توحید مفضل ج۲

توحید مفضل ج۲

توحید مفضل ج۲

Publication year :

2010

Number of volumes :

2

Publish location :

پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

توحید مفضل ج۲

توحید مفضل  ،حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ان ارشادات  کا مجموعہ ہے جو آپ نے اپنے  ایک انتہائی لائق اور معتمد شاگرد جناب مفضل بن عمر کے سامنے بیان فرمائے ۔ یہ مجموعہ عربی زبان میں ہے اور ہمارے  باعث فخر اورحیران کن حقیقت ہے کہ توحید مفضل  نامی یہ جلیل القدر کتاب امام جعفر صادق علیہ السلام  نے اس دور میں  مفضل ابن عمر کو لکھوائی جب سائنسی انداز سے سوچنے  کا رواج تک نہیں تھا ۔لیکن یہ کتاب امام علیہ السلام نے ان موضوعات پر گفتگو فرمائی ہے جو آپ سے کم و بیش ہزار سال بعد سائنسی  علوم کی بنیاد ثابت ہوئے ۔ گویا سائنس کی دُنیا میں بھی سبقت و فوقیت اولیائے خدا ہی  کو حاصل تھی اور ہے ۔ پہلی جلد میں انسانی  وجود اور جسم کے اندر موجود سائنسی انکشافات کا بیان کیا گیا ہے اور انسانی وجود کی ساخت سے اللہ کی خالقیت کا بیان کیا ہے ۔دوسری جلد میں امام صادق علیہ السلام  کے حیوانات کے وجود میں موجود اللہ کی وجود  کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں ۔  امام صادق علیہ السلام  نے یہ بھی بتایا ہے کہ پرندوں کے جسم  میں ہڈیاں کیسی ہوتیں ہیں؟ کچھ پرندوں کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟  کچھ کی چونچ مڑی ہوئی کیوں ہوتی ہے ۔چمکادڑ کیسے دیکھتی ہے؟ نظر کمزور ہونے کے باوجود اپنی غذا کیسے حاصل کرتی ہے؟  حیوانات کا غذا حاصل کرنا –اس کو قابل ہضم بنانا، فاضل موادوں کو خارج کرنا و غیرہ۔

توحید مفضَّل، امام صادق علیہ السلام کی ایک طویل حدیث پر مشتمل کتاب ہے جسے آپ نے چار حصوں میں مفضل بن عمر جعفی کو تعلیم دیا۔ اس حدیث میں حکمت، خدا کی معرفت اور خلقت کے اسرار و رموز بیان ہوئے ہیں۔

مشہور ہے کہ یہ کتاب امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک بزرگ اور جانی پہچانی شخصیت مفضل بن عمر جعفی کو املا کروائی۔ اس میں کسی قسم کا اختلاف موجود نہیں کہ یہ کتاب امام جعفر صادق کی لکھی ہوئی نہیں ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ اسے امام نے اپنے صحابی کو املا کروایا یا اس صحابی کی اپنی تالیف ہے اور اسے امام جعفر صادقؑ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اکثر شیعہ علما مفضَّل بن عمر جُعْفی کو امام صادق (ع) اور امام کاظم(ع) کے خاص اصحاب میں سے شمار کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ علماء نے اس کی تضعیف کرنے والے علما کے نظریے کو رد کرتے ہوئے اس کی تائید اور توثیق پر دلیل قائم کی ہے۔ اور کہا ہے کہ یہ کتاب امام جعفر صادق علیہ السلام نے انہیں املا کروائی ہے۔ بعض علماء نے نیز تصریح کی ہے کہ اِہلیلَجہ، معرفت خدا میں امام صادق(ع) سے منسوب ایک اور کتاب ہے جسے امامؑ نے خود اپنے دست مبارک سے لکھا اور اسے مفضل کے سپرد کیا لیکن توحید مفضّل امام نے انہیں املا کروائی ہے۔ البتہ نجاشی، نے اس کتاب کو مفضل کی طرف نسبت دی ہے اور اس کے قابل اعتبار نہ ہونے کا اشارہ کیا ہے نیز کہا کہ بعض اسے خطّابی غالی شمار کرتے ہیں۔ اگر مان لیا جائے کہ یہ کتاب امام صادق علیہ السلام کی املا شدہ حدیث پر مشتمل ہے تو بھی اس سوال کی گنجائش موجود ہے کہ اس وقت موجود اس کتاب کا متن وہی متن مفضل ہے یا نہیں؟

