فضائلِ علی علیہ السلام مخالفین کی نظر میں
فضائلِ علی علیہ السلام مخالفین کی نظر میں
0 Vote
32 View
معاویہ ابن ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کی علی علیہ السلام سے کھلی اور چھپی عداوت و مخالفت کس پر عیاں نہیں! کوئی ایسا نہیں جو اس حقیقت کا انکار کرے۔ معاویہ ابن ابوسفیان حضرت علی علیہ السلام سے ایساکینہ رکھتا تھا جس کی کوئی حد نہیں۔ اس کا رویہ علی علیہ السلام کی نسبت ویسا ہی تھا جیسا اُس کے باپ ابوسفیان کا پیغمبر اکرم حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھا۔ معاویہ علی علیہ السلام کے مقابلہ میں میدانِ جنگ میں بھی آگیا۔ نتیجتاً مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان ہوا اور یہ خود مسند ِخلافت پر بیٹھ گیا۔ مسلمان ایک صالح حکومت سے محروم ہوگئے۔ معاویہ نے علی علیہ السلام کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ ایک مدت تک لوگ بلاوجہ علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرتے رہے۔ ان حالات کے باوجود معاویہ بھی عظمت ِعلی علیہ السلام سے انکار نہ کرسکا۔ اس نے حضرت علی علیہ السلام کی عظمت کیلئے متعدد قابلِ توجہ اعترافات کئے ہیں۔حکماء کا قول ہے: ”اَلْفَضْلُ مٰا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدٰاء“ ”فضیلت وہی ہے جس کی دشمن بھی گواہی دے“۔ معاویہ کے ان اعترافات کو پڑھنے کے بعد ہر عاقل یہ سوال کرے گا کہ اے معاویہ! اگر علی علیہ السلام ایسے ہی تھے تو تم نے اُن کے ساتھ جنگ کیوں کی اور اُن کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا؟ معاویہ ابن ابوسفیان کی گفتگو قیس ابن ابی خازم کہتے ہیں کہ ایک شخص معاویہ کے پاس آیا اور اُس سے کوئی مسئلہ پوچھا۔ معاویہ نے جواب دیا کہ جاؤ علی علیہ السلام سے پوچھ لو، وہ سب سے بڑا عالم ہے۔ اُس شخص نے کہا کہ میں نے مسئلہ آپ سے پوچھا ہے اور آپ ہی سے جواب چاہتا ہوں۔ معاویہ نے فوراً جواب دیا: افسوس ہے تم پر! کیا تم اس پر خوش نہیں کہ تمہارے سوال کا جواب تمہیں وہ دے جس کو پیغمبر خدا نے خود اپنی زبان سے علم کی غذا دی ہو اور جس کے بارے میں پیغمبر نے یہ بھی کہا ہو کہ اے علی ! تیری نسبت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ کے ساتھ نسبت تھی۔جس سے خلیفہ دوم حضرتِ عمر ابن خطاب متعدد بار سوال پوچھتے رہے ہوں اور جب بھی مشکل آتی تو حضرتِ عمر یہ پوچھتے کہ کیا علی علیہ السلام یہاں ہیں؟ اس کے بعدمعاویہ نے غصے سے اُس شخص کو کہا کہ چلا جا۔ خدا تجھے اس زمین پر پاؤں نہ پھیلانے دے۔ اس کے بعد اُس کا نام بیت المال کی فہرست سے خارج کردیا۔ حوالہ 1۔ کتاب”بوستانِ معرفت“،صفحہ305،نقل از حموئی کی کتاب فرائد السمطین،جلد1، باب68صفحہ371،حدیث302۔ 2۔ ابن عساکر، کتاب تاریخ امیر الموٴمنین ،ج1،ص369،370،حدیث410،411 3۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، صفحہ34،حدیث54۔ ۔۔۔۔۔ معاویہ ابن ابوسفیان کی ایک اور گفتگو ماہِ رمضان میں ایک دن احنف بن قیس معاویہ کے دسترخوان پر افطاری کے وقت بیٹھا تھا۔ قسم قسم کی غذا دستر خوان پر چن دی گئی۔ احنف بن قیس یہ دیکھ کر سخت حیران ہوا اور بے اختیار اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ معاویہ نے رونے کا سبب پوچھا۔ اُس نے کہا کہ مجھے علی کے دسترخوان کی افطاری یاد آگئی۔ کس قدر سادہ تھی۔ معاویہ نے جواب دیا:”علی علیہ السلام کی بات نہ کرو کیونکہ اُن جیسا کوئی نہیں“۔ حوالہ کتاب”علی علیہ السلام معیارِ کمال“، تالیف:ڈاکٹر مظلومی۔ ۔۔۔۔۔ ا)۔شہادتِ علی پر معاویہ کا عکس العمل وہ سوالات جن کا معاویہ کو جواب معلوم نہ ہوتا تھا ،وہ لکھ کر اپنے کسی آدمی کو دیتا تھا اور کہتا تھا کہ جاؤ ان سوالات کا جواب علی علیہ السلام سے پوچھ کر آؤ۔ شہادتِ علی علیہ السلام کی خبر جب معاویہ کو ملی تو کہنے لگا کہ علی علیہ السلام کے مرنے کے ساتھ فقہ و علم کا در بھی بند ہوگیا۔ اس پر اُس کے بھائی عتبہ نے کہا کہ اے معاویہ! تمہاری اس بات کو اہلِ شام نہ سنیں۔ معاویہ نے جواب دیا:”مجھے( میرے حال پر )چھوڑ دو“۔ حوالہ کتاب”بوستانِ معرفت“، صفحہ659،نقل از ابوعمر کی کتاب استیعاب، جلد3،صفحہ45 شرح حالِ علی علیہ السلام سے۔ ۔۔۔۔۔ معاویہ کا ایک اور اعتراف معاویہ نے ابوہریرہ سے کہا کہ میں گمان نہیں کرتا کہ زمام داریٴ حکومت کیلئے میں حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ مستحق ہوں۔ حوالہ کتاب”بررسی مسائل کلی امامت“، تالیف: آیۃ اللہ ابراہیم امینی،صفحہ74،نقل از کتاب”الامامۃ والسیاسۃ“، جلد1،صفحہ28۔ معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے نام وَفِیْ کِتَابِ معاویۃَ اِلٰی علیٍّ علیہ السلام وَأمَافَضْلُکَ فِی الْاِسْلٰامِ وَ قَرَابَتُکَ مِنَ النَّبیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ فَلَعُمْرِی مٰااَدْفَعُہُ وَلاٰ اُنْکِرُ۔ ”معاویہ نے اپنے خط بنام علی علیہ السلام میں لکھا کہ میں اپنی جان کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ آپ کے فضائلِ اسلامی اور رسولِ خدا کے ساتھ قرابت داری کا منکر نہیں ہوں“۔ علی علیہ السلام کی تعریف معاویہ کی زبان سے جب محصن ضبی معاویہ کے پاس پہنچا تو معاویہ نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں سے آرہے ہو؟اُس نے جواب دیا کہ میں(معاذاللہ) کنجوس ترین شخص علی ابن ابی طالب کے پاس سے آرہا ہوں۔ یہ سن کر معاویہ اُس پر چلّایا اور کہا :کیا تم اُس کو بخیل ترین شخص کہہ رہے ہو جس کے پاس اگر ایک گھر سونے(طلاء) سے بھرا ہوا ہو اور دوسرا گھر چاندی سے بھرا ہوا ہو تو وہ بیکسوں کو زیادہ سونا بانٹ دے گا اور پھر طلاء اور چاندی کو مخاطب کرکے کہے گا کہ: یٰاصَفْرٰاءُ وَیٰا بَیْضٰاءُ غُرِّی غَیْرِی أَبِی تَعَرَّضْتِ اَمْ اِلیَّ تَشَوَّقْتِ؟ھَیھٰاتَ ھَیھٰاتَ قَدْ طَلَّقْتُکِ ثَلٰثاً لاٰ رَجْعَةَ فِیْکَ۔ ”اے طلاءِ زرد اور سفید چاندی! میرے کسی غیر کو دھوکہ دو، کیا اس طرح تم میری مخالفت کررہی ہو یا مجھے حوصلہ دے رہی ہو۔ افسوس ہے، افسوس ہے، میں نے تجھے تین مرتبہ طلاق دے دی ہے جس کے بعد رجوع ممکن نہیں“۔ حوالہ کتاب”چراشیعہ شدم“،صفحہ227۔ ب)۔ شہادتِ علی پر معاویہ کا عکس العمل مغیرہ نے کہا: جب علی علیہ السلام کی شہادت کی خبر معاویہ تک پہنچی ،وہ گرمیوں کے دن تھے اور معاویہ اپنی بیوی فاختہ دختر قرظہ کے ساتھ تھا۔ معاویہ اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا: ”اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ راجِعُوْن“ ”ہم اللہ ہی کیلئے ہیں اور اُسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں“۔ پھر کہنے لگا کہ کیا عقل و دانش اور خیر کا منبع چلاگیا؟ معاویہ کی بیوی نے اُس سے کہا کہ کل تک تو تم علی کی طرف نیزے پھینک رہے تھے اور آج اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ راجِعُوْنپڑھ رہے ہو؟ معاویہ نے اُسے جواب میں کہا کہ تم نہیں جانتیں کہ کیا علم و فضیلت اور تجربہ ہاتھ سے چلا گیا۔ حوالہ کتاب”بوستانِ معرفت“،صفحہ660۔یہ نقل کیا گیا ہے ابن عساکر کی کتاب”تاریخ امیر الموٴمنین علیہ السلام،جلد3،صفحہ405،409،حدیث1505،1507اور کتاب مناقب ِخوارزمی سے باب 26،صفحہ283اور ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ،جلد8،صفحہ15،آخر ِ وقایع،سال چہل، ہجری و دیگران۔ معاویہ کی تنبیہ مروان بن حکم کو جاحظ کتاب المحاسن والاضداد میں لکھتا ہے کہ ایک دن حضرتِ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام معاویہ کی محفل میں گئے۔ اس محفل میں عمروعاص، مروان بن حکم اور مغیرہ بن شعبہ اور دوسرے افراد پہلے سے موجود تھے۔جس وقت امام حسن علیہ السلام وہاں پہنچے تو معاویہ نے اُن کا استقبال کیا اور اُن کو منبر پر جگہ دی۔ مروان بن حکم نے جب یہ منظر دیکھا تو حسد سے جل گیا۔ اُس نے اپنی تقریر کے دوران امام حسن علیہ السلام کی توہین کی ۔ امام حسن علیہ السلام نے فوراً اُس خبیث انسان کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان حالات کو دیکھ کر معاویہ اپنی جگہ سے بلند ہوا اور مروان بن حکم کو مخاطب کرکے کہنے لگا: ”قَدْ نَھَیْتُکَ عَنْ ھٰذا الرَّجُل۔۔۔۔۔فَلَیْسَ اَ بُوْہُ کَاَبِیْکَ وَلَا ھُوَ مِثْلُکَ۔اَنْتَ اِبْنُ الطَّرِیْد الشَرِیْد،وَھُوَ اِبْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ الکریم۔ ”میں نے تجھے اس مرد(کی توہین) کے بارے میں منع کیا تھا کیونکہ نہ اُس کا باپ تمہارے باپ جیسا ہے اور نہ وہ خود تمہارے جیسا ہے۔ تم ایک مردود و مفرور باپ کے بیٹے ہو جبکہ وہ رسولِ خدا کا بیٹا ہے“۔ حوالہ کتاب”المحاسن والاضداد“،تالیف:جاحظ(از علمای اہلِ سنت)،صفحہ181۔ معاویہ کا حضرتِ ابوبکر اور حضرتِ عمر پر انتقاد ۔۔۔۔۔ماکتبہ معاویۃ اِلٰی مُحَمَّدِ بنِ اَبِی بَکر:فَقَد کُنَّا اَبُوکَ مَعَنَافِی حَیَاةٍ من نبیِّنَا،نَرٰی حَقَّ عَلِیِ بنِ اَبِی طَالِبٍ لَنَا لَازِماً،وفَضْلَہُ عَلَیْنَا مُبْرَزاً،فَلَمَّا اخْتٰارَہُ اللّٰہُ لِنَبِیِّہِ، فَکَانَ اَبُوکَ وفٰارُوقُۃُ اَوَّلَ مَنِ ابْتَزَّہُ حَقَّہُ وَخٰالَفَہُ عَلٰی اَمْرِہِ۔ ”رسولِ خدا کی حیاتِ طیبہ کے زمانہ میں مَیں اور تیرا باپ(ابوبکر) علی علیہ السلام کے حق کو لازم اور واجب سمجھتے تھے اور اُن کے فضائل و عظمت ہمارے اوپر بالکل واضح تھی۔ لیکن جس وقت خدا نے علی علیہ السلام کو اپنے پیغمبر کے لئے چن لیا(بعنوانِ امام اور مولائے مسلمانان) تو اُس وقت تیرے باپ نے اور اُس کے فاروق(عمر بن خطاب) نے سب سے پہلے علی علیہ السلام کے حق کو پامال کردیا اور اُن کے فرمان کی مخالفت کی“۔ حوالہ موٴلف: ابن عساکر، کتاب حالِ امام علی علیہ السلام،جلد2،صفحہ432پاء ورق۔ ۔۔۔۔۔۔ عمروعاص کی فضیلت ِعلی پرمعاویہ سے گفتگو ”۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ کہ میں عظمت ِعلی علیہ السلام کو احترام سے یاد کرتا ہوں۔ لیکن عظمت ِعلی علیہ السلام کو یاد کرنے میں تو مجھ سے بھی زیادہ شدید ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ تو اسے چھپاتا ہے اور میں اسے برملا کہتا ہوں“۔ حوالہ کتاب اسرارِ آلِ محمد،موٴلف: سلیم بن قیس،صفحہ203،اشاعت12۔ ۔۔۔۔۔۔ عمروعاص کے اشعار علی کی شان میں عمروعاص نے معاویہ کے نام خط لکھا جس میں درج ذیل اشعار لکھے: کتب عمروبن العاص الی معاویہ و کم قد سمعنا من المصطفیٰ وصایا مُخَصَّصَۃً فی علیٍّ و فی یوم خمٍّ رقیٰ مِنبراً و بلَّغ والصَّحبُ لم تَرحل فأمنَحَہ اِمرَةَ الموٴمنین مِن اللّٰہِ مستخلِفَ المنحل و فی کفِّہ کفُّہ مُعْلِناً یُنادی باَمرِ العزیز العلیّ وقال: فَمَن کنتُ مولیٰ لہ علیٌ لہ الیومَ نِعْمَ الوَلی ”علی علیہ السلام کے بارے میں رسولِ خدا کے بہت سے ارشادات وسفارشات ہم نے سنیں۔ غدیر خم کے روز پیغمبر خدا منبر پر تشریف لے گئے اور (ولایت ِعلی علیہ السلام کی)تبلیغ کی۔ اس حالت میں کہ سب آپ کے ہمراہیوں نے ابھی کوچ نہیں کیا تھا(یعنی وہاں موجود تھے)۔ علی کو خدا کی طرف سے امیر الموٴمنین مقرر کیا۔اُس روز علی کا ہاتھ پیغمبر کے ہاتھ میں تھا اور لوگوں کو واضح طور پر خدا کے فرمان کی طرف متوجہ کررہے تھے اور فرمارہے تھے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اُس کا یہ علی مولا ہے“ حوالہ ابن عساکر،کتاب ”امام علی علیہ السلام“ ،صفحہ89،فٹ نوٹ(شرح محمودی)۔ ۔۔۔۔۔۔ اعترافِ سعد بن ابی وقاص جب معاویہ اپنے بیٹے یزید کیلئے بیعت حاصل کرنے کیلئے واردِ مکہ ہوا۔ اُس نے دارالندوہ میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چند اصحابِ پیغمبر اسلام بھی تھے۔ معاویہ نے اپنے کلام کا آغاز حضرت علی علیہ السلام کی بدگوئی سے کیا۔ بعد میں وہ اس انتظار میں رہا کہ سعد بن ابی وقاص بھی اپنے کلام کا آغاز علی علیہ السلام کی بد تعریفی ہی سے کرے گا۔ لیکن سعد نے برخلافِ توقع کہا کہ میں ہمیشہ حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے تین درخشاں نکات کو یاد کرتا رہتا ہوں اور میں دل کی گہرائی سے کہتا ہوں کہ اے کاش! مجھے یہ فضیلتیں میسر آجائیں اور یہ تین فضیلتیں یہ ہیں: 1۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ یا علی ! تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ 2۔ جنگ ِخیبر میں ایک روز پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں علم اُس کو دوں گا جس کو خدااور اُس کا رسول دوست رکھتے ہوں گے۔ اللہ اُس کے ہاتھ پر فتح عطا کرے گا اور وہ غیر فرار ہوگا۔ 3۔ نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کے روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اردگرد علی علیہ السلام ، فاطمہ سلام اللہ علیہا ،حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کو جمع کیا اور فرمایا: ”پروردگار! یہ میرے اہلِ بیت ہیں“۔ حوالہ 1۔ کتاب”الھیات و معافِ اسلامی“، موٴلف:استاد جعفر سبحانی، صفحہ399،نقل از صحیح مسلم،جلد7،صفحہ120۔ 2۔ کنز العمال، جلد13،صفحہ162،163(موٴسسة الرسالہ،بیروت، اشاعت پنجم)۔ 3۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد7،صفحہ340،بابِ فضائلِ علی علیہ السلام۔ سعد بن ابی وقاص سے تین روائتیں (ا)۔ ایک دفعہ معاویہ سفر حج پر تھا کہ سعد بن ابی وقاص اُس کو ملا۔ گفتگو کے دوران ذکرِ علی بھی آگیا۔ معاویہ نے علی علیہ السلام کو بُرابھلا کہا۔ اس پر سعد غصے میں آگیا اورکہنے لگا :کیا تو اُس شخص کو بُرا بھلا کہہ رہا ہے جس کے بارے میں پیغمبر خدا کہتے تھے کہ جس کامیں مولیٰ ہوں، اُس کا یہ میرا چچازاد بھائی علی بھی مولیٰ ہے اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ آپ نے فرمایاکہ یا علی ! تو میرے نزدیک وہی منزلت رکھتا ہے جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک تھی،سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئیگا اور پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ کل(روزِ خیبر) میں پرچم اُس کو دوں گا جس کو خدا اور اُس کا رسول دوست رکھتے ہیں۔ حوالہ کتاب”آثار الصادقین“جلد14،صفحہ462،نقل از الغدیر،جلد1،صفحہ39،والغدیر از سنن ابن ماجہ،جلد1،صفحہ30۔(یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ بعض اوقات معاویہ علی علیہ السلام کو بُراکہتا تھا۔ یہ اُس کے انتہائی کینہ کی وجہ سے تھا لیکن بعض اوقات فضائلِ علی علیہ السلام بیان بھی کرتا تھا۔ یہ اس واسطے تھا کہ علی علیہ السلام کے فضائل چھپائے بھی نہ چھپ سکتے تھے)۔ ۔۔۔۔۔۔ (ب)۔ ابو یعلی و بزار سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ خدا نے فرمایا: ”مَنْ آذیٰ عَلِیاً فَقَدْ آذٰانِیْ“ ”جس نے علی کو اذیت دی، اُس نے گویا مجھے اذیت دی“۔ حوالہ کتاب”مصباح الموحدین“،صفحہ55۔ ۔۔۔۔۔۔ (ج)۔ مسلم، سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ”نَدْعُ اَبْنٰاءَ نٰا وَاَبْنٰاءَ کُمْ۔۔۔۔۔۔۔۔“ ”ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں، تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ رسولِ خدا نے علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین کو بلایااور کہا: ”اَلَّلھُمَّ ھٰوٴُلاٰءِ اَھْلُبَیْتِیْ“ ”پروردگار یہ میرے اہلِ بیت ہیں“۔ حوالہ کتاب”مصباح الموحدین“،صفحہ52۔ ۔۔۔۔۔۔ ابن سعد سے ایک روایت ابن سعد حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ تمام اصحاب سے زیادہ احادیث جانتے ہیں تو جواب میں علی علیہ السلام نے فرمایا: ”اِنِّی کُنْتُ اِذٰاسَأَ لْتُہُ أَ نْبَأَ نِیْ وَاِذٰا سَکَتُّ اِبْتَدَأَنِیْ“ ”جس وقت بھی میں نے آنحضرت سے پوچھا تو آپ نے مجھے خبر دی اورجب میں خاموش ہوجاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات شروع کردیتے“۔ حوالہ کتاب”مصباح الموحدین“،صفحہ55۔ ۔۔۔۔۔۔ مروان بن حکم کی امامِ سجاد سے گفتگو ایک دن مروان بن حکم(جو یزید بن معاویہ کے بعد خلافت پر بیٹھا) امامِ سجاد علیہ السلام سے ملا اور اُس نے امام علیہ السلام سے کہا کہ مسلمانوں میں سے کسی نے بھی آپ کے دوست سے زیادہ ہمارے دوست کی طرفداری نہیں کی(یعنی کسی نے بھی علی علیہ السلام سے زیادہ عثمان کی طرفداری نہیں کی)۔ امامِ سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر کیوں ہمیں اس نسبت سے برائی دیتے ہو؟مروان نے جواب دیا کہ ہماری حکومت کی بقا اس کے بغیر ممکن نہیں۔ حوالہ جات بوستانِ معرفت، صفحہ664،نقل از ابن عساکر، کتاب تاریخ امیر الموٴمنین علیہ السلام،جلد3صفحہ127،حدیث1149اور بلاذری، انساب الاشراف،ج2،ص184، حدیث220ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،جلد13،صفحہ220،شرح خطبہ238۔ ۔۔۔۔۔۔ مروان اور ولید بن عقبہ کی شجاعت ِعلی پر گفتگو جنگ ِصفین میں معاویہ بن ابی سفیان نے کہا کہ خدا کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ تم حضرت علی علیہ السلام کو تیروں کی بارش کرکے زخمی کردو تاکہ اُن کے پاؤں اکھڑ جائیں اور لوگ اُن کی طرف سے آسودہ خیال ہوجائیں۔ اس وقت مروان نے کہا:خدا کی قسم! اے معاویہ! تمہیں ہمارا وجود بُرالگتا ہے(تم چاہتے ہو کہ ہمیں موت کی وادی میں دھکیل دو)۔ اس واسطے تم ہمیں ایک خطرناک ترین سانپ اور دلیر ترین شیر کو مارنے کا مشورہ دے رہے ہو۔ وہ غصے میں اپنی جگہ سے اٹھا ۔ولید بن عقبہ جو وہاں موجود تھا، نے چند اشعار پڑھے جن میں سے دو اشعار ذیل میں لکھے جارہے ہیں: أَتأ مُرُنٰا بِحَیَّۃِ بَطْنِ وَادٍ یُنٰاحُ لَنٰابِہِ اَسَدٌ مَھابٌ کَاَنَّ الْخَلْقَ لَمّٰا عٰایَنُوْہُ خِلاٰلَ النَّقْعِ لَیْسَ لَھُمْ رِقٰابٌ ”کیا تم ہمیں جنگل کے ایسے سانپ کو مارنے کا حکم دے رہے ہو جس کے ڈسنے سے جنگل کا شیر ببر بھی محفوظ نہیں۔ وہ بھی آہ و زاری کررہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اُسے اگر میدانِ جنگ میں کوئی خاک و غبار میں دیکھ لے تو اُس کے خوف سے کوئی گردن سلامت نہیں رہے گی“۔ حوالہ کتاب”آثارالصادقین“،جلد9،صفحہ301،نقل از سفینہ، جلد1،صفحہ690۔ ۔۔۔۔۔۔ قاتلِ علی ،عبدالرحمٰن بن ملجم کے تاثرات عبدالرحمٰن ابن ملجم مرادی ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہ السلام کا اس قدر قائل تھاکہ علامہ مجلسی بحارالانوار کی جلد9میں لکھتے ہیں کہ جب یہ یمن سے کوفہ آیا اور امیر الموٴمنین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو اس نے ایک قصیدہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں لکھا۔ اس نے وہیں قیام کیا۔ اتفاق سے بیمار پڑگیا تو خود حضرت علی علیہ السلام اُس کی تیمار داری اور خدمت کیلئے اُس کے پاس جاتے رہے۔ جنگ ِنہروان میں ابن ملجم حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں شامل تھا اور ایک دستہ فوج کا سالار تھا۔ ایک دفعہ عبدالرحمٰن ابن ملجم حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اُسے اطلاع دی کہ اے عبدالرحمٰن! تو میرا قاتل ہوگا تو ایک دفعہ یہ گھبرا گیا اور کہنے لگا کہ یا امیر الموٴمنین ! مجھے ابھی اپنی تلوار سے قتل کردیں تاکہ میں اس جرم کا ارتکاب نہ کرسکوں۔ آپ نے قصاص قبل از قتل کی مذمت فرمائی۔ یہی عبدالرحمٰن ابن ملجم بعد میں دوخارجیوں کے زیر اثر آگیااورقطامہ نامی ایک بدکار عورت بنام قطامہ کے عشق میں مبتلا ہوکر اپنے ہاتھ علی علیہ السلام کے خون سے رنگ لئے۔ پس قاتلِ علی علیہ السلام بھی آپ کے فضائل و کمالات سے پوری طرح آگاہ تھا معترف تھا۔ ۔۔۔۔۔۔ فہرست ِکتب جن سے اس کتاب میں استفادہ کیا گیا ہے فہرست ِکتب اہلِ سنت -1 تفسیر کبیر فخر رازی -2 تفسیر شواہد التنزیل حافظ حسکانی -3 تفسیر الدرالمنثور سیوطی -4 تفسیر ابن کثیر ابن کثیر -5 تفسیر کشاف زمخشری -6 تفسیر طبری طبری -7 تفسیر بیضاوی بیضاوی -8 تفسیر اسباب النزول واحدی نیشاپوری -9 تفسیر روح المعانی شہاب الدین آلوسی -10 تفسیر فتح القدیر قاضی شوکانی -11 الکشف والبیان ثعلبی -12 انساب الاشراف بلاذری -13 کفایۃ الطالب گنجی شافعی -14 ینابیع المودة شیخ سلیمان قندوزی حنفی -15 مجمع الزوائد ہیثمی -16 فرائد السمطین علامہ حموینی -17 البدایہ والنہایہ ابن کثیر -18 مناقب ِ امیر المومنین ابن مغازلی -19 کنزالعمال متقی ہندی -20 تاریخ بغداد خطیب بغدادی -21 تاریخ دمشق ابن عساکر -22 تاریخ الخلفاء سیوطی -23 مناقب ِ امیر المومنین خوارزمی -24 الصواعق المحرقہ ابن حجر -25 نورالابصار شبلنجی -26 اللئالی المصنوعہ سیوطی -27 اسد الغابہ ابن اثیر -28 ما نزل من القرآن فی علی ابو نعیم اصفہانی -29 الفصول المہمہ ابن صباغ مالکی -30 المستدرک حاکم نیشا پوری -31 المسند احمد بن حنبل -32 المعجم الکبیر طبرانی -33 تہذیب الکمال حافظ المزی -34 الفضائل قطیفی -35 میزان الاعتدال ذہبی -36 استیعاب ابن عبدالبر -37 تذکرة الخواص سبط بن الجوزی -38 تاریخ الاسلام ذہبی -39 الجامع لا حکام القرآن قرطبی -40 الفضائل احمد بن حنبل -41 الاصابہ ابن حجر عسقلانی -42 خصائص امیر المومنین نسائی -43 ریاض النظرہ محب الدین طبری -44 فتح الباری ابن حجر عسقلانی -45 مقتل الحسین خوارزمی -46 کنزالفوائد کراجکی -47 خصائص الوحی المبین یحییٰ بن بطریق -48 مناقب ِ آلِ نبی رشید الدین -49 احیاء العلوم ثعلبی -50 جمع الجوامع سیوطی -51 سنن ابن ماجہ محمد بن یزید قزوینی -52 صحیح ترمذی محمد بن عیسیٰ ترمذی -53 صحیح بخاری محمد بن اسماعیل