علی قرآنی آیات روشنی میں
علی قرآنی آیات روشنی میں
0 Vote
30 View
ا)۔ عَنْ اُمِّ سلمہ قَالَتْ: نَزَلَتْ ھٰذِہِ الآیَةُ فِی بَیْتِیْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“، وَفِی الْبَیْتِ سَبْعۃ، جبرئیل و میکائیل و علیٌ فاطمۃ والحسن والحسین وأَنَا عَلٰی بٰابِ الْبَیْتِ قُلْتُ: یٰارَسُوْلَ اللّٰہِ، أَ لَسْتُ مِنْ اَھْلِ الْبَیْتِ؟ قٰالَ اِنَّکِ عَلٰی خَیْرِ اِنَّکِ مِنْ اَزْوَاجِ النَّبِیَ۔ ”اُمِ سلمہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہٴ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی اور آیت کے نزول کے وقت گھر میں سات افراد موجود تھے اور وہ جبرئیل، میکائیل، پیغمبر اسلام، حضرت علی علیہ السلام، جنابِ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام تھے۔ میں گھر کے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں اہلِ بیت میں سے نہیں ہوں؟“ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اے سلمہ! بے شک تو خیر پر ہے لیکن تو ازواج میں شامل ہے“۔ (ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں اُمِ سلمہ سے یوں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم گھر میں موجود تھے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ریشمی چادر اپنے بابا کے پاس لائیں۔ پیغمبر خدا نے فرمایا:”بیٹی فاطمہ ! اپنے شوہر اور اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ“۔ بی بی فاطمہ نے اُن کو اطلاع دی اور وہ آگئے۔ غذا تناول کرنے کے بعد پیغمبر نے چادر اُن پر ڈال دی اور کہا: ’اَلّٰلھُمَّ ھٰوٴُلٰاءِ اَھْلُبَیْتِیْ وَعِتْرَتِیْ فَاَذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْہِیْرا‘ ”خداوندا! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ ان سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھ اور ان کو ایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔ اس وقت یہ آیت ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“نازل ہوئی۔ میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں بھی آپ کے ساتھ اس میں شامل ہوں؟“ آپ نے فرمایا:”سلمہ! تو خیر اور نیکی پر ہے(لیکن تو اس میں شامل نہیں)“۔ (ج)۔ علمائے اہلِ سنت کی کثیر تعداد نے جن میں ترمذی ، حاکم اور بہیقی بھی شامل ہیں، اس روایت کو نقل کیا ہے: عَنْ اُمِّ سَلْمَہ قٰالَت: فِیْ بَیْتِیْ نَزَلَتْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ وَفِیْ الْبَیْتِ فاطمۃ وَعَلیُ والحسنُ والحُسینُ فَجَلَّلَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہ علیہِ وآلہ وسلَّم بِکِسٰاءِ کَانَ عَلَیْہِ، ثُمَّ قٰالَ: ھٰوٴُلٰاءِ اَھْلُ بَیْتِی فَاَذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَ طَھِّرْھُمْ تَطْھِیْرا۔ ”اُمِ سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہٴ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی۔ آیت کے نزول کے وقت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام گھر میں موجود تھے۔ اُس وقت رسول اللہ نے اپنی عبا جو اُن کے جسم پر تھی، اُن سب پر ڈال دی اور کہا:(اے میرے اللہ)! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ پس ہر قسم کے رجس کو ان سے دور رکھ اور ان کوایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد2،صفحہ56اورصفحہ31۔ 2۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، بابِ مناقب ِ اہلِ بیت ، ج9،ص169 وطبع دوم ،ج9،ص119۔ 3۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، حدیث345،صفحہ301، طبع اوّل۔ 4۔ خطیب ِ بغدادی، تاریخ بغداد ج9،ص126، باب شرح حال سعد بن محمد بن الحسن عوفی 5۔ گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62، صفحہ242اور باب 100،صفحہ371۔ 6۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد3،صفحہ133،146،172 اور جلد2،صفحہ416۔ 7۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں ج3،ص483،البدایہ والنہایہ ج7،ص339، بابِ فضائلِ علی 8۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب 33،صفحہ124اور صفحہ271۔ 9۔ فخر رازی تفسیر کبیر میں، جلد25،صفحہ209۔ 10۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد1،صفحہ369۔ 11۔ سیوطی ، تفسیر الدرالمنشور، جلد5،صفحہ215۔ 12۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، استیعاب، ج3،ص1100، روایت شمارہ1855، بابِ علی 13۔ ذہبی، تاریخ اسلام، واقعات61ہجری تا 80ہجری، تفصیل حالاتِ امام حسین ،ص96 14۔ حافظ بن عساکر، تاریخ دمشق، حدیث98، جلد13،صفحہ67۔ 15۔ ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں جلد22،صفحہ6،7۔ دسویں آیت موٴدتِ اہلِ بیت کا ایک انداز قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی ”(اے میرے رسول) کہہ دو کہ میں تم سے کوئی اجرِ رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے اہلِ بیت سے محبت کرو“۔(سورئہ شوریٰ:آیت23 ) تشریح ”اس آیت کی شانِ نزول اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جب پیغمبر اسلام مدینہ میں تشریف لائے اور اسلام کی بنیاد مضبوط ہوئی تو انصار کی ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:”یا رسول اللہ! ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر آپ کوکوئی مالی یا اقتصادی مشکل درپیش ہے تو ہم اپنے اموال و دولت آپ کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں۔ جب انصار یہ باتیں کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی: ”قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“ ”میں تم سے کوئی اجرِ رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قریبیوں سے مودّت کرو“۔ پس رسولِ خدا نے اپنے قریبیوں سے محبت کرنے کی تاکید کی ہے۔ (مجمع البیان، جلد9،ص29) قربیٰ سے مراد کون کونسے رشتہ دار ہیں؟ قربیٰ کو پہچاننے کا سب سے بہترین اور احسن ترین ذریعہ قرآنی آیات اور روایات ہیں۔ قربیٰ سے محبت تمام مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ یہ اجرِ رسالت بھی ہے ، خدا اور اُس کے رسول کا حکم بھی۔ لہٰذا ان کو پہچاننے میں نہایت دقت اورسوچ سمجھ سے کام لینا ہوگا۔ ہم بغیر کسی مزید بحث کئے ہوئے برادرانِ اہلِ سنت کی کتب سے تین روایات نقل کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں: (ا)۔ احمد بن حنبل کتاب” فضائل الصحابہ“ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں: لَمَّا نَزَلَتْ’قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہ مَنْ قَرابَتُکَ؟مَنْ ھٰوٴلَاءِ الَّذِیْنَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّ تُھُم؟ قَالَ صلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلہ وَسَلَّم علیٌ فاطمۃُ وَ اَبْنآھُمَا وَقٰالَھٰا ثَلَا ثاً۔ جب یہ آیہٴ شریفہ ”قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“ نازل ہوئی۔ اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! آپ کے جن قرابت داروں کی محبت ہم پر واجب ہوئی، وہ کون افراد ہیں؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام، فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اُن کے دونوں فرزند ہیں“۔ آپ نے اسے تین بار تکرار کیا۔ (ب)۔ سیوطی تفسیر”الدرالمنثور“ میں اس آیت پر بحث کرتے ہوئے ابن عباس سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: اَنْ تَحْفَظُوْنِیْ فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ وَتُوَدُّوْھُمْ بِیْ ”میرے اہلِ بیت کے بارے میں میرے حق کی حفاظت کریں اور اُن سے میری وجہ سے محبت کریں“۔ (ج)۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ایک بہترین اور خوبصورت روایت نقل کرتے ہیں۔ فخررازی ، قرطبی اور دوسروں نے بھی اپنی تفسیروں میں اس کے کچھ حصے نقل کئے ہیں۔ یہ حدیث واضح طور پر مراتب و مقام اور فضیلت ِآلِ محمدکوبیان کرتی ہے۔ ہم بھی اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظر تفصیل سے بیان کرتے ہیں: قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (i)۔ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَھِیْداً۔ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا، وہ شہید مرا۔ (ii)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوْراً۔ آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا وہ مغفور (جس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں) مرا۔ (iii)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِباً۔ آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا وہ تائب(جس کی توبہ قبول ہوگئی ہو)مرا۔ (iv)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُوٴمِناً مُسْتَکْمِلَ الاِ یْمَانِ۔ آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا وہ مومن اور مکمل ایمان کے ساتھ مرا۔ (v)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَہ مَلَکُ الْمَوْتِ بِالجَنَّۃِ ثُمَّ مُنکَرٌوَنَکِیرٌ۔ آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اُس کو ملک الموت نے اور پھر منکر و نکیر نے جنت کی بشارت دی۔ (vi)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ یَزَّفُ اِلی الجَنَّۃِ کَمَا تَزُفُّ العُرُوسُ اِلٰی بَیتِ زَوجِھَا۔ آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اُسے جنت میں ایسے لے جایا جائے گا جیسے دلہن اپنے شوہر کے گھر لے جائی جاتی ہے۔ (vii)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ فُتِحَ لَہ فِیْ قَبْرِہ بَابَانِ اِلٰی الجَنَّۃِ آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اُس کی قبر میں دودروازے جنت کی طرف کھول دئیے جاتے ہیں۔ (viii)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ جَعَلَ اللّٰہُ قَبْرَہ مَزَارَ مَلا ئِکَۃِ الرَّحْمَۃِ آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اللہ نے اُس کی قبر کو فرشتوں کی زیارتگاہ بنادیا۔ (ix)۔اَ لَا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ عَلَی السُنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مراوہ اہلِ سنت والجماعت کے طریقہ پرمرا۔ (x)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ جاءَ یَوْمَ القِیٰامَۃِ مَکْتُوْبٌبَیْنَ عَیْنَیْہِ اَئِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ۔ آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنیِ آلِ محمد میں مرا وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ”خدا کی رحمت سے مایوس“ لکھا ہوا ہوگا۔ (xi)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ کَافِرًا آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنیِ آلِ محمد میں مرا، وہ کافر مرا۔ (xii)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ یَشُُمَّ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ۔ آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنیِ آلِ محمد میں مرا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گا۔ آلِ محمد کے بارے میں فخرالدین رازی کے نظریات بڑی دلچسپ بات ہے کہ فخرالدین رازی جو اہلِ سنت کے بڑے بزرگ عالمِ دین ہیں، نے حدیث ِ بالا جو تفسیر کشاف میں بڑی واضح طور پر اور تفصیل سے بیان کی گئی ہے، کو اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد لکھاہے کہ آلِ محمد سے مرادوہ افراد ہیں جن کا پیغمبر خدا سے بڑا گہرا اور مضبوط تعلق ہو اور اس میں شک تک نہیں کہ جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کا تعلق پیغمبر خدا سے سب سے زیادہ تھا اور یہ مسلمہ حقیقت ہے اور روایاتِ متواترہ سے ثابت شدہ ہے۔پس لازم ہے کہ انہی ہستیوں کو آلِ محمد قرار دیاجائے۔ فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں اس حدیث کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! وہ آپ کے قریبی رشتہ دار کون سے افراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام ، فاطمہ سلام اللہ علیہا، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں“۔ اس کے علاوہ اہلِ سنت کی کتابوں میں بہت سی دوسری احادیث اور روایات اس بارے میں بیان کی گئی ہیں۔ اُن سب کو یہاں پر بیان کرنا ممکن نہیں اور صرف مزید اطلاع دینے کی غرض سے اشارہ کررہے ہیں کہ اوپر درج کی گئی حدیث جو محبت ِآلِ محمد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑی اہم ہے، اہلِ سنت کی کم از کم پچاس معروف کتابوں میں درج کی گئی ہے۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ، جلد4،صفحہ219۔ 2۔ بیضاوی اپنی تفسیر(تفسیر بیضاوی ) میں، جلد2،صفحہ362۔ 3۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد 4،صفحہ112۔ 4۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب32،صفحہ123اور 444، اس کے علاوہ اس حدیث کو مکمل طور پر مقدمہٴ کتاب میں بھی نقل کیا ہے۔ 5۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِعلی علیہ السلام میں، حدیث352،صفحہ307۔ 6۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد2،صفحہ130، طبع اوّل، حدیث822۔ 7۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل، کتاب الفضائل میں، حدیث263،صفحہ187،طبع اوّل، بابِ فضائلِ امیرالمومنین علی ۔ 8۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، جلد9،صفحہ168، بابِ فضائلِ اہلِ بیت ۔ 9۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ7،8۔ 10۔ فخر رازی اپنی تفسیر(تفسیر کبیر) میں، جلد27،صفحہ166۔ 11۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب86۔ 12۔ حموینی ، کتاب فرائد السمطین، باب26،جلد2،صفحہ120۔ 13۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ حبیب ابن ابی ثابت کے تراجم میں، جلد5،صفحہ367۔ 14۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد3،صفحہ172 اور بہت سے علمائے اہلِ سنت۔ گیارہویں آیت علی نفس رسول ہیں (علی اور اہلِ بیت آیت ِمباہلہ میں) فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنآءَ نَا وَاَبْنآءَ کُمْ وَنِسآ ءَ نَا وَ نِسآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ۔ ”پس آپ کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو(بلائیں)اور تم اپنی عورتوں کو(بلاؤ) اور ہم اپنے نفسوں کو(بلائیں) اور تم اپنے نفسوں کو(بلاؤ) پھر ہم خدا کی طرف رجوع کریں اور خدا کی لعنت جھوٹوں پر قرار دیں“۔(سورئہ آلِ عمران:آیت61)۔ تشریح تمام مفسرین اور محدثین اہلِ سنت اور شیعہ کے مطابق یہ آیت (جو آیت ِ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے)اہلِ بیت کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں ”اَبْنآءَ نَا“سے امام حسن اور امام حسین مراد ہیں،”نِسآءَ نَا“سے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور”اَنْفُسَنَا“سے علی ابن ابی طالب علیہما السلام مرادہیں۔ روایات لکھنے سے پہلے ہم مباہلہ کے واقعہ کو مختصراً بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کودعوتِ اسلام دی۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادریوں نے باہم مشورہ کیا اور اکٹھے ہوکر مدینہ میں آئے او رپیغمبر اسلام سے ملاقاتیں کیں اور بحث و مباحثہ شروع کردیا۔یہ سلسلہ مناظرہ تک جاپہنچا۔ رسول اللہ نے انہیں محکم دلائل دئیے جس کے جواب میں عیسائیوں نے اپنے عقائد کو درست قرار دینے کیلئے بحث میں ضد کی۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحکم خدا عیسائیوں کو مباہلہ(مخالف گروہوں کا مل کر جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجنا)کی دعوت دی تاکہ حق ظاہر ہوجائے۔ عیسائیوں نے یہ دعوت قبول کرلی اور قرار پایا کہ مباہلہ کیلئے اگلے روز مدینہ سے باہر کھلے میدان میں جمع ہوں گے۔ مباہلہ کا وقت آن پہنچا۔ تمام عیسائی ، اُن کے علماء اور راہب مدینہ سے باہر مقررہ جگہ پر پہنچ گئے اور پیغمبر اسلام کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔اُن کا خیال تھا کہ آپ یقینا مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے ہمراہ آئیں گے۔ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ نصاریٰ نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ پیغمبر خدا کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت ہے نہ اصحاب و انصار کی کوئی تعداد۔آپ بڑی متانت کے ساتھ صرف چار افراد کے ہمراہ تشریف لارہے ہیں۔ اُن میں سے ایک بچہ(آپ کا نواسہ امام حسین علیہ السلام) ہے جو آپ کی گود میں ہے۔ دوسرے بچے(آپ کا نواسہ امام حسن علیہ السلام)کی انگلی پکڑی ہوئی ہے۔ آپ کے پیچھے ایک بی بی ہیں جن کو خاتونِ جنت کہا جاتا ہے یعنی سیدہ فاطمۃ الزہرا اور اُن کے پیچھے اُن کے شوہرنامدار حضرت علی ہیں۔ ان سب افراد کے چہروں سے نورانی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔یہ سب افراد کمالِ اطمینان اور ایمانِ راسخ کے ساتھ آہستہ آہستہ میدان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ عیسائیوں کا رہبر” اسقف اعظم“ حیران ہوا اوراپنے لوگوں سے پکار کر کہنے لگا کہ دیکھو! محمد اپنے بہترین عزیزوں کو لے کر مباہلہ کیلئے تشریف لا رہے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر اُن کو مباہلہ میں کوئی فکروتشویش ہوتی تو ہرگز اپنے قریبی رشتہ داروں کو نہ لاتے۔ اے لوگو!ان افراد کے چہروں سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔ اگر یہ افراد خدا سے دعا کریں تو پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت کرنا شروع کردیں۔لہٰذا ان سے مباہلہ کرنے سے گریز کریں وگرنہ ہم سب عذابِ خدا میں گرفتار ہوجائیں گے۔ اس موقع پر اسقف نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم آپ سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ پیغمبر خدا نے اُن کی تجویز کو قبول کرلیا اور معتبر روایات کے مطابق علی علیہ السلام کے دست ِ مبارک سے صلح نامہ لکھا گیا۔ اوپر بیان کئے گئے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند روایات جو تشریح اور تفسیر آیت ِ مباہلہ کے ضمن میں نقل کی گئی ہیں، ملاحظہ فرمائیں: (ا)۔ ابو نعیم اپنی کتاب حلیة الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ عامر بن سعد اپنے باپ سے اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں: لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِ ہِ الاٰ یَۃُ(”فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنآءَ نَا وَاَبْنآءَ کُمْ وَنِسآ ءَ نَا وَ نِسآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ“)دَعٰا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلہ وَسَلَّم عَلِیاً وَفَاطِمۃَ وَحَسَناًوَحُسَیْناً فَقَالَ:اَلَّلھُمَّ ھٰوٴُلاءِ اَھْلِیْ۔ جس وقت یہ آیت” فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنآءَ نَا وَاَبْنآءَ کُمْ وَنِسآ ءَ نَا وَ نِسآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ“نازل ہوئی، پیغمبر اسلام نے علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور خدا کے حضور عرض کی:”پروردگار! یہ میرے اہلِ بیت ہیں“۔ (ب)۔ اسی طرح کتاب حلیة الاولیاء میں اسناد کے ساتھ جابر روایت کرتے ہیں: قَالَ جَابِرُ: فِیْھِمْ نَزَلَتْ ھٰذِہِ الآ یَۃُ قَالَ جَابِرْ:اَنْفُسَنَا رَسُوْلُ اللّٰہ وَعَلِیٌّ وَ ”اَبْنآءَ نَا“ اَلحَسَنُ وَالحُسَیْنُ وَ ”نِسآءَ نَا“ فَاطِمَۃُ۔ جابر کہتے ہیں کہ یہ آیہٴ شریفہ” فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنآءَ نَا وَاَبْنآءَ کُمْ وَنِسآءَ نَا وَ نِسآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْقفثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ“ان ہستیوں(یعنی حضرت محمد، علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام)کیلئے نازل ہوئی ہے۔ جابر کہتے ہیں کہ اَنْفُسَنَاسے رسولِ خدا اور علی علیہ السلام اوراَبْنآءَ نَا سے حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اورَنِسآءَ نَا سے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا مراد ہیں۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد12،صفحہ80 اور اشاعت ِ دوم، جلد8،صفحہ85۔ 2۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد1،صفحہ371 ، البدایہ والنہایہ ،جلد7،ص340،بابِ فضائلِ علی علیہ السلام۔ 3۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد2،صفحہ43اور کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ169۔ 4۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب، باب32،صفحہ142۔ 5۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِعلی علیہ السلام، حدیث310،صفحہ263اور318۔ 6۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد1،صفحہ125، اشاعت ِ اوّل۔ 7۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودة، بابِ مناقب، ص275،حدیث10،ص291 8۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد1،صفحہ36، اشاعت ِ دوم، صفحہ193۔ 9۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد3،صفحہ150(اشاعت ِ حیدرآباد)۔ 10۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد1،صفحہ163۔ 11۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چوتھا باب، جلد2،صفحہ23، اشاعت ِ اوّل۔ 12۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب”ما نزل من القرآن فی علی “ ، کتاب دلائل النبوة،ص 297 13۔ احمد بن حنبل، کتاب مسند، جلد1،صفحہ185،اشاعت ِ مصر۔ 14۔ طبری اپنی تفسیر میں، جلد3،صفحہ192۔ 15۔ واحدی نیشاپوری، کتاب اسباب النزول میں، صفحہ74(اشاعت ِ انڈیا)۔ 16۔ آلوسی ، تفسیر ”روح المعانی“میں، جلد3،صفحہ167،اشاعت ِ مصر۔ 17۔ علامہ قرطبی، ”الجامع الاحکام القرآن“، جلد3،صفحہ104، اشاعت ِمصر1936۔ 18۔ حافظ احمد بن حجر عسقلانی،’کتاب الاصابہ‘ ،ج2،ص502، اشاعت :مصطفی محمد، مصر۔ بارہویں آیت اللہ تعالیٰ نے علی کو ایمانِ کامل اورعملِ صالح کے سبب دلوں کا محبوب بنادیا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔ ”بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے، عنقریب خدائے رحمٰن اُن کیلئے ایک محبت قرار دے گا“۔(سورئہ مریم:آیت96) تشریح اس آیت میں دو نکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے: (ا)۔ یہ آیہٴ شر یفہ ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کا اثر پوری کائنات پر چمکتا ہے اور نتیجتاً اُس کی محبوبیت کی شعاعیں تمام مخلوق کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیتی ہیں اور وہ ذاتِ اقدس ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں کو دوست رکھتی ہے اور اُن کو تمام مخلوقات کا بھی محبوب بنادیتی ہے۔ (ب)۔ اگرچہ ہر فرد ایمان لانے کے بعد عملِ صالح بجالانے پر اس منزل کو پاسکتا ہے لیکن اہلِ سنت اور شیعہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت سب سے پہلے امیر الموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ حقیقت میں تمام اصحابِ رسول میں سب سے پہلے جو ایمان اور عملِ صالح کے نتیجہ میں عنایاتِ خداوندی کا مستحق ٹھہرا اور جس کی محبت تمام توحید پرستوں کے دلوں میں ڈال دی گئی، وہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تھے۔ اس سلسلہ میں روایات ملاحظہ ہوں: (ا)۔ عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَولہِ تعالٰی”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا“ قَالَ: اَلْمُحَبَّۃُ فِی صُدُوْرِ المُوٴمِنِینَ نَزَلَتْ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْہِ السَّلَام۔ ”ابن عباس ے روایت ہے کہ آپ نے اس آیت’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا‘کے بارے میں فرمایا کہ خدا محبت کو موٴمنوں کے دلوں میں جگا دیتا ہے اور یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے(اور یہ اس بات کو بیان کرتی ہے کہ خدا نے محبت ِعلی علیہ السلام موٴمنوں کے دلوں میں ڈال دی ہے)۔ (ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں براء بن عاذب سے اس طرح نقل کرتے ہیں: قَالَ رسول اللّٰہ لعلی ابن ابی طالب:یَا عَلِیُّ وَ قُل، اَلّٰلھُمَّ اجْعَلْ لِیْ عِنْدَکَ عَھْداً وَاجْعَلْ لِی فِی صُدُوْرِ الْمُوٴمِنِیْنَ مَوَدَّة، فَانْزَلَ اللّٰہُ ”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا“ قَالَ: نَزَلَتْ فِیْ عَلِی۔ ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب علیہما السلام سے فرمایا:’کہو ، اے میرے اللہ! میرے لئے اپنی دوستی(محبت) قرار دے اور میرے لئے موٴمنوں کے دلوں میں محبت ڈال دے‘۔ اُس وقت یہ آیت”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا“نازل ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کیلئے نازل ہوئی ہے“۔ (ج)۔ حافظ حسکانی کتاب ”شواہد التنزیل“ میں اس آیت کے ضمن میں ابن حنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:”میں نے امیر الموٴمنین سے پوچھا کہ اس آیت”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا“سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟“ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کسی مردوزن موٴمن کو نہیں پاؤ گے جس کے دل میں علی اور اُن کی آل کی محبت نہ ہو(یعنی ایمان کی اہم ترین شرط علی اور اُن کی پاک آل سے محبت ہے)“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد4،صفحہ287اور اشاعت ِ دوم،صفحہ315۔ 2۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب اوّل من یحبُ علیاً او یبغضہ جلد9،صفحہ125۔ 3۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث 502،جلد1،صفحہ365۔ 4۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چودہواں باب، جلد1،صفحہ79۔ 5۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد3،صفحہ47۔ 6۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، حدیث374،صفحہ327،اشاعت ِ اوّل۔ 7۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب62،صفحہ249۔ 8۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ250اور363۔ 9۔ طبرانی، کتاب معجم الکبیر، جلد3،صفحہ172(ترجمہ عبداللہ بن عباس)۔ 10۔ ثعلبی اپنی تفسیر کشف البیان ، جلد2،صفحہ4۔ تیرہویں آیت علی تنہا اس آیت کے حکم پر عمل کرنے والے ہیں یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰ کُمْ صَدَ قَۃً ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْھَرُفَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم۔ ”اے ایمان لانے والو! جب تم رسول سے علیحدگی میں کچھ عرض کرنا چاہو تو اپنے اس تخلیہ سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو ، تمہارے لئے بہتر(بھی) ہے اور زیادہ پاک کرنے والا(بھی)پھر تم کو اگر یہ میسر نہ ہو تو ضرور اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے“۔(سورئہ مجادلہ:آیت13)۔ تشریح اس سے پہلے کہ اس آیہٴ شریفہ سے متعلق روایات نقل کی جائیں، مناسب ہوگا کہ مرحوم علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں اور دوسرے بہت سے مفسرین نے اپنی معروف کتب میں اس آیت کے شانِ نزول میں جو ذکر کیا ہے، اُس پر توجہ فرمائیں۔ عرب کے تقریباً سبھی اُمراء پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتے تھے اور آپ سے رازونیاز کی باتیں آپ کے کان میں کرتے تھے( اس عمل سے نہ صرف پیغمبر اسلام کا قیمتی وقت ضائع ہوتا تھا بلکہ غرباء کیلئے باعث ِتشویش بنتا جارہا تھا یعنی اُمراء اس کو اپنا حق تصور کرنے لگے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اور اس کے بعد والی آیت کو نازل فرمایا اور حکم دیا کہ پیغمبر اکرم کے کان میں سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ دیا جائے اور اسے مستحقین تک پہنچا دیا جائے۔ جب اُمراء، اغنیاء اور سرداروں نے یہ حکم سنا تو سرگوشی کرنے سے پرہیز کرنے لگے تو اس آیت کے بعد والی آیت نازل ہوئی(جس میں بخل کرنے پر اُن کی مذمت کی گئی اور کچھ رعایت دی گئی) اور سرگوشی کرنے کی اجازت سب کو دے دی گئی۔ اہلِ سنت اور شیعہ مفسرین نے جو روایات نقل کی ہیں، اُن کی بناء پر تو صرف اور صرف علی نے اس آیت پر بڑی شائستگی کے ساتھ عمل کیا اور وہی اس امتحان میں کامیاب ہوئے۔ اس سلسلہ میں دو روایات پر توجہ فرمائیں: (ا)۔ قٰالَ عَلِیٌّ عَلَیْہِ السَّلَام: آ یَۃٌ مِّن کِتَابِ اللّٰہِ لَمْ یَعْمَلْ بِھٰا اَحَدٌ قَبْلِی وَلَا یَعْمَلْ بِھَا اَحَدٌ بَعْدِیْ، کَانَ لِیْ دِیْنَارٌ فَصَرَفْتُہُ بِعَشْرَةِ دَرٰاھِمَ فَکُنْتُ اِذَاجِعْتُ اِلَی النَّبِیْ صلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلہ وَسَلَّم تَصَدَّقْتُ بِدِرْھَمٍ۔ ”حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن میں یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر نہ مجھ سے پہلے اور نہ ہی کسی نے بعد میں عمل کیا۔ میرے پاس ایک دینار تھا جس کو میں نے دس درہموں میں تبدیل کیا اور جب بھی میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی راز کی بات کرتا تو میں اس سے قبل ایک درہم صدقہ دے دیتا“۔ (ب)۔عَنْ اِبْن عَبَّاس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فی قَولِہِ تَعٰالٰی ”یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰ کُمْ صَدَقَۃً ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْھَرُ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم“قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ کَلٰامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلہ وَسَلَّم و(اصحابُ رسولِ اللّٰہ)بَخِلُوْا اَنْ یَّتَصَدِّ قُوْا قَبْلَ کَلامِہ قَال:وَتَصَدَّقَ عَلَیٌّ وَلَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ اَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غَیْرُہ ”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس آیت یعنی ”یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَۃً ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْھَرُطفَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم)“ میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے ساتھ سرگوشی کو حرام قراردیاہے مگر یہ کہ جو چاہے وہ پہلے صدقہ دے ۔ اصحاب نے اس ضمن میں سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ دینے میں بخل سے کام لیا اور صرف علی علیہ السلام نے صدقہ دیا اور اس کام کو سوائے علی علیہ السلام کے کسی دوسرے مسلمان نے انجام نہ دیا۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ فخر رازی اپنی تفسیر میں،جلد29،صفحہ271۔ 2۔ سیوطی الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ185اور اشاعت ِ دوم صفحہ205اور حدیث25،کتاب جمع الجوامع، جلد2،صفحہ28، اشاعت ِ اوّل۔ 3۔ حافظ حسکانی، حدیث949، شواہد التنزیل جلد2،صفحہ231،343، اشاعت ِ اوّل۔ 4۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں جلد4،صفحہ326۔ 5۔ حاکم، کتاب المستدرک میں باب”کتاب التفسیر“جلد2،صفحہ482۔ 6۔ ابن مغازلی، مناقب ِ امیر الموٴمنین ، حدیث372،372،صفحہ325،اشاعت اوّل۔ 7۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب66،جلد1،صفحہ358،اشاعت ِ بیروت۔ 8۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب62،صفحہ248،باب29،صفحہ135۔ 9۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، باب27،صفحہ127۔ 10۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد2،صفحہ476۔ 11۔ واحدی، کتاب اسباب النزول، صفحہ308، اشاعت ِ اوّل۔ 12۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“۔ چودہویں آیت علی اور اُن کے شیعہ بہترین مخلوق ہیں اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ ”یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے، ساری مخلوق سے بہتروہی لوگ ہیں“۔(سورئہ بیّنہ:آیت7) تشریح یہ آیت نہایت پُرمعنی اور عظمت والی ہے اورعلی علیہ السلام اور اُن کے حقیقی ماننے والوں کے مدارج و مراتب کو بیان کرتی ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کیلئے ہم مختلف روایات جو اہلِ سنت اور شیعہ مفسرین نے اس ضمن میں بیان کی ہیں، کی طرف رجوع کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں: (ا)۔ حافظ حسکانی کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں: عَنْ ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہ قال: لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِہ الآیۃُ ”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ“ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ لِعَلِیٍّ علیہ السَّلام ھُمْ اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ تَاتِی اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ یَومَ القِیٰامَۃِ رٰاضِیِّیْنَ مَرْضِیِّیْنَ وَیَاتِی عَدُ وُّ کَ غِضْبَاناً مُقْمِحِیْنَ۔ ”ابن عباس سے روایت ہے ،انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت ”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ“ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمنے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ ”یا علی !اس آیت سے مراد تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے روز میدانِ محشر میں اس طرح داخل ہوں گے کہ خدا تم سے اور تم خدا سے راضی ہوگے اور تمہارے دشمن پریشان حالت میں میدانِ محشر میں داخل ہوں گے“۔ (ب)۔ خوارزمی اس آیت کی فضیلتیں بیان کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں: عَنْ جابر قال:کُنَّاعِنْدَالنَّبِیْ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم فَأَ قْبَلَ علی ابن ابی طالب علیہ السلام فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وَسلَّم قَدْأَ تٰاکُمْ اَخِی ثُمَّ اِلْتَفَتَ اِلَی الْکَعْبَۃِ فَضَرَبَھٰابِیَدِہ ثُمَّ قَالَ:وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ اِنَّ ھٰذَا وَشِیْعَتَہُ ھُمُ الفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ قٰالَ اِنَّہ اَوَّلُکُمْ اِیْمَاناً بِاللّٰہِ وَأَوْفٰاکُمْ بِعَھْدِاللّٰہِ تَعَالٰی وَاَقْوَمُکُمْ بِاَمْرِاللّٰہِ وَاَعْدَلُکُمْ فِی الرّعِیَۃِ وَاَقْسَمُکُمْ بِالسَّوِیَّۃِ وَاَعْضَمُکُمْ عِنْدَاللّٰہِ مَزِیَّۃً۔ قَالَ جابر: وَفِی ذٰلِکَ الْوَقْتِ نَزَلَتْ فِیْہِ”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ“ قَالَ وَکَانَ اصحٰابُ النَّبِی اِذَاَقْبَلَ عَلَیْھِمْ علیٌ قَالُوْ قَدْ جَاءَ خَیْرُ البَرِیَّۃِ۔ ”جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم پیغمبر اکرم کی خدمت میں بیٹھے تھے ۔ علی علیہ السلام ہماری طرف آرہے تھے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’میرا بھائی تمہاری طرف آرہا ہے‘۔ پھر کعبہ کی طرف رخِ مبارک کیا اور کعبہ کی دیوار پر ہاتھ لگا کر کہا:”مجھے اُس ہستی کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ شخص اور اس کے شیعہ قیامت کے روز کامیاب ہیں‘۔ بعد میں فرمایا:’خدا کی قسم! وہ تم سب سے پہلے خدا پر ایمان لانے والا ہے۔ خدا کے ساتھ عہد میں اُس کی وفا سب سے زیادہ ہے۔ خدا کے احکام کیلئے اُس کا قیام سب سے زیادہ ہے۔اُس کا عدل اپنی رعیت کے ساتھ سب سے زیادہ ہے اور تقسیمِ بیت المال میں اُس کی مساوات سب سے بڑھی ہوئی ہے اور اُس کا مقام نزدِ خدا سب سے بلند تر ہے“۔ جابر نے کہا:اس وقت خدا کی طرف سے یہ آیت ’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ‘ رسولِ اکرم پر نازل ہوئی۔ اس کے بعد جب بھی علی علیہ السلام اصحابِ پیغمبر کی طرف جاتے تو وہ کہتے کہ بہترین مخلوقِ خدا آرہے ہیں“۔ (ج)۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدرالمنثور میں درج ذیل روایت کو نقل کیا ہے: عَنْ ابنِ مَرْدَوِیۃ، عَنْ علی علیہ السلام قٰالَ:قٰالَ لِی رَسُوْل اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ أَ لَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ اللّٰہِ:”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ“(ھم) أَنْتَ وَشِیْعَتُکَ وَمَوْعِدی وَمَوْعِدُکُمُ الحَوْضُ اِذٰاجِعْتَ الْاُمَمَ لِلْحِسَابِ تَدْعُوْنَ غُرّاً مُحَجَّلِیْنَ۔ ”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :پیغمبر اسلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا تم نے خدا کا یہ کلام ”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ“ سنا ہے؟ ‘ پھر فرمایاکہ’وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ تمہارا اور میرا مقام حوضِ کوثر ہے۔ جب اُمتوں کو حساب کیلئے بلایاجائے گا تو تم اس حالت میں آؤ گے کہ تمہاری پیشانی سفید ہوگی اور جانی پہچانی ہوگی“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد2،صفحہ356،359،نمبر1125،1130،اشاعت ِ اوّل۔ 2۔ حافظ ابن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، جلد2،صفحہ344،442،باب امیر الموٴمنین کے حالات، حدیث852،958، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔ 3۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد6،صفحہ379،اشاعت ِ دوم، صفحہ424۔ 4۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، جلد1،صفحہ155، باب31۔ 5۔ گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، صفحہ245،باب62۔ 6۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ361۔ 7۔ بلاذری، کتاب النساب الاشراف، ج2ص113حدیث50،اشاعت ِ اوّل بیروت 8۔ شبلنجی ،کتاب نورابصار، صفحہ70،101۔ 9۔ خوارزمی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ،حدیث11،صفحہ62۔ پندرہویں آیت پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّ بِّہ وَیَتْلُوْہُ شَاھِدٌ مِّنْہُ وَمِنْ قَبْلِہ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَۃً ”کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہو اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ آتا ہو جو اُسی کا جزو ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(سورئہ ہود:آیت17) تشریح اس آیت ِشریفہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ کون(مَنْ) سے مرادجنابِ رسولِ خدا کی ذاتِ مبارک ہے اور روشن دلیل(بَیِّنَہ)سے مرادقرآنِ مجید ہے اور (نبوت کے) گواہِ صادق(شاہد) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ بعض مفسرین نے شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام کو لیا ہے اور بعض نے َیَتْلُوْہُ کو مادّہ تلاوت سے قرأت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ اس معنی میں کہ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ انہوں نے شاہد سے مراد زبانِ رسول اللہ لی ہے۔ لیکن بہت سے اہلِ سنت اور شیعہ مفسرین نے شاہد سے مراد سچے مومنین لئے ہیں اور سچے مومن کی تصویر علی علیہ السلام کو لیا ہے اور اس ضمن یں بڑی اہم روایات کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہاں بیان کی جاتی ہیں: (ا)۔ سیوطی نے کتاب جمع الجوامع اور تفسیر الدرالمنثور میں یہ روایت بیان کی ہے: حَدَّثْنَا عبادُ بنُ عَبْدِاللّٰہِ الاَ سَدِی قال:سَمِعْتُ عَلِیَّ بنَ ابی طالبٍ وَھُوَ یَقُولُ:مٰا أَحَدٌ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا وَقَدْ نَزَلَتْ فیہِ آیۃٌ وآیتانِ فَقٰالَ لَہُ رَجُلٌ:وَمٰانَزَلَ فِیْکَ یٰااَمِیْرَالموٴمنینَ؟قٰالَ:فَغَضِبَ ثُمَّ قٰالَ: اَمٰاوَاللّٰہِ لَولَمْ یَسْأَلْنِیْ عَلٰی رُوٴوسِ الْقَوْمِ مٰاحَدَّ ثْتُکَ،ثُمَّ قال:ھَلْ تَقْرَأُ سورةَ ھودٍ؟ ثُمَّ قَرَاءَ:”اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّ بِّہ وَیَتْلُوْہُ شَاھِدٌ مِّنْہُ“رسولُ اللّٰہ عَلٰی بَینۃٍ مِنْ رَبَّہِ وَاَنَاالشّٰاھِدُ مِنْہُ۔ ”عباد بن عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ قریش کے سرداروں میں کوئی نہیں مگر اُس کے بارے میں ایک یا دو آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ پس ایک شخص نے سوال کیا:یا امیر الموٴمنین ! آپ کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی ہے۔ آپ(اُس شخص کے جہل یا عداوت کی وجہ سے) غضبناک ہوئے اور کہا کہ اگر دوسرے لوگ موجود نہ ہوتے تو میں تمہارے سوال کا جواب نہ دیتا۔ اُس وقت آپ نے فرمایا : کیا تم نے سورئہ ہود پڑھی ہے؟ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ”اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّ بِّہ وَیَتْلُوْہُ شَاھِدٌ مِّنْہُ“ ”اور فرمایا کہ پیغمبر روشن دلیل یعنی قرآنِ مجید (بَیِّنَۃٍ) رکھتے تھے اور میں گواہ تھا“۔ (ب)۔ کچھ مفسرین اس روایت کو نقل کرتے ہیں: عَنْ انس(فی قَولِہ تعالٰی)”اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّہ وَیَتْلُوْہُ شَاھِدٌ مِّنْہُ“قَالَ ھُوَرسولُ اللّٰہِ ”وَیَتْلُوْہُ شَاھِدٌ مِّنْہُ“قَالَ ھُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب، کَانَ وَاللّٰہِ لِسَانَ رَسُولِ اللّٰہِ۔ ”انس بن مالک سے اس آیت کی تفسیر سے متعلق روایت کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آیت کے اس حصہ”اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّہ“سے مراد پیغمبر اسلام کی ذاتِ مبارک ہے اور”یَتْلُوْہُ شَاھِدٌ مِّنْہُ“سے مرادعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ خدا کی قسم! یہ(علی کا نام)رسول اللہ کی زبان پر تھا“۔ (ج)۔ تفسیر برہان، جلد2،صفحہ213پر یہ روایت بیان کی گئی ہے: امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس آیت میں ”شاہد“ سے مراد امیرالموٴمنین علی علیہ السلام ہیں اور اُن کے یکے بعد دیگرے جانشین ہیں۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ سیوطی، کتاب جمع الجوامع، جلد2،صفحہ68،حدیث407،408 اور ج3،ص324۔ 2۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، جلد2،صفحہ420،حدیث928۔ 3۔ گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب 62،صفحہ235۔ 4۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث386،جلد1،صفحہ277۔ 5۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب ِ امیرالموٴمنین ، حدیث318،صفحہ270۔ 6۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب26،صفحہ115۔ 7۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال، جلد1،صفحہ251،اشاعت ِ اوّل۔ 8۔ طبری اپنی تفسیر میں جلد15،صفحہ272،شمارہ18048۔ 9۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد2،صفحہ239۔ سولہویں آیت علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰہِ وَرُسُلِہ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّھَدَآءُعِنْدَ رَبِّھِمْ۔ لَھُمْ اَجْرُھُمْ وَنُوْرُھُمْْ۔ ”اور جو لوگ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی تو اپنے پروردگارکے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ اُن کا اجر اور اُن کا نور اُن ہی کیلئے ہوگا“(سورئہ حدید،آیت19) تشریح اس میں کوئی شک نہیں کہ سچائی اور راست گوئی ایسی صفت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ہمیں یہ صفت حضرتِ علی کے وجودِ پاکِ میں روزِ روشن کی طرح نظر آتی ہے۔ اگرچہ اہلِ سنت میں خلیفہٴ اوّل ہی صدیق کے طور پر مشہور ہیں لیکن بہت سی روایات جو اہلِ سنت اور شیعہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں، اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفت ِسچائی اور راست گوئی ہر لحاظ سے مکمل طور پر حضرت علی علیہ السلام کے وجودِ پاک میں نظر آتی ہے۔ چند روایاتِ ذیل پرتوجہ فرمائیں: (ا)۔ عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَوْلِہ تعٰالٰی”وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰہِ وَرُسُلِہ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ“قال صدیقُ ھَذِہ الْاُمَّةِ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب ھُوَ الصِّدِّ یقُ الْاَکْبَرُ وَالْفَارُوْقُ الْاَعْظَمُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت ِشریفہ”وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰہِ وَرُسُلِہ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْن“کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس اُمت کے صدیق علی ابن ابی طالب ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیقِ اکبر بھی ہیں اور فاروقِ(حق اور باطل کو جدا کرنے والا) اعظم بھی“۔ (ب)۔عَنْ عبدالرحمٰنِ بن ابی لیلٰی عَنْ اَبِیْہِ قٰالَ رسولُاللّٰہِ اَلصِّدِّیْقُوْنَ ثَلاٰ ثَۃٌ: حَبِیبُ النَّجَّارِ، موٴمِنُ آلِ یٰسِینَ وَحِزْبِیْلُ مُوٴمِنُ آلِ فِرْعَوْنَ وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطالِبٍ وَھُوَ اَفْضَلُھُمْ۔ ”عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تین افراد صدیق ہیں اور وہ ہیں:حبیب ِنجار، مومنِ آلِ یاسین اور حزبیل مومنِ آلِ فرعون اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور علی علیہ السلام اُن سب سے افضل ہیں“۔ (ج)۔ عَنْ عُبادِ بنِ عَبْداللّٰہِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیّاً علیہ السلام یقولُ: أَ نَا الصِّدِّیقُ الْاَکْبَرُ لَایقُولُھَا بَعْدِیْ اِلَّا کَذَّابٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ۔ ”عباد بن عبداللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی صدیقِ اکبر ہوں اور میرے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو صدیقِ اکبر نہیں کہلا سکتا لیکن سوائے جھوٹے اور کذاب کے اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی(یعنی سب سے پہلے خدا اور اُس کے رسول پر میں ایمان لایا)“۔ (د)۔ اسی طرح سب علمائے اہلِ سنت مثلاً حافظ ابی نعیم، ثعلبی، حافظ بن عساکر، سیوطی اور دوسرے بہت سے مفسرین سورئہ توبہ آیت119”اِتَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن“میں ابن عباس اور دوسروں سے بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ”الصادقین“ سے مراد علی ہیں ۔ روایت اس طرح سے ہے: عَنْ ابنِ عباس فِی قولہ تعٰالٰی’اِتَّقُواللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ‘ قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلَامُ خٰاصَّۃً۔۔۔۔۔۔۔“ ”ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد2،صفحہ282،حدیث812،اشاعت ِ اوّل۔ 2۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، صفحہ246،247، حدیث296۔ 3۔ گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ236اور باب24،صفحہ123۔ 4۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل۔ 5۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب 42،صفحہ146۔ 6۔ نسائی، کتاب خصائصِ امیرالموٴمنین ، حدیث6،صفحہ38۔ 7۔ سیوطی ،کتاب اللئالی المصنوعہ، بابِ فضائلِ علی ، جلد1،صفحہ160۔ 8۔ احمد بن حنبل، کتاب الفضائل، بابِ فضائلِ امیر الموٴمنین ،حدیث117،صفحہ78۔ 9۔ حافظ المزی،کتاب تہذیب الکمال، ترجمہ العلاء بن صالح، جلد4،صفحہ193۔ سترہویں آیت اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی ھُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِہ وَبِالْمُوٴْمِنِیْنَ۔یٰٓاَ یُّھَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ۔ ”وہ وہی ہے جس نے اپنی امداد سے اور مومنین کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی تھی۔ اے نبی! تمہارے لئے اللہ اور موٴمنین میں سے جو تمہارا اتباع کرتے ہیں، وہی کافی ہیں ہیں“۔(سورئہ انفال: آیات62،64)۔ تشریح کچھ مفسرین نے ان آیات کے ضمن میں خصوصاً آیت :64کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں کے قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر کے کچھ افراد پیغمبر اسلام کی خدمت میں مکروفریب سے حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ” اے پیغمبر خدا! ہم حاضر ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی پیروی کریں اور مدد کریں“۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہہ رہا ہے کہ ہرگز کسی غیر پر اعتماد نہ کریں بلکہ اللہ اور وہ موٴمنین جو آپ کی اتباع کرتے ہیں، آپ کے لئے کافی ہیں، انہی پر اعتماد کریں(تفسیر تبیان، جلد5،صفحہ152)۔ اہلِ سنت اور شیعہ علماء کی کثیر تعداد روایات لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں مومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ اگرچہ دوسرے موٴمنین بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان آیتوں کے مصداق(پوری طرح آیت کے مطابق) علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ تمام مشکلات اور سخت حالات میں علی علیہ السلام کے وجودِ مقدس پر فخر کیا۔ ذیل میں لکھی گئی دو روایات پر توجہ فرمائیں: (ا)۔ عَنْ اَبِیْ ھُریرةِ قَالَ: قال رسولُ اللّٰہ رَأَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِلَی السَّمٰاءِ عَلَی الْعَرْشِ۔مَکْتُوْباً: لَااِلٰہَ اِلّٰا أَنَا وَحْدِیْ لَا شَرِیْکَ لِیْ وَمحمدًعَبْدِی وَرَسُوْلِی اَیَّدْتُہُ بِعَلیٍّ(قال)فَذٰلِکَ قَوْلُہُ”ھُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہ وَبِالْمُوٴْمِنِیْن“۔ ”ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شب ِمعراج میں نے دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا :’میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں تنہا اور لاشریک ہوں اور محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے علی کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد کی ہے اور اس آیت ِ شریفہ”ھُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِہ وَبِالْمُوٴْمِنِیْنَ“ میں بھی اسی طرف اشارہ ہے“۔ (ب)۔ حافظ حسکانی جو اہلِ سنت کے نامور عالم ہیں، کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں جو معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت”یٰٓاَ یُّھَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ“ کی تفسیرمیں فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے جو ہمیشہ رسول اللہ کے مددگار و حامی و ناصر رہے ہیں۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں حدیث926، باب احوالِ امیرالموٴمنین ، ج2،ص419 2۔ گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ234۔ 3۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد3،صفحہ216،اشاعت ِ دوم، صفحہ199۔ 4۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ299،جلد1،صفحہ223اور اشاعت ِ اوّل میں جلد1،صفحہ230،شمارہ305۔ 5۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب مناقب ِ علی علیہ السلام، جلد9،صفحہ121۔ 6۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب 23،صفحہ109 اور باب2ص21 7۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج1،ص269،حدیث1006اور ص530،ج1،شمارہ1977۔ 8۔ المحب الطبری، کتاب ریاض النضرہ، جلد2،صفحہ172۔ 9۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد6،صفحہ158، اشاعت ِ اوّل۔ اٹھارہویں آیت حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوتِ قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے وَلَوْنَشَآءُ لَاَرَیْنَکَھُمْ فَلَعَرَفْتَھُمْ بِسِیْمٰھُمْ۔وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ۔ ”اور اگر ہم چاہیں تو ہم اُن لوگوں کو تمہیں دکھلا دیں پھر تم اُن لوگوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان لو اور تم اُن کو اُن کی بات کے لہجے سے ضرور پہچان لوگے“۔(سورئہ محمد، آیت:30)۔ تشریح اس آیت ِشریفہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اسلام کومنافقین کی اور شقاوتِ قلبی رکھنے والے انسانوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے :”اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں اُن کی شناخت کروادیں گے“ تاکہ صرف اُن کی چال ڈھال اور قیافہ دیکھنے سے ہی اُن کو پہچا ن لو۔ اس کے علاوہ اُن کے لہجہ و کلام سے بھی پہچان سکتے ہو کہ اُن کے ناپاک دلوں میں کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے بولنے کا انداز کیا تھا کہ پروردگار نے اُس کو منافقین کے پہچاننے کا ایک اہم طریقہ بتایا۔اس ضمن میں اہلِ سنت اور شیعہ علماء نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کیلئے شدید دشمنی اور کینہ پایا جاتا تھا۔ البتہ وہ اپنی اس دشمنی اور کینہ کو رسول اللہ کی زندگی میں واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ شاید وہ اس میں اپنی بھلائی اور فائدہ نہیں دیکھتے تھے ۔ اس لئے وہ موقع بہ موقع رسول اللہ اور مسلمانوں کے پاس آکر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کرتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔ اُن کی اس چال کا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کمزور کرنا اور اُن کی محبوبیت کو کم کرنا تھا۔ لیکن خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کرکے اُن کے مکروفریب کو باطل کردیا اور اُن کے ناپاک چہروں کو سب کے سامنے آشکار کردیا۔ اس ضمن میں دو روایات پر توجہ فرمائیں: (ا)۔ عَنْ اَبی سعیدُالخَدْری فِی قولہ عزوجل”وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ“ قال بِبُغْضِھِمْ عَلَیّاً عَلَیْہِ السَّلَام۔ ”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ اس آیت’وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ‘ کی تفسیر میں فرمایاکہ یہ علی کی دشمنی اور بغض کی وجہ سے ہے(یعنی دشمنیِ علی اُن کی زبان سے ظاہر ہوجاتی ہے)“۔ (ب)۔ درج ذیل روایت کو اکثر مفسرین نے اس آیت کی بحث کے دوران ذکر کیا ہے اور رسول اکرم کے خاص صحابہ کی زبان سے بیان کی گئی ہے جیسے ابی سعید اور دوسروں نے نقل کیا ہے: کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ بِبُغْضِھِمْ عَلِیّاً۔ ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو اُن کی علی علیہ السلام سے دشمنی کے سبب پہچانتے تھے“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، جلد2،صفحہ178،حدیث883،اشاعت ِ اوّل۔ 2۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،ج2، ص421،حدیث929،بابِ احوالِ علی ،اشاعت2 3۔ گنجی شافعی،کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ235۔ 4۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیرالموٴمنین ، حدیث359،362،صفحہ315۔ 5۔ سیوطی، تفسیر المدرالمنثور، جلد6،صفحہ74اورتاریخ الخلفاء،صفحہ170۔ 6۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد3،صفحہ110۔ 7۔ بلاذری، انساب الاشراف، جلد2،صفحہ96،حدیث19،اشاعت اوّل از بیروت۔ 8۔ متقی ہندی کنزالعمال، جلد1،صفحہ251،اشاعت اوّل اور اسی طرح احمد بن حنبل ۔ کتاب فضائل میں اور ابن اثیر کتاب جامع الاصول میں، طبری کتاب ریاض النضرہ میں اور بہت سے دوسرے۔ اُنیسویں آیت علی صالح المو منین ہیں وَاِنْ تَظٰھَرَاعَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَمَوْلَہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُوٴْمِنِیْنَ۔ ”اور اگر تم دونوں ہمارے رسول کے برخلاف ایک دوسرے کے پشت و پناہ بنو تو اللہ ، جبرئیل اور صالح مومنین اُس کے مددگار ہیں“۔(سورئہ تحریم:آیت4) تشریح یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ اگرچہ کلمہ”صالح الموٴمنین“ اپنے اندر وسیع تر معنی رکھتا ہے اور تمام صالح مومنین اور پرہیز گار اس میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن مومنِ کامل اور اکمل ترین انسان کون ہے؟اس کے لئے ہمیں روایات سے مدد لینا ہوگی اور روایات کو دیکھنا ہوگا۔ تحقیق کرنے پر بڑی آسانی سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ شیعہ علماء سے منقول روایات کے علاوہ اہلِ سنت نے بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان سب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ متذکرہ بالا آیت میں صالح مومنین سے مراد ذاتِ مقدسِ امیر الموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ یہاں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں: (ا)۔ عَنْ اَسماءِ بنتِ عُمَیس قٰالَتْ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقْرَأُ ھٰذِہِ الآیَة:وَاِنْ تَظٰھَرَاعَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَمَوْلَہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُوٴْمِنِیْنَ، قَالَ صَالِحُ المُوٴمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْطَالِب۔ ”اسماء بنت عمیس روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے یہ آیت سنی”وَاِنْ تَظٰھَرَاعَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَمَوْلٰہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُوٴْمِنِیْنَ“آیت پڑھنے کے بعد پیغمبر خدا نے فرمایا کہ صالح الموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔ (ب)۔ عَنْ السُّدی عَن ابنِ عَبَّاس، فِی قَولِہ عَزَّوَجَلَّ’وَصَالِحُ المُوٴمِنِیْنَ قَالَ:ھُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِب۔ ”سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کہ جس میں صالح المومنین کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔ (ج)۔ عَنْ مُجٰاھِد فی قَولِہِ تَعٰالٰی:”وَصَالِحُ المُوٴمِنِیْنَ“ قَالَ: صَالِحُ المُوٴمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب۔ ”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں جہاں صالح الموٴمنین کا تذکرہ ہے، وہاں صالح الموٴمنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث984 اور 985،جلد2،صفحہ257۔ 2۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب67،جلد1،صفحہ363۔ 3۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ244اور اشاعت ِ دیگر صفحہ269،270۔ 4۔ ابن مغازلی، مناقب ِ امیر الموٴمنین میں، حدیث316،صفحہ269،اشاعت ِ اوّل۔ 5۔ گنجی شافعی، کتاب کفایت الطالب میں، باب30،صفحہ137۔ 6۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں،حدیث لا شیٴ، جلد1،صفحہ237، اشاعت ِ اوّل۔ 7۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد2،صفحہ425، اشاعت ِ دوم، حدیث932،933۔ 8۔ ابن حجر فتح الباری میں، جلد13،صفحہ27۔ بیسویں آیت قیامت کے دن لوگوں سے ولایت ِعلی کے بارے میں سوال کیا جائے گا وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ۔ ”اور ان کو ٹھرا ؤ کہ ابھی ان سے سوالات کئے جائیں گے“۔(سورئہ صافات:آیت24) تشریح سورئہ مبارکہ صافات کے ایک حصہ میں جہاں پروردگار قیامت اور اس کے متعلقہ مسائل اور عذابِ عظیم جو مشرکین اور گمراہوں کے انتظار میں ہے، کے بارے میں بیان فرماتا ہے، اس آیت”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ“ سے اپنے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو اُس دن دوسرے احکام کے ساتھ یہ اہم حکم دے گا اور وہ حکم یہ ہوگا کہ اے میرے فرشتو ! ان کو روک لو ، ابھی ان سے سوال کیا جائیگا۔ لوگوں کے اس سوال پر کہ قیامت والے دن اس آیت کے مطابق کونسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اہلِ سنت اور شیعہ مفسرین نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ کچھ نے کہا ہے کہ توحید کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کچھ نے کہا ہے کہ اُس دن لوگوں سے بدعتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو وہ دنیا میں چھوڑ گئے، کچھ اوروں نے مختلف دیگر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ جوابات آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہلِ سنت اور شیعہ کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جن کے مطابق باقی اہم سوالوں کے علاوہ جو مجرموں سے پوچھے جائیں گے، ولایت ِعلی ابن ابی طالب کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں: (ا)۔ عَنْ اَبِیْ سعید خدری، عَنْ النبی فی قولہ تعالٰی”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ“ قال: عَنْ وِلَایَۃَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب۔ ”ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ“ کی تفسیر میں فرمایا کہ ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔ (ب)۔وَرَوِیٰ اَبُوالْاَحْوَضِ عَنْ أَبی اسحٰاقِ فی قولِہِ تعٰالٰی:”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ“قَالَ یَعنی مِنْ وِلَایَۃِ عَلِیِّ ابنِ اَبِی طَالِب اِنَّہُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِہِ بَرَاةً بِوِلَایۃِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب۔ ”ابو احوض، ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیہٴ شریفہ ”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ“ کی تفسیر میں کہا کہ ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائیگااور مزید کہا: ”اِنَّہُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِہِ بَرَاةً بِوِلَایَۃِ عَلِی“ ’ کسی کو پل صراط سے گزرنے کا حق حاصل نہ ہوگا مگر وہ جس کے ہاتھ میں ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہما السلام کا پروانہ ہوگا‘۔ (ج)۔ عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولِہ عَزَّوَجَلَّ”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْن“قَالَ:عَنْ وِلَایۃِ علی ابنِ ابی طالب۔ ”ابن عباس سے اس آیت”وَقِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَّسْئُوْلُوْن“ کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب4،جلد1،صفحہ79۔ 2۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ787،جلد2،صفحہ106،اشاعت اوّل۔ 3۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال، بابِ حالِ علی بن حاتم، ج3،ص118،شمارہ5802۔ 4۔ گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ247۔ 5۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب37،صفحہ133اور اسی کتاب میںبابِ مناقب ،صفحہ282،حدیث51۔ 6۔ خوارزمی، کتاب مناقب، باب17،صفحہ195۔ 7۔ ہیثمی، کتاب صواعق المحرقہ، صفحہ89اور کتاب لسان المیزان،جلد4،صفحہ211۔ 8۔ ابن جوزی، کتاب تذکرة الخواص، باب دوم، صفحہ21۔ اکیسویں آیت اللہ تعالیٰ نے جنگوں اور مشکلات میں مسلمانوں کی مدد علی کے وسیلہ سے کی وَرَدَّاللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِغَیْظِھِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا۔وَکَفَی اللّٰہُ الْمُوٴْمِنِیْنَ الْقِتَالَ۔وَکَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا۔ ”اور اُن لوگوں کو جو کافر ہوگئے تھے، اللہ نے اُن کے غصے ہی کی حالت میں لوٹا دیا کہ وہ کسی مراد کو نہ پہنچیں اور اللہ نے مومنوں پر لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اللہ صاحب ِقوت اور صاحب ِ غلبہ ہے“۔