اسلام عدالت و آزادی کا دین ہے
اسلام عدالت و آزادی کا دین ہے
0 Vote
116 View
اسلام ایسے ظالموں اور جابروں کے تسلط سے آزادی کا نام ھےجو اپنی خود غرضی کے ما تحت انسانوں کو غلام بنانا چاھتے ھیں ۔جو لوگوں کی شرافت ، آبرو ، جان و مال سے کھیلنا چاھتے ھیں جو لوگوں کو اپنا زر خرید سمجھتے ھیں اور یہ سب اس لئے کرتے ھیں تاکہ لوگ ان کی خواھشات کے سامنے سر جھکادیں ۔ یہ ظالم ڈکٹیٹرشپ، سرمایہ داری کے ذریعے لوگوں کو غلام بنا نا چاھتے ھیں اور اپنے ظلم و جبر کے ذریعے معاشرے کو حق و عدالت کے بر خلاف قوانین کی پیروی پر مجبور کرتے ھیں ۔ اسی لئے اسلام نے تمام اقسام قدرت کو خدا میں منحصر کر کے بندوں کو سرکشوں اور ظالموں کی غلامی سے نجات بخشی ھے ، تاکہ وہ لوگ واقعی آزادی سے فائدہ مند ھو سکیں ایسی آزادی جو کسی ظالم نظام کے تحت نہ ھو ۔ اسلام چاھتا ھے کہ لوگ اپنے اندر انسانی شرف کو محسوس کر سکیں اور یہ احساس اس وقت تک پیدا نھیں ھو سکتا جب تک معاشرے کے تمام افراد صرف ایک خدا کے سامنے سر نہ جھکائیں ۔ کیونکہ اسی صورت میں یہ بات ممکن ھے کہ کوئی کسی کو اپنا غلام نھیں بنا سکتا بلکہ ھر شخص کا حاکم ایک ھی ھے ۔ اسلام تمام تر انسانی قدر و قیمت کا قائل ھے۔ اس کا اصلی مقصد انسان کے فطری حقوق کی حفاظت ھے اور شخصی و اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں عدالت و برابری کی برقراری ھے ۔ اسلامی معاشرے میں قانون نے تمام لوگوں کی برابری کی ذمہ داری لی ھے اور قانون کے سامنے سب کی حیثیت ایک ھے ۔ اگر اسلام نے فوقیت ، ملیّت ، نسلی عنصر کا اعتبار کیا ھوتا تو کسی بھی قیمت پر ایسی درخشاں پیش رفت سے ھمکنار نہ ھو سکتا ۔ ترقی کا یھی راز ھے کہ جس کی بناء پر ایک صدی سے بھی کم مدت میں آدھی سے زیادہ دنیاپر اس نے حکومت قائم کر لی ۔ اور ھر جگہ نھایت گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا گیا اور مختلف اقوام و ملل نے اسلام قبول کیا ۔ تاریخ گواہ ھے کہ ھر زمانے میں کچھ بے بنیاد قسم کے عقائد و افکار نے ملتوں کا شیرازہ بکھیر دیا ھے اور انسان کے مختلف گروھوں میں جنگ کی آگ بھڑ کا دی ھے اس قسم کی چیزوں میں سب سے زیادہ دخل نسلی برتری ، ملت پرستی ، مذھبی احساسات کے غلط استعمال کو ھے ۔ اسلام نے عوامل اختلاف کو بنیاد نہ بنا کر عوامل و حدت اور انسانی قدر و قیمت اور اشتراک ایمان کو اساس بنایا ھے ۔ مسلمان تو یھودی ، مجوسی ، نصرانی سب ھی سے کھتا ھے کہ آخر ھم آپس میں کیوں اختلاف کریں ، آؤ سب مل کر ایک خدا کی پرستش کریں ، قرآن کھتا ھے”اے پیغمبر کھدیں کہ اھل کتاب آؤ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں آپس میں ایک دوسرے کو خدا ئی کا درجہ نہ دیں اور اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ موڑیں تو کھدیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رھنا کہ ھم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ھیں“ ۔