم ايمان کي نشاني اور غير حق کي پيروي نيزتفرقہ اور تشتت کا بنيادي سبب قرارديا ہے۔(انفال 46،نساء 59،احزاب 36،نساء 65،نساء 61،انعام 153،فتح 29) صدراسلام کي تاريخ شاھد ہے کہ مشيت الھي کے تحت اور رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اقدامات کےسہارے ديرينہ اختلافات محوہوگئے تھے اور ايسي دوستي کي فضا قائم ہوئي تھي کہ جس کي مثال آج تک نہيں ملتي ،اوس وخزرج کے بڑے قبيلے جو کبھي ايک دوسرے کے خون کےپياسے تھے آپس ميں بھائي بھائي بن گئے ۔ خداوند متعال نے نہ صرف اپنے نبي کو مسلمانوں اور مومنين کے درميان اتحاد قائم کرنے کي ذمہ داري سونپي تھي بلکہ انہيں خدا پرعقيدے کي روشني ميں اھل کتاب کوبھي مسلمانوں کے ساتھ متحد کرنے کا حکم ديا تھا ۔آل عمران 64۔ اس کے علاوہ بزرگ صحابہ کي سيرت بھي ہميں اتحاد کي طرف دعوت ديتي ہے ۔ کياحضرت علي عليہ السلام نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سعي وجہد مسلسل کے بعد مسلمانوں کو متحد رکھنے ميں پچيس سال تک انتھک کوشش نہيں کي ؟ اور کيا محض اتحاد امت کي خاطر اپنے مسلم حق ولايت سے چشم پوشي نہيں کي؟ لہذااس وقت ہم جبکہ امت اسلامي کو سب سے زيادہ ضرورت اتحاد کي ہے، رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سيرت اور روايات کے برخلاف نسلي تعصب ، اندھي تقليد اور اپنے اسلاف کي غلط روشوں اور ان کي بعض غلطيوں پر قائم ہيں؟ کيا ہماري يہ غلط روشيں ، حق اور سنت نبوي و علوي پر مبني اتحاد آفريں افکار و نظريات کي راہ ميں مسلمانوں ميں اتحاد و اخوت پيدا کرنے کي منصوبہ سازي اور ان منصوبوں پر عمل درآمد کي راہ ميں رکاوٹ نہيں بنتيں؟ کيا ہماري بدگمانياں غلط فہمياں ، خودسري اور اپنے مذہب کو حق ثابت کرنے کے لئے ايک دوسرے پر تہمت و بہتان لگانا کہ جس کا باعث بعض غير ملکي عناصر ہيں ، کيا رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بيت اطہار عليہم السلام کي سيرت و سنت سے مطابقت رکھتا ہے؟ کيا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے نہيں فرمايا کہ الااخبرکم باشرارکم قالوا: بلي يا رسول اللہ! قال:المشاؤن بانميمۃ المفرقون بين الاحبۃ الباغون للبراءالعيب : رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا کيا نہيں چاہتے ہو ميں تم ميں سے بدترين افراد کي نشاندھي کروں : لوگوں نے کہا ہاں يا رسول اللہ: آپ نے فرمايا وہ شخص تم ميں سب سے برا ہے جو نمامي اور سخن چيني کرکے دوستوں ميں جدائي ڈالتا ہے اور بے گناہ افراد کے لئے عيب تراشتا ہے۔(شيخ صدوق ج 4 ص 375 )ابن عباس کہتے ہيں ان النبي سئل عن الشہادۃ فقال تري الشمس علي مثلھا فاشھد او دع۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے شہادت اور گواہي دينے کے بارے ميں سوال کيا گيا آپ نے فرمايا جس ميز کے بارے ميں تمہيں شہادت ديني ہے اسے سورج کي طرح روشن ديکھو تو گواہي دو ورنہ مت دو (محدث نوري ج17 ص 422)کيا خداي حکيم نے ہميں مدمقابل کي گفتگو سننے کي دانشمندانہ روش اپنانے اور آداب کا خيال رکھتے ہوئے گفتگو کرنے کا حکم نہيں ديا(سورہ زمر17) اور کيا ان صفات کو ہدايت پاجانے اور دانشمندي کا مظہر قرار نہيں ديا؟ کيا اسلام ميں غيبت ، عيب جوئي ، جھوٹ تہمت ، توہين لعن وغيرہ کو حرام نہين قرارديا گيا ہے؟ کيا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ہميں نہيں سکھايا ہے کہ دوسروں کے عيوب سے چشم پوشي کريں اور دوسروں کے عيوب کو ظاہر نہ کريں تاکہ خدا ہمارے عيوب چھپالے۔کيا ہم ان تعليمات سے يہ سبق نہيں حاصل کرتے ہيں کہ ہميں ايک دوسرےکے خلاف بغيرثبوت اور بغير مدرک و حوالے کے دشمني کا اظہار اور ايک دوسرے پرکفر کا فتوي لگاتے ہوۓ لٹريچرشائع نہيں کرنا چاہيے۔ بے شک امت اسلاميہ کي فرد فرد کو بدگماني، کينے اور دشمني سے دور رکھنا امت کي سلامتي، پيشرفت اور اسکي اصلاح کا باعث ہے، اور اس سے دشمني اور تصادم ميں کمي بھي آتي ہے يہ ہر مسلمان کا فريضہ ہے ، کيا اسلام و مسلمين کے دشمن مسلمانوں کے درميان اختلافات اور نتازعے پھيلا کران کي اصلاح کي کوششوں ، ان کي عزت طاقت اور سربلندي کو ختم کرنے کے درپے نہيں ہيں؟ کيا ہم سب پر مسلمان ہونے کے ناطے يہ واجب نہيں ہے کہ ہم امت اسلامي ميں کينے اور حسد کي بيخ کني کي کوشش کريں؟ کيا ہم نے اپنا يہ فريضہ انجام ديا ہے تاکہ ان حقوق کے حامل بن جائيں جن کا ذکر قرآن اہل بہشت کے بارے ميں ميں کررہا ہے “ونزعنامافي صدورھم من غل اخوانا علي سررمتقابلين ” اور ہم نے ان کےسينوں سے ہر طرح کي کدورت نکال لي ہے اور وہ بھائيوں کي طرح آمنے سامنے تخت پر بيٹھے ہونگے (حجر 47 ) ہميں خيال رکھنا چاہيے کہ ويسے نہ بنيں جيسا کہ دوزخيوں کے بارے ميں بتايا گيا ہے “ان ذالک لحق تخاصم اھل النار “( ص 64) يہ اھل جھنم کاجھگڑا ايک امر حق ہے۔” کلما دخلت امۃ لعنت اختھا” ارشاد ہوتاہے کہ تم سے پہلے جن و انس کي مجرم جماعتيں گزرچکي ہيں تم بھي انہيں کے ساتھ جہنم ميں داخل ہوجاؤ۔ حالت يہ ہوگي کہ ہر داخل ہونے والي جماعت دوسري پر لعنت کرے گي۔ تعاون اسلامي معاشرہ وجود ميں لانے کے لئے رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سنت رہي ہے کہ آپ باہمي تعاون پر بے حدتاکيد فرمايا کرتے تھے۔ اسلام کي نگاہ ميں اسلامي معاشرے کے افراد ايک پيکر کے اعضاء ہيں (اصول کافي ج 2 ص 165) جو ايک دوسرے کي خوشي اور غم ميں برابر کے شريک رہتے ہيں۔ انہيں آپس ميں ايک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے آپسي مشکلات اور مسائل کو حل کرنا چاہئے البتہ يہ تعاون نيکي اور تقوے کي اساس پر ہوني چاہئے نہ کہ گناہ و ظلم کي بنياد پر ، مسلمانوں کے درميان تعاون اسلامي معاشرے کي مصلحت اور خدا کي مرضي کي بنياد پرہونا چاہئے۔ خداوند عالم نے ايک طرف عام انسانوں کو نيکي اور تقوے کي اساس پر تعاون کرنے اور گناہ و ظلم ميں تعاون نہ کرنے کي دعوت دي ہے۔ سورہ مائدہ ميں ارشاد ہوتا ہے ” تعاونوا علي البر والتقوي ” مائدہ 2 (اے ايمان والو) نيکي اور تقوے پر ايک دوسرے کي مدد کرو اور گناہ و تعدي پر آپس ميں تعاون نہ کرنا ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہنا کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے۔ دوسري طرف خدا نے محروموں اور وطن سے نکالے گئے لوگوں کے حقوق کي بازيابي ميں بعض مسلمانوں کي غفلت و کاہلي کي مذمت کرتے ہوئے انہيں معتوب قرارديا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے”مالکم لاتقاتلون في سبيل اللہ والمستغضعفين من الرجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنااخرجنا من ھذہ القريۃ الظالم اھلھاواجعل لنامن لدنک وليا واجعل لنامن لدنک نصيرا” (نساء 75) اور آخر تمہيں کيا ہوگيا ہے کہ تم اللہ کي راہ ميں اور ان کمزور مردوں عورتوں اور بچوں کے لئے جھاد نہيں کرتے جنہيں کمزور بناکر رکھا گيا ہے اور جو برابر دعا کرتے ہيں کہ خدايا ہميں اس قريے سے نجات ديدے جس کے باشندے ظالم ہيں اور ہمارے لئے کوئي سرپرست اور اپنيطرف سے مدد گار قرارديدے۔ خداوند متعال نے صرف مومنين کو باہمي تعاون کرنے اور کمزور مسلمانوں کا حق دوبارہ حاصل کرنے ميں غفلت برتنے ميں مورد عناب قرار نہيں ديا ہے بلکہ ان کے لئے تعاون کرنے کي راہوں کو بھي واضح کرديا ہے تاکہ وہ اپني ذمہ داريوں کو نبھانے ميں کوئي بہانے بازي نہ کرسکيں ، قرآني آيات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ايک دوسرے سے ملاقات کے وقت سلام کرنے(انعام 54) اور اگر کوئي سلام کرے تو اس کا خندہ پيشاني اور اچھي طرح سے جواب دينے يہاں تک کہ اگر حالت نماز ميں بھي ہوتو سلام کاجواب دينےکو واجب قرارديا ہے(کليني ج3ص 366)۔ اسلام نے اسي طرح مذہبي اجتماعات جيسے نماز جماعت ، نماز جمعہ اور ديگر اجتماعات ميں شرکت کرنے پر تاکيد کي ہے اسي طرح اپنے رشتہ داروں اور ہمسايوں کے ساتھ نيکي سے پيش آنے کا حکم ديا ہے خواہ ان کا دين اور قوميت کچھ بھي ہو(نساء36) ۔ اسلام نے يہ بھي حکم ديا ہے کہ مسلمان کو اپنے مسلمان و مومن بھائي کے لئے خير خواہي اور مخلصانہ جذبات کا حامل ہوتے ہوئے اس کے لئے خدا سے مغفرت و بخشش کي آرزو کرنا چاہئے(سورہ حشر 10) يہ اسلامي تعليمات کے کچھ نمونے تھے جن پر عمل کرنے سے اسلامي معاشرے ميں تعاون خود بخود وجود ميں آجاتا ہے يہاں پر ہم ہمساۓ کے حق ميں سنت نبوي علي صاحبھا آلاف التحيہ والثنا کي ايک مثال دے رہے ہيں۔ رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا کيا جانتے ہو ہمسائے کا حق کيا ہے؟ لوگوں نے کہا جي نہيں ، آپ نے فرمايا ہمسائے کا حق يہ ہے کہ اگر وہ تم سے مدد مانگے تو اسکي مدد کرو، اگر قرض چاہئے تو اسے قرضہ دو، اگر وہ مالي بدحالي کا شکار ہوجائے تو اس کي مالي مدد کرو اگر کسي مصيبت سے دچار ہوجائے (کوئي مرجائے) تو اسکو تعزيت پيش کرو، اگر مريض ہوجائے تو اسکي عيادت کرو اور اگر مرجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو ، اپنے گھر کي عمارت کو اس کے گھر کے سامنےاس طرح اونچا تعمير نہ کرنا کہ اسکي طرف ہوا کا بہاورک جائے مگر يہ کہ وہ اجازت ديدے ، اگر تم پھل خريدو تو اس کے لئے کچھ تحفے کے طور پرلے جاؤ اور اگر تم ميں استطاعت نہيں ہے تو چھپاکر گھرلےجاؤ اور خيال رکھو کہ تمہارا بچہ ميوہ ليکر باہر نہ جائے تاکہ ہمسايہ کا بچہ حسرت بھري نگاہوں سے اسے ديکھے ۔ اپنے ہمسائے کو اپنے پکوان کي خوشبو سے پريشان نہ کرومگر يہ کہ اس کے لئے بھي کچھ بھيج دو (شہيد ثاني ص114) ايک دن رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے لئے تحفہ لايا گيا آپ کے پاس کچھ لوگ بيٹھے ہوئے تھے آپ نے ان لوگوں سے فرمايا آپ لوگ بھي اس تحفے ميں ميرے ساتھ شريک ہيں (شہيد ثاني ص 114 ) يہاں پر ايک اہم سوال يہ پيش آتا ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي حديث شريف ميں ہسماۓ کے جو حقوق بيان کئے گئے ہيں کيا وہ ايک محلے ايک شہر اور ايک اسلامي ملک سے مختص ہيں؟ يا اسلامي معاشرے کو وجود ميں لانے کے لئے اسلامي ملکوں پر بھي واجب ہے کہ وہ اپنے ہمسايہ اسلامي ملکوں کے لئے ان امور پر عمل پيراہوں؟ ہم کيوں اسلامي احکام کو ہميشہ فردي احکام کي نگاہ سے ديکھتے ہيں ؟ کيا امت اسلاميہ کي ہر فرد کے تعلق سے چاہے وہ کسي بھي ملک ميں ہو کسي بھي نسل وقوم سے اس کا تعلق ہو اس کے ساتھ اتحاد رکھنا اس کا دفاع کرنا کيا تمام مسلمانوں کا فريضہ نہيں ہے ؟ بنابريں اسلامي کانفرنس تنظيم ،اسلامي ملکوں کے سربراہوں اور اسلامي حکومتوں اور اسلامي ملکوں کي پارليمانوں کي سنگين ذمہ داري ہے کہ وہ اس سلسلے ميں اپنے فرائض انجام ديں۔ اور اسلامي علماء اور مفکرين پر يہ ذمہ داري عائد ہوتي ہے کہ وہ اسلامي مذاہب ميں گفتگو کا سلسلہ شروع کرائيں کيونکہ سيرت النبي ميں ديگر اديان کے پيروں کو بھي اپنے آداب بجالانے اور رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے مناظرہ کرنے کي اجازت تھي ( شيخ مفيد ص114) 4۔ احسان و خيرات اور غربت سے مقابلے کے ذريعے اقتصادي فروغ رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سيرت طيبہ سےپتہ چلتا ہے آپ نےمعاشرے کے عام انسان کي معيشتي خوش حالي ، ناداروں، مسکينوں اور يتيموں کي سرپرستي معاشرے، ميں ذخائر، دولت اور مواقع کي منصفانہ تقسيم بندي، انفاق کے ذريعے ضرورت مندوں کي ضرورتوں کو پورا کرنے،قرضے دينے،اور قرض اداکرنے کے لئےکافي مہلت دينے نيزاحسان و نيکو کاري پرتاکيد کي ہے ۔ اسلامي امت اور اسلامي معاشرے ميں اس بات کي ضرورت ہے کہ عام آدمي کي معيشتي زندگي کو بہتر بنايا جائے ، طويل مدت منصوبہ بندي کے ذريعے غربت سے مقابلہ کيا جائے ، کمزور طبقے، مسکينوں اور ناداروں اور يتيموں کي دستگيري کي جائے ، معاشرے ميں ايسے قوانين نافذ کئے جائيں جن سے ذخائر ، دولت اور مواقع کي منصفانہ تقسيم ہوتي ہو۔ صدقہ رحم کھاکر ياپھر احسان جتانے اور بے جا فخر کرنے کے لئے نہيں بلکہ فقيروں اور وناداروں کو اپنے مال ميں شريک سمجھ کر اور انہيں مستحق جان کرديا جائے ۔ ان تمام امور پر قرآن کريم نے تاکيد کي ہے اور رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اسلامي معاشرے کي بنياديں مستحکم کرنے کے لئے ان پر عمل کيا ہے اور لوگوں کو عمل کي ترغيب دلائي ہے۔(حجرات 13،بقرہ 267،منافقون 10،حديد 11،بقرہ 280،بقرہ195،بقرہ 264،بقرہ 262،معارج 24،25) اجتماعي نگراني يا امر بالمعروف و نہي از منکر (اعراف 199) 5۔ اجماعي نگراني ياامر بالمعروف و نہي از منکر ۔ (اعراف 199) اجتماعي نگراني اور مسلمانوں کا ايک دوسرے کو حق و صبر کي تلقين کرنا امر بالمعروف اور نہي از منکر ، نيز سماجي امور ميں سستي اور غفلت سے پرہيز کرنا ايسے امور ميں جن پر عمل کرنے کے اچھے اثرات اور ترک کرنے کے برے اثرات سارے معاشرے پر يکسان طور پر پڑتے ہيں۔ ان امور پر عمل کرنا ديني معاشرے کي تشکيل کے لئے سنت نبوي کا ايک بنيادي اصول ہے آل عمران ميں ارشاد ہوتا ہے کنتم خيرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر۔تم بہترين امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پرلايا گيا ہے تم لوگوں کو نيکيوں کا حکم ديتے ہواور برائيوں سے روکتے ہواور اللہ پر ايمان رکھتے ہو۔ بے شک مسلمان اس وقت برتروممتاز امت کہلائيں گے جب وہ ايک دوسرے کو نيکيوں کي دعوت ديں اور برائيوں سے روکيں اور اگر مسلمان ان دو فريضوں کو بھلاديں تو نہ بہترين امت کہلائيں گےاور نہ ہي انسانيت کے لئے مفيد واقع ہونگے (تفسير نمونہ ص 97) اسي طرح مثالي معاشرہ قائم کرنے کے سلسلے ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي تاسي کرتے ہوئے لوگوں کو گمراہي سے بچانے کے لئے ان کي خبر گيري کرنا، لوگوں کو گناہ سے دور رکھنے کے لئے بے لوث جدوجہد کرنا، عوام کو اچھے اخلاق اپنانے کي ترغيب دلانا، اچھائي اوربرائي کواور اس کےمصاديق کو واضح کرنا يہ سارے امور امر بالمعروف و نہي از منکر ميں شامل ہيں ۔ يہاں ايک اہم نکتہ يہ ہے کہ امر بالمعروف و نہي از منکر پر عمل کرنے والوں کو خود محوري، خود غرضي ۔ خودسري،صرف خودکو حق پر سمجھنے اور دوسروں کو سراسر باطل سمجھنے گفتار رفتار ميں شدت پسندي ، سے پرہيز کرنا چاہئے کيونکہ قرآن کريم کي نظر ميں وہم و گمان باطل سے پرہيز کرنے پر تاکيد کي گئي ہے اور بعض گمانوں کو گناہ قرارديا ہے اسي طرح اس نہايت اہم واجب فريضے پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کا مذاق اڑانے ، عيب جوئي کرنے، پردہ فاش کرنے اور ايک دوسرے کو برے ناموں سے ياد کرنے سے پرہيز کرنا ضروري ہے کيونکہ قرآن نے ان تمام امور سے منع کيا ہے۔