حضرت علی شعرائے اہلِ سنت کی نظر میں

شعروشاعری کی زبان میٹھی اور اثر انگیز ہے۔ اکثر اوقات شعراء حضرات دو مصرعوں میں مخاطب کو وہ بات کہہ دیتے ہیں کہ یہ کلمات اُس کو گزشتہ گمراہی سے باہر لاتے ہیں اور نور کی طرف ہدایت کرتے ہیں۔اس دنیا میں کوئی شخص ایسانہیں جو اشعار کی ان خصوصیات سے انکار کرے۔ اسی حقیقت کو نظامی ان الفاظ میں کہتے ہیں: قافیہ سنجان کہ سخن برکشند گنجِ دو عالم بہ سخن درکشند اس بناء پر ایک مختصر سی نظر شعرائے اہلِ سنت کے کلام پر بھی ڈالیں گے جس میں انہوں نے منقبت و مدحِ مولیٰ علیہ السلام کی ہے۔ یہ نکتہ یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ شیعہ شعراء نے منقبت و مدحِ حضرت علی علیہ السلام میں کمال درجہ کے اشعار لکھے ہیں لیکن اس کتاب میں ہمارا مقصد اُن اشعار کو اکٹھا کرنا ہے جو برادرانِ اہلِ سنت نے علی علیہ السلام کی شان میں کہے ہیں۔ لہٰذا ہم شیعہ شعراء کے کلام سے یہاں اجتناب کریں گے۔ محمد بن ادریس شافعی امام شافعی اذافی مجلس ذَکَرُواعلیاً وسِبْطَیْہِ وَفاطمةَ الزَّکیَةَ فَاجْریٰ بَعْضُھم ذِکریٰ سِوٰاہُ فَاَیْقَنَ اَنَّہُ سَلَقْلَقِیَةَ اِذٰا ذَکَرُوا عَلیَاً اَو ْبَنیہِ تَشٰاغَلَ بِالْرِّوایاتِ الْعَلِیَةِ یُقال تَجاوَزُوا یاقومِ ھٰذا فَھٰذا مِنْ حَدیثِ الرّٰافَضِیََّّةِ بَرِئتُ الی الْمُھَیْمِن مِن اناسٍ بَرونَ الرَّفْضَ حُبَّ الْفٰاطِمَیةِ عَلیٰ آلِ الرَّسولِ صَلوةُ رَبِّی وَ َلَعْنَتُہُ لِتِلْکَ الْجٰاھِلِیَّةِ ”جب کسی محفل میں ذکر ِعلی علیہ السلام ہویا ذکر ِسیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاہویا اُن کے دوفرزندوں کا ذکر ہو، تب کچھ لوگ اس واسطے کہ لوگوں کو ذکر ِمحمد و آلِ محمدسے دور رکھیں، دوسری باتیں چھیڑ دیتے ہیں۔ تمہیں یہ یقین کرلینا چاہئے کہ جوکوئی اس خاندان کے ذکر کیلئے اس طرح مانع ہوتا ہے،وہ بدکار عورت کا بیٹا ہے۔ وہ لمبی روایات درمیان میں لے آتے ہیں کہ علی  و فاطمہ اور اُن کے دو فرزندوں کا ذکر نہ ہوسکے۔وہ یہ کہتے ہیں کہ اے لوگو! ان باتوں سے بچو کیونکہ یہ رافضیوں کی باتیں ہیں(میں جو امام شافعی ہوں) خدا کی طرف سے ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو فاطمہ  سے دوستی و محبت کرنے والے کو رافضی کہتے ہیں۔ میرے رب کی طرف سے درودوسلام ہو آلِ  رسول پر اور اس طرح کی جہالت(یعنی محبانِ آلِ  رسول کو گمراہ یا رافضی کہنا) پر لعنت ہو“۔ حوالہ جات 1۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ329،باب62،از دیوانِ شافعی۔ 2۔       شبلنجی،کتاب نورالابصار میں،صفحہ139،اشاعت سال1290۔ علیٌّ حُبُّہُ الْجُنَّة اِمامُ النّٰاسِ وَالْجِنَّة وَصِیُّ المُصْطَفےٰ حَقّاً قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّة ”حضرت علی علیہ السلام کی محبت ڈھال ہے۔ وہ انسانوں اور جنوں کے امام ہیں۔ وہ حضرت محمد مصطفےٰ کے برحق جانشین ہیں اور جنت اور دوزخ تقسیم کرنے والے ہیں“۔ حوالہ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں،جلد1،صفحہ326۔ قٰالُوا تَرَفَّضْتَ قُلْتُ کَلّٰا مَاالرَّفْضُ دِیْنی وَلَااعْتِقٰادِی لٰکِنْ تَوَلَّیْتُ غَیْرَ شَکٍّ خَیْرَ اِمامٍ وَ خَیْرَ ھٰادٍ اِنَّ کٰانَ حُبُّ الْوَصِیِّ رَفْضاً فَاِنَّنِی اَرْفَضُ الْعِبٰادِ ”مجھے کہتے ہیں کہ تو رافضی ہوگیا ہے۔ میں نے کہا کہ رافضی ہونا ہرگز میرا دین اور اعتقاد نہیں۔ لیکن بغیر کسی شک کے میں بہترین ہادی و امام کو دوست رکھتا ہوں۔ اگر وصیِ پیغمبر سے دوستی و محبت رکھنا رفض(رافضی ہونا) ہے تو میں انسانوں میں سب سے بڑا رافضی ہوں“۔ حوالہ جات 1۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،صفحہ330،اشاعت قم،طبع اوّل1371۔ 2۔       شبلنجی، کتاب نورالابصار،صفحہ139،اشاعت 1290۔ یٰارٰاکِباً قِفْ بِالْمُحَصَّبِ مِنْ مِنیٰ وَاھْتِفْ بِسٰاکِنِ خِیْفِھٰا وَالنّٰاھِضِ سَحَراً اِذَافَاضَ الْحَجِیْجُ اِلٰی مِنیٰ فَیْضاً کَمُلْتَطَمِ الْفُراتِ الْفٰائِضِ اَنْ کٰانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ فَلْیُشْھَدِ الثَّقَلاٰنِِ اِنِّیْ رٰافِضِیْ ”اے سواری! تو جو مکہ جارہی ہے،ریگستانِ منیٰ میں توقف کرنا،صبح کے وقت جب حاجی منیٰ کی طرف آرہے ہوں تو مسجد ِخیف کے رہنے والوں کو آواز دینا اور کہنا کہ اگر دوستیِ آلِ محمد رفض ہے تو جن و انس یہ شہادت دیتے ہیں کہ میں رافضی ہوں“۔ 1۔       ابن حجر مکی،صواعق محرقہ،باب9،صفحہ97،اشاعت ِمصر۔ 2۔       یاقوتِ حموی، کتاب معجم الادباء،جلد6،صفحہ387۔ 3۔       فخر رازی، تفسیر کبیر میں،جلد7،صفحہ406۔ وَلَمَّا رَأَیْتُ النّٰاسَ قَدْ ذَھَبَتْ بِھِمْ مَذَاھِبُھُمْ فِیْ اَبْحَرِ الْغَیِّ وَالْجَھْلِ رَکِبْتُ عَلَی اسْمِ اللّٰہِ فِیْ سُفُنِ النَّجٰا وَھُمْ اَھْلُ بَیْتِ الْمُصْطَفیٰ خٰاتِمِ الرُّسُلِ وَاَمْسَکْتُ حَبْلَ اللّٰہِ وَھُوَوِلاٰوٴُھُمْ کَمٰا قَدْ اُمِرْنٰا بِالتَمَسُّکِ بِالْحَبْلِ اِذَا افْتَرَقَتْ فِی الدِّیْن سَبْعُوْنَ فِرْقَةً وَنِیْفاًعَلیٰ مٰاجٰاءَ فِیْ وٰاضِحِ النَّقْلِ وَلَم یَکُ ناجٍ مِنْھُمْ غَیْرَ فِرْقَةٍ فَقُلْ لِیْ بِھٰا یٰا ذَاالرَّجٰاجَةِ وَالْعَقْلِ أَفِی الْفِرْقَةِ الْھُلاٰکِ آلُ مُحَمَّد اَمِ الْفِرْقَةُ الّلا تِیْ نَجَتْ مِنْھُمْ قُلْ لِیْ فَاِنْ قُلْتَ فِی النّٰاجَیْنِ فَالْقَوْلُ وٰاحِدٌ وَاِنْ قُلْتَ فِی الْھُلاٰکِ حَفْتَ عَنِ الْعَدْلِ اِذَاکٰانَ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْھُمْ فَاِنَّنِیْ رَضِیْتُ بِھِمْ لاٰزٰالَ فِیْ ظِلِّھِمْ ظِلِّیْ رَضِیْتُ عَلِیّاً لِیْ اِمٰاماً وَنَسْلَہُ وَاَنْتَ مِنْ الْبٰاقِیْنَ فِیْ اَوْسَعِ الْحَلِ ”جب میں نے لوگوں کو جہالت اور گمراہی کے سمندر میں غرق دیکھا تو پھر بنامِ خدا کشتیِ نجات (خاندانِ رسالت اور اہلِ بیت  ِ اطہار علیہم السلام) کا دامن پکڑا اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو تھاما کیونکہ اللہ کی رسی جو دوستیِ خاندانِ رسالت ہے ،کو پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔جس زمانہ میں دین تہتر فرقوں میں بٹ جائے گا تو کہتے ہیں کہ صرف ایک ہی فرقہ حق پر ہوگا ،باقی باطل پر ہوں گے۔اے عقل و دانش رکھنے والے! مجھے بتا کہ جس فرقہ میں محمد اورآلِ محمد ہوں گے، کیا وہ فرقہ باطل پر ہوگا یا حق پر ہوگا؟ اگر تو کہے کہ وہ فرقہ حق پر ہوگا تو تیرا اور میرا کلام ایک ہے اور اگر تو کہے کہ وہ فرقہ باطل اور گمراہی پر ہوگا تو تو یقینا صراطِ مستقیم سے منحرف ہوگیا ہے۔ یہ جان لو کہ خاندانِ رسالت قطعاً اور یقینا حق پر ہے اور صراطِ مستقیم پر ہے۔ میں بھی اُن سے راضی ہوں اور اُن کے طریقے کو قبول کرتا ہوں۔ پروردگار! اُن کا سایہ مجھ پر ہمیشہ قائم و دائم رکھ۔ میں حضرت علی علیہ السلام اور اُن کی اولاد کی امامت پرراضی ہوں کیونکہ وہ حق پر ہیں اور تو اپنے فرقے پر رہ ،یہاں تک کہ حقیقت تیرے اوپر واضح ہوجائے“۔ حوالہ کتاب شبہائے پشاور،صفحہ227،نقل از ذخیرة المال،مصنف:علامہ فاضل عجیلی۔ یااَھْلَ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ حُبُّکُمْ فَرَضٌ مِنَ اللّٰہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزَلَہُ کَفَاکُمْ مِنْ عَظِیْمِ الْقَدْرِ اِنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُمْ لَاصَلوٰةَ لَہُ ”اے اہلِ بیت ِ  رسول اللہ!آپ کی دوستی و محبت اللہ کی جانب سے قرآن میں فرض قرار دی گئی ہے: (مندرجہ بالا اشعار میں امام شافعی کا اشارہ آیت ِ زیر کی طرف ہے: ”قُلْ لا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“) آپ کی قدرومنزلت کیلئے یہی کافی ہے کہ جو آپ پر درود نہ پڑھے، اُس کی نماز قبول نہیں ہوتی“۔ اشعار کے آخر میں سخت و تند لہجہ میں دشمنانِ اہلِ بیت کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں لَولَمْ تَکُنْ فِی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ ثَکَلَتْکَ اُمُّکَ غَیْرَ طَیِّبِ الْمَوْلِدِ ”اگر تم میں آلِ محمدکی محبت نہیں تو تمہاری ماں تمہارے لئے عزا میں بیٹھے کہ تم یقینا حرام زادے ہو۔ حوالہ جات 1۔       شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینا بیع المودة،صفحہ354،366،اشاعت قم،طبع اوّل1371۔ 2۔       ابن حجر، کتاب صواعق محرقہ، صفحہ88۔ ابن ابی الحدید معتزلی(اہلِ سنت کے بہت بڑے عالم) لو لا ابو طالبٍ و ابنُہُ لَمَا مِثْلُ الدِّیْنِ شخصاً فقاما فذاک بمکة اوی و حامی و ھذا بیثربٍ جَسََّ الْحَمٰامٰا تَکَفَّلَ عَبْدَ مَنٰافٍ بامرٍ وَ أودیٰ فکان عَلِیٌّ تَمٰامٰا فَقُلْ فِیْ ثَبِیْرٍ مضی بعد ما قضیٰ ما قضاء وأبقی شَماما فَللّٰہِ ذا فاتحاً لِلْھدی وَلِلّٰہِ ذَالِلْمَعٰالِیْ خِتاما وَمٰاضَرَّ مَجْدَ اَبِیْ طالبٍ جَھُوْلٌ لَغٰا اَوْ بَصِیْرٌ تعامیٰ کما لا یضر اِیٰابُ الصَّبا حِ مَنْ ظَنَّ ضَوْءَ النَّھٰارِ الظَّلامٰا ”اگر حضرت ابو طالب اور اُن کا بیٹا(حضرت علی علیہ السلام) نہ ہوتے تو دین اسلام اس طرح مضبوط اور اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکتا۔ حضرتِ ابوطالب نے حضرت(پیغمبر اسلام) کو مکہ میں پایا اور حمایت کی جبکہ علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام کو مدینہ میں تلاش کیا اور حمایت کی۔حضرتِ ابوطالب اپنے والد عبدالمطلب کے حکم پر عبد مناف کے فرزندوں کے امور کے محافظ بن گئے اور علی علیہ السلام نے یہ ذمہ داری احسن طریقہ سے آخر تک نبھائی اور اس کی تکمیل کی۔ پس کہو اُس کے بارے میں جو قضائے الٰہی سے فوت ہوگئے لیکن اپنی خوشبو(علی علیہ السلام) کی صورت میں چھوڑ گئے۔ حضرتِ ابوطالب نے رضائے خدا کیلئے دین کی خدمت کی اور علی علیہ السلام نے اُس کی تکمیل کی اور اُس کو اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔ جاہلوں اور نادانوں کی لغو باتیں اور داناؤں کی اندھی باتیں عظمت ِ ابوطالب کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں کیونکہ اگر کوئی روزِ روشن کو رات کہے اور روشنی کو تاریکی لکھے تو اس سے نورانیت ِ روز اور روشنی پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا“۔ حوالہ شرح نہج البلاغہ میں ابن ابی الحدید نے جلد3،صفحہ321،اشاعت ِ بیروت،صفحہ318اور اشاعت ِمصرمیں یہ اشعار بزرگیِ ابو طالب علیہ السلام کیلئے لکھے۔ و خیرُ خلقِ اللّٰہِ بَعْدَ الْمصطفیٰ اعظمُھُم یومَ الفَخار شَرَفا السَّیِّدَ الْمُعَظَّمُ الْوَصِیُّ بَعْلُ الْبَتُولِ المرتضیٰ عَلِیٌّ وابناہُ ثُمَّ حَمزةٌ و جَعفرٌ ثُمَّ عتیقٌ بَعْدَھُمْ لاٰ یُنْکَرُ ”رسولِ خداکے بعد بہترین انسان، یومِ افتخار میں سب شرفاء سے زیادہ بزرگ، وصیِ مصطفےٰ، ہمسرِ بتول ، عزت و شرف والا سید وسردار علی مرتضیٰ علیہ السلام ہیں۔ اُن کے بعد اُن کے دو بیٹے(حسن  اور حسین ) اور اُن کے بعد حمزہ و جعفر طیار ہیں“۔ حوالہ ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،جلد3،صفحہ40،اشاعت مصر اور اشاعت بیروت۔ یَقُوْلُوْنَ لِیْ قُلْ فِیْ عَلِیٍّ مَدَائِحُ فَاِنْ اَنَالَمْ اَمْدَحْہُ قٰالُوْا مُعٰانِدٌ وَمٰاصُنْتُ عَنْہُ الشِّعْرَمَنْ ضَعْفِ ھٰاجِسٍ وَلاٰ اِنَّنِیْ عَنْ مَذْھَبِ الْحَقِّ عٰائِدٌ فَلَوْ اَنَّ مٰاءَ الْاَبْحُرِ السِبْعَةِ الَّلتِیْ خُلِقْنَ مِدٰادٌ وَالسَّمٰوٰاتِ کٰاغِذٌ وَاَشْجٰارَ خَلْقِ اللّٰہِ اَقلاٰمُ کٰاتِبٍ اِذِالْخَلْقُ اَفْنٰاھُنَّ عٰادَتْ عَوٰائِدٌ وَکٰانَ جَمِیْعُ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ کٰاتباً اِذاًکَلَّ مِنْھُمْ وٰاحِدً بَعْدُ وٰاحِدٌ فَخَطُّوْا جَمِیْعاً مَنْقَباً بَعْدَ مَنْقَبٍ لَمٰا خُطَّ مِنْ تِلْکَ الْمَنٰاقِبِ وٰاحِدٌ ”لوگ مجھے کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی مداحی کروں۔ اگر میں آنحضرت کی مداحی نہ کروں تو ڈرتا ہوں کہ مجھے اُن کا دشمن کہیں گے۔ اگر کبھی کبھی میں اُن کی شان میں کچھ شعر کہہ دیتا ہوں تو وہ ضعف ِنفس کی وجہ سے نہیں اور میں وہ نہیں ہوں جو مذہب ِحق سے پھر جاؤں۔ اگر سات دریا جو پیدا کئے گئے ہیں،اُن کے پانی کو جمع کیا جائے اور تمام آسمان کاغذ کی شکل بن جائے اورتمام درخت قلم بن جائیں اور تمام لوگ یکے بعد دیگرے لکھ لکھ کر تھک جائیں اور چاہیں کہ آنحضرت کی فضیلتیں اور خوبیاں لکھیں تووہ آنحضرت(علی علیہ السلام) کی ایک فضیلت بھی نہ لکھ سکیں گے“۔ حوالہ ابن ابی الحدید، کتاب ”علی  ،چہرئہ درخشانِ اسلام“ترجمہ: علی دوانی، صفحہ5(مقدمہٴ کتاب) اَلَمْ تُخْبَرِالاخبارَ فی فتحِ خیبرٍ ففیھا لِذِی الُّلبِّ الملبِّ أعٰاجیب وما اَنَساالْاُنسَ اللَّذین تَقدَّما وفرَّھما والفرُّ قد عَلِماحوب وللرّایة العظمی وقد ذَھَبابھا مَلابِسُ ذُلٍّ فوقَھا و جلابیب یَشِلُّھُمٰا من آل موسیٰ شَمَردَلُ طویلُ نجادِ السَّیف اجیدُ یعبوب یَمجُّ مَنوناً سیفُہ وسنانُہ ویَلْھَبُ ناراً غَمْدُہُ والانابیب اُحَضِّرْھُمٰا اَمْ حُضِّرْاخَرْجَ خاضبٍ وَ ذانَھُمٰاام ناعم الخدّ مخضوب عذرتکما انّ الحمام لمبغض وانّ بقاء النّفس للنّفس محبوب لیکرہ طعم الموت والموت طالب فکیف یلذّالموت والموت مطلوب ”کیا تو نے فتح خیبر کا پورا واقعہ نہیں پڑھا ہے جو مختلف رموز و اشارات و عجائب سے بھرا پڑا ہے اور عاقلوں کیلئے موجب ِحیرت ہے کیونکہ وہ دونوں حضرات(یعنی ابوبکر اور عمر)علوم و فنونِ جنگ سے آشنا نہ تھے۔