توحید مفضّل کا نام سید بن طاووس کی کتب کی فہرست میں آیا ہے۔ اس سے متعلق توضیحات کی بنا پر ہمارے ہاتھوں میں موجود وہی کتاب موجود ہے نیز مذکور ہے کہ ابھی تک کسی عالم دین کی طرف سے اس میں کسی قسم کے تغیر و تبدل یا تحریف بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ابھی تک کسی نے اس بات کا دعوی ہی کیا ہے کہ موجودہ توحید مفضل وہی امام صادقؑ سے روایت شدہ ہی ہے اور اس کتاب کے نقل اور ترجمے میں ان علما کی سیرت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس میں کسی قسم کی تحریف یا تغیر و تبدل کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔

مفضل بن عمر جعفی نے اس کی تالیف کے سبب کو یوں بیان کیا ہے: ایک دن میں عصر کے وقت مدینہ کی مسجد میں حضرت رسول خدا(ص) کی قبر اطہر کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور میں آںحضرتﷺ کے مقام و منزلت کے بارے میں غور و فکر میں مشغول تھا کہ اچانک ابن ابو العوجاء اور اس کے ساتھی وہاں آئے اور انہوں نے باہمی بات چیت شروع کی۔

انہوں نے رسول گرامی کی ذات اقدس کو ایک ایسے زیرک فلسفی کے نام سے یاد کیا کہ جس نے اپنا نام دنیا میں باقی رکھا اور کہا کہ اس کائنات کا کوئی خدا اور خالق نہیں بلکہ تمام چیزیں خود بخود وجود میں آئیں اور ازل سے ہیں اور اسی طرح باقی رہیں گے۔ میں یہ سن کر اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا، میں نے انہیں کہا: اے دشمنان خدا! کیا کافر ہو گئے ہو؟! انہوں نے جواب دیا: اگر تم امام جعفر صادقؑ کے اصحاب میں سے ہو تو وہ ایسے گفتگو نہیں کرتا ہے۔ میں ان کے پاس سے اٹھ کر امام صادق(ع) کے پاس چلا گیا اور میں نے ان سے واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: کل صبح کاغذ اور قلم کے ساتھ آنا تا کہ میں تمہارے لئے اس کائنات کی خلقت کے متعلق خدا کے اسرار بیان کروں، اگلے روز میں امام کی خدمت میں گیا۔ امام نے چار نشستوں میں میرے سامنے یہ حدیث بیان کی اور میں نے اسے تحریر کیا۔

امام صادق (ع) نے کتاب کو چار دنوں میں صبح سے ظہر تک مفضل کو املا کروایا۔ آپ نے اس کتاب میں نہایت شگفتہ بیان کے ساتھ اس کائنات کی خلقت اور خدا کے خالق اور حکیم ہونے کو ثابت کیا۔ شیعہ کی ابحاث اعتقادی میں توحید مفضل ارزشمند اور معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے۔ توحید مفضل کی علمائے تشیع کے نزدیک خاص اہمیت کے پیش نظر سید بن طاوؤس، نے اس کتاب کو سفر میں اپنے ہمراہ رکھنے اور اس میں غور و خوض کی تاکید اور توصیہ کیا ہے۔

امام صادق (ع) ابتدا میں جہان ہستی کے طریقۂ خلقت سے عدم واقفیت اور اسباب سے لا علمی کو وجود خدا کے انکار یا شک کا سبب قرار دیتے ہیں۔ پھر تخلیق جہان، انسان اور اس کے اعضائے بدن کی خلقت کو حواس پنجگانہ اور انسانی نظام ہضم کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور اس کے ذریعے خلق کرنے والے کی قدرت، حکمت اور علم پر استدلال کرتے ہیں۔

امام(ع) دوسری نشست میں گھوڑے، ہاتھی، زرافہ، بندر، کتے، مرغ، چمگادڑ، بھڑ، شہد کی مکھی، ٹڈی، چیونٹی اور مچھلی جیسے حیوانات کی دنیا کی تخلیق میں موجود حیرت انگیز پہلؤوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

تیسری نشست میں زمین و آسمان کے تعجب آور پہلو بیان کرتے ہیں جیسے آسمان کا رنگ، خورشید کا طلوع و غروب، سال کے موسم، آسمان میں سورج، چاند اور ستاروں کی تیز حرکت، سردی اور گرمی کی پیدائش، آواز کی ایجاد کی کیفیت۔

چوتھی نشست موت و حیات کی حقیقت، خلقت انسان کی علت، اس جہان کی پہچان و معرفت کے طریقوں کا بیان اور جہان کے حقائق، حس و عقل کے درمیان فرق کے ساتھ مخصوص ہے۔

آقا بزرگ طہرانی نے الذریعہ میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ توحید مفضل کا ملکوت اعلا کے احوال پر مشتمل حصہ سید ابن طاؤس کے زمانے میں مشہور نہیں تھا۔ بزرگ تہرانی کے معاصرین میں سے سید مرزا ابو القاسم ذہبی نے اسے پایا اور توحید مفضل کو اس غیر مشہور حصے سمیت اپنی کتاب تباشیر الحکمت میں ذکر کیا ہے۔