ماں (مجموعہ کلام)

ماں (مجموعہ کلام)

ماں (مجموعہ کلام)

Publication year :

2011

Publish location :

لکھنؤ ۔ ہندوستان

(1 پسندیدگی)

QRCode

(1 پسندیدگی)

ماں (مجموعہ کلام)

جناب رضا سرسوی کی نظم اردو نظموں کے اس قبیلہ سے رشتہ رکھتی ہے جس میں اقبال کی ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ اور فراق کی "’جگنو" قرار دیا ہے۔ یہ جگنو عالم میں ذرا دیر کو چمک کر بجھ جاتے ہیں مگر ان یادوں کی چمک کے پیچھے جو روشنی ہے وہ اَمَر ہے ۔ اس کی فیض رسانی کا سلسلہ ابتدائے انسانیت سے آج تک جاری ہے ۔ یہ روشنی اور گرمی ہے مامتا کی ۔ ماں کی محبت ضرب المثل ہے اور اس کی خدمات واطاعت اولاد پر فرائض مذہبی کی طرح واجب ہے۔

" کہتے ہیں ماں کے پاؤں کے نیچے بہشت ہے جناب رضا سرسوی نے اس نظم میں جیسا کہ خودعنوان سے ظاہر ہے، ماں کو موضوع سخن بنایا ہے، اقبال اور فراق کی نظمیں ان کے منفردا سالیب اورفکری آہنگ کی وجہ سے اردو شاعری میں انفرادیت واہمیت کی حامل ہیں لیکن جہاں تک موضوع کے پوری شرح و بسط کے ساتھ برتنے کا سوال ہے یہ بات بلا جھجک کہی جاسکتی ہے کہ رضا سرسوی نے موضوع کا پوراحق ادا کر دیا ہے۔

ماں جس طرح اپنی اولاد کے لئے تکلیفیں اٹھاتی، رنج سہتی محنتیں کرتی اور تنگدستی و مجبوری میں پوری طرح ایثار نفس کشی اور قربانی کا ثبوت دیتی ہے، اس کی مثال کسی اور نسبی یا نسبتی رشتے میں نہیں مل سکتی ۔ زیر نظر نظم کے شاعر نے اس گوشے کو خاص طور سے اجاگر کیا ہے۔ بد بخت ہیں وہ جو ماں کے مرتبہ اور اس کی قربانیوں کا احساس نہ کریں، یا بڑے ہوکر اپنے اہل وعیال کی فکر خود غرضی کے ہاتھوں اسے نظر انداز کر دیں۔ ماں کی خدمت ہی سعادت ہے۔ رضا سرسوی کی نظم کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس کی اس طرح بے لوث مدح کرنا بھی سعادت ہے اور سعادت کے لئے رضا صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اقبال نے حضرت مریم اور جناب فاطمہ سیدۃ النساء العالمین کا موازنہ کرتے ہوۓ رموز بے خودی، میں جناب سیدہ کی افضلیت اس لحاظ سے مانی ہے کہ وہ مثالی ماں ہونے کے ساتھ مثالی بیوی اور مثالی بیٹی بھی تھیں ۔ عورت کی زندگی میں بھی تین منزلیں آتی ہیں بیٹی ، بیوی ، پھر ماں ، اس طرح سے ماں کے درجہ تک اس کا قلبی و روحانی سفر ارتقاء کی معراج ہے۔

رضا سرسوی نے نظم کے آخری حصہ میں کر بلا کی ان ماؤں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنے شوہر اور بچوں کو سیدہؑ کے لال پر خوشی خوشی قربان کر دیا۔ بیوگی کا بوجھ اٹھانا اور کوکھ کے پالوں کو خود سجا سنوار کے موت کا دولہا بنا کر مقتل میں بھیجنا عورت کا سب سے کڑا امتحان ہے۔ اس نظم میں کر بلا کی ماؤں کا یہ مثالی کردار اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ تمام ماؤں کے لئے مثال اور نمونہ بن سکتا ہے۔ کربلا کی قربانیوں اور مصائب سے رابط دے کر رضا سرسوی نے اپنی نظم کی معنویت و بلاغت کو اور زیادہ وسیع وثیق کر دیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نظم ارباب ذوق اور ارباب عزا، دونوں میں پسند کی جاۓ گی۔