مسلم رہنمائوں کی معراج راجیہ سبھا
مسلم رہنمائوں کی معراج راجیہ سبھا
0 Vote
94 View
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے مسلم رہنمائون کو یا تو سرکار کی چا پلوسی یا بد ظن ہوتے دیکھا ہے ۔ تقسیم کے بعد حالات شاید ایسے رہے ہوں تجزیہ یہ بتایا ہے کہ سرکار نے سیکولرازم کی آڑ میں اقلیتوں کو خوب چھلا ہے ۔ اقلیتی طبقہ کے لوگ اپنی غربت ، افلاس اور بے روز گاری کی وجہ سے دور رہے ، سرکار بے توجہ رہی اور مسلم رہنما غافل ، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مسلم رہنمائوں نے غربت افلاس کا خوب فائدہ اٹھایا ۔ ان کو مدرسوں اور پیری مریدی کا بوجھ انہیں غریبوں کے کندھوں نے سہا اقلیتیں اپنے خاندانی پیشوں اور آبائی ادیوگ دھندوں کی وجہ سے باقی رہ سکیں ، گلف کا راستہ کھلنے کے بعد ان کے چہروں پر کچھ چمک آئی ۔ عوام بقا کی لڑائی لڑ رہے تھے اور رہنما راجیہ سبھا کی ۔ان رہنمائوں نے چاپلوسی اور بد ضنی کے بیچ کا راستہ نکال کر عوام کو اوپر اٹھانے کی کبھی کوشش نہیں کی انہوں نے مسلم عوام اور سرکار کے بیچ ہمیشہ دوری بنائے رکھی ۔ بقا کی کوشش میں لگی عوام ان کی سازش کی شکار بنتی رہی اور یہ راجیہ سبھا ودھان سبھا پریشد کے رکن ۔ مسلمانوں کی دو جماعتیں ہم نے دیکھا کانگریس کے ساتھ کام کررہی تھیں ۔ ایک مومن کانفرنس اور دوسری جمعیت العلماء ہند ۔ مومن کانفرنس پسماندہ مسلمانوں کی تعلیم و ترقی ، روز گار کاروبار کی پریشانیوں کو حل کرنے سرکاری نوکری انتظامیہ اور سرکار میں حصہ داری کو یقینی بنانے کے لئے وجود میں آئی تھی ۔ اسے نیشنلسٹ مسلمانوں کی تنظیم بھی سمجھا جاتا تھا ۔دھیرے دھیرے یہ ایک برادری ( انصاری) کی بن کر رہ گئی انصاری برادری کو او بی سی تسلیم کر لیا گیا کئی دوسری پسماندہ برادری او بی سی کے زمرے سے باہر رہیں جنہیں بعد میں منڈل کمیشن نے شامل کیا ۔ مومن کانفرنس نے ان پسماندہ مسلمانوں کی طرف توجہ نہیں کہ جو او بی سی کے زمرے میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے یہ تنظیم خالص ایک برادری کے لئے کام کرنے والی بن گئی ۔ اس برادری نے باقہ پسماندہ مسلمانوں کے حڈہ پر بھی قبضہ کر لیا ۔ نتیجہ کے طور پرت دھان پریشد اور راجیہ سبھا میں مومن کانفرنس کے ذمہ دار کی حیثیت سے کانگریس لمبے عرصء تک نمائندگی دیتی رہی عام مسلمان مومن کانفرنس کو کانگریس کی ذیلی تنظم سمجھتے تھے اور اس نے اس سے کبھی انکار بھی نہیں کیا ۔ مولانا حسیب الرحمن نعمانی صاحب مومن کانفرنس کے آخری راجیہ سبھا ممبر بنے ۔ان کے بعد خود انصاری برادری میں صدارت کے عہدے کو لے کر اختلافات شروع ہو گئے سیاست اور شہرت کی بھوک رکھنے والے لوگ آگے آگے اور ایک مومن کانفرنس کی ایک درجن مومن کانفریسس بن گئیں ۔ ہرایک یہی کہتا ہے کہ یہ اصل مومن کانفرنس ہے ۔ سرکار اور کانگریس جانتی ہے کہ اب اس تنظیم سے اس کے سیاسی مقاصد پورے ہو نہیں سکتے ۔ اس لئے ساری کوششوں کے با وجود مومن کانفرنس کے لوگ راجیہ سبھا سے باہر ہو گئے ۔ رہا جمعیت العلماء کا معاملہ تو یہ علماء کی جمیعت مسلمانوں دینی وسیاسی رہنمائی کے لئے وجود میں آئی تھی اس جمیعت نے مسلمانوں کی دینی و سیاسی میدان میں کیا خدمات انجام دیں اس کا الگ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ یہ تنظیم مولانا حسین احمد مدنی کے بعد ایک خاندانی تنظیم بن کر رہ گئی ۔ مولانا حسین احمد مدنی وہی کام کیا جو معاویہ نے کیا تھا ۔ اس نے پر موقع پر کانگریس کو اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کیا ۔ نتیجہ کے طور پر ایک راجیہ سبھا اس کے نام بھی کردی گئی جمعیت کے ذمہ داران نے تاریخی دینی درسگاہ دارالعلومن کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا ۔ انہوں نے مومن کانفرنس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر کام کیا ۔ آج جمعیت نے کانگریس میں مومن کانفرنس کا مقام حاصل کر لیا ہے ۔جمعیت کانگریس کے پوشیدہ ایجنڈے پر کام کررہی ہے ۔یہ وہ کام کرتی ہے جو کانگریس اپنے بینر سے نہیں کر سکتی ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب جمعیت کا پرموشن ہو گیا اور دو راجیہ سبھا جمعیت کے نام کر دی گئی لیکن یہ سلسلہ زیادی دیر تک نہیں چل سکا ۔جمیعت کی ایک سیٹ بھی خطرے میں پڑ گئی مولانا محمود مدنی کو این ڈی اے کے حلیف لوک دل کی مدد سے راجیہ سبھا بچانی پڑی ان کی مدت پوری ہونے والی ہے ۔ دارالعلوم کے مہتمم کے انتخاب کا قضیہ تاجیہ سبھا کے ہی ارد گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب مولانا محمود مدنی کس پارٹی سے راجیہ سبھا میں جاتے ہیں ۔ آیئے کچھ اور رہنمائوں کا بھی جائزہ لیا جائے مسلم سیاست میں دہلی کی جامع مسجد نے بھی اہم رول ادا کیا ہے دہلی کی جامع مسجد نے سیاست میں رد عمل کو بنیاد بنایا ۔ امام عبداللہ بخاری نے مسلم عوام کو حکومت سے بدضنی کا سبق پڑھایا اور خود مسلم ووٹوں کا سودا کرتے رہے ، انہوں نے مسجد کو سیاست کا مرکز بنادیا ۔ حقیر سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر کبھی قوم کے اصل مرض پر توجہ نہ کر سکے ۔ انہوں نے بھی وہی کام کیا جو حسین احمد مدنی نے کیا تھا کنبہ پروری ۔ جامع مسجد پر ان کے خاندان کا قبضہ ہو گیا انہوں نے مسلمانوں کے ہر مسئلہ کو جذبات کے چشمے سے دیکھا ۔یہ بنیادی مسائل پر کبھی سنجیدہ نہیں ہو سکے ۔ان کے پیش نظر ہمیشہ سیاسی ہنگامہ آرائی رہی ۔ ہر انتخاب میں فتویٰ جاری ہوتا کہ مسلمان کس کو ووٹ دیں ۔ ان فتوئوں کی بنیاد پر ایک مرتبی وسیم احمد بھنڈی کو راجیہ سبھا ملی اور دوسری مرتبہ م افضل کو ۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ پرویز ہاشمی کو جنتا دل کا ٹکٹ جامع مسجد کے کہنے پر ہی ملا تھا جس پر وہ پہلی مرتبہ اوکھلا سے ایم ایل اے کا انتخاب جیتے تھے ۔ سنا یہ بھی جا رہا ہے کہ احمد بخاری اپنے قریبی جناب چودھری راحت محمود کو راجیہ سبھا پہنچانا چاہتے ہیں ۔ اس فہرست میں ایسے حضرات بھی ہیں جنہوں نے اپنی شعلہ بیانی خطابت اور پیری مریدی کے زور پر سیاسی جماعتوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ نتیجہ راجیہ سبھا ایک کرسی ۔ گویا ان کی ساری جد و جہد اسی کے لئے تھی کیونکہ ان کی شعلہ بیانی کا چراغ راجیہ سبھا پہنچتے ہی بجھ گیا ۔ رہ گیا تو صرف جوڑ توڑ کا گر جس کی مدد سے ایک مرتبہ کسی پارٹیسے راجیہ سبھا پہنچے تو دوسری مرتبہ کسی اور سے ۔ ان میں عبداللہ خاں اعظمی کا نام سر فہرست ہے اسی مسلک کے مولانا مظفر حسین کچھوچھوی بھی پیچھے نہیں رہے ۔ ملی کونسل بھی زور آزمائی کررہی ہے اس کا بھی وہی مقصد نظر آرہا ہے جو جمیعت کا ۔ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کے زینے پر چڑھ کر راجیہ سبھا پہنچنا ۔سیاست میں سماجی سماجی اتھل پتھل کی بنیاد پر دوڑ آتے ہیں ۔ انہیں کی بنیاد پر انتخابات کے مدے طے ہوتے ہیں ۔ کبھی دلتوں کے مسائل پر سیاست ہوتی ہے تو کبھی فرقہ وارانہ فسادات پر کبھی مسجد مندر کا مسئلہ موضوع بنا تو کبھی مہنگائی کبھی جات گوجر اور یادوں کی سیاست ہوئی تو کبھی کسانوں کی ۔