بخاری -54 عمدة القاری ابن احمد حلبی عینی -55 السنن الکبریٰ بہیقی -56 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید -57 ذخائر العقبی محب الدین طبری -58 لسان المیزان ابن حجر عسقلانی -59 حلیة الاولیاء ابونعیم اصفہانی -60 الجامع الصغیر سیوطی -61 الاتحاف بحب الاشراف شبراوی -62 مثنوی معنوی مولوی -63 المحاسن والاضداد جاحظ -64 امام علی بن ابی طالب عبدالفتاح عبدالمقصود -65 بیست و پنج سال سکوتِ علی علیہ السلام فواد فاروقی -66 علی ،چہرئہ درخشانِ اسلام ابن ابی الحدید -67 معجم الادباء یاقوت حموی فہرست ِکتب اہلِ شیعہ -1 تفسیر المیزان مرحوم علامہ طباطبائی -2 تفسیر مجمع البیان شیخ طبرسی -3 تفسیر البرہان علامہ بحرانی -4 تفسیر نمونہ جمیع از نویسندگان -5 کمال الدین شیخ صدوق -6 الغدیر مرحوم علامہ امینی -7 آثار الصادقین شیخ صادق احسان بخش -8 جلاء العیون علامہ مجلسی -9 آئمہ اثنا عشر احمد بن عبداللہ بن عیاشی جوہری -10 شیعہ در اسلام علامہ طباطبائی -11 ولاء ہاووِلایتہا علامہ شہید مرتضیٰ مطہری -12 سیری در صحیحین محمد صادق نجمی -13 الحیات و معارفِ اسلامی آیت اللہ جعفر سبحانی -14 اسرارِ آلِ محمد سلیم بن قیس -15 امامت و رہبری علامہ شہید مرتضیٰ مطہری -16 مصباح المحدین عباس علی وحیدی منفرد -17 شبہائے پشاور سلطان الواعظین شیرازی -18 چکیدہ اندیشہ ہا سید یحییٰ برقعی -19 سید الشہداء آیت اللہ شہید دستغیب -20 علی ، معیارِ کمال ڈاکٹر رجب علی مظلومی -21 داستانِ غدیر جمیع از دبیران -22 بررسی مسائل کلی امامت آیت اللہ ابراہیم امینی -23 فاطمة الزہرا گفتار مرحوم علامہ امینی -24 علی و پیامبران حکیم سید محمود سیالکوٹی -25 چراشیعہ شدم؟ شیخ محمد رازی -26 بوستانِ معرفت سید ہاشم حسینی تہرانی -27 قصہ ہائے قرآن سید ابوتراب صفائیی -28 مباحثی در معارفِ اسلامی علامہ فقیدسید علی بہبہانی -29 ادبیات و تعہد دراسلام محمد رضا حکیمی -30 علی کیست؟ فضل اللہ کمپانی -31 ہشتادودوپرسش آیت اللہ شہید دستغیب -32 حق با علی است مہدی فقیہ ایمانی -33 زندگانیِ فاطمة الزہرا آیت اللہ شہید دستغیب -34 گنجینہ ہائے شعر و ادب فارسی مصطفی ہادوی -35 این است آئین ما مرحوم کاشف الغطاء -36 باب حادی عشر مرحوم علامہ شہرستانی -37 فرہنگ بزگانِ ایران و اسلام آذر تفضلی۔ مہین فضائلی جوان -38 النورالمشتعل تعلیق وشرح شیخ باقر محمودی -39 صلح امامِ حسن شیخ رازی آلِ یاسین -40 تجرید الاعتقاد خواجہ نصیر الدین طوسی -41 تفسیر نورالثقلین مرحوم عبد علی بن جمة الحویزی -42 آ نگاہ ہدایت شدم ڈاکٹر سید محمدتیجانی سماوی -43 ای اشک ہابریزید دیوانِ حبیب اللہ چائچیان دیگر متفرق کتب -1 امام علی ،مشعلی و دژی سلیمان کتانی،ترجمہ جلال الدین فارسی۔ -2 امام علی صدائے عدالت ِ انسانی جرج جرداق -3 الفتوح ابومحمد احمد بن علی اعثم کوفی -4 محاضرات راغب اصفہانی کتب ِ لغت -1 المنجد -2 فرہنگ جامع -3 منجد الطلاب -4 مجمع البحرین -5 فرہنگ معین(شش جلدی) -6 فرہنگ عمید منبع:islaminurdu.com