فلسفہ اور ادبی تنقید

فلسفہ اور ادبی تنقید

فلسفہ اور ادبی تنقید

Publication year :

1972

Publish location :

لکھنؤ ہندوستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

فلسفہ اور ادبی تنقید

اردو تنقید میں فلسفیانہ تحریکات کی روشنی میں ادبی تفہیمات پر لکھنے کا سلسلہ اگرچہ جدید عہد کی دین ہے لیکن "فلسفہ اور ادبی تنقید ” کے مضامین پڑھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ وحید اختر ان جدید فکری مسائل پر اُس زمانے سے سوچ بچار کر رہے ہیں جب ہمارے ہاں بڑے بڑے ناقد ہنوز روایتی مکاتبِ فکر کے زیر اثر اپنے ہی کھینچے ہوئے دائرے میں چکر لگانے پر مجبور تھے۔

اس کتاب میں شامل تمام مضامین زمانی اعتبار سے تقریباً اُسی دور میں لکھے گئے جب مغرب میں بھی ادبی متون کو تنگنائے سے باہر نکالنے پر سوچا جا رہا تھا اور ثقافتی تھیوری کے ساتھ ادبی تھیوری پر بھی قابل قدر سرمایہ سامنے آ چکا تھا۔یہ علمی مضامین جس محنت، ریاضت اور تنقیدی بصیرت کے ساتھ لکھے گئے وہ موضوعاتی افادیت کے نقطہ نظر سے جدید تنقیدی تصورات کو دیکھنے اور سمجھنے میں بڑی معاونت کرتے ہیں۔

یہ مضامین اصل میں مشرقی تنقید کی ترقی یافتہ صورت کو منکشف کرتے ہیں اس حوالے سے اگر میں اس کتاب کو جدید اردو تنقید کی ادبی تھیوری کا اہم سنگ میل کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا۔

ہماری جدید اردو تنقید میں ادبی تھیوری کے مباحث عموما مغربی تصورات کی پیروی میں فیصلہ کرتے نظر آتے ہیں جس میں اردو ادب سے وابستہ ثقافت کو نظر انداز کرنے کا عام رجحان بھی شامل ہے،لیکن”فلسفہ اور ادبی تنقید ” میں ادبی تھیوری کو مقامی ثقافت کے تابع رکھنے کی شعوری کاوش موجود ہے جس کی وجہ سے ادب فہمی کا ایک ایسا معتدل راستہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے جو تناظر کی معنویت کا بلیغ اشاریہ بھی ہے۔وحید اختر کے تمام تنقیدی مطالعات اور تصورات فکر و نظر کی ایسی مظہریاتی وادیوں میں جادہ پیمائی کرتے ہیں جہاں عموما ہمارے روایتی نقاد جانا پسند نہیں کرتے کیوں کہ اس خصوص میں جو ریاضت درکار ہے وہ ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔

مضامین کے اس مجموعے میں معاصر ادبی اور فلسفیانہ تحریکوں پر بات ہوئی ہے اور صاف پتا چلتا ہے کہ یہ علمی مباحث کسی مقلد کے اٹھائے ہوئے نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں ایک ذہین مجتہد بار بار اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔

وحید اختر نے سائنس کے اُن سلبی پہلووں کو بھی اجاگر کیا جو انسان دوستی سے زیادہ انسان دشمنی پر منتج ہوتے ہیں،لطف کی بات یہ ہے کہ ان تمام عالمانہ مکالمات کا واحد مقصد یہی ہے کہ ادبی نزاکتوں اور ادبی ضروریات کا شعور عام کیا جا سکے اور ظاہری بات ہے کہ یہ سب کچھ تجربی قضایا اور تحلیلی قضایا کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔

وحید اختر کے سامنے اردو تنقید کا وہ طویل سلسلہ بھی موجود ہے جس میں مغربی تصورات اور معیارات کو اردو تخلیقات پر آزما کر عجیب و غریب نتائج نکالے گئے اور مغرب کی ہر تھیوری کو من و عن تسلیم کر لیا گیا،اس رجحان نے جہاں اردو تنقید کے فطری سفر کو مسخ کیا وہاں متن کی آزادہ روی سے تخلیق کار کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچا،بلکہ تخلیق کار کو اس کی اپنی تخلیقی مسند سے برخاست کر دینے کی روش بھی چل پڑی ہے۔یہ مغرب زدگی اردو ادب کو ایک ایسے بلیک ہول کی جانب دھکیل رہی ہے جہاں اردو زبان و ادب کا اپنا وجود گم ہو کر رہ جائے گا۔اس تشویش کے پیش نظر وحید اختر کا یہ کہنا بالکل درست ہے:

"(اردو)نقادوں نے مغربی علوم کے بے ربط مگر مرعوب کن اظہار اور مغربی تنقید کے اصولوں کے اطلاق ہی کو نقد بنا کر اپنے کلچر کی روح،روایات،ادبی مزاج اور معاصر تقاضوں کو اس قدر فروعی مسائل کی حیثیت دے دی گویا ان کے سمجھے بغیر بھی تنقید کا حق ادا ہو سکتا ہے”

دنیا کا ہر ادب اپنے تہذیبی و ثقافتی رشتوں میں جکڑا ہوتا ہے اور اس کی معنویت بھی ایک خاص سیاق کی پابند ہوتی ہے۔مغرب والے ادبی متون کو چاہے جتنا بھی آزاد سمجھیں تاہم اس کا سلسلہ اپنی ثقافت سے پوری طرح جوڑ کر رکھنا پسند کرتے ہیں،اس اہم نکتے کو وحید اختر نے اپنے تمام مضامین میں کسی نہ کسی حوالے سے ضرور سامنے لانے کی سعی کی ہے۔

وحید اختر بنیادی طور پر تخلیق اور تنقید کے مابین وضع کردہ روایتی فرق کو بھی تسلیم نہیں کرتے یہ ان کے تنقیدی تھیسس کا ایک ایسا اہم اور خیال انگیز پیراڈائم ہے جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔اس خاص تناظر میں تنقید اُن کے نزدیک ایک خالص تخلیقی سرگرمی ہے جو نوعیت کے اعتبار سے غزل،افسانہ اور ناول کے ہم راہ اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔اردو ادب میں اس طرح کے ادبی اور فلسفیانہ ڈسکورس لکھنے کی روایت کچھ اتنی توانا نہیں ہے ماضی میں ضمیر علی بدایونی نے اس نوع کے ادبی اور فکری نظریات پر جو علمی مساعی کی اس نے بھی ادب میں سنجیدہ مطالعات کو وسعت آشنا کیا ہے۔اب وحید اختر کے معجز بیاں قلم نے اس روایت کو جن پائیدار بنیادوں پر استوار کیا اسے مزید آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں نسخۂ حمیدیہ میں غالب کے مقطعے ردیف الف تک -سید ثاقب فریدی)

وحید اختر کی تنقید کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ وہ مغربی افکار و نظریات سے مرعوب ہونے کے بجائے انھیں نقد و نظر اور جرح و تعدیل کی روشنی میں پرکھنے کا معروضی طریق کار بروئے کار لاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ تحلیل نفسی کی بنیادوں پر بات کرتے ہوئے اس کی کمزوریوں اور ادب میں اس کی شمولیت کو گہری تنقیدی بصیرت سے تجزیاتے چلے جاتے ہیں۔یہ اجتہادی نظر اور دو ٹوک بات کہنے کی صلاحیت ہر نقاد کو کہاں نصیب ہوتی ہے!وحید اختر کے یہ تمام مضامین اردو تنقید میں اصول سازی پر مبنی ہیں۔وہ ہر فکر کو پہلے خالص عملی حوالے سے زیر بحث لاتے ہیں پھر ادب کے ساتھ اسے ایک خاص انداز سے منسلک کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اس کوشش کا واحد مقصد ادبی مسائل کی مزید تفہیم و ترسیل ہے نہ کہ کسی خاص علمی تصور کو عام کرنا،ان کو اردو نقادوں سے یہ شکوہ بھی ہے کہ وہ کسی خاص مغربی تصور کو اپنے تہذیبی مزاج میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے اور محض میکانکی اصول پر اپنا لیتے ہیں۔یہ بات اگرچہ انھوں نے جمالیات کے حوالے سے کی ہے تاہم وہ مجموعی طور پر اسی نظریے کے حامی ہیں کہ مغرب کا ہر نظریہ ہمارے کام کا نہیں اور اگر ہے بھی تو اسے ہمارے مخصوص تہذیبی مزاج کے تابع ہونا چاہیئے۔