کچھ ریاستوں میں ذات برادی بھی اس کا مدا بنا ۔اسی کا فائدہ اٹھانے کے لئے مسلم پسماندہ بھی لا بند ہوئے ۔ بہار میں مسلم پسماندہ کا سوال کام کرگیا اس کی بنیاد پر دو لوگ راجیہ سبھا پہنچے ۔ ایک علی انور صاحب دوسرے ڈاکٹر اعجاز علی دونوں اب بھی پسماندہ کے لئے کام کررہے ہیں لیکن اپنی سہولت سے علی انور خواتین بل کے خلاف تھے ۔لیکن پارلیمنٹ میں انہوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا ۔ ہمارے معلوم کرنے پر انہوں نے جواب دیا کہ پارٹی کا وہُپ آگیا تھا اس لئے مجبوری تھی ۔ دوسرے اعجاز علی صاحب ہیں جب پارلیمنٹ میں رنگا ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کو پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی تو یہ خاموش تھے ۔ پارلیمنٹ میں انہوں نے پسماندہ کے مسئلہ پر کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی جبکہ باہر اس مسئلہ پر ان کا رخ جارحانہ رہا ۔ کہا یہی بھی جاتا ہے کہ علی انور صاح کو ڈاکٹر عجاز علی نے ہی اس مہم سے جوڑا تھا ۔ سرکار یا پارٹیاں یہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ اس مسلم رہنمائوں کی حقیقت کیا ۔ یہ رام لیلا میدان یا تال کٹورا اسٹیڈیم تو بھر سکتے ہیں ۔ امام حرم یا کسی دوسرے نام پر یہ بھیڑ جمع کر سکتے ہیں لیکن یہ کارپوریشن کا انتخاب نہیں جیت سکتے ، محمود مدنی انتخاب لڑکر دیکھ چکے ہیں ۔ سرکار اور پارٹیاں یہ بھی جانتی ہے کہ ان کے کہنے سے مسلمان ووٹ نہیں دیتے اس کا تجربہ 1996میں ہو چکا ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ پھر انہیں راجیہ سبھا کیوں دیا جاتا ہے ۔ آپ غور کریں گے تو سمجھ جائیں گے ان کو راجیہ سبھا یا ودھا سبھا پریشد میں بھیجنے کے پیچھے کئی پوشیدہ مقاصد ہوتے ہیں سرکار یا پارٹیاں جب چاہتی ہیں انہیں ان کا مقصد کے لئے استعمال کرتی ہیں ۔ اور یہ خوشی خوشی اس کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ مسلم عوام ثواب کی نیت سے ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور بڑی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں ۔ ذرا غورکیجئے اگر ان رہنمائوں نے راجیہ سبھا پر دھیان نہ دے کر قوم کی ترقی پر توجہ کی ہوتی تو مسلمانوں کے حالات آج کچھ اور ہوتے وہ ساری صلاحیتیں رکھنے کے با وجود دوسری قوموں سے پیچھے ہیں ۔ سچر کمیٹی کے مطابق ان کے حالات دلتوں سے بھی خراب ہیں ۔ در اصل جنہیں ہم اپنا رہنما سمجھتے ہیں یہ اس کے لائق ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ اپنے کام کی بنیاد پر نیچے سے اوپر اٹھ کر نہیں آئے ہیں بلکہ اوپر سے تھوپے ہوئے لوگ ہیں ۔سرکار اور سیاسی پارٹیوں نے اپنے مقاصد کے لحاظ سے کچھ چہروں کو مسلم چہرے کے طور پر متعارف کیا اور انہیں بڑھایا ۔ اس میں کچھ ایسے چہرے بھی ہیں جن کی وابستگی کسی مذہبی خاندان سے ہے ۔ بس اسی کا سہارا لے کر انہیں مسلمانوں کا رہنما بنا دیا گیا اور مان بھی لیا ۔ ضرورتت اس بات کی ہے کہ تھوپی ہوئی (Impose) لیڈر شپ سے ہو شیار رہا جائے اور اپنے درمیان سے گلی محلہ اور شہر کی سطح پر لوگوں کو آگے لایا جائے تاکہ یہی حضرات آگے بڑھ کر ملکی سطح پر قوم کے لئے کام کرنے والے بن سکیں ۔ ان پر عوام بھروسہ کریں اور یہ بھروسے کو قائم رکھنے والے ہوں ۔ علماء کی سیاست میں داخل اندازی بند کی جائے کیونکہ یہ سیاست سے نا واقف لوگ اغیار کی سازشوں کا جلد شکار بن جاتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو امید کی جاتی ہے کہ عروام بہتر لوگوں کو اپنا رہنما چن سکیں گی ۔