اسلام اور ھر زمانے کی حقیقی ضرورتیں

بحث وتحقیق کے بارے میں پیش آنے والے اور نفی واثبات قرار پانے والے علمی مسائل میں سے ھر مسئلہ کی اھمیت اور اس کی حقیقی قدر وقیمت ایک حقیقت کی اھمیت اور قدروقیمت کے تابع ھے جو ان میں پائی جاتی ھے اور یہ ایسے آثار و نتائج کے تابع ھوتے ہیں جو عمل و نفاذ کے مقام پر ان کی تطبیق اور زندگی کے نشیب و فراز میں ان سے استفادہ کرتے وقت وجود میں آتے ہیں ۔ انسان کو کھانا پینا سکھانے والا ایک انتھائی ابتدائی تصور،قدر و قیمت کے لحاظ سے انسان کی زندگی کے برابر ھے ۔ یعنی اس کی قدر و قیمت وہی زندگی کی قدر وقیمت ھے جو انسان کی نظر میں ایک گراں بھا سرمایہ ھے ،اور ایک تصورجو ظاہرًا انتھائی معمولی اور مختصر ھے (جو انسان کے دماغ میں اجتماعی زندگی کی ضرورت کو ایجاد کرتا ھے ) اس کی قیمت وھی ھے جو انسان کے حیرت انگیز نظام کی قیمت ھے جو ھر لمحہ انسان کے لاکھوں عمل وحرکات سکنات کو ایک دوسرے سے ربط دے کرھر روز کروڑوں مطلوب اورنامطلوب اثرات کو پیدا کر کے گونا گوںبرُے اور اچھے نتائج کو وجود میں لاتا ھے ۔ البتہ اس بات سے ھرگز انکار نھیں کیا جا سکتا ھے کہ ایک مقدس دین ( جیسے دین اسلام ) کا انسان کی ضرورتوں کو ھر زمانہ میں پورا کرنا، اھمیت کے لحاظ سے اول درجہ رکھتا ھے اور یہ انسان کی زندگی کی اھمیت کے برابر ھے کہ ھم اس سے قیمتی تر سرمایہ کا تصور نھیں کر سکتے ہیں۔ البتہ دین اسلام کے بنیادی اصو لوں سے کم ازکم آگاھی اور دلچسپی رکھنے والا ھر مسلمان اس مسئلہ کو اسلام سے یاد کئے گئے مسا ئل کی فھرست میں درج کرتا ہے ۔ حقیقت میں یہ فکری مادّہ بھی اسلام کے وجود میں لائے گئے دوسرے دینی فکری مادّوں کے مانند صدیوں سے ہم ،اسلام کے پیروکاروں کے ذہنوں میں موجود ہے اور وراثت کے طور پر ایک فکر سے دوسری فکرمیں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اپنی خاموش زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہے اور ہمیشہ دیگر مذہبی مقدسات کے مانند بحث و تمحیص سے دامن بچاتے ہوئے انسانوں کی سرشت میں منتقل ہوا ہے اور اس سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔ ہم مشرقی ہیں اور جہاں تک ہمیں اپنے اسلاف اور آباؤ اجداد کی تاریخ کے بارے میں یاد ہے، شاید ہزاروں سال گزر چکے ہوں گے، گزشتہ اجتماعی ماحول میں ( ہم پر حکومت کی گئی ) ہرگز ہمیں فکری، خاص کر سماجی مسائل سے مربوط علمی مسائل میں آزادی نہیں دی گئی اور صدر اسلام میں ایک مختصر مدت میں پیغمبر اسلام (ص) کے ذریعہ جو ایک کرن نمودار ہوئی تھی اور طلوع فجر کے مانند ایک نورانی دن کی نوید دیتی تھی چند خود پرستوں اور منافع خوروں کے تاریک حوادث طبیعی اورمصنوعی طوفان کے نتیجہ میں دوبارہ تاریکی کے پردہ میں چلی گئی اور اس کے بعد ہم رہے اور اسیری و غلامی، ہم رہے اور تازیانے، تلواریں، پھانسی کے پھندے، زندانوں کی کالی کوٹھریاں، اذیت خانے اور مرگ آور ماحول، ہم رہے اور قدیمی فریضہ ''ہاں ہاں '' ''لبیک '' و ''سعدیک'' ! جو بہت چالاک تھا وہ اسی حد تک اپنے مذہبی مقدسات کے مادّوں کو محفوظ کر سکتا تھا اور اتفاق سے وقت کی حکومتیں اور معاشرہ کا نظم و انتظام چلانے والے بھی اس رویّہ کے بارے میں آزاد بحث کرنے میں رکاوٹ ڈالنے میں زیادہ بےغرض نہیں تھے ۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ لوگ اپنے کام میں مشغول رہیں اور دوسرے امور میں دخل نہ دیں، یعنی وہ صرف اپنے کام میں لگے رہیں، حکومتی اورعمومی امور میں مداخلت نہ کریں کیونکہ ان کی نظر میں یہ امورصرف حکومتوں اورمعاشرہ کا نظم و انتظام چلانے والوں کا حق تھا! وہ لوگوں کے اغلب دینی امور اور نسبتًا سادہ دینی امور کے پابند ہونے میں اپنے لئے کسی قسم کا نقصان نہیں دیکھتے تھے اس لئے اس حالت سے نہیں ڈرتے تھے، وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ لوگ تجسّس اور تنقید پر نہ اتر آئیں اور وہ خود لوگوں کے مفکّر بن کے رہیں ۔ کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو اچھی طرح سے درک کیا تھا کہ زندگی میں طاقتور ترین وسائل افراد کے ارادہ کی طاقت ہے اور افراد کا ارادہ قید و شرط کے بغیر ان کے مفکرانہ مغز کے تابع رہے اور مفکروں کے مغز پرتسلّط جما کر ان کے ارادوں پر تسلط جما سکیں ، اس لئے وہ لوگوں کے افکار پر تسلط جمانے کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے تھے تاکہ ہماری اصطلاح میں خود لوگوں کے مفکر بن کے رہیں۔ یہ حقائق کا ایک ایسا سلسلہ ہے جیسے اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا ہر فرد بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے اور اس کے لئے کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہیں رہے گا ۔ حال ہی میں یورپ کی آزادی مغرب کوسیراب کرنے کے بعد ہم مشرق زمین کے باسیوں کے ہاں آئی ہے، اس نے ابتداء میں ایک محترم مہمان کی حیثیت سے اور اس کے بعد ایک طاقتور گھر کے مالک کی حیثیت سے ہمارے براعظم میں قدم جمائے ہے۔ اگرچہ اس آزادی نے افکار کے گھٹن کا بوریا بسترہ گول کر دیا اور آزادی کا نعرہ بلند کیا، یہ ایک بہترین وسیلہ اور مناسب ترین فرصت تھی جو ہمیں اپنی کھوئی ہوئی نعمت کو دوبارہ حاصل کرکے ایک نئی زندگی کی داغ بیل ڈال کر علم و عمل کو حاصل کرنے میں مدد کرتی ، لیکن افسوس یورپ کی یہی آزادی، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دلائی، ان ہی ظالموں کی جانشین بن کر ہمارے دل و دماغ پر سوار ہوگئی! ہم نہ سمجھ سکے کہ کیا ہوا؟ جب ہم ہوش میں آئے تو دیکھا کہ وہ دن گزر گئے تھے جب ہم اپنی حیثیت کے مالک تھے اب خدا اور گزشتہ آسمانی طاقتوں کی باتوں پر توجہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہمیں صرف اسی طرح عمل کرنا چاہئے جو کچھ یورپی انجام دیتے ہیں اور جس راہ پر وہ چلتے ہیں، اسی راہ پر ہمیں بھی چلنا چاہئے! ایک ہزار سال سے سرزمین ایران ''بو علی سینا''کو اپنی آغوش میں لئے ہوئی تھی اور اس کی فلسفی اورطبّی تالیفات ہماری لائبریریوں میں موجود تھیں اور اس کے علمی نظریات ورد زبان تھے اور کوئی خاص خبر نہیں تھی ۔ سات سو سال سے ''خواجہ نصیرالدین طوسی ''کی ریاضی کی کتابیں اور ان کے ثقافتی خدمات ہمارا نصب العین تھا اور کہیں اس کی خبر تک نہیں تھی، لیکن ہم نے یورپیوں کے ان کے دانشوروں کے سلسلے میں یاد گار منانے کی تقلید کرتے ہوئے ''بوعلی سینا'' کے لئے ہزار سالہ یادگار اور '' خواجہ نصیرالدین طوسی '' کے لئے سات سو سالہ یادگاری تقریبیں منعقد کیں۔ تین صدیوں سے زیادہ عرصہ سے ''صدرالمتالھین ''کا فلسفی نظریہ ایران میں رائج تھا اور انھیں کے فلسفی نظریہ سے استفادہ کیا جاتا تھا ۔ ایک طرف سے برسوں پہلے تہران یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی گئی ہے اور اس میں قابل توجہ صورت میں فلسفہ پڑھایا جاتا ہے ،لیکن جب چند برس پہلے ایک مستشرق نے اس یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں ''ملاصدر'' کی تمجید و تعظیم کی اور اس کے فلسفی نظریہ کی تعریفیں کیں تو یونیورسٹی میں اس کی شخصیت اور اس کے فلسفی نظریہ کے بارے میں ایک بے مثال ہل چل مچ گئی۔ یہ اوران جیسے دوسرے واقعات ایسے نمونے ہیں جو عالمی سطح پر ہماری اجتماعی حیثیت اور ہماری فکری شخصیت کی ہویت کو واضح کرکے بتاتے ہیں کہ ہماری فکری شخصیت طفیلی ہے اور ہمارے فکری سرمایہ میں سے جو کچھ چوروں سے بچا ہے وہ جوتشیوں کے حصہ میں آیا ہے۔ منبع: .ishraaq.in