فضائلِ علی علیہ السلام قرآن کی نظرمیں
فضائلِ علی علیہ السلام قرآن کی نظرمیں
0 Vote
28 View
علی کی شان میں آیات کی تعداد شیعہ سنی مفکرین و محققین اورعلمائے اہلِ سنت کے اعترافات کے مطابق مولائے موحدین امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ایک جداگانہ شخصیت کے مالک تھے اور تمام صحابہٴ رسول میں اُن کو انتہائی ممتاز مقام حاصل تھا۔ خدائے بزرگ نے سب سے زیادہ آیاتِ الٰہی انہی کی شان میں نازل فرمائی ہیں۔ بیشمار معتبر روایات موجود ہیں جو اس حقیقت کو بڑے احسن انداز میں بیان کرتی ہیں لیکن کتاب کے اس حصے میں ہم برادرانِ اہلِ سنت کی کتب کے ذخائر سے استفادہ کریں گے۔ (ا)۔ علمائے اہلِ سنت کی ایک کثیر تعداد جیسے ”حافظ بن عساکر“، ”گنجی شافعی“، ”سیوطی“،”ابن حجر“،”خطیب ِ بغدادی“اور اسی طرح دوسروں نے بڑی اہم روایات اس ضمن میں نقل کی ہیں کہ جن میں بہت سی آیاتِ قرآنی جو شانِ علی علیہ السلام میں نازل ہوئیں، کا واضح ذکر کیا ہے۔ عَنْ اِبْنِ عَبَّاس قَالَ: نَزَلَتْ فِیْ عَلِیٍّ ثَلاٰثُ مِائَۃِ آیَۃٍ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں تین سو آیات نازل ہوئی ہیں۔ اس کو اپنی درج ذیل تصانیف میں نقل کیا ہے: خطیب ِ بغدادی ،ترجمہٴ اسماعیل بن محمد بن عبدالرحمٰن شمارہ 3275، تاریخ بغداد جلد6، ص:221۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودة، باب42، ص148۔ حافظ بن عساکر،حدیث 941 ، ترجمہ امیر الموٴمنین از تاریخ دمشق، جلد2، ص431،طبع دوم۔ گنجی شافعی ،کتاب کفایة الطالب باب62، ص231۔ سیوطی ،کتاب تاریخ الخلفاء ،ص172 اور اللّٰئالی المصنوعہ ، ج1،ص192، ط1۔ ابن حجر ، کتاب صواعق، ص76۔ (ب)۔ اہلِ سنت کے دیگر علماء نے اس روایت کو نقل کیا ہے: عَنْ یَزِیدِ ابنِ رُومٰان قَالَ: مَا نَزَلَ فِی اَحَدٍ مِنَ القُرآنِ مَانَزَلَ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ. ”یزید ابن رومان روایت کرتے ہیں کہ جتنی تعداد میں آیاتِ قرآنی علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں، کسی اور کی شان میں نازل نہیں ہوئیں“۔ اس کو مندرجہ ذیل علماء نے اپنی تصانیف میں ذکر کیا ہے: ابن عساکر، حدیث 940 ،ترجمہ امیر الموٴمنین از تاریخ دمشق، ج2، ص430، ط2۔ ابن حجر، کتاب صواعق، ص76۔ سیوطی ،تاریخ الخلفاء، ص 171(ابن عباس سے)۔ حافظ الحسکانی، حدیث 50، باب اوّل 5 ، از مقدمہ کتاب شواہد التنزیل، ج1، ص39 طبع اوّل اور حدیث 55 ، ص 41 ۔ اسی کتاب میں۔ گنجی شافعی، باب 62، کتاب کفایة الطالب ، ص 253۔ شبلنجی ، کتاب نورالابصار، ص73 وغیرہ۔ (ج)۔ حافظ الحسکانی جو اہلِ سنت کے معروف عالم ہیں، نے کتاب شواہد التنزیل میں اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے: عَنِ الْاَصْبَغِ بنِ نَبٰا تَہ قٰالَ: قَالَ عَلِی عَلَیْہِ السَّلَام:نَزَلَ الْقُرْآنُ أَرْبَاعاً، فَرُبْعٌ فِینٰا وَرُبْعٌ فِی عُدُ وِّنَا وَرُبْعٌ سُنَنٌ وَأَمثٰالٌ وَرُبْعٌ فَرَائِضُ وَاَحْکٰامٌ فَلَنٰا کَرٰائِمُ الْقُرْآنِ۔ اصبغ بن نباتہ سے روایت کی گئی ہے ، کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے، ایک چوتھائی ہمارے(اہلِ بیت ) کے بارے میں ہے، ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے، ایک چوتھائی سنت اور مثالوں پر مشتمل ہے اور ایک چوتھائی فرائض اور احکام کے بارے میں ہے۔ پس کرائمِ قرآن ہمارے لئے ہے(یعنی جن آیات میں جوانمردی، اخلاقِ حسنہ اور بزرگی بیان کی گئی ہے، واضح طور پر اُن کا مصداق ہم ہیں)۔ حوالہ جات حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل، حدیث 58، باب پنجم ، جلد1،صفحہ 43، اشاعت ِ اوّل اور شیخ سلیمان قندوزی حنفی کتاب ینابیع المودة، باب 42، صفحہ 148 اور دوسرے حوالے۔ آیاتِ گرانقدر کے چند نمونے پہلی آیت ولی تو بس صرف خدا ، اُس کا رسول اور علی علیہ السلام ہیں اِنَّمَاوَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَالَّذِیْنَ ٰ امَنُواالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَھُمْ رٰکِعُوْنَ۔ ”سوائے اس کے نہیں ہے کہ حاکم تمہارا اللہ ہے اور اُس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور حالت ِ رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں“۔(سورئہ مائدہ:آیت55) تشریح: اس آیہٴ شریفہ جس میں ولایت ِ خدا اور ولایت ِرسول کے ساتھ ساتھ ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہما السلام کا صریحاً ذکر ہے، کے شانِ نزول کے بارے میں شیعہ اورسنی مفسرین کااتفاق ہے اور وہ لکھتے ہیں : ”ایک دن امیر الموٴمنین علی علیہ السلام مسجد میں نماز اور عبادتِ خدا میں مشغول تھے۔جس وقت حضرت رکوع میں گئے تو ایک سائل مسجد میں داخل ہوا اور اُس نے مدد کیلئے پکارا۔حضرت علی علیہ السلام نے حالت ِ رکوع ہی میں اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی سائل کی طرف کردی۔سائل نے وہ انگوٹھی خود آپ کی انگشتِ مبارک سے اتار لی اور خوشی خوشی مسجد سے باہر چلاگیا“۔ خدا کو علی علیہ السلام کا یہ عملِ خیر اتنا پسند آیا کہ اُس کی اہمیت کو بتانے کیلئے مندرجہ بالا آیت نازل فرمائی۔ اسی آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت ابوذر غفاری نے روایت بیان کی ہے کہ ایک دن میں رسولِ خدا کے ہمراہ نماز پڑھ رہا تھا، ایک سائل مسجد میں داخل ہوا، اُس نے لوگوں سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے بھی اُس کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اُس نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور کہا اے اللہ! تو گواہ رہنا کہ میں نے تیرے رسول کی مسجد میں لوگوں کو مدد کیلئے پکارا لیکن کسی نے میری مدد نہ کی۔ اس وقت علی علیہ السلام حالت ِ رکوع میں تھے، آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی سائل کی طرف بڑھا دی۔ سائل نے وہ انگوٹھی آپ کے دست ِ مبارک سے اُتار لی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اس واقعہ کے خود شاہد تھے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے سر کو آسمان کی جانب بلند کیا اور خداسے مناجات کیں اور یہ دعا مانگی: اَلّٰلھُمَّ وَاَنَا مُحَمَّدٌ نَبِیُّکَ وَصَفِیُّکَ،اَلّٰلھُمَّ فَاشْرَحْ لِی صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیراً مِنْ أَھْلِیْ عَلِیّاً وَأَشْدُدْ بِہِ ظَھْرِیْ۔ ”خدایا! میں محمدتیرا نبی ہوں۔ خدایا! میرے سینے کو کھول دے اور میرے کام کو مجھ پر آسان کردے اور میرے لئے میرے خاندان میں سے علی کو میرا وزیر بنادے اور اُس سے میری کمر کو مضبوط کردے“۔ ابوذرفرماتے ہیں کہ ابھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا اختتام کو نہیں پہنچی تھی کہ حضرتِ جبرئیل نازل ہوئے اور کہا :” اے پیغمبر خدا! پڑھئے“۔ پھر یہ آیت تلاوت کی: اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَالَّذِیْنَ ٰاٰمَنُواالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَھُمْ رٰکِعُوْنَ۔ حوالہ :مجمع البیان ج3،4۔ص324۔ تفسیرالمیزان،ج6ص1 تا 24،تفسیر نمونہ ج4ص422 تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ فخر رازی اپنی کتاب تفسیر رازی جلد12،ص26، ناشر دارالکتب العلمیہ طہران، طبع2۔ 2۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج2،ص150، حدیث151، مطبوعہ بیروت،طبع1۔ 3۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب،باب 62، ص250۔ 4۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، ص251۔ 5۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب فضائل علی علیہ السلام،جلد9،ص134۔ 6۔ الحموینی ، کتاب فرائد السمطین، جلد1، ص191،193۔مطبوعہ بیروت، طبع اوّل۔ 7۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث231،جلد1،ص173، طبع اوّل۔ 8۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد2،ص597،598، مطبوعہ بیروت ،کتاب البدایہ والنہایہ، جلد7،ص358، باب فضائلِ علی علیہ السلام۔ 9۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین، حدیث 355، ص311،312۔ 10۔ سیوطی، کتاب الدرالمنثور، جلد2،ص322۔ 11۔ بیضاوی خود اپنی تفسیر میں ، جلد1،ص372۔ 12۔ زمخشری، کتاب کشاف، جلد1، ص649۔ 13۔ طبری خود اپنی تفسیر میں، جلد6، ص288۔ 14۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال، جلد7، ص305، طبع1 اور طبع2، جلد6،ص391۔ 15۔ خوارزمی ، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ،ص187۔ نوٹ: اہلِ سنت کی چند کتابوں کے حوالہ جات اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ہم تمام کتب ِ اہلِ سنت کے حوالہ جات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرز کو آئندہ بھی اپنایا جائیگا۔ دوسری آیت عملِ علی کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ عمل قرار دیتا ہے اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّاوَّ عَلَانِیۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَرَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌعَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔(سورئہ بقرہ:آیت274) ”جو لوگ اپنے مال کو دن اوررات، میں پوشیدہ اور ظاہر(راہِ خدا میں) صرف کرتے ہیں، اُن کا اجر اُن کے پروردگار کے پاس ہے اور اُن کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے“۔ تشریح: تمام علمائے شیعہ اور ایک کثیر تعداد علمائے اہلِ سنت نے روایاتِ متعدد کی بناء پر لکھا ہے کہ یہ آیت ِشریفہ امیر الموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے اس طرح بیان کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس چار درہم تھے۔ ان میں سے ایک درہم آپ نے رات کو خیرات کیا۔ دوسرا درہم دن میں، تیسرا درہم چھپا کر اور چوتھا درہم ظاہراً مستحق افراد میں خیرات کیا۔اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو بہت پسند کیا اور مندرجہ بالا آیہٴ شریفہ نازل فرمائی۔ اس طرح علی علیہ السلام کی شخصیت ِکامل کا تعارف کروایا۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ ابن کثیر، کتاب اسد الغابہ، شرح حالِ امیر الموٴمنین ، جلد4، ص25۔ 2۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں(تفسیر بیضاوی)جلد1،ص141، مطبوعہ بیروت۔ 3۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، حدیث282، باب 66،جلد1،ص356۔ 4۔ فخر رازی تفسیر کبیر میں۔جلد7،صفحہ89۔ دوسری طبع میں، جلد7،صفحہ83۔ 5۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد1،صفحہ115۔ 6۔ ابن مغازی ، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ،صفحہ280۔ 7۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور،جلد1،صفحہ374۔ 8۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب62،صفحہ232۔ 9۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، کتاب ینابیع المودة،صفحہ250۔ 10۔ ابن کثیر اپنی تفسیر ، جلد1،صفحہ326۔ 11۔ زمخشری، تفسیر کشاف، جلد1،صفحہ319۔ 12۔ خوارزمی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، باب17، صفحہ190۔ تیسری آیت تعارفِ علی برائے منصب ِ امامت یٰٓاَ یُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ۔ ”اے رسول! جو کچھ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے (علی علیہ السلام کے بارے میں) نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو گویا تم نے اپنی رسالت ہی نہ پہنچائی اور اللہ آدمیوں کے شر سے تم کو محفوظ رکھے گا۔ بے شک اللہ منکروں کی رہبری نہیں فرماتا“۔(سورئہ مائدہ:آیت:67)۔ تشریح یہ آیہٴ شریفہ حقیقت میں بہت ہی اہم پیغام کی حامل ہے یعنی وہ پیغام جس میں ذاتِ احدیت نے امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کو منصب ِ امامت اور وصیِ رسالت کیلئے اپنا واضح اور کھلا فیصلہ عوام تک پہنچوایا۔ اس آیت میں پیغمبر اسلام سے خطاب ہے اور نہایت تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے : اے میرے رسول! وہ پیغام جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے، وہ لوگوں تک پہنچا دو اور اگر یہ پیغام تم نے لوگوں تک نہ پہنچایا تو ایسا ہے جیسے رسالت کا کوئی کام ہی نہیں کیا(وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہ)۔ اللہ تعالیٰ اس حکم کے دینے کے بعد اپنے رسول کودشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی خوشخبری بھی دیتا ہے۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ یہ آیت ِمخصوص جو یقینا پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخر ِعمر شریف میں نازل ہوئی ہوگی، کونسا ایسا اہم پیغام تھا جس کو پہنچانے کیلئے اتنی سخت تاکید کی گئی۔ یہ بات تو یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس پیغاممیں جو خدا کی طرف سے دیا گیا تھا، بڑا اہم اور عظیم تھا اور یہ اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کیلئے تاریخ ساز تھا۔ قرآنی تعلیمات کو نکتہٴ عروج تک پہنچانے کیلئے بنیادی کردار تھا۔ اس بناء پر ہمیں اس عظیم اور اہم پیغام کو سمجھنے کیلئے پوری کوشش اور جستجو کرنی چاہئے۔ روایات کی روشنی میں اصل حقیقت کا پتہ چلانا چاہئے۔ ابن عساکر، سیوطی، ثعلبی اور بہت سے دوسرے علمائے اہلِ سنت روایات کی روشنی میں معتقد ہیں کہ اس آیت ِقرآنی میں جو حکم دیا گیا ہے، وہ تعارفِ ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہے۔ ہم اس مقام پر اُن میں سے دو روایتوں کا ذکر کرتے ہیں: (ا)۔ عَنْ اَبِی سَعیدالخدری قالَ:نَزَلَتْ ھٰذِہ الآیۃ:”یٰٓاَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ“۔عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ یَوْمَ غَدِیْرِ خُم فِی عَلِیٍ۔ ”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ یہ آیت ِشریفہ:”یٰٓاَ یُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ“،غدیر خم کے موقع پر پیغمبر اسلام پر نازل ہوئی“۔ (ب)۔ عن ابن عباس فی قولہ(تعالٰی):”یٰٓاَ یُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ“،قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلیٍ علیہ السلام أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلّٰی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم اَنْ یَبْلُغَ فِیْہ فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وآلہ وسلَّم بِیَدِ عَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلَام فَقٰالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلیٌِ مَوْلَاہُ اَلّٰلھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ۔ ”ابن عباس سے اس آیت شریفہ : ”یٰٓاَ یُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ“کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ علی کے بارے میں جو پیغام آپ کو بھیجا گیا ہے، اُس کو لوگوں تک پہنچا دیں۔ اسی لئے پیغمبر خدا نے علی کا ہاتھ پکڑکر بلند کیا اور فرمایا:”جس جس کا میں مولا ہوں، اُس اُس کا یہ علی مولا ہے۔ خدایا! علی کے دوستوں کو تو بھی دوست رکھ اور علی کے دشمنوں کو تو بھی دشمن رکھ“۔ علامہ طباطبائی فرماتے ہیں علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں اس آیہٴ شریفہ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ علمائے شیعہ اور اہلِ سنت سے روایات کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہے کہ یہ آیت ولایت ِعلی کے سلسلہ میں پیغمبر خدا پر نازل ہوئی۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ کچھ افراد(مخالفین وبدگمانِ لاعلم) آپ پر(اقرباء نوازی سے علی علیہ السلام جو آپ کے چچا زاد بھائی تھے، کو اقتدارِ حکومت دلوانے کی) الزام تراشی کریں گے۔ اس وجہ سے پیغمبر اسلام کو اس پیغام کو پہنچانے کیلئے مناسب وقت کا انتظار تھا۔ یہاں تک کہ خدا کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو یہ اطمینان دلایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دشمنوں کے شر سے بچائے گا۔ لہٰذا غدیر خم کے موقع پر آپ نے فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔ ”جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہیں“۔ (تفسیر المیزان:جلد6،صفحہ49)۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ سیوطی ، تفسیر الدرالمنثور، جلد2،صفحہ327۔ 2۔ فخر رازی، تفسیر کبیر، جلد3،صفحہ636، دوسری طباعت، جلد12،صفحہ49۔ 3۔ حافظ بن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، حدیث589، جلد2،صفحہ86۔ 4۔ شیخ سلیمان قندوزی ، ینابیع المودة، صفحہ140، باب39 اور ص283،حدیث56۔ 5۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ244،جلد1، صفحہ188۔ 6۔ ابوالحسن واحدی نیشاپوری، کتاب اسباب النزول، صفحہ150۔ 7۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی“۔ 8۔ شہاب الدین آلوسی شافعی، کتاب روح المعانی، جلد6،صفحہ172، دوسری طباعت، جلد2،صفحہ348۔ 9۔ ابن صباغ مالکی، کتاب فصول المہمة، صفحہ27۔ 10۔ قاضی شوکانی، کتاب فتح القدیر، جلد3،صفحہ57۔ اسی طرح دیگر علمائے اہلِ سنت نے بھی اس کو نقل کیا ہے مثلاً حافظ ابوسعید سجستانی کتاب الولایہ اور بدرالدین حنفی کتاب عمدة القاری اور حموینی کتاب فرائد السمطین۔ چوتھی آیت تکمیلِ دین ، اتمامِ نعمت ِ خدا اور تعارفِ علی بر منصب ِ امامت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ ”آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور دین اسلا م کو تمہارے لئے پسند کیا“۔(سورئہ مائدہ: آیت4)۔ تشریح اس آیت کی شانِ نزول کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام حجة الوداع ادا کرنے کے بعد واپسی کے سفر پر تھے کہ آپ نے بمطابق حکمِ خداسب کو غدیر خم کے مقام پر جمع کیا اور اُن کو خطبہ دیا اور پھر علی کا دست ِ مبارک پکڑ کر بلند کیا اور حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی اور ولایت کا اعلان کیا۔ جب پیغمبر نے اپنا بیان تمام کیا تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ حافظ الحسکانی جو اہلِ سنت کے مشہور و معروف عالم ہیں، نے اپنی کتاب شواہد التنزیل میں مندرجہ ذیل روایت ِ غدیر نقل کی ہے۔ وہ اسناد کے ساتھ ابو سعید خدری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے فرمایا: اَللّٰہُ اَکْبَرْ عَلٰی اِکْمٰالِ الدِّیْنِ وَ اِتْمٰامِ النِّعْمَۃِ وَ رِضَاالرَّبِ بِرِسٰالَتِیْ وَوِلٰایَۃِ عَلِی بْنِ ابِی طَالِبٍ مِنْ بَعْدِی۔ ”اللہ اکبر، اللہ کا دین مکمل ہوا اور اللہ کی نعمتیں تمام ہوئیں اور پروردگار راضی ہوا میری رسالت پر اور میرے بعد ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہما السلام پر“۔ تقریباً تمام علمائے اہلِ سنت اور شیعہ نے پیغمبر کے اس کلام کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور مزید لکھتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ فرمانے کے بعد یہ بھی کہا: (ثُمَّ قَالَ):مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَ عَلِیٌ مَوْلَاہُ۔اَلّٰلھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَ انْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ۔ ”جس کا میں مولا ہوں، اُس کے علی مولا ہیں، خدایا! جو کوئی علی کو دوست رکھے، تو بھی اُسے دوست رکھ اور جو کوئی علی سے دشمنی رکھے، تو بھی اُس سے دشمنی رکھ۔ اور تو اُس کی مدد فرما جو علی کی مددکرے اور اُس کو ذلیل و رسوا کردے جو علی کو رسوا کرنے کی کوشش کرتا ہے“۔ تصدیقِ فضیلت کتب ِ اہلِ سنت سے 1۔ حافظ الحسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، حدیث211،جلد1،صفحہ157۔ 2۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب12،جلد1،صفحہ74۔ 3۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد2،صفحہ491،دوسری طباعت، جلد2،صفحہ14 اور اسی طرح البدایہ والنہایہ، جلد7،صفحہ347۔ 4 ۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب62،صفحہ60،62۔ 5۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، حدیث24،صفحہ19۔ 6۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب38،صفحہ135۔ 7۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد2،صفحہ284۔ 8۔ حافظ ابی نعیم اصفہانی، کتاب”مانزل من قرآن فی علی“۔ 9۔ خوارزمی، کتاب مناقب ِامیر الموٴمنین ، فصل4،جلد1،صفحہ47۔ پانچویں آیت علی ایک عظیم رہنما اِنَّمَآاَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ۔ ”(اے رسول)! سوائے اس کے نہیں ہے کہ تم تو ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کیلئے ایک ہادی ہوا کرتا ہے“۔(سورئہ رعد:آیت7)۔ تشریح اس سے پہلے کہ ہم روایاتِ مربوط کو دیکھیں اور شانِ نزول پر غور کریں، مناسب ہوگا کہ ہم منذر(ڈرانے والا) اور ہادی(ہدایت کرنے والا) کے درمیان فرق واضح کریں۔ علمائے تفسیر کے نزدیک منذر وہ ہوتا ہے جو گمراہوں کو دلائل و مشاہدات کے ساتھ صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نہ ماننے کی صورت میں گمراہی کے نتائج سے ڈراتا ہے۔ یہی پیغمبرانِ خدا کا کام اور ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن ہادی وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے راہِ راست پر آنے کے بعد اُن کی پیشوائی کرتا ہے بلکہ حقیقت میں اُن کو صراطِ مستقیم سے بھٹکنے سے باز رکھتا ہے۔ یہ اولیاء اللہ کی اوّلین ذمہ داری ہوتی ہے۔ پس رسول شریعت کو نافذ کرتا ہے اور امام اُس شریعت کی حفاظت کرتا ہے اور لوگوں کی ہدایت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اب اس فرق کے ساتھ ہم روایات کی طرف چلتے ہیں جو اس آیہٴ شریفہ کے ضمن میں بیان کی گئی ہیں: (ا)۔ طبری ایک مشہور عالمِ دین اور دانشمند ہیں جن کا تعلق اہلِ سنت سے ہے۔ اپنی تفسیر میں اس آیت کے بارے میں یہ روایت نقل کرتے ہیں: عَنْ اِبْنِ عَبَاس قٰالَ:لَمَا نَزَلَتْ”اِنَّمَآاَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ“،وَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ یَدَہُ علی صدرِہِ فقٰالَ:أنَاالمُنْذِرُوَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ وَ أَوْمیٰ بِیَدِہِ اِلٰی مَنْکَبِ عَلِیٍّ فقٰالَ: اَنْتَ الھَادِی یَاعَلِیُّ بِکَ یَھْدِیْ الْمُھْتَدُوْنَ بَعْدِی۔ ”ابن عباس سے روایت ہے کہ جب یہ آیہٴ شریفہ”اِنَّمَآاَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ“نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے اپنا ہاتھ سینہ پر رکھا اور کہا کہ میں منذر ہوں اور ہر قوم کیلئے رہنما ہوتا ہے اور پھر علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”تم ہی ہادی ہو اے علی !میرے بعد تمہارے وسیلہ سے ہی ہدایت یافتہ لوگ صراطِ مستقیم کی ہدایت پاتے رہیں گے“۔ (ب)۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی اور بہت سے دوسروں نے بھی مندرجہ ذیل روایت نقل کی ہے: عَنْ ابن عباس رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ فِی قَوْلِہَ تَعٰالٰی:”اِنَّمَآاَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ“(قٰالَ)قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ:أَنَا الْمُنْذِرُ وَعَلِیٌّ الھٰادِیْ،یٰا عَلِیُّ بِکَ یَھْتَدِیِ الْمُھْتَدُوْنَ۔ ”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت”اِنَّمَآاَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ“ کے نزول کے وقت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں منذر ہوں اور علی ہادی۔ اے علی ! ہدایت یافتہ لوگ تمہارے وسیلہ سے ہی صراطِ مستقیم پر قائم رہیں گے“۔ (ج)۔ حموینی جو اہلِ سنت کے ایک معروف عالم ہیں، کتاب ”فرائد السمطین“ میں ابوہریرہ اسلمی سے اس طرح روایت کرتے ہیں: اِنَّ المُرَادَ بِالھٰادِی عَلِیٌّ عَلَیْہِ السَّلَام۔ ”یعنی اس آیت میں ہادی سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ فخررازی، تفسیر کبیر میں جلد19،صفحہ14۔ 2۔ سیوطی، الدرالمنثور، جلد4،صفحہ52۔ 3۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد1،صفحہ293،حدیث 398۔ 4۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد3،صفحہ129،130باب فضائلِ علی علیہ السلام۔ 5۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب62،صفحہ233۔ 6۔ خطیب ِ بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد12،صفحہ372۔ 7۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل در مسند علی ، کتاب المسند، جلد1،صفحہ126،طباعت اوّل۔ 8۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں جلد4،صفحہ499اور طبع دوم جلد2،صفحہ502،چھپائی بیروت۔ 9۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، بابِ مناقب70،صفحہ282،حدیث50۔ 10۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی ، کتاب”ما نزل من القرآن فی علی“۔ 11۔ طبری اپنی تفسیر میں جلد13،صفحہ108، طبع اوّل۔ 12۔ طبرانی ، کتاب معجم الکبیر جلد1،صفحہ162، طبع دوم۔ چھٹی آیت عظمت ِ علی اور فاسقوں کی تذلیل اَ فَمَنْ کَانَ مُوٴْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًالَایَسْتَونَ۔(سورئہ سجدہ:آیت18) ”کیا وہ شخص جو مومن ہے اُس کی مانند ہے جو فاسق ہے(دونوں ہرگز) برابر نہیں ہیں“۔ تشریح اس آیت سے مراتب ِعظیم حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتے ہیں اور آپ کا مقام نمایاں ہوتا ہے۔ تمام مفسرین عالی قدر( اہلِ سنت و شیعہ) اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک روز ولید بن عقبہ بڑے غرور اور تکبر سے حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا: اَنَا وَاللّٰہِ اَبْسَطُ مِنْکَ لِسَاناً وَاَحَدُّ مِنْکَ سَنٰاناً۔ ”خدا کی قسم! میں آپ کی نسبت زبان فصیح تر اور نیزہ تیز تر رکھتا ہوں“۔ (یعنی کلام میں بھی اور جنگ کے ہنر میں بھی آپ سے آگے ہوں)۔ مولا علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: اُسْکُتْ اِنَّمَا اَنْتَ فَاسِقْ۔ ”خاموش ہوجا! تو یقینا فاسق ہے“۔ اُس وقت یہ آیت پیغمبر اسلام پر نازل ہوئی ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک سے علی کے مقام اور عظمت کو بیان فرمایا اور ولید بن عقبہ کا فسق ظاہر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بھی ولید بن عقبہ کا فسق ظاہر کیا ہے۔ سورئہ حجرات کی آیت6کے ضمن میں یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنی المصطلق کی طرف زکوٰة جمع کرنے کیلئے بھیجا۔ جس وقت قبیلہ کے لوگوں کو علم ہوا کہ پیغمبر اسلام کا نمائندہ اُن کی جانب آرہا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور وہ اُس کے استقبال کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ چونکہ زمانہٴ جاہلیت میں ولید اور اُس قبیلہ کے لوگوں کے درمیان بڑی دشمنی تھی، ولید نے یہ خیال کیا کہ یہ لوگ اُسے قتل کرنے کیلئے گھروں سے باہر نکل آئے ہیں، ولید واپس ہوگیا اور پیغمبر اسلام کے پاس واپس آکر بغیر تصدیق کئے ہوئے کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! اُن لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ سب کے سب مرتد ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر رسولِ خدا کچھ پریشان ہوئے اور ارادہ کیا کہ اُس قبیلہ کے لوگوں کو انتباہ کریں۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: یٰاَایُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَائَکُم فَاسِقٌ بِنَبَاءٍ فَتَبَیَّنُوْا۔ ”اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اُس کی تحقیق کرلیا کرو“۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ولید نے جھوٹ بولا ہے۔ تصدیقِ حقیقت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد1،صفحہ448۔ 2۔ خطیب ِ بغدادی، تاریخ بغداد، جلد13،صفحہ321۔ 3۔ بلاذری، ترجمہ امیر الموٴمنین از انساب الاشراف، جلد2،صفحہ148،حدیث148، 150، طبع بیروت اوّل۔ 4۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین علیہ السلام، شمارہ370،371،صفحہ324۔ 5۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں جلد3،صفحہ462۔ 6۔ شیخ سلیمان قندوزی ،ینابیع المودة، ص250(فی ذکرما انزل فی علی من الآیات)۔ 7۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد3،صفحہ514۔ 8۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد5،صفحہ193۔ 9۔ طبری اپنی تفسیر میں، جلد21،صفحہ61،68۔ 10۔ حافظ المزی، کتاب تہذیب اکمال، جلد8،صفحہ1475۔ 11۔ قطیعی، کتاب الفضائل، صفحہ112،طبع1۔ 12۔ ابوالحسن الواحدی، کتاب اسباب النزول، صفحہ263۔ ساتویں آیت علی سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ۔ ”اور آگے بڑھنے والے، وہ تو آگے ہی بڑھنے والے ہیں(نعمت والی جنتوں میں) مقر ّبِ بارگاہ تو وہی ہیں“۔(سورئہ واقعہ:آیت10) تشریح آیت علمائے اہلِ سنت اور شیعہ کی متعدد روایات کی روشنی میں جو اس آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں نقل کی گئی ہیں اور مفسرین کے نظریہ کے مطابق یہ آیت حضرت علی علیہ السلام (جو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے اور ایمان لانے والے ہیں)، کی شان میں نازل ہوئی ہے اور اس تفسیرکے استدلال کیلئے درج ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں: (ا)۔ تفسیر نورالثقلین، جلد5،صفحہ206 اور تفسیر المیزان جلد9،صفحہ134میں ابن عباس سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل نے مجھ سے اس طرح کہا ہے: ذٰلِکَ عَلِیٌّ وَ شِیعَتُہُ ھُمُ السّٰابِقُوْنَ اِلَی الجَنَّۃِ اَلْمُقَرَّبُوْنَ مِنَ اللّٰہِ بِکَرَامَتِہِ لَھُمْ۔ ”وہ علی اور اُن کے پیروکار شیعہ ہیں جو جنت کی طرف پیشقدمی کرنے والے ہیں اور خدا کے نزدیک جو اُن کا مقام اور احترام ہے، اُس وجہ سے وہ بارگاہِ الٰہی میں مقر ّب ہیں“۔ (ب)۔ اہلِ سنت کے علماء کی نظر میں آیت کی تفسیر اس آیت کی تفسیر میں متفقہ طور پر تمام علمائے اہلِ سنت نے اپنی کتابوں میں درج ذیل روایات نقل کی ہیں: 1۔ ابن عباس سے آیہٴ شریفہ وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ سے متعلق روایت ہے: اِلٰی آخِرِ الْقِصَّۃِ قَالَ: سٰابِقُ ھٰذِہ الْاُمَّۃِ عَلِیُّ بْنُ ابی طَالِب۔ ”اس اُمت میں ایمان اور عمل میں سب سے سبقت لے جانے والے علی ہیں۔ 2۔ ایک دوسری روایت میں ابن عباس سے روایت ہے: اَوَّلُ مَنْ صَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ عَلِیٌ وَفِیْہِ نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْایَۃ۔ ”سب سے پہلے جس نے پیغمبر اکرم کے ساتھ نماز ادا کی، وہ علی علیہ السلام ہیں اور یہ آیت ”وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ “ علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ 3۔ ایک اور روایت میں ابن عباس سے منقول ہے کہ: سَبَقَ یُوْشَعُ بْنُ نُون اِلٰی مُوْسٰی وَ سَبَقَ یٰاسِیْن اِلٰی عِیْسٰی وَسَبَقَ عَلِیٌ اِلٰی مُحَمَّدٍ صلّٰی اللّٰہُ علیہ وآلہ وسلَّمْ۔ ”یوشع بن نون نے حضرت موسیٰ پر ایمان لانے میں سبقت کی اور یاسین نے حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے میں سبقت کی اور حضرت علی علیہ السلام نے حضرت محمد پر ایمان لانے میں سبقت کی(یعنی سب سے پہلے ایمان لائے)“۔ اس بحث کے آخر میں یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے سب سے پہلے اسلام اور ایمان و عمل کے بارے میں بہت سی روایات علمائے شیعہ و سنی نے لکھی ہیں، اُن سب کو نقل کرنا یہاں ممکن نہیں، البتہ بعد میں دیگر مقامات پر اشارةً ذکر کیا جائے گا۔ تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے 1۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، حدیث365، صفحہ320۔ 2۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث928، جلد2، صفحہ216۔ 3۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، جلد9،صفحہ102۔ 4۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور،جلد6،صفحہ171۔ 5۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب 100،صفحہ377۔ 6۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال، جلد1،صفحہ536،حدیث2003۔ 7۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد 3،صفحہ1090، روایت1855۔ 8۔ سبط ِ بن الجوزی، کتاب تذکرة الخواص، باب دوم، صفحہ21۔ 9۔ حافظ بن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، حدیث 59،141، باب شرح حالِ امیر المومنین ، جلد1،صفحہ41،117۔ 10۔ طبرانی، کتاب معجم الکبیر، جلد3،صفحہ112۔ 11۔ خوارزمی، کتاب مناقب ِعلی حدیث7،صفحہ19۔ 12۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب 38،صفحہ135۔ آٹھویں آیت سورئہ توبہ میں علی کی دو نمایاں صفات کا ذکر اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَونَ عِنْدَاللّٰہِ ط وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔ ”کیا تم نے حاجیوں کا پانی پلانا اور مسجد الحرام کا آباد رکھنا اس شخص کے برابر کردیا جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا اور جس نے راہِ خدا میں جہاد کیا۔ اللہ کے نزدیک تو یہ سب برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کی رہبری نہیں فرماتا“۔(سورئہ توبہ: آیت19) تشریح اس آیت ِقرآنی میں جو کہ سورئہ توبہ سے ہے، علی علیہ السلام کی دو خصوصی اور نمایاں صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی صفت خدا اور روزِ قیامت پر ایمان لانا اور دوسری صفت راہِ خدا میں جہادکرنا ہے۔ بہت سی روایات کی بناء پر جن میں سے زیادہ تر اہلِ سنت سے نقل کی گئی ہیں، اس آیت کا شانِ نزول اس طرح سے ہے کہ ایک دن عباس بن عبدالمطلب اور شیبہ حضرت علی علیہ السلام کے مقابلہ میں فخرومباہات کررہے تھے اور خود کو علی علیہ السلام سے برتر ظاہر کررہے تھے۔ عباس بن عبدالمطلب نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے کہا کہ مجھے وہ سعادت ملی ہے جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی اور وہ حاجیوں کو پانی پلانے اور اُن تک پانی پہنچانے کی ہے(یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ زمانہٴ جاہلیت میں حاجیوں کو سیراب کرنا بڑا افضل کام سمجھا جاتا تھا۔ قصی بن کلاب جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد میں سے ہیں، کا یہی شغل تھااورانہوں نے فوت ہونے کے وقت یہ کام اپنے بیٹے عبد ِمناف کے سپرد کیا۔ پھر یہ کام اُن کے فرزندوں میں جاری رہا،یہاں تک کہ عباس بن عبدالمطلب تک پہنچا۔۔۔۔۔(تفسیر المیزان، جلد9،ص210)عباس بن عبدالمطلب کے خطاب کے بعد شیبہ حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہوا اور کہا کہ مجھے بھی ایک بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی ہے اور وہ تعمیر مسجد الحرام ہے۔ اُس وقت علی علیہ السلام(جو ہمیشہ فخرومباہات کرنے والوں کے مقابلہ میں عاجزی و انکساری سے کام لیتے تھے) بولے:” مجھے وہ سعادت اور فضیلت حاصل ہے جو تم میں سے کسی کو میسر نہیں“۔وہ دونوں بولے:”یا علی ! وہ کونسی فضیلت ہے ؟“حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ضَرَبْتُ خَرَاطِیْمَکُمَا بِالسَّیْفِ حَتّٰی آمَنْتُمَا بِاللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعٰالٰی وَرَسُوْلِہِ۔ ”میں نے تمہاری ناک پر تلوار ماری ہے، یہاں تک کہ تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لے آئے“۔ عباس بن عبدالمطلب یہ سن کر سخت ناراض ہوئے اور غصے میں پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہنچے اور حضرت علی علیہ السلام کی شکایت کی۔ آپ نے علی علیہ السلام کو بُلوایا اور اُن سے اس مسئلہ کے بارے میں جواب مانگا۔علی علیہ السلام نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! میں نے ان سے صحیح اور حق بات کی ہے۔ یہ اُسے سن کر ناراض ہوں یا خوش ہوں“۔ اُس وقت حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: ”یٰا مُحَمَّدٌ رَبُّکَ یَقْرَأ عَلَیْکَ السَّلاٰمُ وَ یَقُولُ اُ تْلُ عَلَیْھِمْ: ”اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَونَ عِنْدَاللّٰہِ وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ“۔ ”یا محمد! اللہ تبارک و تعالیٰ آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان پر اس آیت کی تلاوت کریں: ”اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَونَ عِنْدَاللّٰہِ۔وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ“۔ اس آیت کو سننے کے بعد عباس بن عبدالمطلب نے تین مرتبہ کہا:”میں نے راضی ہوکر یہ تسلیم کرلیا“۔ حافظ ابونعیم اصفہانی نے،جو اہلِ سنت کے بزرگ علماء میں سے ہیں، کتاب”ما نزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس روایت کو نقل کیا ہے: عَنْ اِبنِ عباس رضی اللّٰہ عَنْہُ فی قولہِ تعالٰی:اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَونَ عِنْدَاللّٰہِ (قال) نَزَلَتْ فِی عَلِیِّ ابنِ اَبَی طَالِبٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَالعَبَّاسِ رضی اللّٰہ عنہ و طلحہ بن شیبۃ۔ ”ابن عباس سے روایت ہے کہ آیہٴ شریفہ اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَونَ عِنْدَاللّٰہِ وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ“علی علیہ السلام اور عباس و طلحہ بن شیبہ کیلئے نازل ہوئی ہے۔ تصدیقِ فضیلت کتب ِ اہلِ سنت سے 1۔ فخر رازی تفسیر کبیر میں، جلد16،صفحہ11۔ 2۔ گنجی شافعی ، کتاب کفایة الطالب، باب 62،صفحہ238۔ 3۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد 1،صفحہ344، طبع اوّل۔ 4۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد3،صفحہ236، طبع دوم، صفحہ218۔ 5۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، حدیث367،368۔ 6۔ حافظ ابی نعیم اصفہانی، کتاب”ما نزل من القرآن فی علی علیہ السلام“۔ 7۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب 21،صفحہ106۔ 8۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد2،صفحہ256۔ 9۔ طبری اپنی تفسیر ، شمارہ61561،61566،ج10،صفحہ96، طبع دوم، ج 14،ص170 10۔ واحدی، کتاب اسباب النزول، صفحہ182۔ نویں آیت آیہٴ تطہیر پنجتن پاک پراللہ تعالیٰ کی عنایت ِکامل ہے اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا۔ ”اے اہلِ بیت ! سوائے اس کے نہیں ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تم کو ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔(سورئہ احزاب:آیت 33)۔ تشریح آیہٴ تطہیر ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل اور پُر معنی آیت ہے۔ اس میں پنجتن کی عصمت و طہارت اور عظمت و جلالت کو بڑے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایسی آیت ہے جو ولایت ِعلی علیہ السلام اور آپ کی اولاد کی عظمت و طہارت پر مہر ثبت کرتی ہے۔ اس آیت میں چند بڑے اہم نکات ہیں جو بڑے غور طلب ہیں۔ ان کو خاص توجہ سے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ اس لئے ہم روایات کو بیان کرنے سے قبل ان پر توجہ دیں گے اور علمائے تفسیر سے مدد لیتے ہوئے ان کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس آیت کے شروع میں کلمہ”اِنَّمَا“آیا ہے۔ یہ کلمہ حصر ہے(اسی سے حصار ہے یعنی قلعہ جو پرانے زمانے میں اجنبیوں کو اندر داخل ہونے سے روکنے کیلئے بنایا جاتا تھا) اس کے بعد کلمہ”یُرِیْدُ“ہے جو اللہ کے ارادئہ تکوینی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ ارادہ جس سے کسی چیز کو وجود میں لانا مقصود ہوتا ہے۔ انسان کا ارادہ اور ہے جو اکثر ٹوٹ جاتا ہے اور خدائے بزرگ وبرترکا ارادہ اور ہے جس کو کوئی شے نہیں روک سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارادہ حکمِ قطعی کا درجہ رکھتا ہے۔ خاندانِ پیغمبر کوپاک و طاہر رکھنا اللہ کا ارادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ پاک و طاہر رہیں۔ جبر کے وسوسے کو دور کرنے کیلئے اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ معصومین علیہم السلام میں اپنے سلیقہٴ اعمال کی وجہ سے اور پروردگار کی عنایت ِ خاصہ سے ایسی صفت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں میں نمونہٴ طہارت و اخلاق ہوتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں وہ اللہ تعالیٰ کی عنایات سے اور اپنے پاک اعمال سے ایسے ہوتے ہیں جو گناہ کرنے کی طاقت و صلاحیت رکھتے ہوئے بھی گناہ کے قریب نہیں جاتے۔ اس سے اگلا کلمہ”رِجس“ہے۔ رجس کے معنی ناپاک چیز کے ہیں، خواہ وہ ناپاکی کسی حکمِ شرع سے ہو یا تابع عقل ہویا کسی کی طبیعت کی ناپسندیدگی کی وجہ سے۔المختصر کلمہٴ رجس کے معنی بہت وسیع ہیں۔ اس کے اوپر الف اور لام کے اضافہ سے اس کے معنی میں ہر قسم کی ناپاکی شامل ہوجاتی ہے۔ کلمہٴ ” تطہیر“کے معنی پاک رکھنے اور ہر قسم کی ناپاکی سے دوری کے ہیں۔کلمہٴ”اہلِ بیت“ سے تمام علمائے کرام اور مفسرین اہلِ بیت ِ پیغمبر اسلام مراد لیتے ہیں۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ اہلِ بیت ِ پیغمبر اسلام میں کون کون سے افراد شامل ہیں، اس کیلئے مفسرین اورعلمائے کرام کے درمیان بڑی بحث موجود ہے۔بعض مفسرین کے نزدیک اہلِ بیت ِ پیغمبر میں آپ کی ازواج بھی شامل ہیں کیونکہ آیہٴ تطہیر سے پہلی آیت اور اس کے بعد والی آیت ازواجِ رسول سے متعلق ہیں۔ اس خیال کی نفی تو صرف ایک اہم نکتہ سے ہوجاتی ہے یعنی آیہٴ تطہیر سے قبل اور بعدمیں آنے والی آیات میں ضمیر موٴنث ہے اور آیہٴ تطہیر کی ضمیر جمع مذکر ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس آیت کے مفہوم کو پچھلی اور اگلی آیت سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ اس آیت کے مخاطب یقینا مختلف ہیں۔ شاید اسی واسطے کچھ مفسرین نے اس آیت میں تمام خاندانِ پیغمبر اسلام اور اُن کی تمام ازواج کو شامل سمجھا ہے لیکن بہت ہی زیادہ روایات جو اہلِ سنت اور شیعہ حضرات سے نقل کی گئی ہیں، آیت کے اس معنی کی بھی نفی کرتی ہیں۔ روایات کے مطابق اس آیت کے مخاطب صرف پانچ افراد ہیں جنہیں پنجتن پاک کے نام سے یاد کیاجاتا ہے اور یہ ہستیاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام، جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں۔ اس ضمن میں ایک سوال اکثر یہ کیا جاتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جب بات ازواجِ رسول کے ضابطہ ٴاخلاق کی ہورہی تھی تو درمیان میں ایک ایسی آیت آگئی کہ جس میں ازواج شامل نہیں ہیں۔ اس کا جواب علامہ طباطبائی مرحوم نے اس طرح دیا ہے : ”ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ آیت”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“باقی اُن آیات کے ساتھ نازل ہوئی ہو جن میں ازواج کا ذکر ہے بلکہ روایات کے مطابق یہ آیت ِتطہیر جداگانہ نازل ہوئی ہے اور آیاتِ قرآن کے جمع کرنے کے وقت محض اُن آیات کے ساتھ اکٹھی کی گئی ہے۔ علمائے تفسیر کے مطابق اور بہت سی جگہوں پر ایسی آیات نظر سے گزرتی ہیں جن کا موضوع اگلی اور پچھلی آیتوں سے مختلف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرملاحظہ ہو: اِنَّہ مِنْ کَیْدِکُنَّ اِنَّ کَیْدَ کُنَّ عَظِیْمٌ یُوسَفُ اَعْرِضْ عَنْ ھَذَا وَستَغْفِرِی لِذَنْبِکَ۔ اس میں” یوسَفُ اَعْرِضْ عَنْ ھَذا“ ایسے دو جملوں کے درمیان ہے جن کی مخاطبہ زلیخا ہیں۔عرب کے فصحاء اور ادیبوں کے کلام میں بھی ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ بہت سی روایات کے مطابق یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آیہٴ تطہیر کے مخاطب پنجتن پاک ہیں۔ ان میں سے چند روایات کو یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سورئہ والعصر میں وَالْعَصْرِ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ۔ ”وقت ِعصر کی قسم! انسان ضرور گھاٹے میں ہے۔ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی پیروی کی تاکید کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتے رہے“۔ روایت عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولہ تعالٰی:”وَالْعَصْرِ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْ بِالصَّبْرِ“قٰالَ: ھُوَ عَلِی علیہ السلام۔ اس روایت کو علامہ سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور جلد6،صفحہ439(آخری روایت تفسیر سورئہ عصر) پر درج کیا ہے۔ اسی روایت کو حافظ الحسکانی نے کتاب شواہد التنزیل، حدیث1156 جلد2،صفحہ373، اشاعت اوّل اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”ما نزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں بیان کیا ہے اور بہت سے دوسروں نے اسی روایت کو نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس کلامِ الٰہی ”وَالْعَصْرِ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ“ کی تفسیر میں کہا کہ اس سے مراد ابوجہل لعنة اللّٰہ علیہ ہے اور”اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْر“کی تفسیر میں کہا گیاکہ اس سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ علی علمِ الٰہی کا خزینہ ہیں قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًام بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہ عِلْمُ الْکِتٰبِ۔ ”آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی دینے کو (ایک تو) اللہ کافی ہے(دوسرے)وہ جن کے پاس اس کتاب کا پورا علم ہے“۔(سورئہ رعد:آیت43)۔ روایت عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ سَلٰام رضی اللّٰہ عَنْہُ فِی قَولِہ تَعٰالٰی”وَمَنْ عِنْدَہ عِلْمُ الْکِتٰبِ“قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ قَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِب۔ اس روایت کو شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ”ینابیع المودة“، باب مناقب، صفحہ284،حدیث60میں بیان کیا ہے اور ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے اسی کتاب میں باب30،صفحہ121پر بھی درج کیا ہے۔اسی طرح حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“، جلد1،صفحہ308،اشاعت اوّل، حدیث دوم میں بیان کیا ہے اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب ”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کی تفصیل میں بیان کیا ہے۔ ترجمہ ”عبداللہ بن سلام نے کلامِ الٰہی ”وَمَنْ عِنْدَہ عِلْمُ الْکِتٰبِ“ کے بارے میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ اس سے مراد کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ا س سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔ علی اور آپ کے اصحاب سچائی کا نمونہ ہیں یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔ ”اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ“۔(سورئہ توبہ:آیت119)۔ روایت عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰہُ عنہُ فِی ھٰذِہِ الآیَةِ”یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ“قَالَ مَعَ علی واصحابہ۔ اس روایت کو ثعلبی نے اپنی تفسیر(تفسیر ثعلبی) جلد1اور سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور میں اس آیت کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں باب شرح حالِ امیر الموٴمنین میں حدیث930،جلد2،صفحہ421میں بیان کیا ہے اور اسی طرح حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد1،صفحہ259،حدیث اوّل کے تحت بیان کیا ہے۔ ترجمہ ”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس آیت ”یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ“ کے بارے میں انہوں نے کہاکہ” کُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْن “سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور آپ کے اصحاب ہیں“۔ ولایت ِعلی و اہلِ بیت پر اعتقاد رکھنے کا نتیجہ قبولیت ِتوبہ،ایمان، عملِ صالح اور ہدایت ہے وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی۔ ٍ ”اور میں اُس کو جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور نیک عمل کرے اورپھر ہدایت یافتہ بھی ہو، ضرور بخشنے والا ہوں“۔(سورئہ طٰہ:آیت82)۔ روایت عَنْ علی علیہ السلام فِی قولِہ تعٰالٰی”وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی“ قَالَ اِلٰی وِلٰایَتِنَا۔ اس روایت کو حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں نقل کیا ہے اور حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،جلد1،صفحہ375، اشاعت اوّل میں امام محمدباقر علیہ السلام اور حضرت ابوذرغفاری کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے اس کلامِ الٰہی ”وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی“ کے بارے میں فرمایا:’یعنی وہ جس نے ہماری ولایت کو تسلیم کیا اور اُس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کئے اور پھر ہدایت یافتہ بھی ہوا، اللہ اُس کو ضرور بخشنے والا ہے‘۔“ امت اور ولایت ِعلی پر ایمان اصل میں ایک ہیں وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُوٴْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ۔ ”اور ضروروہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، راہِ راست سے ہٹ جانے والے ہیں“۔(سورئہ موٴمنون:آیت74)۔ روایت عَنْ علی ابنِ ابی طالب فی قولہ تعٰالٰی”وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُوٴْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ“قَالَ عَنْ وَلٰایَتِنَا۔ اس روایت کو حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں ،حموینی نے کتاب”فرائد السمطین“، باب61،جلد2،صفحہ300اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“ حدیث557جلد1،صفحہ402پر نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس آیت ِ خداوندی ”وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُوٴْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ“ کے بارے میں فرمایا کہ صراط سے یہاں مراد ہماری ولایت ہے(ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ولایت ِاہلِ بیت )“۔ علی کواذیت پہنچانابہت بڑ اصریح گناہ ہے وَالَّذِیْنَ یُوٴْذُوْنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُوٴْمِنٰتِ بِغَیْرٍمَااکْتَسَبُوْافَقَدِ احْتَمَلُوْابُھْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا۔ ”اور جو لوگ ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو بلاقصور ایذا پہنچاتے ہیں، وہ بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے ذمے لیتے ہیں“۔(سورئہ احزاب:آیت58)۔ روایت عَنْ مقاتِلَ بن سلیمان فِی قولِہ عَزَّوَجَل”وَالَّذِیْنَ یُوٴْذُوْنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُوٴْمِنٰتِ بِغَیْرِمَااکْتَسَبُوْافَقَدِاحْتَمَلُوْابُھْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا“ قَالَتْ نَزَلَتْ فِی علی ابن ابی طالب وَذٰلِکَ اَنَّ نَفَراً مِنَ الْمُنٰافِقِیْنَ کَانُوْایُوْذُوْنَہ وَیَکْذِبُوْنَ عَلَیْہِ۔ اس روایت کو ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں درج کیا ہے۔ اس کے علاوہ واحدی نے کتاب ”اسباب النزول“،صفحہ273اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد2،صفحہ93،اشاعت اوّل،حدیث775میں نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”مقاتل بن سلیمان روایت کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ یہ آیت وَالَّذِیْنَ یُوٴْذُوْنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُوٴْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْافَقَدِاحْتَمَلُوْابُھْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نازل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کچھ منافقین آپ کو اذیت پہنچاتے تھے اور اُن کو جھٹلاتے تھے“۔ اللہ تعالیٰ آلِ محمدپر سلام بھیجتا ہے سَلٰمٌ عَلٰٓی آلِ یَاسِیْنَ۔ ”آلِ یاسین تم پر سلام ہو“۔(سورئہ الصّٰٓفّٰت:آیت130)۔ روایت عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰہ عنہُ فِی قولہ تعٰالٰی”سَلٰمٌ عَلٰٓی اِلْ یَاسِیْنَ“قَالَ آلِ محمد صلَّی اللّٰہُ علیہ وآلہ وسلَّم۔ اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“میں، ابن حجر ہیشمی نے ”صواعقِ المحرقہ“ میں صفحہ76پر اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد2،صفحہ110،اشاعت اوّل میں نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ خدا کے اس کلام ”سَلٰمٌ عَلٰٓی آلِ یَاسِیْنَ“ سے مراد آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں“۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ معتبر روایات کے مطابق آلِ محمد سے مراد حضرت علی علیہ السلام،جنابِ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام اور اُن کی پاک اولاد ہیں“۔ علی اور تصدیقِ نبوتِ پیغمبر اکرم وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔ ”اور وہ جو سچ کو لے کر آیا او روہ جس نے اُس کی تصدیق کی(خدا سے) ڈرنے والے وہی تو ہیں“۔(سورئہ زمر:آیت33)۔ روایت عَنْ مُجٰاھِدٍ فِی قولہ تعالٰی”وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ“قَالَ جٰاءَ بِاالصِّدْقِ محمدصلَّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم صَدَّقَ بِہِ علی ابنِ ابی طالب۔ اس روایت کو ابن مغازلی شافعی نے کتاب”مناقب“،صفحہ269،حدیث317، اشاعت اوّل میں، حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،جلد2،صفحہ121،حدیث812، اشاعت بیروت اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“میں آیت ِ مذکور کی تشریح کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔ ترجمہ ”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اس کلامِ الٰہی ”وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ“ کے بارے میں انہوں نے کہاکہ”جَآءَ بِالصِّدْق“سے مراد پیغمبر اسلام ہیں اور”صَدَّقَ بِہٓ“سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں(یعنی جو کوئی صداقت اور حق کے ساتھ آیاوہ پیغمبر اسلام ہیں اور جس نے اُن کی تصدیق کی، وہ علی علیہ السلام ہیں)“۔ علی اور آپ کے ماننے والے حزب اللہ ہیں اور وہی کامیاب ہیں اَ لَااِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ ”آگاہ رہو کہ خدائی گروہ کے لوگ(پوری پوری) فلاح پانے والے ہیں“۔ (سورئہ مجادلہ:آیت22) روایت عَنْ علی عَلَیْہِ السَّلام قَال سَلْمَانُ:فَلَمَّااِطَّلَعْتُ عَلٰی رسولِ اللّٰہ یٰا اَبَاالْحَسَنْ اِلَّا ضَرَبَ بَیْنَ کِتْفِیْ وَقٰالَ:یَاسَلْمَانُ ھَذَاوَحِزْبُہُ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن۔ اس روایت کو گنجی شافعی نے کتاب”کفایۃ الطالب“ باب62،صفحہ250میں، حافظ ابن عساکر نے کتاب”تاریخ دمشق“،باب شرح حالِ امیرالموٴمنین علیہ السلام،جلد2،صفحہ346 حدیث854،اشاعت دوم میں، ابو نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کی تشریح میں اور حافظ الحسکانی نے ”شواہد التنزیل“،جلد1،صفحہ68،اشاعت اوّل میں سورئہ بقرہ کی آیت4کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سلمان نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا:’یا اباالحسن !میں جب بھی رسولِ خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آپ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اے سلمان! یہ شخص اور اس کی جماعت فلاح(کامیابی) پانے والے ہیں“۔قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رسولِ اکرم اور علی کے ماننے والوں کو رسوا نہیں کرے گا یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ۔ ”جس دن خدا تعالیٰ نبی کو اور اُن لوگوں کو جو اُن کے ساتھ ایمان لائے ہیں، رسوا نہ کرے گا“۔(سورئہ تحریم:آیت8)۔ روایت ۔۔۔۔۔قَرَأَ بْنُ عَبَّاس(یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ)قَالَ عَلِیٌ وَاَصْحٰابُہُ۔ اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کے ضمن میں اور علامہ سیوطی نے کتاب”جمع الجوامع“میں جلد2،صفحہ155پر نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”روایت کی گئی ہے کہ ابن عباس یہ آیت ”یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ“ تلاوت فرمارہے تھے،اُس وقت انہوں نے کہا کہ ”وہ لوگ جو ایمان لائے“سے مراد علی علیہ السلام اور اُن کے ماننے والے ہیں“۔ روزِقیامت ولایت ِعلی کے بارے میں سوال کیا جائے گا ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۔ ”پھر تم سے اُس دن نعمتوں کی بابت ضرور بازپرس کی جائے گی“۔(سورئہ تکاثر:آیت8)۔ روایت عَنْ جَعْفَرِابْنِ محمد علیہ السلام فِی قولِہِ عَزَّوَجَلَّ”ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ“قَالَ:عَنْ وِلَایَةِ عَلِیّ۔ اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اور حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل،جلد2،صفحہ368،اشاعت اوّل میں نقل کیا ہے۔ ترجمہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے اس آیت ”ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ“ کے بارے میں فرمایا کہ وہ نعمت جس کے بارے میں روزِ قیامت سوال کیا جائے گا وہ ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے“۔ منبع:islaminurdu.com