(سورئہ احزاب: آیت25)۔ تشریح یہ آیت سورئہ احزاب سے ہے جس کی کچھ دوسری آیتیں جنگ ِ خندق(جنگ ِ احزاب) کے متعلق ہیں۔ جنگ ِ خندق ایسی جنگ ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کو کامیابی معجزانہ طور پر نصیب ہوئی اور بغیر کسی وسیع قتل و غارت کے کفار شکست خوردہ اور مایوس ہوکر مدینہ کے محاصرے کو توڑ کر ناکام واپس اپنے علاقوں کی طرف چلے گئے۔اس میں مددِ غیبی کی ایک شکل تو قدرت کی طرف سے زبردست طوفان اور سخت ترین سرد ہوائیں چلیں جس نے کفار کے حوصلے پست کردئیے ۔ اُن کے دلوں میں خدائی طاقت کا رعب اور ڈر بیٹھ گیا اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے طاقتور ترین پہلوان اور جنگجو یعنی عمر بن عبدود پر وہ کاری ضرب لگائی کہ وہ نیست و نابود ہوگیا۔ اس سے کفار کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ کفارکے بڑے بڑے سرداروں کے حوصلے پست ہوگئے۔ اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری اور کارکردگی اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ”لَمُبارِزَةُ عَلِی ابنِ ابی طالب لِعُمروبنِ عَبدُوَدیَومَ الْخَنْدَقِ اَفْضَلُ مِنْ اَعْمٰالِ اُمَّتِیْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ“ ”حضرت علی علیہ السلام کی جنگ ِ خندق میں ایک ضربت میری تمام اُمت کی قیامت تک کی عبادت سے افضل ہے“۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد3،صفحہ32۔ شیخ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، باب23،صفحہ109اور باب46،ص161اور بہت سے دوسرے۔ اب اس آیت کی تفسیر میں چند ایک روایات بیان کی جارہی ہیں جو توجہ طلب ہیں: (ا)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اِنّہ کَانَ یَقْرَاُ ھٰذِہِ الایۃ”وَکَفَی اللّٰہُ الْمُوٴْمِنِیْنَ الْقِتَالَ“ بِعَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْہِ السَّلَام۔ ”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ وہ یہ آیت ”وَکَفَی اللّٰہُ الْمُوٴْمِنِیْنَ الْقِتَال“ تلاوت فرمارہے تھے اور اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی ذاتِ مقدس کو لے رہے تھے“۔ (ب)۔ عَنْ عبداللّٰہِ بن مسعود قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ عمروبن عَبْدُوَدْ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، اَنْزَلَ اللّٰہُ تعالٰی:”وَکَفَی اللّٰہُ الْمُوٴْمِنِیْنَ الْقِتَال“بِعَلِیٌّ۔ ”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے جنگ ِ خندق میں عمربن عبدود کو ہلاک کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ”وَکَفَی اللّٰہُ الْمُوٴْمِنِیْنَ الْقِتَال“ حضرت علی علیہ السلام (کے عمل) کی خاطر نازل فرمائی“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل میں، شمارہ629،جلد2،صفحہ3۔ 2۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب حالِ امیرالموٴمنین ، شمارہ927،جلد2،صفحہ420، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔ 3 ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، شمارہ4149،جلد2،صفحہ380۔ 4۔ گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ234۔ 5۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب23،صفحہ108اور باب46،ص161۔ 6۔ سیوطی تفسیر الدالمنثور میں، جلد5،صفحہ209۔ بائیسویں آیت علی ا ورفاطمہ علم و معرفت کے دریائے بیکراں ہیں اور حسن و حسین اُن کے انتہائی قیمتی موتی ہیں مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۔بَیْنَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ۔فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَآ تُکَذِّبٰنِ۔یَخْرُجُ مِنْھُمَاالُّلوٴْ وَالْمَرْجَانُ۔ ”اُس نے دودریا بہادئیے، وہ باہم ملتے ہیں اور اُن دونوں کے مابین پردہ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتا۔پھر تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اُن دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں“۔(سورئہ رحمٰن:آیات19تا21)۔ تشریح وہ افراد جو قرآن اور علومِ قرآن سے واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتابِ آسمانی اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک آیت بعض اوقات چند معنی رکھتی ہو اور بعض اوقات بیسیوں معنی رکھتی ہو جبکہ اُن کا ہر معنی اپنی جگہ قابلِ توجہ اور اہمیت کا حامل ہو اور وہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہ رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر یہ چند آیات جو سورئہ رحمٰن سے ہیں اوراوپر بیان کی گئی ہیں، اس طرح کی آیات ہیں جن کے مختلف معنی نکل سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو ان آیات کو ظاہری اعتبار سے دیکھتے ہیں تو اُن کے اذہان میں یہی معنی آتے ہیں کہ کرئہ ارض کے بڑے بڑے دریا اور سمندر جو اس کے تین چوتھائی حصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر بڑے بڑے قیمتی گوہر اور معدنیات موجود ہیں، یہ خدائے بزرگ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں۔ یہ سب ،انسان کو غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ خدا نے انسان کیلئے کس طرح یہ دریااور سمندر پھیلائے اور اُن میں بیش بہا نعمتیں پیدا کیں۔ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ان آیات کے دوسرے مطالب ہیں جو مقصودِ خالق ہیں۔ روایات اور اطلاعات جو اسلامی تاریخ میں موجود ہیں، اُن کو بغور دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان آیات سے دو عظیم ہستیوں کا تعارف کروانا مقصود ہے۔ وہ ہستیاں جو علم و معرفت اور کمال کے دریائے بیکراں ہیں اور ان سےملنے والے دو قیمتی موتی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں۔توضیح کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں: عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰہ عنہ فی قولہ تعالٰی”مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن“قال:علی و فاطمہ،”بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ“ اَلنّبی،”یَخْرُجُ مِنْھُمَاالُّلوٴْ وَالْمَرْجَانُ“قال:اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْن علیہماالسلام۔ ”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ تفسیر”مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن“سے مراد علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔”بَیْنَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ“ سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جنابِ علی علیہ السلام اور جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے درمیان وہ واسطہ ہے جس سے یہ صحیح بندگی خدا اور اُس کی عبودیت کے لئے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اُن کی ذاتِ گرامی سے خود بھی فیض یاب ہوتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بطور نمونہ اُن کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنتے ہیں)۔”یَخْرُجُ مِنْھُمَاالُّلوٴْوَالْمَرْجَانُ“سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں۔ یہ قابلِ توجہ بات ہے کہ درج بالا روایت کو علمائے اہلِ سنت نے دوسرے صحابہ سے بھی نقل کیا ہے اور شیعہ علماء نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے اور یہ روایت بجائے خود بہت اہمیت کی حامل ہے۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ158اور دوسری اشاعت میں ج6،ص142 2۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل ، حدیث919،ج2،ص209،اشاعت اوّل،ج2، صفحہ212،اشاعت دوم۔ 3۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، صفحہ339،حدیث 390۔ 4۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب39،صفحہ138۔ 5۔ ثعلبی، تفسیر ثعلبی میں جلد4،صفحہ289۔ 6۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی “،اس آیت کی تشریح میں۔ 7۔ شبلنجی، کتاب نورابصار میں، صفحہ101۔ 8۔ خوارزمی، کتاب مقتل الحسین ، صفحہ112۔ 9۔ کراجکی، کتاب کنزالفوائد میں، صفحہ366۔ تئیسویں آیت علی اور اہلِ بیت سے محبت نیکی ہے اور اِن سے بغض گناہ ہے مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہ خَیْرٌ مِّنْھَا وَھُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ۔وَمَنْ جَآءَ بِالسَّےِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ۔ھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ ”جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا پس اُس کیلئے اس کا عوض اس سے بہتر موجود ہے اور وہ اُس دن خوف سے امن میں ہوں گے اور جو بدی لے کر آئے گا وہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جو کچھ تم کرتے تھے، اُسی کا بدلہ تمہیں ملے گا“(سورئہ نمل:آیت89اور90) تشریح اس آیت میں دو الفاظ یعنی ”حَسَنَۃِ“اور ”سیٰۃ“ استعمال ہوئے ہیں۔آیت کا اصلی مقصد بھی انہی کو سمجھانا ہے کہ نیکی اور بدی اصل میں کہتے کسے ہیں کیونکہ اس کا انسان کی مادّی اور روحانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ”حَسَنَۃِ“اور ”سیٰۃ“ ، یہ دوالفاظ اس آیت میں اور قرآن کی دیگر آیات میں استعمال ہوئے ہیں۔ان الفاظ کے مفہوم اور معنی نہایت وسیع ہیں مثلاً”حَسَنَۃِ“میں تمام نیک اور پسندیدہ اعمال شامل ہیں اور ان میں سرفہرست خدا پر ایمان، اُس کے پیغمبر پر ایمان اور حضرت علی علیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام کی ولایت پر ایمان ہے اور “سیٰۃ“میں تمام قبیح اور ناپسندیدہ اعمال شامل ہیں جو انسان کو خدا اور اُس کے رسول اور اُس کے اولیائے حق کے خلاف سرکشی پر ابھارتے ہیں اور یہ ”حَسَنَة“کی مکمل ضد ہے۔ لیکن ان کلمات کی تفاسیر اور تعابیر جو ہم تک آئمہ معصومین کے ذریعے سے پہنچی ہیں اور جسے بہت سے علمائے اہلِ سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ”حَسَنَة“ سے مراد قبولِ ولایت ِ امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اُن کی اولاد ہیں اور “سیٰۃ“ سے مرادعدمِ قبولِ ولایت ِعلی اور اولادِ علی ہے۔درج ذیل روایت میں اسی بات کی تفسیر ہے: عَنْ ابی عبدِاللّٰہِ الجَدَلِی قال: قٰال لی علی علیہ السلام:اَلٰا اُنَبِّئُکَ بِالْحَسَنَۃِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِھٰااَدْخَلَہُ اللّٰہُ الجَنَّۃَ وَبِالسَّیۃِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِھٰااَکَبَّہُ اللّٰہُ فِی النّٰارِوَلَمْ یُقْبَلُ لَہ عَمَلاً؟ قُلْتُ بلٰی ثُمَّ قَرَأَ(امیرالموٴمنین) مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ خَیْرُ مِنْھٰاوَھُمْ مِنْ فَزَعِ یَوٴْمَئِذٍآمِنُوْنَ وَمَنْ جٰاءَ بالسَّیّئَۃِ فَکُبَّتْ وَجُوْھَھُمْ فِی النَّارِھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ثُمَّ قٰالَ: یٰا أَبٰاعَبْدِاللّٰہِ، اَلْحَسَنَةُ حُبُّنٰاوَالسَّیِّئَۃُ بُغْضُنَا۔ ”ابو عبداللہ جدلی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ امیر الموٴمنین علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا میں تجھے اُس نیک عمل کی خبر نہ دوں کہ جو کوئی اُس کو انجام دے گا، پروردگار اُس کو بہشت میں داخل کرے گا اور کیا تجھے اُس بدعمل کی خبر نہ دوں کہ اُسے جو کوئی انجام دے گا، پروردگار اُسے جہنم میں پھینکے گااور اُس کاکوئی دوسراعمل بھی قبول نہ ہوگا‘۔ میں نے عرض کی:’ہاں مولا! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے باخبرکریں‘۔ حضرت علی علیہ السلام نے پھر یہ آیت پڑھی: مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ خَیْرٌ مِّنْھَا وَھُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ۔وَمَنْ جَآءَ بِالسَّےِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ۔ھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ پھر فرمایاحَسَنَۃِہم اہلِ بیت سے محبت ہے اورسَےِّئَةِ اہلِ بیت سے بغض و دشمنی ہے۔ اسی طرح بعض دوسری روایات میں آیاہے کہ آپ نے اس بارے میں فرمایا: ”اَلْحَسَنَۃُ مَعْرِفَةُ الْوِلَایَۃِ وَحُبُّنٰا اَھْلِ الْبَیْتِ وَالسِّئَۃُ اِنْکَارُالْوِلَایَۃِ وَبُغْضُنَا اَھْلَ الْبَیْتِ“۔ ”حَسَنَۃ یعنی معرفت ِ ولایت ِعلی علیہ السلام اورہم اہلِ بیت سے محبت ہے اور سَّیئَۃِ یعنی انکارِ ولایت علی علیہ السلام اور ہم اہلِ بیت سے بغض و دشمنی ہے“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب61،جلد2،صفحہ299۔ 2۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث582،587،ج1،ص426،428 3۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب24،صفحہ113۔ 4۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد2۔ 5۔ الحنینی کتاب خصائص الوحی المبین، صفحہ128۔ 6۔ رشید الدین، مناقب آلِ علی ، جلد2،صفحہ225،عنوان درجاتِ علی عند قیام الساعة۔ چوبیسویں آیت اللہ تعالیٰ علی کے وسیلہ سے کفارو مشرکین سے انتقام لیتا ہے فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ۔ ”پس اگر تم کو ہم لے جائیں گے تو ہم اُن سے بھی ضرور ہی بدلہ لینے والے ہیں“۔ (سورئہ زخرف:آیت41)۔ تشریح سورئہ مبارکہ زخرف میں اللہ تعالیٰ کفار کی حرکتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے پیغمبر کی تسلی اور سکون کی خاطر فرمارہا ہے کہ کفار کی چالوں کی وجہ سے اسلام کے مستقبل کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ اگر وہ کفر، ظلم اور انتقام جوئی کو ترک نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یقینا اُن سے انتقام لے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بشری زندگی کے مختلف زمانوں میں اپنے قابلِ دید اور ناقابلِ دید لشکروں سے کفار، منافق اور مشرکوں سے انتقام لیتا رہا ہے اور اُن کوسزائیں دیتا رہا ہے اور یہ عمل اُس کیلئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ اُس کی ذات ”فَعَّالٌ لِمٰا یُرِیْد“ ”وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے“۔ اللہ تعالیٰ کے انتقام کی کوئی مثال دیکھنی ہو تو وہ انتقام ہے جس کا ارادہ تو خدا کی ذات نے کیااور اُسے انجام علی علیہ السلام نے دیا۔ تمام علماء اور مفسرین اہلِ سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت ِ مذکورسے مراد وجودِ پاکِ حضرت علی علیہ السلام ہے کیونکہ آپ نے تمام کفار و منافقین سے اُن مظالم اور زیادتیوں کا جو انہوں نے پیغمبر اسلام پر کی تھیں، کا بدلہ لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان اور دانشمند حضرات حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اعمال سے رسول اللہ کی زندگی میں اور اُن کی ظاہری زندگی کے بعد کفار کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی اور منافقین کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مایوس کردیا تھا۔حق اور صراطِ مستقیم کو عیاں کردیا۔ اس ضمن میں چند روایات نیچے درج کی جارہی ہیں جو آپ کی توجہ کی طالب ہیں: (ا)۔ عَنْ جَابِرقٰالَ:لَمَّا نَزَلَتْ عَلٰی رَسُوْلِاللّٰہ”فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“قٰالَ بِعَلیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْہِ السَّلَام۔ ”جابر ابن عبداللہ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت ”فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ رسولِ خدا پر نازل ہوئی توآپ نے آیت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ علی علیہ السلام کے وسیلہ سے انتقامِ الٰہی لیا جائے گا“۔ (ب)۔ عَنْ حُذَیْفَۃِ بن الیَمٰانِ قٰالَ فِی قولہ تعالٰی”فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ یَعْنِی بِعَلِی بن ابی طالب علیہ السلام۔ ”حذیفہ بن یمان سے روایت کی گئی ہے ، انہوں نے اس آیت ”فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ کی تفسیر میں فرمایا کہ علی علیہ السلام کے وسیلہ سے انتقام لیا جائے گا“۔ (ج)۔ عَنْ جابربن عبداللّٰہ عَنِ النَّبی فی قولہ’فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ‘نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ اِنَّہ یَنْتَقِمُ مِنَ النَّاکِثِیْنَ وَالقَاسِطِینَ بَعْدِی۔ ”جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم نے اس آیت ”فَاِمَّانَذْھَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ علی میرے بعد ناکثین(بیعت توڑنے والے اصحابِ جنگ ِ جمل) اور قاسطین(جنگ ِ صفین میں لشکر معاویہ) سے انتقام لیں گے“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ سیوطی ،تفسیر الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ20،آیت ِ مذکور کے ضمن میں۔ 2۔ ابن مغازلی شافعی، حدیث366کتاب ”مناقب ِ امیر الموٴمنین “، ص275اور320 3۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، حدیث851، جلد2،صفحہ152، اشاعت اوّل۔ 4۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة میں، باب26،صفحہ114اور اسی کتاب میں باب(مناقب)70،صفحہ287،حدیث24۔ 5۔ طبرانی، کتاب معجم الکبیر میں، جلد3،صفحہ111۔ پچیسویں آیت علی نے اپنی جانِ مبارک کامعاملہ اللہ تعالیٰ سے طے کرلیا وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ۔ ”اور آدمیوں میں سے ایسابھی ہے جو رضائے خدا حاصل کرنے کیلئے اپنے نفس کو فروخت کرتا ہے“۔(سورئہ بقرہ: آیت207)۔ تشریح پیغمبر اسلام کا مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا اور اُس سے ہی متعلق دوسرے اُمور ایسے موضوع ہیں جن پر تقریباً تمام تاریخ دانوں نے اپنی اپنی تواریخ میں لکھا ہے اور اس واقعہ میں پیغمبر اسلام کی بردباری ،صبروتحمل اور اُن کے وفادار اصحاب کی شان بیان کی ہے۔ ہجرتِ پیغمبر میں سب سے اہم واقعہ ہجرت کی رات کا ہے جب پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سوئے اور کفارِ مکہ جو جنگی ہتھیاروں سے لیس تھے ، کی طرف سے کسی بھی وقت حملہ کے منتظر رہے۔ نصف شب کے قریب مسلح کفار جنہوں نے نبی اکرم کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا، داخلِ منزل ہوئے۔ حضرت علی علیہ السلام بستر سے اُٹھے اور مقابلہ کیلئے تیار ہوئے۔ کفارِ مکہ نے جب حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے۔ اس طرح کفارِ مکہ کے تمام ارادے خاک میں مل گئے اور پیغمبر خدا کچھ دنوں بعد صحیح و سلامت مدینہ پہنچ گئے۔ بہت سے شیعہ اور اہلِ سنت علماء نے آیت ِ مذکور کو علی علیہ السلام کی فداکاری سے منسوب کیا ہے اور اس کی تائید میں بہت سی روایات نقل کی ہیں جن میں سے چند ایک بطورِ نمونہ درج کی جارہی ہیں، ملاحظہ ہوں: (ا)۔ عَنْ علی بن الحسین فی قولہ تعالٰی’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ‘قال نَزَلَتْ فِیْ عَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلَام حینَ بٰاتَ عَلٰی فِراشِ رَسُولِ اللّٰہِ۔ (المیزان) ”علی ابن الحسین امام زین العابدین علیہما السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت ”وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہ“ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جب وہ شب ِہجرت پیغمبر خدا کے بستر پر سوئے تھے“۔ (ب)۔ رَوَی السُّدیُّ عَنْ اِبْنِ عَبَّاس قٰالَ نَزَلَتْ ھٰذِہِ الایۃُ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْہَ السَّلَام حِینَ ھَرَبَ النَّبِیعَنِ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْغٰارِ ونٰام علی عَلٰی فِراشِ النَّبی۔(مجمع البیان) ”سدی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ یہ آیت ”وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہ“ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام کفار کے شر سے بچنے کیلئے مدینہ کیلئے ہجرت کرتے ہوئے غارِ ثور کی طرف چلے اور علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سوئے۔ اسی طرح بہت سے علماء نے من جملہ صاحب ِمجمع البیان نے اس آیت کے بارے میں درج ذیل روایت بیان فرمائی ہے جو بہت زیادہ اہمیت کی حامل اور قابلِ توجہ ہے۔ روایت اس طرح ہے: لَمَّانَامَ عَلِیٌّ فِراشَہ قَامَ جِبْرَائِیلُ عِنْدَ رَاسِہِ وَمِیْکَائِیلُ عِنْدَ رِجْلَیْہِ وَجِبْرَائِیلُ یُنٰادِی بَخٌ بَخٌ مَنْ مِثْلُکَ یابْنَ اَبِیْ طَالِب؟ یُبٰاھِی اللّٰہُ بِکَ الْمَلٰائِکَۃُ۔ ”جب حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے بستر پر(شب ِہجرت)سوئے تو جبرئیل سرہانے کی طرف اور میکائیل پاؤں کی طرف کھڑے ہوگئے اور جبرئیل نے بہ آواز بلند کہا:’مبارک ہو،مبارک ہو، تم جیسا(باایمان اور فداکار) کون ہے؟ خداوند پاک فرشتوں کو مخاطب کرکے تم پر فخر کررہا ہے‘۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد5،صفحہ204،اشاعت دوم،تہران۔ آیت ِ مذکورکے بارے میں۔ 2۔ گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62،صفحہ239۔ 3۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ105،باب21۔ 4۔ ثعلبی، کتاب احیاء العلوم، جلد3،صفحہ238۔ 5۔ شبلنجی، کتاب نورالابصار میں، صفحہ86۔ منبع:islaminurdu.com