وحید اختر کی اس تخلیقی بیش رفت کو مشرقی تنقید کا اپنا بیانیہ کہا جا سکتا ہے جو آگے چل کر اردو تنقید کی اپنی تھیوری کو مستحکم بنانے کا فریضہ انجام دے گا۔

اِس کتاب کی اشاعتِ نو علم دوست شخصیت کلیم الہی امجد کی وجہ سے ممکن ہوئی۔وہ بذات خود تحقیقی اور تنقیدی سرگرمیوں میں سنجیدہ مطالعات کا ذوق رکھتے ہیں۔یہ کتاب عہد حاضر میں موجود اردو تنقید کو درست سمت میں آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اردو تنقید میں جدید اور قدیم تصورات کی آمیزش اور آویزش کا سلسلہ جاری ہے اگر اس میں اسی نوعیت کے اضافے ہوتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب اردو تنقید عملی اردو نظری سطح پر اپنا منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔کلیم الہی امجد کو اس کتاب کی نئی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید ہے وہ اسی علمی لگن کے ساتھ اردو ادب کو ثروت مند بناتے رہیں گے۔

ڈاکٹر وحید قریشی پاکستان کے نامور ادیب، شاعر، نقاد، محقق، معلم اور ماہر لسانیات ڈاکٹر وحید قریشی 14 فروری 1925ء کو میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ساہیوال، گوجرانوالہ اور لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور فارسی اور تاریخ میں ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد یکم اکتوبر 1947ء سے بطور ریسرچ اسکالر اپنی ملازمت کا آغاز کیا بعدازاں انہوں نے فارسی میں پی ایچ ڈی اور اردو میں ڈی لٹ کی اسناد حاصل کیں۔ انہوں نے ایک طویل عرصے تک اسلامیہ کالج لاہور اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیئے بعدازاں وہ اقبال اکادمی پاکستان، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، بزم اقبال اور مغربی پاکستان اردو اکیڈمی سے وابستہ رہے۔ ستمبر 2003ء سے اپنی وفات تک وہ جی سی یونیورسٹی لاہور میں پروفیسر امریطس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی کی تصانیف کی فہرست بھی بہت طویل ہے جس میں شبلی کی حیات معاشقہ، میر حسن اور ان کا زمانہ، مطالعہ حالی، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، تنقیدی مطالعے، نذر غالب، اقبال اور پاکستانی قومیت، اساسیات اقبال، قائداعظم اور تحریک پاکستان، مقالات تحقیق، جدیدیت کی تلاش میں،مطالعہ ادبیات فارسی، اردو نثر کے میلانات، پاکستانی قومیت کی تشکیل نو اور دوسرے مضامین، پاکستان کی نظریاتی بنیادیں، اردو ادب کا ارتقا، پاکستان کے تعلیمی مسائل اور شعری مجموعے نقد جاں، الواح اور ڈھلتی عمر کے نوحے شامل ہیں۔ انہوں نے متعدد کتابیں بھی مرتب اور مدون کی تھیں جن میں اردو کا بہترین انشائی ادب، ارمغان ایران، ارمغان لاہور، 1965ء کے بہترین مقالے، توضیحی کتابیات ابلاغیات، ثواقب المناقب، دربار ملی اور علامہ اقبال کی تاریخ ولادت کے نام سرفہرست ہیں۔ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر وحید قریشی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 14 اگست 1993ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعزاز عطا کیا تھا۔ ڈاکٹر وحید قریشی 17اکتوبر2009ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں سمن آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