آزادی نسواں یا عورت کا استحصال
آزادی نسواں یا عورت کا استحصال
0 Vote
45 View
اسلام ایک مکمل دین ہے ، جس میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے چاہے حیا تی ہو یا کا ئناتی ، ہر زاویے سے انسان کی نجات کا ضامن ہے ۔ اور دینی دستورات اور الہی قوانین کی دولت سے مالا مال ہر شعبہ حیات پر گہری نظر رکھتا ہے ، انسان اگر غور وخوض سے کام لے اور اپنی فکر کو بروئے کا رلائے تو اس کا حتمی طور پر اس نتےجہ پر پہونچنا ناگزیر ہے کہ دین اسلام آزادی انسان کی کتنی تاکید اور اس کی آزادی کا کتنا احترام کرتا ہے ، دین اسلام چاہتا ہے کہ انسان اسلام کے حدود میں رہ کر آزاد ہو ، آزادی فکر ، آزادی بیان ، آزادی قلم ، انسان کا بنیادی حق ہے اور کسی طبقئہ انسانی سے مخصوص نہیں ہے ۔ کچھ نادان لوگ اور کچھ دانا دشمن الزام تراشی کرتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کو آزادی حاصل نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آخر اسلام نے عورتوں کے کن حقوق کی پایمالی کی ہے ؟ عورتوں پر کون سے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کے پہاڑ توڑے ہیں ؟بلکہ ہمیں تو یہ نظر آتا ہے کہ دوسرے ادیان و مذاہب کے مقابلے میں اسلام نے عورتوں کو کہیں زیادہ بلند مرتبہ عطا کیا ہے آخر کس دین اور مذہب نے کہا ہے کہ’ماں کے قدموں تلے جنت ہے ‘ کیا یہ عیسایت اور یھودیت کی دین ہے یا ہندو سماج میں ’ماں ‘ کو اتنا بڑا درجہ دیا گیا ہے ۔ یہ صرف مذہب اسلام ہے جس نے عورتوں کو ماں ، بیٹی ، بہو، بیوی سبھی روپ میں اعلیٰ درجات عطا کئے ہیں ۔ ان کے مراتب کا لحاظ کرتے ہوئے انھیں سرفرازی اور سر بلندی عطاکی ، ہر مرحلے میں ان کے تقدس کا پورا پورا خیال رکھتے ہوئے انھیں زندگی گزارنے کا پورا پورا حق دیا ۔ آج بھی ہندویزم میں ستی رسم موجود ہے جس میں شوہر مرجائے تو اس کے ساتھ بیوی کو بھی زندہ چتا پر لٹا کر شوہر کے ساتھ نذر آتش کر دیا جاتا ہے ۔ کیا اس طرح کی شرمناک اور انسانےت سوز کسی رسم کا اسلام میں وجود ہے ؟ کیا کہیں سننے اور دیکھنے میں یہ آیا کہ اسلام میں شوہر کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی درگور کردیا گیا ؟ آزادی نسواں ایک پر فریب نعرہ ہے ، آخر آزادی سے کیا مراد ہے؟ کیا رقص و سرور کی محفلوں ، انجمنوں ، پارٹیوں ، کلبوں وغیرہ میں نیم عریاں جسم کی نمائش کرنا عورت کی آزادی ہے، کیا آزادی نسواں یہ ہے کہ عورتیں اپنے گوہر عفت و پاکیزگی اور شرم و حیا کو چند خونخوار درندہ صفت اوربوالہوس انسانوں کی شہوت پرستی کی بھینٹ چڑھادیں؟ اور اسے اپنی آزادی کی قیمت خیال کریں ؟ کیا آزادی نسواں سے مراد یہ ہے کہ اپنی من مانی ، من چاہی بے بند وبا ری کی زندگی گزاری جائے ۔ عریانیت ، فحاشیت اور شہوت رانی کے دلدل میں خود کو ڈھکیل دیا جائے ، اس کے بغیر آزادی نسوان کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا ؟ دور جدید کے مکار مہذب کہلانے والے انسانوں نے عورتوں کو بکاو ، مال بنا دیا ہے، فلمی اشتہار، پوسٹر وں ، بینروں ، میگزینوں ، رسالوں ، اخباروں اور انٹرنیٹ کے صفحات پر وحشت اور جنون کی حد تک آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ آج کی عورتوں کو کیا مقام حاصل ہے ، محض لطف اندوزی کی خاطر نیم عریاں اور برہنہ تصویریں لگا کر عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے ، اور مہذب سماج کے یہ افراد اپنے شہوانی، ہیجانی جذبات کی تسکین ان بیہودہ تصاویر کے ذریعہ کرتے ہیں ۔ آج دو روپئے کے سامان کے پیکٹ پر عورتوں کی نیم عریاں تصاویر کس جانب اشارہ کرتی ہیں ، تجارتی کمپنیاں محض اپنا تجارتی گراف اونچاکرنے اور مارکیٹ ویلو بڑھانے کی خاطر عورتوں کا استحصال کر ر ہی ہیں ۔ادب عالیہ نے عورتوں کو صرف بازار حسن کی زینت کے ساتھ متعارف کرایا ہے ۔ افسانوں ، ناولوں اور فحش لڑیچروں کے سرورق پر اس کی تصاویر بنا کر جدید ادب کی آڑ میں ان کےتقدس کو پایمال کیا جاتا ہے ۔ بغیر عریانیت کے فلم بنتی ہی نہیں حتی مشرقی ملکوں میں بھی نیم عریاں کپڑوں میں گانے ،فلمیںبنائی جارہی ہیں کیا یہ عورتوں کے ساتھ بیہودہ مذاق نہیں ہے؟ حالات کا شکار مظلوم اور ستم دیدہ لڑکیوں کو بازار حسن کا راستہ دکھا یا جا تا ہے ، کئی مسلم ممالک کو فساد کا اڈہ بنا یا جا رہا ہے ، کئی مسلم دوشیزاوں کو نیم عریاں ورزش میں ڈھکیلا جا رہا ہے ؟ پھر اس وقت آزادی نسواں حامی اور تحریک چلانے والے کہاں روپوش ہو جا تے ہیں ؟ آخر تب کیوں گوشہ نشینی اختیار کرلی جاتی ہے ؟ افسوس یہ ہے کہ چند بے خرد آزاد خیال مسلم خوتین نے آزادی نسواں ، حقوق نسواں کے نام سے تنظیمیں بنا رکھی ہیں گویا انسانیت کی سچی علمبردار اور خیر خواہ یہی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام عورتوں پر مظالم نہیں کرتا ہے بلکہ انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے اگر یہ باتیں ہماری قوم کی مائیں اور بہنیں سمجھ لیں تو شاید سبھی برائیاں خود بخود مٹ جائیں ۔ اگر ہمارے معاشرے کی بیٹیوں نے دشمنوں کی گندی پالیسیوں کو درک کر لیا تو مسلم معاشرے سے یہ کنسر ختم ہو سکتا ہے ، اگر اجتماعی بیداری پیدا کی جائے ، اگر ہم خود اپنے شعور و فکر کو اسلامی خوشبو سے معطر کرلیں تو ہمارے مسائل کسی حد تک ختم ہو سکتے ہیں ۔ اگر ہم اقتصادی پیشرفت کے ساتھ ساتھ اسلامی ماحول اپنا ئیں تو ہماری ماوں کی گود میں کنیزان حضرت مریم (س) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) پرورش پا سکتی ہیں ، اگر ہم اپنے بچوں کو کردار فاطمہ زہرا(س) سے آشنا کرائیں تو بے حجابی کی لعنت سے معاشرہ پاک ہوسکتا ہے ، اگر ہماری بہنیں حضرت زینب (س) و ام کلثوم (س) کو اپنا نمونہ سمجھیں تو ان جیسے امراض سے ہماری قوم سالم اور محفوظ رہ سکتی ہے ، اس کے بر خلاف اگر ہماری بہو بیٹیاں فلمی اداکاروں کو اپنا آئی ڈیل تصور کرلیں تو تباہی اور بربادی کے سوا ہمارے مقدر میں کچھ نہ ہوگا ، اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان سب باتوں کے لئے کچھ مبلغین اسلام بھی ذمہ دارہیں ، جبکہ عجیب بات یہ ہے کہ ہر انسان جودوسری عورت کو عریاں دیکھنا پسند کرتا ہے کبھی اپنی بہو بیٹیوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتا ، کاش ہم معاشرے کی سبھی عورتوں کو ایک لمحہ کے لئے ہی صحیح اپنی بہن ، بیٹی تصور کرلیں اور پرائی عورتوں کو بری اورگندی نظر سے نہ دیکھیں ، کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے: نظر بد اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب اپنی بیٹی کا خیال آیا تو دل کانپ گئی منبع:jafariah.com