ماه رمضان اور غفلت
ماه رمضان اور غفلت
0 Vote
58 View
غفلت ايسي مصيبت ہے جس کي وجہ سے انسان کا معنوي نقصان بھي ہوتا ہے اور روحاني بھي- غفلت سے بچنے اور ہمہ وقت حاضر دماغ اور متنبہ رہنے کي ہمارے يہاں کافي تاکيد کي گئي ہے- غفلت کے نقصانات اور اس کے آثار کے سلسلہ ميں قرآن نے کئي مقامات پر اشارہ کيا ہے: غفلت کے آثارو نقصانات 1- روزي کي تنگي: قرآن کا صريحي اعلان ہے کہ غفلت، روزي کي تنگي کا باعث ہوتي ہے- قرآن کا ارشاد ہے (ومَن اعرض عن ذِکرِي فَاِنّ لہ معِيشةً ضنکاً ونحشرہ يوم القِيامِة اعمي) (طہ:124)يعني جو ميرے ذکر سے منھ موڑے گا اس کي روزي تنگ رہے گي- يہ ظاہرا ايک مادي نقصان ہے جو دنيا ہي ميں ظاہر ہوگا- اس کے علاوہ مذکورہ آيت کے تسلسل ميں ايک معنوي نقصان کا تذکرہ ہے جو اس سلسلہ کا دوسرا نقصان ہے: 2- قيامت ميں اندھا اٹھايا جانا: (ونحشرہ يوم القِيامِة اعمي) (طہ:124)يعني ہم قيامت ميں اسے اندھا اٹھائيں گے- يہ ايک معنوي نقصان ہے جو قيامت ميں ظاہر ہوگا-ايک اور معنوي نقصان ہے جو اس سے آگے کي آيت ميں ہے: 3- قيامت ميں بھلاديا جانا: (وکَذلکِ اليومَ تُنسيٰ)(طہ:126) اور آج تجھے بھلاديا جائے گا- يہ بات بھي عجيب ہے کہ اس نے اللہ سے غفلت کي تو اللہ نے قيامت ميں اسے بھلاديا- 4- شيطان کي ہمنشيني: (ومن يعشُ عن ذِکرِ الرحمٰنِ نُقيِّض لہ شيطاناً فہو لہ قرِين) (زخرف:36) اور جو رحمٰن کے ذکر سے منھ پھيرے گا ہم اس کے لئے ايک شيطان بھيج ديں گے جو اس کے ساتھ رہے گا- 5- خود فراموشي: (حشر:19) ان لوگوں کي طرح نہ بنو جنھوں نے اللہ کو بھلا ديا تو اللہ نے ان کو 'خودفراموشي' ميں مبتلا کرديا- يہ ہيں غفلت کے آثار و نقصانات جو مادي بھي ہيں اور معنوي بھي - لہذا دنياوي اور اخروي نقصانات سے بچنے کے لئے ہميں ماہ رمضان ميں غفلت سے مقابلہ کرنا ہوگا- ہميں چاہئے کہ رمضان کے ايک ايک لمحہ کو اپنے لئے غنيمت سمجھيں کيونکہ سال ميں صرف ايک بار ہم کو يہ موقع ملتا ہے- البتہ غفلت سے بچنے کے لئے ضروري ہے کہ ہم ديکھيں کہ غفلت کے اسباب کيا ہيں اور انسان غفلت ميں مبتلا کيوں ہوجاتا ہے- تو آيئے اس پر بھي ايک نگاہ ڈالتے ہيں: غفلت کے اسباب قرآن نے غفلت کے مختلف اسباب بيان کئے ہيں : 1-مال و اولاد: 'اے ايمان لانے والو! تمہاري اولاد اور تمہارا مال تمہيں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے-' (منافقون:9) ايسا بہت سے موقعوں پر ہوتا ہے کہ اپنے کاروبار کي وجہ سے کوئي اللہ کے ذکر سے غافل ہوجائے، مال دنيا اسے اللہ سے غافل بنادے- اسي طرح اولاد کي چاہت اور اولاد کي جائز ناجائز آرزۆں کو پورا کرنے کي دھن بھي انسان کو اللہ سے غافل کرديتي ہے- 2- عيش و آرام: '(وہ لوگ جواب ميں کہيں گے) تو پاک و پاکيزہ ہے ہماري کيا مجال کہ تيرے علاوہ کسي اور کو اپنا سرپرست بنائيں، ليکن ہاں تو نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو نعمتوں سے نوازا يہاں تک کہ يہ لوگ ذکر کو بھول گئے-' (فرقان:18) دنيا کا عيش و آرام اور دنياوي سہوليات ايسي چيزيں ہيں جن سے سبب غفلت کے امکانات زيادہ ہوجاتے ہيں- کتنے لوگ ايسے ہيں جو شروع ميں اچھے تھے، اللہ کي ياد ميں مصروف تھے ليکن جيسے ہي انھيں کچھ عيش و آرام ميسر ہوا وہ اللہ کو بھول گئے اور دنياوي چمک دمک ميں ڈوبتے چلے گئے- 3-دنيا طلبي: ' لہذا اے رسول (ص) آپ اس شخص سے منھ پھيرليں جس نے ہمارے ذکر سے منھ موڑا اور جو دنياوي زندگي کے علاوہ کچھ نہيں چاہتا- ' (نجم:29) يہ آيت ظاہرا ان لوگوں کے بارے ميں ہے جو دنياوي عيش و آرام ميں مبتلا نہيں ہيں اور ابھي دنياوي عيش و عشرت ان کو حاصل نہيں ہوپائي ہے ليکن وہ دنياوي عيش و آرام کے تعاقب ميں ہيں اور اسے حاصل کرنا چاہتے ہيں اور اسي وجہ سے يہ لوگ اللہ کو بھلا بيٹھے ہيں- 4-معاشي سرگرمي: 'وہ لوگ جنھيں تجارت اور (خريدو) فروش، ذکر خدا سے غافل نہيں کرتي-' (نور:37) اس آيت سے پتہ چلتا ہے کہ تجارتي سرگرمي اور معاشي تگ و دو انسان کو اللہ سے غافل کرسکتي ہے- ليکن ايسے لوگ بھي ہيں جو اللہ سے غفلت ميں نہيں پڑتے بلکہ دنياوي و معاشي سرگرمي کے ساتھ ساتھ اللہ کا تذکرہ کو بھي اپني زندگي کا شعار بناليے ہيں- قرآني ہدايات کے مطابق اگر ہم مذکورہ اسباب غفلت سے دوري اختيار کريں تو رمضان المبارک سے صحيح اسفادہ کرسکتے ہيں- رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ کافرمان ہے کہ 'رمضان اللہ کا مہينہ ہے اس ماہ ميں لا الہ الّا اللّہ، اللّہ اکبر، الحمد للّہ، سبحان اللّہ کا ذکر زيادہ کريں اور اللہ کي تمجيد کريں يہ مہينہ فقراء کي بہار ہے' (بحار، ج93، ص381)