(حجرات 12،حجرات 18) رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سيرت طيبہ ميں ہم ديکھتے ہيں کہ آپ نے امر بالمعروف اور نہي ازمنکر کے سلسلے ميں عملي نمونہ پيش کيا ہے کہ اس موقع پر لوگوں کا احترام باقي رکھا جائے اور ادب کي حدود سے تجاوز نہ کيا جائے ، نفرت انگيز گفت گو نہ کي جائے بلکہ رواداري، حيا ، صداقت ، تواضع نرمي کلام ، بزرگوں کے احترام اور چھوٹوں کے ساتھ مہرباني سے پيش آنے کا پورا پورا خيال رکھاجائے۔ اسي طرح لوگوں کے راز نہ فاش کئے جائيں اور نہ ان کي غلطيوں کو باربار دہرايا جائے۔امر بالمعروف اور نہي از منکر کافريضہ بجالائے ہوئے ہميں بھي رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي طرح خندہ پيشاني سے پيش آنا چاہئے۔ آپ نرم اخلاق کے حامل اور نہايت پرسکون ہم نشين تھے نہ تند خوتھے نہ ہي سخت گير ۔ نہ فحاش تھے اور نہ ہي عيب تلاش کرتے تھے اور نہ کسي کي چاپلوسي کرتے تھے جو چيز پسند نہ فرماتے اس سے غض نظر کرليتے اور کوئي بھي آپ سے مايوس نہيں ہوتا تھا۔ ان تعليمات کي اساس پر ہم جو آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي پيروي کا دعوي کرتے ہيں ہميں امر بالمعروف اور نہي از منکر کے بہانے ايک دوسرے کي جان کےدرپے نہيں ہوجانا چاہئے اور نہ ہي دوسروں کے لئے سبب آزار و اذيت اور تصادم کا باعث بننا چاہئے ، کيونکہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا ہے کہ اخلاقي لحاظ سے آپ سے سب سے زيادہ شباہت رکھنے والا شخص وہ ہے جو اچھے اخلاق کا حامل ہو، جس ميں نرمي اور ملائمت زيادہ ہو ، اپنے اعزاءو اقارب کے حق ميں زيادہ نيکياں کرتا ہو اپنے ديني بھائيوں سے زيادہ مہرباني سے پيش آتا ہو، حق پر جن کا صبر زيادہ ہو جو غصے کو پي جاتا ہو اور زيادہ بذل و بخشش اور انصاف کا حامل ہو۔ بنابريں غيرت الھي سے حاصل شدہ غيرت ديني کے سہارے اسلامي معاشرے کو اس سمت ميں لے جايا جانا چاہئے جہاں ہر مسلمان منکر سے بيزار ہو، اور اسلامي ملکوں ميں محرمات کي ترويج کے مقابل خاموشي اختيارنہ کرے اور احکام خداوندي کے سلسلے ميں رواداري کا اظہارنہ کرے۔ اگر ہم غور کريں تو في زمانہ ، داخلي سطح پر امت اسلامي کا فريضہ ہے کہ وہ داخلي سطح پر اپني اصلاح اور اتحاد کے لئے تعميري گفتگو کي راہ ہموار کرنے ، اور بيروني سطح پر دشمن کا ہر طرح سے مقابلہ کرنے کے لئے ميدان ميں اترآئے ، کيا آج امت اسلامي مشاہدہ نہيں کررہي ہے کہ مغربي سامراج نے اسکے مکتب و مقدسات کو نشانہ بنايا ہوا ہے ؟ بلکہ اسکي بعض سرزمينوں پر قبضہ بھي کرليا ہے اور قبلہ اول کے غاصبوں کي بھرپور حمايت کررہا ہے (النساء 93،بقرہ217،يوسف 73،بقرہ 279،محمد 22،بقرہ 205،ھود88) 6۔ اخلاقي ، مالي ، انتظامي ، اور سياسي بدعنوانيوں کا مقابلہ خداوند عالم برائي کو ہرگز پسند نہيں کرتا اور اسلامي معاشرے کو فساد سے عاري ديکھنا چاہتا ہے اسي وجہ سے قرآن کي متعدد آيات ميں انسانوں کو ہر طرح کي برائي سے روکا گيا ہے ، مرحوم شيخ طبرسي آيہ مبارکہ ولاتفسدواوافي الارض (اعراف56) کے ذيل ميں کہتے ہيں ” زمين ميں فساد برپاکرنے سے مراد لوگوں کو نقصان پہنچانا ہے اور بعض لوگوں نے اس سے مومنين کا قتل ، گناہ اور ظلم بھي مراد ليا ہے۔ (مجمع البيان ج 4 ۔ ص 56) مرحوم شيخ طوسي تبيان ميں کہتے ہيں فساد کے معني کسي بھي چيز کے اعتدال سے خارج ہونے کے ہيں۔ (تبيان ج 1 ص 75) فخررازي کي نظر ميں فساد کسي چيز کا حيز انتفاع سے خارج ہونا ہے ، اسکي ضد اصلاح ہے وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہيں کہ زمين ميں فساد پھيلانے کے ايک معني گناہوں کو آشکار کرنا اور کھلم کھلا گناہ کرنا ہے ۔ بنابريں زمين ميں فساد پھيلانے سے مراد حداعتدال سے خارج ہوتا، جيز انتفاع سے نکل جانا ، دوسروں کو نقصان پہنچانا، مختصر يہ کہ ہر وہ کام ہے جس سے خدا نے منع فرمايا ہے لہذا گناہ و معصيت علي الاطلاق ، زمين ميں فساد اور افساد سے عبارت ہے۔ خداوند عالم نے زمين ميں فساد کي روک تھام کے لئے قتل نفس ، فتنہ انگيزي ، چوري ، ربا(سود) خواري قطع رحم، زراعت ونسل کي نابودي نيز معاشرے ميں ہر طرح کي برائي سے مقابلے کا حکم ديا ہے۔ يہي نہيں بلکہ اجتماعي سطح پر اچھائيوں کو پھيلانا واجب قرارديا ہے۔ سيرت طيبہ رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں فردي اور اجتماعي زندگي کے تمام امور ميں ايسي تعليمات ملتي ہيں جو ديني اور قرآني معاشرے ميں امربمعروف و نہي از منکر کو بامعني بناديتي ہيں۔ بيت المال کي نسبت ذمہ داري اور اس کا صحيح جگہ پر خرچ کيا جانا کافروں اور برے لوگوں کا بائيکاٹ اور ان کے ساتھ دوستي سے منع کرنا، ظالموں کا بائيکاٹ اور ان کے ساتھ تعاون کي حرمت کفارسے ہديہ قبول نہ کرنا، قتل عام کي مخالفت، قريبي لوگوں دوستوں اور قرابت داروں کي جانب سے خصوصي مطالبات اور حق سے بڑہ کر خواہشات کے مقابل مزاحمت اور ان کا مسترد کرنا، جيسے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے بعض اصاب نے مسجد کي طرف اپنے گھروں کي دروازے کھلے رکھنے کي درخواست کي تھي (اربلي ، ج 1 ص 320) 7۔ تنظيم امور و نظم و نسق رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں لوگوں کے مختلف امور کو نظر انداز نہيں کيا جاتا تھا اور نہ ہي ان سے غفلت برتي جاتي تھي۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مشيت وارادہ الھي ، تو کل اور رحمت خداوندي کے نام پر عوام کي مشکلات حل کرنے کي ذمہ داري سے گريز نہيں فرماتے تھے بلکہ چارہ جوئي ، عملي منصوبوں اور صحيح انتظامات کے ذريعے لوگوں کے مسائل حل کرنے کي سعي بليغ فرمايا کرنے تھے۔ مسلمانوں کي تعداد بڑہنے کے بعد مسجد النبوي کي توسيع و مرمت ، اور خواتين کے لئے مسجد کا ايک دروازہ مخصوص کرنے کے لئے آپکا حکم، تاکہ عورتوں اور مرد الگ الگ دروازوں سے آجاسکيں ، اسي طرح عورتوں اور مردوں کا خود کو ايک دوسرے سے مشابہ بنانے کو حرام قرار دينا آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے عملي اقدامات کے واضح نمونے ہيں۔ اسي طرح مسائل کے حل کے لئے فيصلہ کرنے سے قبل باہمي مشاورت ، فيصلہ کرنےوقت دورانديشي ، ايک دوسرے کے ساتھ رواداري سے پيش آنے پرتاکيد، اور” اسي طرح لوگوں سے پيش آؤ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ پيش آيا جائے ” کے الھي اور انساني اصول کے تحت لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت پر تاکيد، دشمن کے مقابل طاقت کا مظاہرہ ، اور دشمن کي دھمکيوں اور تشدد سے مرغوب نہ ہونے کي تلقين ، يہ سارے امور بھي آپ کي الھي تعليمات کا نمونہ ہيں کہ امت اسلامي سے ہمدردي رکھنے والوں کو ان پر عمل پيراہوکر امت اسلامي کے مسائل حل کرنے کي کوشش کرني چاہئے۔ تاکہ مسلمان اپني عزت رفتہ کو دربارہ حامل کرسکيں انشاء اللہ نتيجہ: بے شک خداوندعالم کے وعدے کے مطابق قافلہ انساني ، اسلام کي روز افزوں ترقي سے الھي اقدار کي حاکميت مطلق کي منزل کي طرف روان دوان ہے۔ علامہ طباطبائي تفسير الميزان ميں فرماتے ہيں۔ احوال کائنات ميں گہري تحقيق سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کائنات کا جزء ہونے کي حيثيت سے اپنے ہدف غائي يعني کمال کي منزل حاصل کرکے رہے گا اور يہ منزل دنيا پر اسلام کي حکمراني اور اسلام کے ہاتھوں ميں انساني قافلے کي باگ ڈور آنے سے عبارت ہے۔ خداوند کريم نے قرآن ميں يہ وعدہ فرمايا ہے۔ الميزان ج 4 ص 100۔ آيت اللہ شہيد مرتضي مطہري کہتے ہيں انساني معاشرے تہذيبيں اور ثقافتيں، يکسانيت متحد الشکل ہونے اور سرانجام ايک ہونے کي طرف آگے بڑھ رہي ہيں انساني معاشرہ کا مستقبل کمال يافتہ متحد معاشرے کي شکل ميں ظہور پذير ہوگا جسميں انسان کي تمام بالقوہ صلاحيتيں فعليت کا جامہ پہن ليں گي اور انسان حقيقي کمال و سعادت اور آخر کار حقيقي انساني منزل پر فائز ہوجائے گا۔ (مطہري ص 359) ہم نے جو تفصيلات بيان کي ہيں ان کے پيش نظر اسلامي اقدار کي حکمراني کے تعلق سے وعدہ الھي کو پورا کرنےکے لئے اور امت واحدہ اسلامي وجود ہيں لانے کے لئے،تمام اسلامي مذاہب کو چاہئے کہ نور قرآن کي ضياءاور رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سچي سيرت پر عمل کرتے ہوئے منصوبہ بندي کريں اور اہل بيت رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے مھدي موعود عليہ السلام کي امامت ميں عالمي اسلامي معاشرے قائم کرنے کي زمين ہموار کريں ۔ انشاء اللہ تعالي۔ حوالجات ۔ قرآن کريم نہج البلاغہ ابن ابي الحديد شرع نہج البلاغہ کشف الغمہ اربلي تفسير کبير فخر رازي المحاسن ،برقي تفسير موضوعي ارشاد القلوب ،ديلمي تنزيہ الانبياء سيدمرتضي مسکن الفرائد شہيد ثاني وسائل الشيعہ حرعاملي ثواب الاعمال شيخ صدوق معاني الاخبار شيخ صدوق من لايحضرہ الفقيہ شيخ صدوق مجمع البيان شيخ طبرسي مکارم الاخلاق شيخ طبرسي التبيان في تفسير القرآن الاختصاص شيخ مفيد الميزان في تفيسرالقرآن تفسير القي اصول الکافي تفسيرفرات کوفي بحارالانوار مستدرک الوسائل محدث نوري تفيسر نمونہ روضۃ الواعظين نيسابوري منبع:islaminurdu.com