مولائے کائنات (ع) کي آرزو

آج ميں امیر المومنین(ع)کے چندکلمات کاذکرکرناچاہتاہوں کہ جو انہوں نے اپنے وصیت نامہ ميں تحریرفرمائے ہيں۔ انہوں نے یہ وصیت نامہ اپنے فرزندوں اوررشتہ داروں کیلئے تحریرفرمایالیکن خودنہج البلاغہ ميں اس وصیت نامہ کے مطابق اس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہيں کہ جن تک یہ وصيت نامہ پہنچے گایعني ہم بھي اس وصیت نامہ کے مخاطبين ميں شامل ہيں۔ یہ وہي معروف وصیت نامہ ہے کہ جسمیں چندجملوں کے بعدفرماتے ہيں ’’ميں تم دونوں، اپنے خاندان والوں اورہراس شخص کوکہ جس تک میرایہ پیغام پہنچے گا،تقوي اختیارکرنے،اپنے کاموں کو منظم کرنے اورآپس ميں ایک دوسرے کي اصلاح کي وصیت کرتاہوں ۔ اس وصيت ميں تقریباًبیس مطالب ذکرہوئے ہيں اور يہ بات بہت واضح ہے کہ اگرکوئي انسان اور وہ بھي اپني زندگي کے آخري لمحات میں وصیت تحریر کرے گاتو انہي مطالب کاذکر کرے گا جو اس کي نگاہ ميں زيادہ اہم ہيں۔ امیرلمومنین (ع)نے اس وصیت کوابن ملجم (ملعون)کي تلوارسے زخمي ہونے کے بعدارشادفرمایااوربیس اہم مطالب ذکر فرمائے جیسے دنیا پرستي کي مذمت،قرآن،حج وجہاد کي عظمت اور یتیم اور پڑوسي کے حقوق وغیرہ۔ بندہ ناچيزنے ان مطالب ميں سے دوکاانتخاب کیاہے اورچاہتاہوں کہ انھيں یہاں بیان کروں۔ ایک’’نظم امرکم ‘‘ (اپنے کاموں کو منظم کرنا)اوردوسرا نکتہ ’’صلاح ذات بینکم ‘‘ ہے،آپس ميں اصلاح کرنے سے امیرالمومنین (ع)کي مراداور خصوصاً اپنے اہم وصیت نامے ميں اس کاتذکرہ کرنا صرف اس وجہ سے نہيں ہے کہ ظاہري اتحاد ہوجائے یا دو گروہ آپس ميں حلیف ورفيق بن جائيں یاان کاکسي موضوع پرمتحدہوکرآپس ميں قرارداد کاطے کرليناوغيرہ و غیرہ،نہيں! بلکہ ان امور سے امام (ع) کي مرادبہت بلندہے،اس طرح کہ ایک دوسر ے سے صاف دلي سے ملاقات کريں،ایک دوسرے کیلئے ذہنیت بالکل پاک ہوجائے،کسي کے حقوق سے تجاوزاوراذیت وآزار پہنچانے کاخیال بھي دلوں ميں نہ آئے اور افراد آپس ميں ایک دوسرے کیلئے اپنے فکر و خيال ميں بھي برا تصوّرنہ لائيں۔ اس عبارت یعني ’’ صلاح ذات بینکم‘‘ کے فرمانے کے بعدامیرالمومنین (ع)نے گواہ کے طورپرپیغمبر اکرم (ص) کا قول نقل کیا وانّي سمعتُ جدّ کما صلي اللہ علیہ وآلہ و سلم یقول’’ صلاح ذات البین افضل من عامۃ الصلاۃ والصیام‘‘کہ ميں نے تم دونوں کے جدسے سناکہ انہوں نے فرمایا کہ’’ آپس ميں دلوں کاقریب کرناہرنماز اور روزے سے افضل ہے‘‘ یعني لوگوں کو قریب کرنا اور انکے فکر وخيال کو ایک دوسرے کیلئے اچھابنانا (مستحب) نمازاور روزے سے افضل ہے يعني اگر کوئي مستحبي نماز پڑھتا اور روزہ رکھتا ہے یادلوں کو نزدیک کرنے والا کوئي بھي عمل انجام دیتا ہے تو يہ دوسرا کام پہلے کام پر فضليت رکھتا ہے ۔ یہ ہے وہ چیز کہ جسکي ہميں آج سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ نظم کیا ہے ؟ حضرت علي (ع) کي وصیت ميں انکاذکرہوناانکي اہمیت پردلالت کیلئے کافي ہے۔ انسان کیلئے نظم و ضبط کي اہمیت اس وقت اور بڑھ جائے گي کہ جب وہ اپني عملي زندگي ميں اس کے صحیح معني اور مفہوم سے استفادہ کرے۔ نظم یعني ہرچیز کااس کے صحیح مقام پر موجود ہونا۔یہ وسيع و عريض کائنات،يہ پہناورزمین اورہمارے سر پر موجود يہ نيلگوں آسمان،ان سب پرنظم وضبط کاايک قانون حاکم ہے اور اس نظم وضبط کوکائنات ميں رونماہو نے والے تمام امور اورحقائق ميں محسوس کیاجاسکتاہے۔انسان بھي اسي کائنات کاایک جز ہے اوراس ميں بھي نظم وضبط کا بخوبي مشاہدہ کیاجاسکتاہے بلکہ ہرانسان کي زندگي ایک طبیعي قانون کے تحت پروان چڑھ رہي ہے۔ خون کي گردش،دل کي دھڑکن،پھیپڑوں کي حرکت اور ان جیسے کئي اموراورحرکات کہ جو بدن انساني ميں انجام پارہي ہیں،ایک خاص نظم کے تابع ہيں اوراسي طرح اگرانسان کے تمام افعال منظم ہوں تو اس کے اردگردپھیلي ہوئي کائنات سے اسکے روابط ہم آہنگ اورمنظم ہوجائیں گے۔ انسان کا اپنے تمام افعال ميں منظم ہونا اسے اس بات کاموقع فراہم کرتاہے کہ وہ ہرچیزسے صحيح طورپراستفادہ کرے لیکن اگرانساني جسم ميں بے نظمي پیداہوجائے یا کوئي بیماري اسکانظم بگاڑدے(جبکہ بے نظمي بذات خود ایک بیماري ہے)توايساانسان کئي چیزوں سے محروم ہو جاتا ہے۔بالکل یہي حال انسان کے کاموں کاہے،زندگي شخصي ہویااجتماعي(اگرنظم نہ ہوتواسے ہميشہ محرومیت کاسامناکرنا پڑے گا)نظم اہمیت رکھتاہے،البتہ نظم وضبط کامیدان بہت وسیع ہے ۔ اس نظم ميں انسان کي شخصي زندگي سے لے کراس کے کام کرنے کي جگہ اوراس کي نجي زندگي ميں اس کے کمرہ تک کہ آیااسکاذاتي کمرہ منظم ہے یا نامنظم ، اسي طرح اس کے شخصي امور جہاں یہ کام کرتا اورتعلیم حاصل کرتا ہے،ان چیزوں کے علاوہ اس کے اجتماعي اورسماجي ماحول ومعاشرے کانظم وضبط اوراجتماعي نظام کي بنیادیں تک اس قا نون نظم ميں شامل ہيں یعني’’ خاص منظم ڈھانچہ ‘‘ کہ جو فلسفي نظریے کاتابع ہے ۔ یہ تما م امور حضرت علي (ع) کي وصیت کي اس عبارت ’’نظم امر کم‘‘ ميں موجود ہيں۔ امیر المومنین (ع)نے نظم وضبط کے ذکرسے پہلے تقويٰ کي طرف اشارہ فرمایاہے۔وصیت کے ابتدائي حصہ ميں بھي تقويٰ کاذکر موجودہے کہ’’ميں تم دونوں کو تقويٰ الہي کي وصیت کرتا ہوں کہ کبھي دنیا کہ پیچھے نہ جانا۔۔۔‘‘لیکن دو جملوں کے بعد دوبارہ فرماتے ہيں ’’ميں تم دونوں بیٹوں اور اپني تمام اولاد کو تقويٰ الٰہي اور اپنے امور کو منظم کرنے کي وصيت کرتا ہوں‘‘۔ شاید یہاں دوبارہ ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ نظم وضبط جو انسان کي شخصي و نجي یا اجتماعي زندگي ميں مطلوب ہے، اسے تقويٰ الٰہي کے زير سايہ قرار دینا چاہئے اور ہمیشہ اسے تقويٰ کے ساتھ ہم آہنگ اورقدم باقدم ہوناچاہئے ۔بس يہ ایک ایسي وصیت ہے کہ جسمیں ہماري زندگي کے تمام مراحل شامل ہيں، شخصي زندگي ہو یااہل خانہ کے ساتھ ميل ملاپ علم کا میدان ہو یا کسب معاش کي دنيا، اسي طرح وہ تمام امور جوہم معاشرے ميں انجام دے رہے ہيں،نظم وضبط اورصحیح منصوبہ بندي کاخیال کرتے ہوئے ہمیں تمام میدانوں ميں قدم رکھناچاہیے خصوصاًاجتماعي اورمعاشرتي خدمت انجام دینے والا انسان چاہے کسي بھي عہدے پر ہو،اسے معاشرے ميں اجتماعي نظم وضبط کاخیال رکھناچاہیے ۔ نظم کے فوائد قوانین کي رعایت،بھائي چارگي،مرُوّت،ثروت اندوزي سے اجتناب،دوسروں کے حقوق پرڈاکہ نہ ڈالنااورانکااحترام ،وقت کي اہمیت کاخیال رکھنا،چاہےاپناہویادوسروں کا،ٹریفک کے قوانین کي پابندي،مالي،تجارتي اوران جیسے دوسرے مسائل ميں قوانین کي پیروي ،سب کے سب نظم وضبط ميں شامل ہيں اور اسي طرح منظم ہونے کے مصادیق ميں سے ایک اہم مصداق،معاشرے ميں انجام پانے والے ہمارے کام ،افکار،عقائداور نعروں ميں ہم آہنگي کاتعلق نظم و ضبط سے ہي ہے۔ سب سے خطرناک بے نظمي یہ ہے کہ کسي معاشرہ کي فکري اوراعتقادي بنیادیں اوروہ چیزیں کہ جن پر ايک معاشرہ ایمان اورعقیدہ رکھتاہے،کچھ اور ہوں جبکہ معاشرے ميں انجام دئیے جانے والے کاموں کا ان افکار،عقائد اور ایمان سے کوئي تعلق نہ ہو، یہ ایک طرح کے دوغلے پن اورنفاق کووجود ميں لانے کاباعث بنتا ہے جو بذات خود بہت خطرناک بات ہے۔ اسلام کا نعرہ لگانا اور باربار اس کي تکرار کرنا جبکہ عمل ميں اسلامي قوانین کا خیال نہ رکھنا ،انساني حقوق کو اپنے منشورکابنیادي اوراساسي رکن قراردیناجبکہ عمل ميں حقوق بشرکي دھجياں اڑانا(خصوصاً انساني حقوق کے دفاع کے نام پرانکي پائمالي آج کے دورميں ايک بین الاقوامي بلابن چکي ہے)،آزادي کے نعرے لگاناجبکہ عملاً دوسروں کي آزادي کوملحوظ خاطر نہ رکھنا،قانون اورقانون کے مطيع و فرمانبردار ہونے جیسے مقدس ناموں سے اپني شان بڑھانا اورعملاً خودکو قانون سے مافوق شمارکرنا،یہ سب بڑي برائی انہيں اور واضح و آشکار مصداق ہيں بے نظمي کے۔ وہ عہدیدارحضرات کہ جو اصول و قوانین وضع کرنایا ان کانفاذ چاہتے ہيں انھیں چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ ان قوانين کے پابند ہوں اورعوام کو بھي ان قوانین اوراجتماعي نظم و ضبط کا خیال رکھنا چاہیے۔ منبع:jafariapress.com