شہادت حضرت علی علیہ السلام

انیس رمضان کی صبح قیامت کی گھڑی

 ماہ رمضان المبارک کو نماز فجر میں سجدہ معبود میں امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی پیشانی جس وقت خون میں غلطاں ہوئی اور پیغمبر اسلام (ص)کے وضی و جانشین ، یتیموں اور بےکسوں کے حامی کا سر مبارک شمشیر ظلم سےشگافتہ ہوا تو مشکلکشا ، شیر خدا ، شاہ لافتی کے شاگرد جبرائیل امین نے تڑپ کر آواز دی "  ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ" خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے،

سن40 ھ ق حضرت علی علیہ السلام مسجد کوفہ میں عبد االرحمن بن ملجم کےقاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوۓ ۔

حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب اپنی بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے  .

روایت میں آیا ہے کہ آپ اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آ کر آسمان کی طرف دیکھ  کر فرماتے تھے :خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے ۔ حضرت علی (ع)  نماز صبح کیلۓ مسجد کوفہ کی طرف روانہ ہوئے مسجد میں داخل ہوئے اور سوۓ ہوے افراد کو نماز کیلۓ بیدار کیا، عبد الرحمن بن ملجم مرادی کوبھی بیدار کیا جو پیٹ کے بل سویا ہوا تھا اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔

جب حضرت محراب میں پہنچے اور نماز فجر کا آغاز کیا تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے زہر آلودہ تلوار سے آپ کے سر پر وار کیا اور آنحضرت کا سر زخمی ہوگیا .

حضرت علی علیہ السلام محراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا : بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ ؛ خدای کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا ۔

بعض نمازگذار ا بن ملجم کو پکڑنے کیلئےباہر کی طرف دوڑ پڑے اور بعض حضرت علی (ع) کی طرف بڑھے اور کچھ سر و صورت پیٹنے اور ماتم کرنے لگے ۔

حضرت علی (ع) کے سر مبارک سے خون جاری تھا آپ نے فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ ؛یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول (ص)نے میرے ساتھ کیا تھا ۔

حضرت علی (ع) نے اپنےفرزند امام حسن مجتبی (ع) سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی ۔اس کے بعد حضرت کو مسجد سے گھر لایا گیا اصحاب آپ کے ہمراہ تھے آپ نے گھر پہنچنے کے بعد امام حسن مجتبی سے فرمایا: اصحاب سے کہہ دیجئے چلے جائيں کیوں کہ مجھ سے زینب و ام کلثوم ملنے کے لئے آرہی ہیں۔ 20 رمضان کو حضرت علی(ع) نے بڑے درد و غم میں بسر کیا طبیب نے کہا زہر کا اثر پورے بدن میں پہنچ گیا ہے اب علاج ممکن نہیں ہے اور کائنات کے امیر21 رمضان کواپنے معبود حقیقی سے جا ملے ۔

روایت میں وارد ہوا ہے کہ جب عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت علی (ع) کےسرمبارک پر شمشیر ماری تو زمین لرز گئی ، مسجد کوفہ کے دروازے لرز گئے غیب سےہاتف نے پکارا " قد قتل وصی مصطفی (ص) " محمد مصطفی کے جانشین کو قتل کردیا گیا ہے جبرئيل امین  نے آواز دی: تھدمت و اللہ اركان الھدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء؛ خدا کی قسم ارکان ھدایت منہدم ہوگئے علم نبوت کے درخشاں ستارے کو خاموش کیا گيا اور تقوی و پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا(ص) کے ابن عم کو شھید کیا گيا۔ سید الاوصیاء ، علی مرتضی کو شھید کیا گيا، انہیں شقی ترین شقی ابن ملجم  نے شھید کیا۔اس طرح خدا کے ولی اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے (ص) کے جانشین، کو روی زمین پر سب سے شقی انسان نے قتل کرڈالا، اور امام حسن(ع) و امام حسین(ع) اور حضرت زینب (س)و حضرت ام کلثوم (س)کے سر سے ان کے باپ کا سایہ ختم کردیا اور سیدا شباب اہل الجنۃ کو یتیم بنادیا۔

http://ahlulbaytportal.ir/