لہٰذا انہوں نے اُسے(پرچمِ باعظمت کو) پشیمانی و ذلت والا لباس پہنایا اور جنگ میں فرار کو قرار پر اختیار کیا حالانکہ یہ بھی جانتے تھے کہ جنگ میں فرار گناہ ہے۔ یہ اس لئے کہ یہودیوں کے سرداروں میں ایک جوان بلند قدوقامت،مضبوط گھوڑے پر سوار، ہاتھ میں ننگی تلوار لئے ہوئے،ہوا میں لہراتا ہوا ان پر ایسے حملہ آور ہوا تھا جیسے دست بستہ دوخوش صورت پرحملہ کررہا ہو۔ موت کا خوف ،تلوار کی جھنک اور نیزے کی کھنک نے اُن کے دل ہلا دئیے ۔(ابن ابی الحدید کہتے ہیں) کہ میں آپ(حضرت ابوبکر اور حضرت عمر) کی طرف سے معذرت چاہتا ہوں کیونکہ موت ہر انسان کیلئے باعث ِترس ہے اور زندگی ہر انسان کیلئے محبوب ہے۔ آپ دونوں بھی(دوسروں کی طرح) موت کا مزہ چکھنے سے بیزار تھے ،حالانکہ موت ہر ایک کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ پس کس طرح تم خود موت کو چاہتے اور اُس کا مزہ چکھتے“۔ حوالہ  کتاب شبہائے پشاور،صفحہ416،یہ اشعار اُن سات قصیدوں میں سے ہیں جو ابن ابی الحدید نے مولا علی علیہ السلام کی شان میں کہے تھے۔ قاضی ابوالقاسم تنوخی من ابن رسول اللّٰہ وابن وصیّہ الی مدغل فی عقبة الدّین ناصب نشابین طنبور وزق و مزھر وفی حجر شاد اوعلی صدر ضارب ومن ظھر سکران الی بطن قینہ علی شبہ فی ملکھا و سوائب یعیب علیّاً خیر من وطأ الحصی واکرم سارفی الانام وسوائب ویزری علی السبطین سبطی محمّد فقل فی حضیض رام نیل الکواکب و ینسب افعال القرامط کاذباً الی عترة الھادی الکرام الأطائب الی معشر لایبرح الذّم بینھم ولا تزدری اعراضھم بالمعائب اذا ما انتدواکانواشموس بیوتھم وان رکبواکانواشموس المواکب وان عبسوا یوم الوغی ضحک الردی وان ضحکوا أبکواعیون النوادب نشوبین جبریل وبین محمّد وبین علیّ خیر ماش و راکب وزیر النبی المصطفی ووصیہ ومشبھہ فی شیمہ وضرائب ومن قال فی یوم الغدیر محمّد وقدخاف من غدر العداة النواصب أمٰااِنَّنِی اولی بکم من نفوسکم فقالوا:بلی قول المریب الموارب فقال لھم:من کنت مولاہ منکم فھذا أخی مولاہ بعدی وصاحبی اطیعوہ طراً فھومنی بمنزل کھارون من موسی الکلیم المخاطب ”یہ پیغام فرزند ِرسول اور فرزند ِوصیِ رسول کی جانب سے اُس کی طرف ہے جو دھوکے باز اور ناصبی ہے(اس میں مخاطب عبداللہ بن معز عباسی ہے جو آلِ ابوطالب کا سخت دشمن تھا اور تمام دشمنانِ آلِ ابوطالب بھی مخاطب ہیں)اور جس نے بلاشک و شبہ طبلہ و سارنگی ،موسیقی و نغمہ کے ماحول میں پرورش پائی ہے۔ یہ پیغام اُس کی طرف ہے جو علی علیہ السلام جیسی جری اور بہادر شخصیت ِ اسلام میں عیب جوئی کرتا ہے۔ اُس کی طرف ہے جو دوفرزندانِ رسول اللہ کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ اُسے کہہ دیجئے کہ اُس کا مقام پست ترین جگہ ہوگا۔ یہ وہی ہے جو افعالِ بد کو اپنی گمراہی کی وجہ سے پیغمبر خدا کے خاندان کی طرف نسبت دیتا ہے جبکہ خاندانِ پیغمبر خدا انتہائی پاک اور بلند ہیں اور کسی قسم کی برائی اُن تک رسائی نہیں پاسکتی اور کسی قسم کا بھی کوئی عیب اُن کی عصمت و طہارت کو چھو نہیں سکتا۔ وہ (خاندانِ رسول) جس محفل میں ہوں،اُسے منور کردیتے ہیں اور اُس میں مانند ِخورشید چمکتے ہیں۔ وہ جس سواری پر سوا رہوں،ا ُس کیلئے باعث ِشرف ہوتے ہیں۔ وہ سواری باقی سواریوں میں مثلِ خورشید ممتاز ہو جاتی ہے۔ اگر جنگ کے روز آنکھیں کھولیں تو ہلاکت ہنستی ہے اور اگر وہ ہنسیں تو دیدئہ حوادث روتی ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جبرئیل جو کہ بہترین پیادہ اور بہترین سوار ہیں، کے درمیان پرورش پائی ہے۔ علی علیہ السلام جو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیر ہیں اور اُن کے وصی ہیں اور اخلاق و اطوار میں اُن کی شبیہ ہیں اور ان کے بارے میں پیغمبر اسلام نے اُن مخصوص حالات میں جب وہ ناصبیوں سے دشمنی کا خطرہ بھی محسوس کررہے تھے، فرمایاکہ:’اے لوگو! کیا تمہیں میں تمہاری جانوں سے زیادہ عزیز نہیں ہوں؟‘ تو سب نے بغیر کسی تردد کے کہا کہ کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ہیں۔ پس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ علی  جو میرا بھائی اور دوست ہے، میرے بعد مولا ہے۔ سب اُس کی اطاعت کریں ۔ اُس کی نسبت میرے نزدیک ایسے ہے جیسے حضرتِ ہارون کی نسبت حضرتِ موسی کلیم اللہ سے تھی“۔ تعارفِ قاضی ابوالقاسم تنوخی قاضی ابوالقاسم تنوخی چوتھی صدی ہجری میں ہوئے ہیں۔ وہ ایک دانشمند اور مذہب ِحنفی سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کا یہ کلام کتاب ”الغدیر“،جلد3،صفحہ377سے نقل کیا گیا ہے۔ خطیب خوارزمی مذہب ِحنفیہ کے بہت بڑے مفکر ألاھل من فتی کأبی ترابٍ امام طاھر فوق الترابِ اذاما مقلتی رمدت فکحلی ترابٌ مسَّ نعل أبی ترابٍ محمّد النّبیُ کمصر علم امیرالموٴمنین لہ کَبٰابٍ ھوالبکّاء فی المحراب لکن ھوالضحاک فی یوم الحرابِ وعن حمراء بیت المال أمسی وعن صفرائہ صفر الوطابِ شیاطین الوغی دُحروا دحوراً بہ اِذ سلَّ سیفاً کالشھابِ علیٌ بالھدایة قد تحلّی ولمّا یدرع برد الشبابِ علی کاسر الأصنام لمّا علاکتف النَّبیِّ بلا احتجابِ علیٌ فی النساء لہ وصیٌ أمین لم یمانع بالحجابِ علیٌ قاتلٌ عمرو بن ودّ بضرب عامر البلد الخرابِ حدیث برائة وغدیر خمّ ورایة خیبر فصل الخطابِ ھما مثلاً کھارون و موسیٰ بتمثیل النَّبیِّ بلا ارتیابِ بنی فی المسجد المخصوص باباً لہ اذ سدَّ أبواب الصّحابِ کأنُ الناس کلّھم قشورٌ و مولانا علیٌ کاللبابِ ولایة بلاریب کطوقٍ علی رغم المعاطس فی الرّقابِ اذا عُمَرُ تخبَّط فی جواب ونَبّھہ علیٌ بالصَّوابِ یقول بعَدلِہ لولا علیٌّ ھلکتُ ھلکتُ فی ذاک الجوابِ ففاطمةٌ و مولانا علیٌ ونجلاء سروری فی الکتابِ و من یک دأبہ تشبید بیتٍ فھا أنا مدح أھل البیت دابی و ان یکن حبّھم ھیھات عاباً فھا أنا مذ عقلت قرین عابٍ لقد قتلوا علیّاً مذ تجلّی لأھل الحقِّ فحلاً فی الضَّرابِ و قد قتلوا الرضا الحسن المرجّی جواد العرب بالسمّ المذابِ وقد منعواالحسین الماء ظلماً وجُدّلِ بالطعان وبالضّرابِ ولولا زینب قتلوا علیاً صغیراً قتل بقٍّ او ذُبابٍ وقد صلبواامام الحقِّ زیداً فیاللّٰہِ من ظلم عجابٍ بنات محمد فی الشمس عطشی و آل یزید فی ظلّ القبابِ لآل یزید من اٰدم خیامٌ و أصحاب الکساء بلا ثیابٍ ”ابوتراب جیسا جوان کہاں ہے اور ابوتراب جیسا پاک رہبر اس دنیا میں کہاں ہے؟ اگر میری آنکھیں تکلیف میں مبتلا ہوجائیں تو میں ان کے جوتے سے لگی ہوئی خاک کو سرمہ بنالوں۔حضرت محمد مصطفےٰ علم کا شہر ہیں اور امیرالموٴمنین علی علیہ السلام اس شہرعلم کا دروازہیں۔ محرابِ عبادت میں گریہ کرتے اور میدانِ جنگ میں ہنستے ہوئے آتے۔ آپ  نے دنیاوی زرودولت سے آنکھیں بند کرلیں اور درہم و دینار اکٹھے نہ کئے۔وہ میدانِ جنگ میں شیطان کے لشکر کو تہس نہس کردیتے تھے کیونکہ اُن کی شمشیر بجلی بن کر دشمن پر گرتی تھی۔یہ حضرت علی علیہ السلام ہیں جو نورِ ہدایت سے مز ّین تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ جوانی میں قدم رکھتے، انہوں نے اہلِ مکہ کے بت پیغمبر اسلام کے دوشِ مبارک پرکھڑے ہوکر پاش پاش کردئیے۔ یہ علی علیہ السلام ہی تھے جو بہ نص وصیت ِپیغمبراُمہات الموٴمنین کے کفیل بنے۔ علی علیہ السلام اور پیغمبر خدا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں تھا۔ علی علیہ السلام نے اپنی شمشیر کی ضرب سے عمر بن عبدود کو زمین پر گرادیا۔ یہ ایسی ضربت تھی جس نے اسلام کو آباد کردیا اور کفر کو برباد کردیا۔ حدیث برائت اور غدیر خم اور روزِ خیبرآپ کو پرچم کا عطا کرنا ذرا یاد کرو۔ حضرت محمد اور حضرت علی علیہ السلام کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے حضرتِ موسیٰ کی حضرتِ ہارون سے تھی۔ یہ نسبت خود پیغمبر اسلام نے بیان فرمائی ہے۔ مسجد میں تمام کھلنے والے دروازے بند کروادئیے مگر علی علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رکھا۔ تمام انسان مانند ِجسم ہیں اور مولا امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کی مثال مغز کی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت تمام موٴمنوں کی گردنوں میں مانند ِطوق ہے۔آپ نے دشمن کی ناک کو خاک پر رگڑا۔جب بھی عمر بن خطاب نے مسائل دینیہ میں غلطی کی توعلی علیہ السلام نے اُس کو ٹھیک کردیا۔ اسی واسطے حضرت عمر نے کہا کہ اگر علی علیہ السلام نہ ہوتے اور میری غلطیوں کی اصلاح نہ فرماتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔ لہٰذا جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امیرالموٴمنین علی علیہ السلام اور اُن کے دو بیٹے ہمارے لئے باعث ِخوشی و مسرت ہیں۔ کوئی جس خاندان کی چاہے مدح خوانی کرے مگر میں تو اہلِ بیت محمد کا ثناء خواں ہوں۔ اگر اُن سے محبت باعث ِ ندامت و شرمندگی ہے، اور حیف ہے کہ ایسا ہو تو پھر جس روز سے مجھے عقل آئی تو میں اُس روز سے اس ندامت و شرمندگی کو قبول کرتا ہوں۔علی علیہ السلام جو کہ حق پرستوں کے رہبر تھے، وہ اکیلے ہی مردِ میدان تھے۔ اُن کے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو قتل کردیا۔ اُن کے بیٹے امام حسین علیہ السلام کو آبِ فرات سے محروم رکھا اور تیروتلوار اور نیزہ سے اُن کو خاک و خون میں غلطان کردیاگیا۔ اگر سیدئہ زینب سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں تو(وہ لوگ) علی ابن الحسین علیہما السلام کو بھی قتل کردیتے۔ کمسن زید بن علی علیہ السلام کو سولی پر چڑھا دیا۔ پروردگار!یہ کتنا بڑا ظلم تھا۔کیا یہ عجیب نہیں کہ محمد کی بیٹیاں دھوپ میں پیاسی کھڑی ہوں اور یزید کے اہلِ خانہ محل میں آرام کررہے ہوں۔ آلِ  رسول کیلئے جو اصحابِ کساء ہیں،کوئی چادر نہ ہو جبکہ اہلِ یزید کیلئے زرق برق لباس ہوں“۔ حوالہ  کتاب ”الغدیر“جلد4،صفحہ397میں ،یہ خوارزمی کا قصیدہ درج ہے۔ یاد رہے کہ حافظ ابوالموید،ابومحمد، موفق بن احمد بن ابی سعید اسحاق بن موٴید مکی حنفی علمائے اہلِ سنت میں مشہورِ عالم ہیں جو چھٹی صدی ہجری میں گزرے ہیں۔ محی الدین عربی(مذہب ِحنفی کے ایک معروف مفکر) رَأَیتُ وِلاٰئی آلَ طٰہ فَریضةً علیٰ رغمِ اَھْلِ الْبُعْدِ یُورِثُنِی الْقُرْبیٰ فمٰا طَلَبَ الْمَبْعُوْثُ اَجراً عَلیَ الْھُدیٰ بِتَبْلِیْغِہِ اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ ”اہلِ بیت  محمد کو دوست رکھنا میرے اوپر واجب ہے کیونکہ ان کی دوستی مجھے خدا کے نزدیک کردیتی ہے ،برخلاف اُن کے جن کی دوستی خدا سے دور کردیتی ہے۔ پیغمبر اسلام نے تبلیغِ دین پر اپنی کوئی اُجرت طلب نہیں کی سوائے اس کے کہ اُن کے قرابت داروں(اہلِ بیت  یعنی علی علیہ السلام، جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام) سے محبت کی جائے“۔ حوالہ کتاب”زندگانیِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا“،مصنف:شہید ِمحراب آیة اللہ دستغیب، صفحہ35،نقل از ”الصواعق“۔ قاضی فضل بن روزبہان(عالمِ معروف اہلِ سنت) سلامٌ علی المصطفیٰ المجتبیٰ سلامٌ علی السیّد المرتضیٰ سلام علی سیّدِتنا البتول مَن اختارھا اللّٰہ خیر النّساء سلام من الْمِسْک اَنفاسُہُ علی الحسن الامعیِّ الرّضا سلام علی الاورعی الحسین شھید یری جسمہ کربلا سلام علی سیّد العابدین علی ابن الحسین الزّکی المجتبیٰ سلام علی الباقر المھتدی سلام علی الصّادق المقتدی سلام علی الکاظم الممتحن رضیّ السجایا امام التقی سلام علی الثّامن الموٴتمن علیّ الرّضا سیّدِ الاصفیاء سلام علی المتّقی التّقی محمّد الطیب المرتجی سلام علی الالمعیّ النّقی علیّ المکرّم ھادی الوری سلام علی السیّد العسکری امام یجھزّ جیش الصَّفا سلام علی القائم المنتظر أبی القاسم الغرّ نورالھدی سیطلع کالشّمس فی غاسق ینجیہ من سیفہ المنتفی تری یملا الارض من عدلہ کما ملأت جور اھل الھوی سلام علیہ و آبائہ و انصارہ ما تدوم السَّماء ”سلام ہو اُن پر جو مصطفےٰ بھی ہیں اور مجتبیٰ بھی ہیں۔ سلام ہو ہمارے مولا علی المرتضیٰ  پر۔ سلام ہو سیدہ فاطمة الزہرا  پر جو بتول  ہیں ،جن کو خدا نے دنیا کی تمام عورتوں کا سردار چن لیا۔ سلام ہواُس پر کہ جس کے نفس سے مُشک و عنبر کی خوشبو آتی تھی یعنی امام حسن علیہ السلام جو نہایت عقلمند اور ہردلعزیز ہیں۔ سلام ہو پرہیزگار ترین فرد شہید ِکربلاحسین  ابن علی  پر کہ جن کا جسم شہادت کے بعد کربلا میں دیکھا گیا۔ سلام ہو سید الساجدین علی ابن الحسین  پر جو پاک و مجتبیٰ ہیں۔ سلام ہو امام باقرعلیہ السلام(حضرتِ محمد ابن علی) پر جو ہدایت یافتہ ہیں۔ سلام ہو امامِ جعفر صادق علیہ السلام پر جو امام اور پیشواہیں۔ سلام ہو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام پر جو امتحان شدہ ہیں جو امام المتقین ہیں۔ سلام ہو آٹھویں امین، سید الاوصیاء امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام پر۔ سلام ہو متقی امام محمد ابن علی تقی علیہ السلام پر جو پاک و طاہر ہیں اور سرمایہٴ اُمید ہیں۔ سلام ہو عقلمند اور باخبر امام علی ابن محمد نقی علیہ السلام پر جو بزرگ اور ہادی العالمین ہیں۔ سلام ہو ہمارے مولا امام حسن ابن علی العسکری علیہ السلام پر جو لشکر پاکیزگی سے مز ّین ہیں۔ سلام ہو امام القائم والمنتظر(حضرتِ مہدی علیہ السلام) حضرتِ ابوالقاسم پر جو امامِ نورانی ہیں اور راہِ ہدایت کی روشنی ہیں ۔ جو انشاء اللہ ظہور کریں گے جیسے سورج جب طلوع ہوتا ہے تو تمام تاریکی غائب ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب یہ امام ظہور فرمائیں گے تو تمام روئے ارض عدل و انصاف سے اس طرح بھر جائے گی جیسے اس سے پہلے ظلم و ستم اور ہوس سے بھری ہوئی ہے۔ سلام ہو اُن پر اور اُن کے آباء و اجداد پر اور اُن کے انصار پر تا قیامِ قیامت“۔ حوالہ کتاب شبہائے پشاور، مصنف: مرحوم سلطان الواعظین شیرازی، صفحہ75،نقل از کتاب ابطال الباطل، مصنف: قاضی فضل بن روزبہان۔ حسان بن ثابت تعارف حسان بن ثابت حسان بن ثابت ایک بلند پایہ شاعرِ اسلام ہیں۔ یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں حیات تھے۔ پیغمبر اسلام ان کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حسان کے شعروں کو شعر نہ کہو بلکہ یہ سراسر حکمت ہیں۔ یُنادِیْھِمُ یومَ الغدیر نبیّھم بخُمٍّ واسمع بالرّسول منادیاً وقال فمن مولا کُمْ وَوَلِیُّکُمْ فقالوا ولم یَبْدوا ھناک التعامیا الھُک مولانا وانت ولّینا ولم تلقَ منّا فی الولایة عاصیا فقال لہ قُمْ یا علیُّ فَاِنَّنِیْ رَضیتُک من بَعْدی اماماًوھادیا فمن کُنْتُ مولاہ فھذا ولیّہ فکونوالہ انصارَ صدقٍ مُوالیا ھناک دَعَا اللّٰھُمَّ والِ ولیَّہ وکن للّذی عادیٰ علیّا معادیا ”غدیر خم کے روز پیغمبر اکرم نے اُمت کو آواز دی اور میں نے آنحضرت کے منادی کی ندا سنی۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا:تمہارا مولیٰ اور ولی کون ہے؟ تو لوگوں نے صاف صاف کہا کہ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور آپ ہمارے ولی ہیں اور کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا۔پس آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ یا علی : اٹھو! میں اس پر راضی ہوں کہ میرے بعد آپ اس قوم کے امام اور ہادی ہوں اور فرمایا کہ جس جس کا میں مولیٰ ہوں، اُس اُس کا یہ علی مولا ہے، تم تمام سچائی اور وفاداری کے ساتھ اس کے حامی و مددگار بن جاؤ۔ پھر آپ نے دعا کی کہ خدایا! تو اُس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اُس کا دشمن ہوجو علی سے دشمنی کرے“۔ حوالہ  خوارزمی، کتاب مقتل، باب4،صفحہ47اور حموینی، کتاب فرائد السمطین اور گنجی شافعی ،کتاب کفایة الطالب، باب اوّل۔ من ذا بخاتمة تصدّق راکعاً واسرَّھا فی نفسہ اسراراً؟ من کان باتَ علی فِراشِ محمّدٍ ومحمّدٌ اَسْریٰ یَوٴُمُّ الغارا؟ من کان فی القرآن سُمِّی موٴمناً فی تِسْعِ آیاتِ تُلینَ غَزارا؟ ”وہ کون ہے جس نے حالت ِ رکوع میں اپنی انگشتری فقیر کو دے دی اور اس بات کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا؟ وہ کون ہے جو پیغمبر خدا کے بستر پر سویا جب پیغمبر عازمِ غارِ ثور تھے؟ وہ کون ہے جو قرآن میں نو مرتبہ موٴمن کے لقب سے پکارا گیا ہے اور یہ آیتیں بہت پڑھی جاتی ہیں؟“ حوالہ کتاب الٰہیات و معارفِ اسلامی، مصنف: استاد جعفر سبحانی، صفحہ395نقل کیا گیا ہے تذکرة الخواص سے صفحہ18، اشاعت ِنجف۔ وکان علیٌّ ارمدَ العین یبتغی دواء فلمّا لم یحسّن مداویاً شفاہ رسولُ اللّٰہ منہ بتفلةٍ فبورکَ مرقّیاً و بورکَ راقیاً وقال ساُعطی الرایةَ الیومَ صارماً کمیّاً محبّاً للرسول موالیاً یُحبّ الھی والالہُ یُحبّہ بہ یَفْتَحِ اللّٰہُ الحُصونَ الأِوابیا فأصفی بھا دونَ البریّة کلِّھا علیّاً وسمّاہ الوزیرَ الموٴاخیا ”حضرت علی علیہ السلام کی آنکھوں میں درد تھا۔ انہوں نے دواتلاش کی مگر دوانہ مل سکی۔ پیغمبر خدا نے اُن کی آنکھوں پر لعاب لگایا اور علی علیہ السلام کو شفا ہوگئی۔ اس طرح بیمار بھی انتہائی خوش تھا اور طبیب بھی۔ آپ نے فرمایا کہ کل(روزِ خیبر) میں پرچم اُس کو دوں گا جو مردِ میدان ہوگا ، جو خدا اور اُس کے رسول کو دوست رکھتا ہوگا، خدا اور اُس کا رسول بھی اُس کو دوست رکھتے ہوں گے اور یہ درِ خیبر خدا اُس کے ہاتھ سے کھلوائے گا۔ پس پیغمبر اسلام نے علی علیہ السلام کو ان اعزازات کی وجہ سے تمام لوگوں سے بلندی عطا فرمائی ہے اور اُن کو اپنا وزیر اور بھائی قرار دیا ہے“۔ حوالہ کتاب مصباح الموحدین، مصنف: حجة الاسلام حاجی شیخ عباس علی وحیدی منفرد، صفحہ159 اور کتاب شبہائے پشاور،صفحہ422 میں نقل کیا گیا ہے۔ کتاب”فصول المہمہ“ سے مصنف ابن صباغ مالکی، صفحہ21اور گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب، باب14سے۔ عمربن فارض مصری ذَھَبَ العُمْرُ ضیاعاً وانقضیٰ باطلاً اِنْ لم اَفُزْ منک بشَی غیرَما اوتیتُ مِن عھدی الولا عترةَ المبعوثِ مِن آلِ قُصُی ”میری عمر ضائع ہوگئی اور باطل پر گزر گئی ۔ اب جب میں مرگ کے قریب ہوں،میرا ہاتھ خالی ہے، تنہا میرا آسرا اور میرے دل کی راحت کا سامان عترتِ پیغمبر (یعنی علی و فاطمہ وحسن اور حسین  ) ہیں“۔ حوالہ  کتاب ”سید الشہداء“،مصنف:آیة اللہ شہید دستغیب،صفحہ118اور کتاب”ولاء ھا وولایتھا“، مصنف: شہید مرتضیٰ مطہری، صفحہ39۔ عمر بن فارض مصری ایک معروف عربی شاعر ہے۔ برادرانِ اہلِ سنت اُسے صاحب ِکرامت مانتے ہیں اور اُس کے بہت بلند مرتبے کے قائل ہیں۔ اُس نے یہ اشعار اپنے قصیدہ”یائیہ اش“ کے آخر میں لکھے ہیں۔ مجد الد ّین ابن جمیل ۔۔۔۔۔فأنی سوف أدعوااللّٰہ فیہ وأجعل مدح(حیدرةٍ) أماما وأبعثھا الیہ مُنَقّحات یفوح المسک منھا والخزامی ومن اعطاة یوم (غدیر خُمٍّ) صریح المجد والشرف القدامی ومن ردّت ذکاء لہ فصلّی أداءً بعد ماثنت اللثاما واَثر بالطّعام وقد توالت ثلاث لم یذق فیھا طعاماً بقرص من شعیر لیس یرضی سوی الملح الجریش لہ اِداما۔۔۔۔ اباحسن وانت فتی اذا ما دعاہ المستجیر حمی و حاما أزرتک یقظةً غرر القوافی فزرنی یابن فاطمة مناما بشّرنی بأنَک لی مجیرٌ وانّک مانعی من أن اضاما فکیف یخاف حادثة اللیالی فتیً یعطیہ (حیدرةٌ) ذماما؟ ”میں اُس مہینے(ماہِ حرام) میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا اور مدح و ثنائے علی علیہ السلام کو اپنے سامنے رکھوں گا اور وہ اس حالت میں ہوگی کہ وہ پاکیزہ ہوگی اور اُس میں سے مُشک و عنبر کی خوشبو آتی ہوگی۔ اسے میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کروں گا۔ علی علیہ السلام ، وہ جن کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ غدیر خم سب کے سامنے بزرگی و شرافت و بلند مرتبہ عطا فرمایا۔ وہ علی علیہ السلام جس کیلئے اُس وقت سورج پلٹا جب چاروں طرف تاریکی چھا چکی تھی تاکہ وہ وقت پر نماز پڑھ سکیں۔یہ وہ علی  ہیں جنہوں نے متواتر تین روز تک کوئی غذا نہ کھائی اور اپنی غذا دوسروں کو دے دی۔(یہ سورئہ دہر کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”۔۔۔۔۔وَیُطْعِمُوْنَ الطعَامَ عَلَی حُبِّہ مِسْکِیْناً وَّ یَتِیْماً وَ اَسِیْرا۔۔۔۔۔“ اُن کی غذا نانِ جویں ہوتی تھی اور وہ اس پر راضی نہ ہوتے تھے کہ ان کے ساتھ نمک کے علاوہ کوئی اور غذا رکھی جائے۔ اے ابوالحسن ! تو ایساجواں مرد ہے کہ اگر کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو یقینا اُس کو پناہ دیدے گا۔ اے فاطمہ بنت اسد کے بیٹے! میں ان اشعار کے ذریعے جاگتے ہوئے تیری زیارت کیلئے آیا ہوں ۔ تو بھی مجھے سوتے ہوئے اپنی ملاقات کا شرف عطا فرما اور مجھے یہ بشارت دے کہ تو مجھے پناہ دے گا اور مجھے رنج و غم سے نجات دلا ئے گا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے کاموں کی باگ ڈور حیدر  کے ہاتھ میں دے اور پھر بھی حوادثِ زمانہ سے ڈرے“۔ حوالہ کتاب”الغدیر“، جلد5،صفحہ401۔ مجد الدین ابن جمیل ساتویں صدی ہجری کے علماء اور شعراء میں سے ہیں۔ الغدیر کے مصنف کے مطابق وہ عباسیہ دور میں خلیفہ الناصر الدین اللہ کی شان میں بھی قصائد لکھتے رہے ہیں، اس لئے انہوں نے کافی شہرت پائی۔انہوں نے دیوان بنام”ترکاتِ حشریہ“ لکھا۔ وہ کافی عرصہ زندان میں رہے کہ ایک شب انہوں نے یہ قصیدہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں لکھا اور اگلے ہی دن زندان سے رہائی مل گئی۔ مولانا جلال الد ّین رومی مولانا جلال الدین مولوی محمد بن الحسین البلخی المشہور مولانا روم ایک بزرگ اور عظیم شاعر تھے جنہوں نے اسلام اور ادبیاتِ ایران کی بڑی خدمت کی ہے۔ کلیاتِ مثنوی معنوی اُن کی معروف تصنیف ہے۔ مولانا مذہب ِحنفی رکھتے تھے۔ کتاب ”فرہنگ ِ بزرگان و اسلام“ میں انہیں صفحہ576پر فقیہ حنفی کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔ ذیل میں ہم زبانِ فارسی کے اشعار نقل کررہے ہیں جو مدحِ امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کی بہترین مثال ہیں۔ اشعار کا ترجمہ پیش نہیں کیا جارہا۔ اس کو قارئین پر چھوڑ رہے ہیں۔ منبع:islaminurdu.com