فزت و رب الکعبۃ

آج سے ٹھیک 1393 سال قبل خدا کے گھر میں دہشت گردی کی وہ بنیاد رکھی گئی جس کا سب سے پہلا شکار سینہءزمین پر خدا کی سب سے برگزیدہ اور افضل ترین مخلوق تھی۔ عبدالرحمٰن ابن ملجم لعنۃ اللہ علیہ نے جانشین ِ رسول (ص)، امیرالمومنین، امام المتقین، یعسوب الدین، قائد غرالمحجلین، کرار، غیر فرار، صاحب الذوالفقار، مشکل کشا، شیرِ خدا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ افضل السلام کو زہر آلود تلوار سے اس وقت شہید کیا جب آپ نماز فجر کے سجدے میں اپنے معبود کے حضور پیش تھے۔ وقتِ ضربت آپ نے وہ آفاقی جملہ ارشاد فرمایا جس کی نظیر تاقیامت کوئی پیش کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ کوئی سورما موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ “رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔” اجل پہ کون گرا دہر میں علی (ع) کی طرح ۔ ۔ ۔ ۔ یہ علی (ع) کا ہی جگر تھا کہ زہرآلود تلوار کے وار کو اپنے سر ِ اقدس پر برداشت کیا اور واویلا مچانے یا جوابی کاروائی کرنے کی بجائے ایک طرف تو "فزت ورب الکعبہ" کی صدا بلند کرکے اپنی فتح و کامرانی کا اعلان کیا اور دوسری جانب اپنے قاتل کی گرفتاری عمل میں آنے کے بعد اسکی جانب متوجہ ہو کر اسکی دلجوئی فرمائی۔ اسکے چہرے پر خوف اور دہشت کے آثار دیکھ کر اپنے لیئے لایا جانیوالا شربت اسکو پلانے کی تلقین فرمائی۔ ضرب کھا کے بھی جو قاتل کو پلائے شربت زیب دیتا ہے اسے ساقئ کوثر ہونا مسجد میں موجود اصحاب، محبان اور دیگر نمازی حضرات نے جب اپنے غم کا اظہار کرنا چاہا تو آپ نے لوگوں سے فرمایا، "ھذا وعدنا اللہ و رسولہ" کہ یہ وہی کچھ ہے جس کا اللہ اور اسکے رسول (ص) نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا۔ شاید آپ کا اشارہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی جانب سے دی گئی شہادت کی بشارت کی جانب تھا یا اُس حدیث کی طرف جس میں آپ (ص) نے فرمایا تھا کہ امت علی سے غداری کرے گی۔ بعد ازاں آپ اپنے فرزند ذی وقار سید الاشراف امام حسن مجتبٰی علیہ الصلوۃ وافضل السلام کی جانب متوجہ ہوئے اور آپ سے نماز ِ فجر کی امامت کروانے کے لئے فرمایا اور ساتھ بیٹھ کر خود بھی اپنا واجب ادا فرمایا۔ نماز کے بعد آپکو شدید زخمی حالت میں گھر پہنچایا گیا۔ گھر کے باہر پہنچ کر آپ نے اپنے اصحاب کو اندر تشریف لیجانے سے منع فرمایا اور کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ آپکا نالہ و فغاں گھر کی مستورات کی سماعت کا حصہ بنے اور انکی آہ و فغاں آپکے کانوں سے ٹکرائے۔ اس دوران کافی خون بہہ چکا تھا اور زہر پورے جسم ِ مبارک میں حلول کر چکا تھا جسکی وجہ سے آپ پر نقاہت طاری ہوگئی۔ کمال ِ پریشانی اور شدید تکلیف کے عالم میں بھی آپ اپنی شرعی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ رہے۔ آپ نے اپنے فرزند ِ اکبر امام حسن ِ مجتبٰی علیہ السلام کو بطور جانشین ِ امامت اور باقی اولاد کو انکے متعلقہ امور پر وصییتیں فرمائیں۔ ان وصیتوں سے کچھ اقتباسات پیش ہیں۔ آپ نے فرمایا، "اے میرے فرزندان حسن و حسین (ع)! میں آپ کو خدا سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں اور دنیا کی طلب سے منع کرتا ہوں۔" پھر فرمایا، "اے بیٹا حسن! میں تمہیں اس چیز کی وصیت کرتا ہوں جس کی مجھے رسول اللہ (ص) نے وصیت کی تھی اور وہ یہ کہ جب امت تم سے مخالفت پر آمادہ ہو جائے تو گوشہ نشینی اختیار کر لینا۔ آخرت کے واسطے گریہ و فغاں کرنا اور دنیا کو اپنا مقصود قرار نہ دینا اور نہ ہی اس کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا۔ نماز کو اول وقت میں ادا کرنا اور زکوٰۃ کو  بروقت اس کے مستحقین تک پہنچادینا۔ مشتبہ امور پر چپ سادھ لینا اور غضب کے موقع پرعدل و میانہ روی سے کام لینا۔ اپنے ہمسایوں سے اچھا سلوک کرنا اور مہمان کی عزت کرنا۔ مصیبت کے ستائے ہوئے لوگوں پر رحم کرنا۔ صلہءرحمی کرنا اور غرباء و مساکین کی دلجوئی کرنا۔ ان کے ساتھ نشست کرنا اور تواضع و انکساری اختیار کرنا کہ یہ افضل عبادت ہے۔ اپنی آرزوؤں اور امیدوں کو کم کرنا اور موت کو یاد رکھنا۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ظاہر اور ڈھکے چھپے دونوں طریقوں سے خدا سے ڈرتے رہنا۔ بغیر غور و فکر کے بات نہ کرنا اور کام میں جلدی نہ کرنا۔ البتہ کار ِ آخرت کی ابتداء میں عجلت اختیار کرنا اور دنیا کے معاملہ میں تاخیر اور صرف ِ نظر کرنا۔ مقامات ِ تہمت اور ایسی محافل سے بھی دور رہنا جن کے متعلق برا گمان کیا جاتا ہو کیونکہ برا ہمنشین اپنے ساتھی کو نقصان ضرور پہنچاتا ہے۔" پھر فرمایا، "اے میرے فرزند! خدا کے لئے کام کرنا اور فحش و بیہودہ گوئی سے پرہیز کرنا اور اپنی زبان سے صرف اچھی چیزوں کا حکم دینا اور بری چیزوں سے منع کرنا۔ برادران ِ دینی کے ساتھ خدا کی وجہ سے دوستی و برادری رکھنا اور اچھے شخص کے ساتھ اسکی اچھائی کی وجہ سے دوستی رکھنا اور فاسقوں کے ساتھ نرمی برتنا کہ وہ دین کو نقصان نہ پہنچائیں تاہم انہیں دل میں دشمن سمجھنا اور اپنے کردار کو ان کے کردار سے الگ رکھنا تا کہ تم ان جیسے نہ ہو جاؤ۔ گزر گاہ پر نہ بیٹھنا اور بیوقوفوں اور جہلا سے مت الجھنا۔ گزر اوقات میں میانہ روی اختیار کرنا اور اپنی عبادت میں بھی اعتدال رکھنا اور وہ عبادت چننا جس کو ہمیشہ قائم رکھ سکو۔" مزید ارشاد فرمایا، "کوئی غذا اس وقت تک نہ کھانا جب تک اس کھانے میں سے کچھ صدقہ نہ دے دو۔ تم پر روزہ رکھنا لازم ہے کہ یہ بدن کی زکوٰۃ ہے اور آتش ِ جہنم کے لیئے سپر۔ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا اور اس سے ڈرتے رہنا (کہ یاد خدا سے غافل نہ کر دے)۔ دشمن سے پہلو تہی کرنا جبکہ ان محفلوں میں جانا تمہارے لیئے ضروری ہے جہاں ذکر ِخدا ہوتا ہو اور دعا زیادہ کیا کرنا۔" مذکورہ بالا وصیت نامہ، بلکہ فصاحت و بلاغت کا ایک سمندر بظاہر اپنی اولاد کو مخاطب فرما کر ہمارے آقا نے شاید ہم محبت کا دم بھرنے والوں کے لیئے ارشاد فرمایا ہوگا کہ ہم اس ضابطہءحیات کے تحت اپنی اپنی زندگیاں گزاریں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بلاغت کے سمندر مین غوطہ زنی کریں اور حکمت و دانش کے وہ موتی چنیں جو ہمارے مولا نے ہمارے لئے تحفتا” چھوڑے ہیں۔ مولا علی علیہ السلام انیس رمضان کی شب اپنی چھوٹی بیٹی بی بی ام کلثوم سلام اللہ علیھا کے یہاں مہمان تھے ۔ افطار پر آپ کے سامنے دودھ، نمک اور پانی پیش کیا گیا تو آپ نے نمک یا پانی میں سے ایک چیز اٹھا کر باقی دو واپس کر دیں کہ آپ کے نزدیک دسترخوان پر ایک سے زیادہ غذا دیگر لوگوں کا حق پامال کرنے کے مترادف تھا۔ (اللہ اکبر)۔ یہاں ایک بات اور قابل غور ہے کہ آپ نے اپنے آخری ایام کو اپنی اس بیٹی کے گھر گزارنا پسند فرمایا جو سب میں چھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ بیوہ اور اولاد کی نعمت سے محروم بھی تھی۔ کیا انداز ِ دلجوئی اور اظہار ِ شفقت ِ پدری تھا میرے مولا کا! کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اب وقت رخصت آن پہنچا ہے اور اجکی صبح گھر سے روانہ ہونا پھر کبھی نہ لوٹ آنے کے مترادف ہوگا۔ تمام رات آپ بیدار اور حالتِ عبادت میں رہے اور بارہا حجرے سے باہر تشریف لا کر آسمان کی جانب دیکھ  کر فرماتے تھے، "خدا کی قسم! میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ بتلایا گيا ہے۔ یہی وہ شب ہے کہ جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے۔" رات تمام ہوئی اور آپ گھر سے مسجد کی جانب روانہ ہوئے تو صحن میں موجود بطخوں نے بھی آپ کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر آپ وقار امامت کے ساتھ سورۃ انبیاء کی آیات 26 و 27 "عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ لَا يَسْبِقُونَہ بِالْقَوْلِ وَھم بامْرِہ يَعْمَلُونَ (اللہ کے مکرم بندے بات میں اس سے آگے نہیں بڑھتے اور اسی کے امر سے افعال بجا لاتے ہیں۔) کا مصداق بنے اپنے سامنے مصائب کا پہاڑ پا کر بھی مسجد کی جانب پیش قدم ہوتے رہے۔ جب وارد ِ مسجد ہوئے تو کچھ افراد کو سویا ہوا پایا۔ انہیں میں ابن ملجم ملعون بھی پیٹ کے بل تلوار سونتے ہوئے سورہا تھا۔ آپ نے اپنے قاتل کو بھی بیدار فرمایا اور حکم نماز دیا۔ علی سے زندگی، قاتل علی کا کیا چھینے کہ جام شیریں جسے دست حیدری سے ملے علی نے نیند سے بیدار کردیا ہو جسے علی سے زندگی وہ چھینتا بھلا کیسے؟؟؟؟؟؟ انیس رمضان سن چالیس ہجری کا دن تاریخ بشریت کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب خانہءخدا میں خدا کی برگزیدہ ترین ہستی کو شہید کرنے کی قبیح واردات کا ارتکاب کچھ اس طرح کیا گیا کہ بوقت سحر جامع مسجد کوفہ میں یہ بد بخت و شقی ترین انسان امیرالمومنین علی (ع) کی تشریف آوری کا منتظر تھا۔ دوسری طرف کوفہ کی ایک بد کردار عورت قطامہ نے وردان بن مجالد نامی شخص کو شادی کا لالچ دے کر اپنے دام میں گرفتار کیا اور دہشت گردی کے اس مکروہ منصوبے میں اسکے ساتھ اپنے قبیلےکے دو مزید آدمی اسکے ساتھ روانہ کیے۔ یہ وہی  وردان ہے جو  ولید بن عتبہ کا اس وقت سے معتمد ِ خاص تھا جب وہ عہد ِ عثمانی میں کوفہ کا گورنر تھا۔ یوں اس ملعون کا اہلبیت (ع) سے بغض رکھنا ایک لازمی امر تھا جسکی بنا پر وہ یہ قبیح ترین فعل کرنے پر رضامند تھا۔ اس شیطانی واردات کا سرغنہ اپنے دور کا چاپلوس اور منافق ترین شخص اشعث بن قیس کندی لعنۃ اللہ علیہ تھا جس نے ان تمام افراد کی نہ صرف تربیت کی بلکہ اس جرم کو کر گزرنے میں ہر لمحہ ان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی بھی کی۔ جب آپ اپنے معبود کے حضور سجدہ ریز تھے تو ابن ملجم مرادی نامراد نے  اپنی شمشیر سے آپ کے سر ِ مبارک پر حملہ کیا جسکے نتیجے میں آپکا سر ِ اقدس  مقام ِ سجدہ تک زخمی ہوگیا۔ اس وقت اہل ِ مسجد نے ایک ندائے ہاتف ِ غیبی سنی کہ "تھدمت و اللہ اركان اللہ ھدٰي، و انطمست اعلام التّقٰي، و انفصمت العروۃ الوثقٰي، قُتل ابن عمّ المصطفٰي، قُتل الوصيّ المجتبٰي، قُتل عليّ المرتضٰي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء" کہ "خدا کی قسم ارکان ِ ھدایت منہدم ہوگئے، علمِ نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کردیا گيا، نشانِ تقوٰی کو مٹادیا گيا، عروۃ الوثقٰی کو کاٹ ڈالا گيا کیونکہ رسول خدا (ص) کے چچازاد کو شھید کر دیا گيا۔ سید الاوصیاء علی المرتضی (ع) کو شھید کردیا گيا۔ انہیں شقی ترین شخص نے شھید کیا۔" کتب میں درج ہے کہ وقت ِ ضربت زمین پر لرزہ طاری ہوگیا، دریا خاموش ہوگئے اور آسمان متزلزل ہوگیا۔ مسجد ِ کوفہ کے در آپس میں ٹکرانے لگے۔ ملک ہائے آسمانی کی صدائيں بلند ہوئيں۔ کالی گھٹا چھا گئ۔ تا وقت ِ شہادت آپ گھر میں اپنے بچوں اور اہل ِ خاندان کے ساتھ انتہائی تکلیف کی حالت میں رہے اور اس عالم میں زبان پر مسلسل ذکر و تسبیح جاری رہی۔ داعیءاجل کو لبیک کہنے سے کچھ وقت قبل آپ کی زبان ِ مبارک پر سورۃءالزاریات کی یہ آٰیات تھیں کہ "فمن يعمل مثقال ذرۃ خيراً يرہ ومن يعمل مثقال ذرۃ شراً يرہ۔" (جو زرہ بھر بھی نیکی کرے گا اس کو بھی دیکھ لے گا اور جو زرہ بھر برائی کرے گا اس کو بھی سامنے پائے گا۔) مولا علی علیہ السلام کا جو سفر 30 عام الفیل کو خدا کے گھر سے شروع ہوا تھا وہ 40 ہجری کو خدا ہی کے گھر میں انجام پذیر ہوا۔ جب امام علیہ السلام مجروح تھے تو آپ  نے اپنے بچوں  کو بتایا کہ پچھلی رات آپکو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے آپ (ص) سے امت کی بد عہدی کی شکایت کی۔ آپ(ص)  نے فرمایا کہ "اے علی! اس امت کے لئے بد دعا کرو۔" تو میں نے کہا کہ "اے اللہ! ان لوگوں پر میرے بدلے برے لوگوں کو مسلط فرما۔" اس پر رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ "اے علی! اللہ نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے اور تم تین دن بعد مجھ سے آن ملو گے۔" پھر فرمایا کہ "اے بیٹا حسن! آج رات میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔" جب آپ وصیت فرما رہے تھے تو امام حسین (ع) کی جانب نگاہ کر کے فرمایا کہ "اے میرے بیٹے! یہ امت تمہیں شہید کردے گی۔ اس مصیبت پر صبر کرنا تم پر لازم ہے۔" بعد ازاں کچھ دیر کے لئے آپ پر غشی طاری ہوگئی۔ جب ہوش آیا تو فرمایا کہ "ابھی رسول اللہ (ص)، چچا حمزہ (ع) اور بھائی جعفر طیار (ع) تشریف لائے تھے اور فرما رہے تھے کہ علی جلدی کرو۔ ہم تمہارے مشتاق ہیں۔" پھر آپ نے قبلہ رو ہو کر اپنے دست و پا دراز فرما لئے اور آنکھیں بند کر کے زبان مبارک پر کلمہءشہادت "اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ" جاری فرمایا۔ کائنات ِ خداوندی کا افضل ترین فرد آج کے دن پردہ فرما گیا۔ ان للہ وان الیہ راجعون۔ کسے رامیسر نہ شد ایں سعادت بہ کعبہ ولادت، بہ مسجد شہادت ویسے تو تاریخ اسلام کی پہلی مسلح دہشت گردی بھی خانوادہءاہلبیت رسول (ع) کے خلاف ہوئی جسکا شکار مرکز ِ تطہیر، دختر ِ رسول (ص)، زوجہءامام علی (ع) اور حسنین ِ کریمین (ع) کی والدہ سیدۃ النساءالعٰلمین بی بی فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا تھیں، جب آپکے دولت کدے پر مسلح حملہ کرکے آپکو مع ایک فرزند درشکم شہید کردیا گیا تھا۔ تاہم خانہءخدا میں دہشت گردی کا جو پہلا منصوبہ ترتیب دیا گیا اسکا شکار بھی اشرف الاشراف اور خدا کی افضل ترین مخلوق، بی بی سیدہ (س) کا سرتاج ہی تھا۔ خانوادہءرسالت (ع) اور اسکے پیروان کے خلاف دہشت گردی کا جو سلسلہ  کم و بیش چودہ صدیوں قبل شروع ہوا تھا، وہ آج تک جاری ہے۔ آج بھی اشعث بن قیس، وردان اور قاضی شریح منبر پر قابض ہیں اور اپنی مذموم کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ ہم ان تمام دہشت گردانہ کاروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ان ایام غم میں وارث ِ خون ِ معصوم (عج) اور محبان ِ مولا علی کے حضور تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں اور خدا سے دعا گو ہیں کہ وہ پہلے سے لیکر آخری دہشت گرد تک سب کو اپنے دردناک عذاب سے دوچار فرمائے۔ مولا علی (ع) کی بددعا کے نتیجے میں آج تک امت پر بدترین لوگ مسلط ہیں۔ خدا کے حضور دعا ہے کہ وہ اپنی آخری حجت (عج) کو جلد اذن ِظہور عطا فرمائے اور آپکے پاکیزہ انقلاب کے زریعے اس زمین کو دہشت گردوں اور ظالموں سے پاک فرمائے۔ اس زمین کو عدل و انصاف سے ایسے پر کردے جیسے اسکے چپے چپے پر  ظلم کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ آمین یا رب العٰلمین بحق محمد وآلہ الطاہرین۔ اللھم عجل لولیک الفرج