گريہ اور ميڈيکل سائنس

اللہ تعاليٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنايا۔ کچھ تو ہوگا ايسا جس کي وجہ سے انسان تمام مخلوقات پر بازي لے گيا۔ جب پوچھا جائے کہ انسان حيوانات سے افضل کيوں ہے؟ جواب آتا ہے کہ ’’عقل‘‘ کي بنياد پر اور جب پوچھا جائے کہ جمادات سے کيونکر افضل ہوا ۔۔ تو اس کا جواب ہے ’’جذبات‘‘ کي بنياد پر۔ يعني عقل اور جذبات دو ايسے فضائل ہيں کہ جو انسان کو تمام مخلوقات سے افضل بنا ديتے ہيں۔ حالانکہ ديکھا جائے تو دونوں صفات ايک دوسرے کي ضد ہيں۔ ايک کا تعلق ذہن سے ہے تو دوسرے کا تعلق دل سے ہے۔ اکثر آپ نے کہتے سنا ہوگا ’’عقل سے کام لو، جذباتي نہ بنو‘‘ يا ’’ہوش کے ناخن لو، حساس نہ بنو‘‘۔ ليکن مومن تو ہے ہي وہي جو ’’اضداد کا مجموعہ‘‘ ہو۔ يہاں ايک گراف بنانا ہے کہتے ہيں کہ صرف عقل ہي خدا سے قريب نہيں کرتي بلکہ کبھي کبھي عقل کا دامن چھوڑ کر جذبات کو اپنانا ضروري ہوجاتا ہے۔ يعني خدا اس کے پاس ہے جو عقل اور جذبات کا مرکب ہے۔ لازم ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل ليکن کبھي کبھي اسے تنہا بھي چھوڑ دے۔۔۔! صرف عقل انسان کو خود غرض بنا سکتي ہے جبکہ جذبات سے انسان لوگوں کے قريب ہو جاتا ہے۔ عقل صرف فائدہ ديکھتي ہے جبکہ جذبات نقصان کا سودا بھي کر گذرتے ہيں۔ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود ميں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھي جذبات جذبات کي تعريف: ’’انسان کي اس ذہني اور نفسياتي کيفيت کا نام ہے جس ميں انسان ايک مخصوص احساس، سوچ اور رويہ رکھتا ہو۔‘‘ جذبات کي اہميت: امريکن بايولوجسٹ Robert Triver کے مطابق ’’جذبات کا تعلق کسي نہ کسي خواہش کي تکميل سے مربوط ہے۔‘‘ مثاليں: ہمدردي ايک ايسا جذبہ ہے جو آپ کو مجبور کرتا ہے کہ سڑک پر پڑے ہوئے شخص کو اٹھا کر ہسپتال لے جائيں۔ يہ ہمدردي ہي ہے جو حادثے کي تلافي کا سبب بنتي ہے ورنہ نقصان تخمينے سے کئي گنا زيادہ ہو سکتا ہے۔ حادثے سے بڑا حادثہ يہ ہوا لوگ رُکے نہيں حادثہ ديکھ کر يہ ہمدردي کا جذبہ ڈاکٹر کو مجبور کرتا ہے کہ مريض کي نبض پر ہاتھ رکھے نہ کہ جيب پر۔ ورنہ ڈاکٹر حضرات بيماري کي علامات سے پہلے بينک اکاونٹ کي تفصيل پوچھ رہے ہوتے۔ ٢۔ احسان مندي: يہ جذبہ مجبور کرتا ہے اس شخص کو جس پر احسان کيا گيا ہے کہ وہ اپنے محسن کو پہچانے اور اس کا شکريہ ادا کرے، اس کو اچھے الفاظ سے ياد رکھے اور وقت پڑنے پر اس کا احسان اتارنے کي کوشش کرے۔ يہ احسان مندي کا جذبہ ہي تو ہے جو ايک انسان کو اپنے رب کي نعمتوں کے اعتراف پر مجبور کرتا ہے اور وہ سجدے ميں جاکر اپنے رب کا شکريہ ادا کرتا ہے۔ ٣۔ غصہ: يہ ايک بڑا مفيد جذبہ ہے۔ رات کو تين بجے کوئي شخص آپ کے گھر ميں کود پڑے، آپ اس سے مزاج پرسي تو کرنے سے رہے۔ غصہ کا جذبہ آپ کو مجبور کرے گا کہ آپ اپنے دفاع کے لئے کچھ کريں اور اس کو مار بھگائيں ۔ يہ غصہ کا جذبہ ہي تو ہے جسکے سبب آپ دشمنِ اسلام پر تلوار ہاتھ ميں لے کر ٹوٹ پڑتے ہيں۔ غصہ نہ ہو تو جہاد بھي ناممکن ہوجائے ۔ ٤۔ ندامت: يہ جذبہ مجبور کرتا ہے ايک مجرم کو اپنے کئے پر پچھتانے کے لئے کہ جس طرح ميري عزت و ناموس ، دولت محترم ہے اسي طرح دوسروں کي بھي ہے، تو کيونکر ميں کسي دوسرے کے گھر ميں نقب لگاوں۔ يہ ندامت کا جذبہ ہي تو ہے جو انسان کو اپنے گناہوں کے اعتراف پر مجبور کرتا ہے اور اللہ کے حضور گڑ گڑانے اور استغفار کے لئے دعا کي طرف لے چلتا ہے۔ گريہ و زاري اب آئيے اس طرف کہ جذبات اور گريہ و زاري يعني رونے کا آپس ميں کيا تعلق ہے۔ ہمارے خيال ميں يہ چولي دامن کا ساتھ ہے۔ کيا کسي شخص کے بارے ميں يہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہايت جذباتي ہے بالکل نہيں روتا ہے يا يہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ شخص چھوٹي چھوٹي باتوں پر رو پڑتا ہے نہايت غير جذباتي اور بے حس ہے ؟ بالکل نہيں! يعني گريہ کرنا يا رونا جذبات کي معراج ہے۔ جذبات جب عروج پر پہنچ جائيں تو گريہ کا روپ دھار ليتے ہيں۔ گريہ، جذبات کے لئے بالکل ايسا ہي ہے جيسے انگوٹھي کے لئے نگينہ، آسمان کے لئے چاند، سمندر کے لئے موتي، پہاڑ کے لئے چوٹي، انسان کے لئے روٹي، کہ اس کے بغير گزارا نہيں ۔ ٭ گريہ کرنے¬ رونے کي تعريف: ’’انسان کي وہ حالت جب جذبات سے مغلوب ہوکر اس کي آنکھوں سے آنسو نکل آئيں۔‘‘ گريہ اور بن بادل برسات: کچھ لوگ رونے کو بارش سے تشبيہ ديتے ہيں اور خوب ديتے ہيں کہ اس سے دلچسپ نتائج اخذ کئے جاسکتے ہيں۔! ١۔ بادل کي برسات موسم کي محتاج ہے جب کہ دل کي برسات کا کوئي موسم نہيں بلکہ يہ تو اندر کے موسم پر منحصر ہے۔ دل کي اداسي اور نرمي پر دلالت کرتي ہے۔ دل تو اپنا اداس ہے ناصر شہر کيوں سائيں سائيں کرتا ہے ٢۔ بادل کي برسات گرمي ماحول کي وجہ سے ہوتي ہے کہ ضروري ہے بخارات بنيں اور بادل ہوں اور پھر برسيں۔ جبکہ من کي برسات گرمي جذبات و ايمان پر منحصر ہے۔ ٣۔ بادل کي برسات سے پہلے طوفاني ہوائيں چلتي ہيں کہ کچھ دکھائي نہيں ديتا، من کي برسات سے پہلے ذہن ميں آندھياں چلتي ہيں کہ کچھ سُجھائي نہيں ديتا۔ ٤۔ بادل کي برسات سے پہلے کالي گھٹائيں آتي ہيں، من کي برسات سے پہلے دل ميں صدائيں بلند ہوتي ہيں ۔ ٥۔ بادل کي برسات کي آلودگي، فضاکي کثافت اور ديواروں پر لکھے نعروں کو دھو ڈالتي ہے جبکہ من کي برسات دل کے غبار، گناہوں کي غلاظت اور نوشتہ ديوار کو صاف اور واضح کر ديتي ہے اور انسان پھر سے ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ ٦۔ بادل کي برسات ہر جگہ ہريالي اور سبزہ اُگا ديتي ہے، زمين يکسر تبديل ہوجاتي ہے، فصل لہلہانے لگتي ہے، جبکہ من کي برسات عزم و استقلال، تجديدِ عہد، تجديدِ ايمان کا سبب بنتي ہے اور انسان کي شخصيت کو يکسر تبديل کر ديتي ہے۔ مردہ دل ميں بہار آجاتي ہے اور نئي امنگيں انگڑائياں لينے لگتي ہيں۔ ٧۔ اگر کوئي زمين بادل کي برسات سے نہ بدل سکے تو اس کو ’’بنجر‘‘ زمين کہتے ہيں۔ اس طرح گريہ و زاري کسي انسان کو نہ بدل سکے تو ايسے انسان کو ’’شقي‘‘ کہتے ہيں۔ تو جناب رونے کي اتني افاديت ہے کہ کچھ لوگ تو خوشي کے موقعوں پر بھي رونے کو ترجيح ديتے ہيں کہ حيات اتني گنجلک ہوچکي ہے کہ شايد ہنسنے کے مواقع مفقود ہوچکے ہيں ۔ پيشانيِ حيات پہ کچھ ايسے بل پڑے ہنسنے کا دل جو چاہا تو آنسو نکل پڑے آنسووں کي اقسام ميڈيکل سائنس کے مطابق آنسووں کي تين اقسام ہيں: بنيادي آنسو Basal Tears: يہ وہ آنسو ہيں جو ہر وقت آنکھ کي اگلي پرت پر ايک تہہ کي صورت ميں موجود رہتے ہيں۔ سالانہ ان کي مقدار آدھا ليٹر ہے۔ اس کي ترکيب ميں مندرجہ ذيل اجزائ شامل ہيں۔ پاني، نمک، Lysozyme، Anbtibodies، Urea۔ اس کا فائدہ يہ ہے کہ ايک تو يہ گرد و غبار سے بچاتے ہيں دوسرا يہ کہ آنکھ کي اگلي پرت کو سوکھنے نہيں ديتے جس سے زخم ہونے کا خدشہ نہيں ہوتا۔ ان آنسووں ميں موجود Antibodies آنکھ کو انفيکشن سے بچاتے ہيں۔ انسان کے جسم ميں آنکھ غالباً واحد عنصر ہے جہاں Antibodies ہمہ وقت موجود رہتي ہيں ورنہ Antibodies عموماً خون ميں ہوتي ہيں۔ آنکھ کي حفاظت واقعي ضروري ہے اور کيونکر نہ ہو کہ مولا علي کے مطابق ’’تمہارے حواس ميں سب سے اہم آنکھ ہے‘‘۔ دفاعي آنسو Reflex Tears: يہ آنسو اس وقت پيدا ہوتے ہيں جب کوئي ضرر رساں چيز آنکھ ميں داخل ہونے کي کوشش کرتي ہے۔ مثلاً آنسو گيس، زيادہ روشني، پياز کے کيميکلز وغيرہ ۔ جذباتي آنسووں Emotional Tears: يہ آنسو انسان کي نفسياتي يا جسماني تکليف کے وقت نکلتے ہيں۔ بلکہ جديد تحقيق کے مطابق آنسو غم اور خوشي دونوں حالات ميں نکل سکتے ہيں۔ ہاں قدرِ مشترک يہ ہے کہ جب آدمي جذبات (خوشي يا غم) کے ہاتھوں بے اختيار و بے يارو مددگار ہوجائے۔ کہتے ہيں کہ اگر آپ کوقم جانا ہو تو معصومہ قم کي اجازت ليني چاہيے اس طرح مشہد جانے کے لئے امام علي رضا سے اجازت لينا ضروري ہے۔ اگر اجازت ليتے وقت دعا کے دوران آنکھوں ميں بے اختيار آنسو آجائيں تو سمجھ ليں کہ اجازت ملي گئي! جذباتي آنسووں کي ترکيب وہي ہے جو بنيادي آنسووں کي ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ اضافي مادے اس ميں پائے جاتے ہيں جو درد اور دباو (Stress) کي صورت ميں خون ميں زيادہ ہوجاتے ہيں مثلاً ACTH، Prolaction، Enkephalin وغيرہ۔ گريہ کے طبي فوائد عمومي فوائد: ياد رہے يہ فوائد جذباتي آنسووں سے مشروط ہيں! ١۔ Stress ميں کمي: جذباتي آنسووں ميں کچھ مادے پائے جاتے ہيں کہ جس سے انسان ميں ذہني دباو ميں کمي آتي ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام بيمارياں جو دباو کي وجہ سے پيدا ہوتي ہيں، ان ميں بھي نماياں کمي ديکھي جاتي ہے چنانچہ گريہ مندرجہ ذيل بيماريوں سے بچاتا ہے: ہائي بلڈ پريشر، ہارٹ اٹيک (انجائنا)، پيپٹک السر، نروس بريک ڈاون، ميگرين، شوگر، ڈپريشن وغيرہ۔ ٢۔ درد کے احساس ميں کمي: Enkephalin نامي مادہ گريہ کے دوران جسم ميں بڑھ جاتا ہے۔ اس کو جسم کي پيراسيٹامول کہہ سکتے ہيں۔ يہ انسان ميں درد کي کمي کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ چوٹ يا بيماري کي تکليف کے دوران رونا گويا خو دايک طرح کا قدرتي علاج ہے۔ ٣۔ انفيکشن ميں کمي : آنسووں ميں موجود Antibodies اور Lysozyme انسان کي آنکھ کو انفيکشن اور ديگر متعدد بيماريوں سے بچاتے ہيں۔ خصوصي فوائد ١۔ بچوں کے لئے: بچوں ميں Stress برداشت کرنے کي صلاحيت کم ہوتي ہے، اس لئے وہ فوراً رو پڑتے ہيں۔ ہم بچوں کو فوراً يا زبردستي چپ کرانے کي کوشش ميں ان کي رونے کي صلاحيت ہي کو ختم نہيں کرتے بلکہ رونے کي صورت ميں پيدا ہونے والے مفيد مادوں کي پيداوار بھي روک ديتے ہيں۔ (اس کا مطلب يہ نہيں کہ رونے کے سبب کو دور نہ کيا جائے )۔ بالکل رونے نہ دينا دباو کو باہر نکلنے نہ دينے کے مترادف ہے۔ حقيقت تو يہ ہے کہ بچہ آتا ہي اس دنيا ميں روتے ہوئے ہے۔ اگر نہ روئے تو تھپکي مار کر رلايا جاتا ہے۔ اگر بچہ پيدائش کے فوراً بعد ايک منٹ تک نہ روئے تو اس کو BIRTH ASPHYXIA کي بيماري ہوجاتي ہے جس سے بچہ آگے چل کر Mentaly Retarted ہوسکتا ہے۔ مختصراً يہ کہ بچہ رونا سيکھ کر آتا ہے اور ہنسنا اور مسکرانا دنيا ميں آکر سيکھتا ہے۔ بچہ چھ ہفتے ميں Smile کرنا شروع کرتا ہے۔ چنانچہ رونا جبلي صلاحيت ہے جبکہ مسکرانا کسبي صلاحيت ہے۔ لہذا رونے والوں سے نہيں پوچھنا چاہئے کہ ’’روتے کيوں ؟‘‘ بلکہ نہ رونے والوں سے دريافت کرنا چاہيے کہ ’’تم روتے کيوں نہيں‘‘؟ ٢۔ نوجوانوں کے لئے: چہرے کے وہ مقامات جہاں آنسو پہنچتے ہيں، وہ جگہ تر و تازہ رہتي ہے اسي لئے ڈاکٹر حضرات مشورہ ديتے ہيں کہ رونے کي صورت ميں آنسووں کو پورے چہرے پر مل لينا چاہيے تاکہ پورے چہرے کي جلد تر و تازہ رہے (يہ ہے قدرتي فيشل)۔ ويسے بھي روايتوں ميں آيا ہے کہ چہرے پر آنسووں کے گرنے کي صورت ميں چہرہ دوزخ کي آگ سے محفوظ رہے گا اور جب چہرہ محفوظ رہے گا تو يقينا باقي بدن بھي محفوظ رہے گا ۔ ٣۔ عورتوں کے لئے : اعداد و شمار کے مطابق عورتيں مہينے ميں چار سے پانچ مرتبہ اور مرد ايک مرتبہ روتے ہيں۔ تحقيقات کے مطابق زيادہ رونے سے Stress ميں کمي اور عمر ميں اضافہ ہوتاہے۔ ٤۔ بوڑھوں کے لئے: عمر کے ساتھ ساتھ انسان کے بنيادي آنسووں ميں، جو کہ سالانہ آدھا ليٹر کے حساب سے نکلتے ہيں، نماياں کمي ہوجاتي ہے۔ اس لئے ضروري ہے کہ بوڑھے زيادہ روئيں تاکہ اس کمي کو دور کيا جاسکے۔ جس سے آنکھوں کي وہ بيمارياں دور ہوسکتي ہیں جو بڑھاپے کي وجہ سے ہوتي ہيں۔ المختصر يہ کہ گريہ کرنا يا رونا نہ صرف جسماني صحت کے لئے ضروري ہے بلکہ ذہني و نفسياتي حوالے سے انسان کي زندگي کا ايک جز ہے۔ رونا نہ صرف جسماني بيماريوں کو دور کرتا ہے بلکہ روحاني، نجاستوں کو بھي دھو ڈالتا ہے۔ رونے سے اور عشق ميںبے باک ہوگئے دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہوگئے شرعي پہلو ١۔ حضرت آدمٴ ہابيل کے قتل پر روئے۔ (طبري) ٢۔ حضرت يعقوبٴ جناب يوسفٴ کي جدائي پر روئے۔ ’’اورکہنے لگے ہائے افسوس يوسف پر! اور اس قدر روئے کہ آنکھيں ان کي صدمے سے سفيد ہوگئيں۔ وہ تو بڑے رنج کے ضابط تھے۔‘‘ (سورہ يوسف ٨٤) قرآن کي يہ آيت بتا رہي ہے کہ کس طرح ايک پيغمبر اپني اولاد کے فراق ميں اتنا روئے کہ بينائي جاتي رہي۔ ٣۔ رسول اللہ ۰ اپنے فرزند ابراہيم کي وفات پر روئے۔ (بخاري) ٤۔ رسول اللہ ۰ نے جنگ احد ميں لوگوں کو اپنے عزيز و اقارب پر روتا ہوا ديکھا تو کہا کہ کيا کوئي حمزہ پہ رونے والا نہيں۔ اس کے بعد لوگوں کے ساتھ خود بھي روئے۔ (سيرت حلبيہ) ٥۔ رسول اللہ ۰ کو جب کربلا کي خون آلود مٹي دکھائي گئي تو آپ کربلا کو ياد کر کے روئے۔ ٦۔ امام زين العابدينٴ کربلا کے مصائب پر عمر بھر روئے۔ ايک اشتباہ: سوال: شہيد مرتے نہيں بلکہ زندہ رہتے ہيں، زندوں پر گريہ کيونکر۔۔۔؟ جواب: ١۔ شہيد کي نمازِ جنازہ ہوتي ہے، ان کو دفنايا جاتا ہے او ان کي ميراث بھي تقسيم ہوتي ہے۔ کيوں۔۔۔۔؟! ٢۔ شہدائے کربلا پر اس ظلم کي وجہ سے روتے ہيں جو ان کي شہادت سے پہلے ان پر کيا گيا۔ ٣۔ افسوس تويہ ہے کہ ظلم و ستم غيروں نے نہيں خود اپنے لوگوں نے کلمہ اورنماز پڑھنے والے مسلمانوں نے کيا۔ جس پر جتنا ماتم کيا جائے کم ہے۔ ايک توجہ: جس طرح لوگوں نے رسول اللہ ۰ کي وفات کے صرف پچاس سال بعد آپ۰ کے نواسے اور ان کے رشتہ داروں کو بھلا ديا، اب اس کو ہر سال محرم ميں زندہ کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کو بھولا ہوا سبق ياد آجائے اور آئندہ حق و باطل کي تميز کرنے ميں دھوکہ نہ کھائیں اور اہلبيتِ رسول۰ اور ان کے دشمن ميں فرق رکھيں۔ يہ کيا مذاق ہے کہ مقتول کے نام پر بھي رضي اللہ تعاليٰ عنہ اور قاتل کے نام پر بھي !! ٭ رونا اس لئے بھي چاہئے کہ لوگ اتنا بڑا حادثہ سن کر بھي آبديدہ نہيں ہوتے۔ کربلاسے بڑي کربلا يہ ہوئي لوگ روئے نہيں کربلا سن کر ويسے سب کو ايک نہ ايک دن رونا ہے جو دنيا ميں رولے وہ قيامت کي گريہ و زاري سے بچ جائے گا۔ جس دن آنسو ختم ہو جائيں گے اور لوگ خون کے آنسو روئيں گے۔ کسي کي موت پر رونا، اس کے ساتھ ہمدردي اور تعلقِ خاطر پر دلالت کرتا ہے۔ اسي لئے مرنے والے کے عزيز و اقارب اور دوست احباب روتے ہيں۔ اگر اب بھي اس بات پر اصرار رہے کہ نہ رونا محبت نہ ہونے کي دليل نہيں تو ان کے لئے يہي کہا جائے گا کہ جنت ميں جانے کا خواہش مند کس طرح جنت کے سردار کے مصائب سے لاتعلق رہ سکتا ہے۔ جنت ميں جانے کے لئے تو آنسووں کا دريا بہا ديا جائے اور جنت کے سردار کے لئے ايک قطرہ آنسو بھي نہ نکالا جائے ۔ سياسي پہلو سوويت يونين کے عروج کے دور ميں کريملن کے شہر ميں ايک سالانہ کانفرنس منعقد ہوا کرتي تھي جس ميں دنيا بھر کے ملکوں سے مندوبين شرکت کے لئے آتے تھے۔ وہاں اس بات کا جائزہ ليا جاتا تھا کہ اس سال دنيا کے کس ملک ميں کميونزم کتنا پھيلا۔ حيرت انگيز طور پر ايران کي progress ہر سال مايوس کن رہي حالانکہ اپنے ايجنٹوں پر کميونسٹ حضرات کروڑوں روبل خرچ کرتے تھے۔ جب تحقيق کي گئي تو معلوم ہوا کہ ہر سال کميونزم بہترين طريقے سے پھيل رہا ہوتا ہے مگر عين محرم کے شروع ہوتے ہي ساري محنت پہ پاني پھر جاتا ہے۔ يعني عزاداري ميں اتنا گريہ کيا جاتا ہے کہ اللہ تعاليٰ ايرانيوں کے گناہوں کے ساتھ ساتھ کميونزم کي غلاظت بھي دھو ڈالتا ہے ۔ ايک نصيحت رونا انسان کي بے اختياري پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے غم اور ہنسي دونوں موقعوں پر ديکھا جاتا ہے۔ اور اسي لئے مرد کم روتا ہے، عورت زيادہ اور بچہ سب سے زيادہ۔ يعني جو جتنا بے اختيار ہے اتنا ہي زيادہ گريہ کرتا ہے۔ مگر انسان چاہے جتنا ہي بااختيا ر کيوں نہ ہو خدا کے آگے تو ’’بے اختيار‘‘ ہي کہلائے گا ۔ جہاں انسان ميں سجدے ميں جاکر اپني بے اختياري کا اظہار کرتا ہے وہيں گريہ کر کے اپني بے اختياري کا اعتراف۔ چنانچہ سجدہ ’’اظہارِ بے اختياري‘‘ ہے جبکہ گريہ ’’اعترافِ بے اختياري‘‘۔۔! چنانچہ کچھ دير،تنہائي ميں خدا کے حضور گڑگڑانے سے، دوسرے کي مصيبت پر رونے سے انسان لوگوں کے ہنسنے بلکہ جگ ہنسائي سے بچ جاتا ہے اغيار کے حلقوں سے نکل، گھر پہ رہا کر گزرے ہوئے حالات کے کتبے بھي پڑھا کر ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے تنہائي کے لمحوں ميں کبھي رو بھي ليا کر منبع:http://www.alhassanain.org