قیام امام حسین(ع)کا ہدف … اصلاح امت مسلمہ
قیام امام حسین(ع)کا ہدف … اصلاح امت مسلمہ
0 Vote
69 View
تاریخ کے صفحات پر سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا موقف اور نقطہ نگاہ آج بھی اپنی پوری رعنائیو ں کے ساتھ رقم ہے۔ چنانچہ جب حاکم مدینہ کی طرف سے یزید کی بیعت کے لئے دبائو ڈالا گیا تو آپ نے فرمایا کہ'' مسلمانوں کا حکمران یزید جیسا شخص ہو تو ایسے اسلام پر سلام ۔ بیعت سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ جیسا شخص یزید جیسے شخص کی بیعت نہیں کرسکتا۔ اس طرح امام عالی مقام نے اپنا موقف دو ٹوک انداز میں بیان کردیا اور حکومت' اس کے کردار اور پالیسیوں کو ٹھکر کر غیر اسلامی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ اھداف امام نے اپنے قیام کے اہداف و مقاصد واضح فرمائے چنانچہ اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو ایک وصیت نامے میں امام عالی مقام نے اس طرح ارشا د فرمایا: ''میرے اس قیام' میری جدوجہد کا اصل مقصد اور میری اس تحریک اور اقدام کا اصل ہدف صرف امت کی اصلاح ہے میرا عزم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے'' اس فصیح و بلیغ بیان میں آپ نے اپنے اہداف و مقاصداور اسلام کے تحفظ اور دین کی بقاء کے لئے اپنے خدا اور اپنے نانا سید الرسل ۖ کی طرف سے ودیعت کی گئی ذمہ داریوں کا مکمل احاطہ فرمادیا ہے۔ اصلاح کو ہدف قرار دینا بذات خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فساد موجود ہے' انتشار و افتراق برپا ہے اور بگاڑ ہویدا ہے۔ لہذا ان برائیوں کے خاتمے کے لئے اصلاح کی ضرورت درپیش ہے۔ منظر کشی آپ نے اپنے خطوط و خطبات میں قیام کی وجوہات واضح کرنے کے لئے کئی مرتبہ اس دور کی صورت حال' کیفیت' امت کی حالت زار اور حالات کی ابتری کی نقشہ کشی اور منظر کشی فرمائی۔ چنانچہ امام جب مکہ تشریف لائے تو بصرہ کے قبائل کے سرداروں کو ایک خط لکھا جس میں امام نے تحریر فرمایا کہ میں ابھی اپنے نمائندے کو اس خط کے ساتھ آپ کی طرف بھیج رہا ہوں میں آپ کو کتاب خدا اور سنت پیغمبر اکرم ۖ کی طرف دعوت دیتا ہوں چونکہ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ سنت پیغمبر اکرم ۖ ختم ہوچکی ہے اور بدعتیں زندہ ہوگئی ہیں اگر آپ میری بات کو سنیں گے تو میں آپ کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کروں گا۔ سفر عراق کے دوران مقام بیضہ پر لشکر حر کو خطبہ میں ارشاد فرمایا : ۔ ''اے لوگو! یہ (حکمران) اطاعت خدا کو ترک کرچکے ہیں اور شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بناچکے ہیں ۔ یہ ظلم و فساد کو اسلامی معاشرے میں رواج دے رہے ہیں۔خدا کے قوانین کو معطل کررہے ہیں اور ''مال فے'' کوانہوں نے اپنے لئے مختص کرلیا ہے ۔ خدا کے حلال و حرام اور اومر و نواہی کو بدل چکے ہیں۔ میں اس معاشرے کی ہدایت و رہبری کے لئے اور ان سے سب فتنوں ' فسادکاریوں اور مفسدوں کے خلاف کہ جنہوں نے میرے نانا کے دین کو تبدیل کردیا ہے ۔ قیام کرنے میں دوسروں سے زیادہ اہل ہوں''۔ اس خطبے میں کی گئی منظر کشی سے واضح ہوتا ہے کہ یزیدی دور میں حکمران ' احکام شریعت الہی اور سنت رسول ۖ میں دیئے گئے زندگی گزارنے کے طور طریقوں کو بھلا کر گمراہی اور گناہ کی زندگی اختیار کرچکے تھے۔ عدل اجتماعی سے گریز کرتے ہوئے مستقل طور پر بے عدلی اور ناانصافی کو اسلامی معاشرے کا حصہ بنایا جارہا تھا۔ خدا نے انسان اور معاشرے کی بھلائی کے لئے شریعت کی شکل میں جو قوانین اور پابندیاں عائد کیں ان سے عملاً برات کرکے اپنے خود ساختہ قوانین رائج کئے جارہے تھے' قومی خزانے کو لوٹا جارہا تھا اور کرپشن اور حرام خوری حکمرانوں کی عادت بن چکی تھی جس سے معاشی ناہمواری' غربت' افلاس اور جہالت کو فروغ مل رہا تھا۔ حکمران خود بھی اوررعایا بھی حلال و حرام کی تمیز نہیں کررہے تھے۔ بلکہ حرام امور کو حلال تصور کرکے انجام دے رہے تھے' خدا کے احکامات کی تابعداری کرنے کی بجائے نافرمانی کررہے تھے اور جن کاموں سے خداتعالی نے منع فرمایا تھا ان سے باز نہیں آرہے تھے۔ سفر عراق میں ذی حسم کے مقام پر خطبہ میں ارشاد فرمایا : ۔ ''وہ جو ہونے والا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں زمانے کے حالات بالکل تبدیل ہوچکے ہیں۔ برائیاں ظاہر ہوچکی ہیں ' نیکیاں اور فضیلتیں 'بہت تھوڑی رہ گئی ہیں جیسے کسی برتن کی تہہ میں چند قطرے۔ لوگ ذلت و پستی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ زندگی کا منظر پتھریلی چراگاہ کی طرح ہے جس میں گھاس کم ہے۔ زندگی دشواریوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے دوری اختیار نہیں کی جارہی۔ ان حالات میں ایک ایماندار شخص کو چاہیے کہ اپنے پروردگارکے دیدار کا طالب و مشتاق رہے اور اس قدر ذلت بار حالات میں حسین ابن علی موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو بوجھ سمجھتے ہیں''۔ مزید ارشاد فرمایا : ۔ ''لوگ دنیا کے بندے ہیں دین ان کی زبانوں پر صرف لقلقہ لسانی تک ہے۔ جب تک ان کی زندگی پررونق رہتی ہے اس وقت تک دین کے ساتھ رہتے ہیں اور جب امتحان و آزمائش کا وقت آتا ہے تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں'' تصویر کشی حالات کی تصویر کشی کرتے ہوئے مختلف مقامات پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ ''اس وقت ہم ایسے حالات سے گزر رہے ہیں کہ سنت رسول ۖ ختم ہوچکی ہے اور اس کی جگہ بدعت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔تم کتنے بدبخت اور سرکش افراد ہوکہ جنہوں نے قرآن کو پس پشت کرلیا اور تم لوگوں نے شیطان کو دماغ میں بسالیا ہے۔ تم لوگ بڑے جنایت کار ہو ' کتاب خدا میں تحریف کرنے والے' سنت خدا کو فراموش کرنے اور اسے ختم کرنے والے ہو تم پیغمبر اکرم ۖ کے فرزندوں کو مار ڈالتے ہو' تم اوصیاء کو اذیت دینے والے اور تم ایسے پیشوائوں کے پیروکار ہو جو قرآن مجید کا تمسخر اڑاتے ہیں۔اسلام میں تحریف ہوجانے کا خطرہ ہی نہیں بلکہ اسلام کے نابود ہونے کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ پیغمبر اکرم ۖ کے قانو ن کو ختم کیا جارہا ہے اور اس کی جگہ بدعتیں زندہ کی جارہی ہیں۔ ان تمام بیانات میں سید الشہداء نے کھل کر اور دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ یزیدی حکومت کی طرف سے بدعتوں کو فروغ دینے اور سنت رسول اکرم ۖ کے خاتمے کا سلسلہ اب فوری طور پر روکنا ضروری ہے' اسلام کے زندگی بخش قوانین کو نظر انداز کرنے اور باطل کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے' قرآن اور قرآنی احکام کے رو سے انسان کا قتل' ظلم و ناانصافی' انسانی حقوق کی پامالی' شہری آزادیوں کا سلب کیا جانا' غربت' افلاس اور جہالت کا فروغ' کرپشن اور بدامنی کا راج' عدل اجتماعی سے انحراف' استحصال اور اس طرح کے دیگر امور حرام ہیں لیکن یزید اور اس کے کارندے بلادریغ یہ حرام امور نہ فقط انجام دے رہے ہیں بلکہ انہیں حلال ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں جاری تھیں۔ امامت و رھبری ایسی صورت حال میں امت کی رہبری و رہنمائی فرمانا' امت کو ہدایت کا راستہ دکھانا' امت کو فساد اور شر سے بچانا' امت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے آگاہ کرنا اور امت کو صحیح اور سچے نظام حکومت اور نظام حیات کی طرف متوجہ کرنا صرف اور صرف آپ ہی کی ذمہ داری تھی۔ جبھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ ''امام وہ ہے جو کتاب و سنت پر عمل پیرا ہو'اسلامی معاشرہ کی رہبری اور اس ظلم و فساد اور ان ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے میں (حسین ) دوسروں کی نسبت زیادہ سزا وار ہوں…یہ ایسی حکومت ہے جس نے قرآنی احکام' سنت اور قوانین پیغمبر اکرم ۖ میں تغیر و تحریف کو اپنا شیوہ بنالیا ہے لہذا اس کے خلاف جدوجہد کرنا میرا دینی فریضہ ہے… میری ذمہ داری ہے کہ میں تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑدوں اور قرآن اور اسلام کے فراموش شدہ حیات آفرین احکام کو دوبارہ اس معاشرے میں رواج دوں۔ ظلم و ستم اور اسلامی قوانین میں تبدیلی کو روکوں…ان حالات میں ظلم و فساد کے خلاف جدوجہد ضروری ہے یعنی اگر اس جدوجہد میں امت کے پاک ترین افراد کا خون بھی بہہ جائے تو فقط یہ کہ دشمن ا س سے فائدہ نہیں اٹھاسکے گا بلکہ اس کے بہترین نتائج ظاہر ہوں گے اور اسلام پھلے پھولے گا… اب مومن کو چاہیے کہ وہ ا…تعالی سے ملاقات کی رغبت کرے اور میں تو موت کو اپنے لئے سعادت اور ظالموں کے ساتھ جینے کو بوجھ سمجھتا ہوں''۔ فقط اصلاح امت امام عالی مقام کے ان ارشادات نے واضح کردیا کہ آپ کی جدوجہد' آپ کا سفر' آپ کا قیام' آپ کی شہادت اور پھر آپ کے خانوادے کے پابہ زنجیر طویل سفر کا مقصد ذات' مفادات ' شہرت ' دولت ' فقط حکومت یا نمود و نمائش نہیں تھا۔ بلکہ صرف اور صرف اصلاح امت اور فلاح امت تھا۔ اس جدوجہد نے اس اصول کی بنیاد ڈال دی ہے کہ جب بھی ' جس دور میں بھی' جس خطے میں بھی اور جن حالات میں بھی اس قسم کی صورت حال درپیش ہو تو عظیم مقاصد اور اجتماعی مفادات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ 10 محرم 61 ھ کے بعد جب بھی حریت کی تاریخ رقم ہوئی ' جب بھی ظلم کے خلاف قیام کا مرحلہ آیا' جب بھی فساد کے خاتمے کی جدوجہد ہوئی اور جب بھی جبر سے مسلط رہنے والی حکومتوں کی مزاحمت کی بات نکلی تو سب حریت پسندوںاور تمام تحریکوںنے حسین اور کربلا سے ضرور استفادہ کیا۔ تعلیمات اور سیرت امام حسین کی روشنی میں اصلاح امت کا سلسلہ ماضی میں بھی جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔ برائیوں اور مفاسد کو دور کرنے اور دنیا کو ایک ہمہ گیرعادلانہ نظام فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اصلاح امت کا بنیادی فریضہ انجام دیا جائے۔ یہ فریضہ انجام دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام حسین کے فرامین' کردار' سیرت' انداز عمل اور جدوجہد سے استفادہ کریں۔ اصلاح امت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے مسلکی، فروعی، ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد امت، وحدت امت اور اصلاح امت کا مشن جاری رکھیں۔ سچ جو میدان کربلا میں کہے …اور سچ کے لئے جفائیں سہے … غسل اپنے لہو سے کرکے بھی… سرخرو اور سربلند رہے… صرف اس کو حسین کہتے ہیں منبع:jafariapress.com