(۱) آج جو قومیں وحدت ، یگانگت ، عدالت ، حریت کی متمنی ھیں ،جو استعمار کے چنگل سے اور نسلی امتیاز کی تباہ کاریوں سے نجات چاھتی ھیں وہ اپنے مقصد کو اسلامی نظام کے اندر ھی پا سکیں گی کیونکہ اسلام ھی کے زیر سایہ ملتوں کا اتحاد اورافراد انسانی کی مساوات متحقق ھو سکتی ھے ۔ اور تمام لوگ ۔ سیاہ ، سفید ، زرد ، سرخ ۔ دوش بدوش چل سکتے ھیں اور کامل آزادی سے زندگی بسر کر سکتے ھیں. اسلام کسی بھی شخص کی برتری کا دو بنیادوں پر قائل ھے ۔ علم و عمل اور امتیاز کا دار ومدار صرف پاکیزگی ٴ روح اور فضیلت اخلاق پر ھے ۔ اسلام نے شرافت و شخصیت کی بنیاد تقویٰ پر رکھی ھے اس کے علاوہ کوئی معیار فضیلت نھیں ھے ۔ ارشاد خدا ھے : ” انسانو ں ھم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ھیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پھچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ھے جو زیادہ پرھیز گار ھے وہ اللہ ھر شے کا جاننے والا اور ھربات سے با خبر ھے “( ۲) رسول خدا نے علی الاعلان فرما دیا : عرب کو عجم پر اورسفید کو سیاہ پر کوئی فضیلت نھیں ھے البتہ تقویٰ و روحانی فضیلت کا سبب ھے ۔ مکہ فتح کرنے کے بعد رسول خدا نے متکبر، خود پسند، زبان و نسل کو ملیہ افتخار سمجھنے والے عربوں کو مخاطب کر کے فرمایا : ” اس خدا کی تعریف ھے جس نے اسلام کے طفیل میں تمھارے جاھلیت کے آثار ،فخر ، تکبر ، نخوت کو ختم کیا ۔یاد رکھو خدا کی بارگاہ میں تمام لوگ دو ھی قسم کے ھیں ۔ ایک گروہ تو وہ ھے جو تقوائے الٰھی کی بنا ء پر بارگاہ ایزدی میں بزرگ ھے دوسرا گروہ وہ ھے جو گنھگاری کی وجہ سے اس کے سامنے سر جھکائے ھے ۔ ایک شخص نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی ، مولا ! روئے زمین پر کوئی ایسا نھیں ھے جس کے آباء واجداد آپ کے آباء و اجداد سے بالاتر اور شریف تر ھوں ۔امام (ع) نے فرمایاکہ ان کی بزرگی تقویٰ کی وجہ سے تھی اور ان کا مقصد حیات اطاعت پروردگار تھا ۔ یہ شخص امام (ع) کی نسلی برتری ثابت کرنا چاھتا تھا۔آپ نے فورا ًاس کے غلط طرز فکر کو ٹوک کر برتری کا معیار تقویٰ کو بتایا ۔ ایک دوسرے شخص نے حضرت سے کھا! خدا کی قسم! آپ دنیا میں سب سے بھتر ھیں ۔امام (ع) نے فوراً کھا! اے شخص !قسم مت کھا اگر کوئی مجہ سے زیادہ متقی ھے اور مجہ سے زیادہ خدا کی اطاعت کرتا ھے تو وہ مجہ سے بھتر ھے ۔ خدا کی قسم! ابھی یہ آیت منسوخ نھیں ھوئی ھے ۔ ( وہ آیت یہ ھے ) تم میں سب سے زیادہ محترم وہ ھے جو سب سے زیادہ متقی ھے ۔ (۳) وھی تقویٰ جو عین حریت ھے نہ کہ محدودیت ، کیونکہ محدودیت انسان کو موھبت اور سعادت سے محروم کر دیتی ھے لیکن تقویٰ روح کی زرہ ھے جو اس کو معنویت عطا کرتی ھے اور اس کو قید بندگی و ھوا و ھوس سے آزاد کرتی ھے اور شھوت و خشم ، حرص و طمع کی زنجیروں کو اپنے گلے سے نکال دیتی ھے ۔ اجتماعی زندگی میں بھی تقویٰ بشر کے لئے آزادی بخش ھے ۔جس کی گردن میں حسب و نسب اور مرتبے کی زنجیر پڑی ھو وہ اجتماعی لحاظ سے آزادی زندگی نھیں رکھتا ۔ حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ھیں: ” قیامت کے دن درستی و پاکیزگی کی کنجی اور ذخیرہ تقویٰ ھے ۔ تقویٰ غلامی کی ھر قید و بند سے آزادی ھے ۔ ھر بد بختی سے نجات و رھائی ھے ۔تقویٰ سے انسان اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا ھے ، دشمن کے شر سے محفوظ رھتا ھے اپنی امیدوں اور آرزؤوں کو حاصل کر لیتا ھے ۔( ۴) تاریخ کے اس تاریک ترین دور میں جب نسلی و طبقاتی نزاع و کشمکش لوگوں میں پوری شدت کے ساتھ موجود تھی اور عقل و آزادی کے بر خلاف وسیع پیمانے پر امتیازات موجود تھے ،جب کمزورو تھی دست تمام شخصی و اجتماعی حقوق سے محروم تھے ، قوم و ملت خونخوار حاکموں کے پنجوں میں تڑپتی تھی، اس وقت پیغمبر اسلام نے بڑی بھادری کے ساتھ ھر قوم کے ناجائز و غلط امتیازات کو لغو قرار دیا ۔ اور تمام افراد میں برابری و کامل مساوات کا اعلان فرمایا ۔ بندگی خدا کے زیر سایہ ھر شخص کو معقول آزادی بخشی ۔یھاں تک کہ معاشرے کے وہ کمزور طبقے جو اشراف حکام کے سامنے اپنے ارادے کو ظاھر کرنے پر قادر نھیں تھے اسلام کے مبنی بر انصاف قانون کے زیر سایہ طاقتور ھو گئے اور روٴسا و بزرگان قوم کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے لگے ۔ جن لوگوں کا خیال ھے کہ دنیا کے موجودہ مکاتب فکر، بشری اجتماع سے محروم ، اور ستم رسیدہ لوگوں کا دفاع اسی طرح کر سکتے ھیں جس طرح اسلام نے کیا ھے وہ یقینا اشتباہ میں مبتلا ھیں انھوں نے حقیقت اسلام کو درک نھیں کیا ۔ حقیقت یہ ھے کہ اجتماعی عدالت کی جو کامل ترین صورت اسلام نے پیش کی ھے کوئی بھی سسٹم یا مکتب فکر نھیں پیش کر سکا ھے۔ انتھا یہ ھے کہ کمیونسٹ جو دین و مذھب کے دشمن ھیں اسلام کی عظیم نھضت ، موثر نقش ، اساسی تعلیمات کا اعتراف کرتے ھیں ۔ ایران کا ایک کمیونسٹ اخبار لکھتا ھے :ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں اسلام کا ظھور تاریخ کا وہ بھترین شاھکار ھے جس نے بشر کے چھرھٴ تمدن میں انقلاب پیدا کر دیا ۔ اس عظیم واقعھ، ظھور اسلام جس کے فتوحات ایک صدی سے بھی کم مدت میں ایک طرف تو ساحل ”لوآر “ تک اور دوسری طرف ساحل ” سندہ و جیون “تک پھونچ گئے تھے، نے کتاب زندگی میں ایک دلچسپ باب کا اضافہ کیا ھے ۔ خود جزیرة العرب کے اندر یھودی ، عیسائی مذھب کے متعدد مرکز ِتبلیغ تھے ، اعراب مکہ اور بادیہ نشین قبائل بت پرست تھے ، مکہ مرکز تجارت تھا ، سودخواروں کا گڑھ تھا ،قبائل سسٹم کا ملجاوماوی تھا ، ملّی تعصب کا منبع تھا ، مختلف مذاھب کا مرکز تھا ۔ اسلام ابتداء میں چھوٹے موٹے تاجروں ، کسانوںاورغلاموں میں مقبول ھوا اور چونکہ سود خواروں کی مخالفت کرتا تھا اس لئے مکہ چھوڑنے پر مجبور ھوا۔ اسلام ایک طرف تو تمام دوسرے مذاھب کے خصوصیات کا حامل ھے لیکن دوسری طرف زندہ و مادی جنبوں کا بھی حامل ھے۔رھبانیت سے فرار ، نسلی و قبائلی مساوات ، زن و مرد کے حقوق کی مساوات ، غلاموں کی حمایت ، غریبوںاور مجبوروں کی طرف داری کے سادہ اصول ، یہ چیزیں ایسی ھیں جس نے اسلام کو دوسرے مذاھب سے ممتا ز کردیا ۔ خونخوارو مغرورحاکموں کے سر پر اسلام سنگین ضرب بن کر آیا ۔دیھاتیوں ، پیشہ ور شھریوں نے اس کو رحمت و نجات سمجہ کر دل سے لگایا ۔ عظیم پیکر شاھی ( مگر بوسیدہ ) پر اسلام نے بھت ھی بر محل ضرب کاری لگائی اور اس کو نیست و نابود کر دیا ۔ اور دو صدی کے اندر اندر چین سے لے اسپین تک اپنی عظیم حکومت قائم کی ۔(۵) اگر اسلامی پیشواؤں اور سوشلسٹ ملکوں کے ذمہ داران حکومت کا مقابلہ کیا جائے تو پتہ چل جاتا ھے کہ ان حکومتوں میں اور اسلام میں زمین سے لے کر آسمان تک کا فرق ھے ۔ اسلام طبقاتی نظام کے بالکل بر خلاف ھے اورحاکم و محکوم کو نھیں پھچانتا وھاں کامل مساوات ھے ۔ حضرت علی (ع) کو جب یہ خبر پھنچائی گئی کہ آپ کے نمائندہ ”عثمان بن حنیف “ کے اعزاز میں بصرے کے اندر ایک دعوت کا اھتمام کیا گیا ھے ، تو آپ کو یہ بات بھت ھی ناگوار گزری کہ حاکم اور شھر کے اونچے طبقے میں خصوصی روابط پیدا ھو جائیں جس کے سبب بڑے لوگوں کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا جائے ۔ آپ نے فوراً اپنے گورنر کو ایک عتاب آمیز خط لکھا اور اس میں عثمان کو بھت زیادہ سر زنش کی ۔ ( ۶) نسلی امتیازات کا مقابلہ دنیا کے تمام مکاتب سے پھلے اسلام نے کیا ۔ اگر چہ آج ساری دنیا میں سیاہ و سفید کی برابری اور قانونی مساوات کا نعرہ بلند کیا جا رھا ھے لیکن قول و فعل میں بھت فرق ھے کیونکہ بشری تاریخ کے تاریک ترین زمانے کی طرح آج بھی انھیں بنیادوں پر مختلف امتیازات موجود ھیں ۔ کیا صرف برابری ، مساوات ، آزادی جیسے الفاظ بشریت کو کوئی پھنچا سکتے ھیں ؟ جبکہ ان لفظوں کے پیچھے تلخ حقائق اور نا گوارحقائق پنھا ھوں ! کیا ان تمام موجودہ امتیازات کے باوجود آج کی متمدن قوموں کو آزادی و حریت کا بنیان گزار کھا جا سکتا ھے ؟ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد بشری آزادی و برابری کا منشور ساری دنیا میں مان لیا گیا۔ اسی طرح حقوق بشر کو فرانس کے انقلاب کے بعد درست مانا گیا۔ یہ سب صرف زبانی جمع خرچ ھے ۔کیونکہ جس ملک میں ان کے خصوصی منافع پر چوٹ نہ پڑتی ھو وھاں تو اس پر عمل در آمد ھوتا ھے ورنہ مختلف بھانوں سے اس مسئلے کو گول کر دیا جاتا ھے ۔ بھت سے متمدن ملکوں کے رھنے والوں کے لئے اب تک یہ بات ناقابل فھم ھے کہ رنگ و نسل کا اختلاف سبب فضیلت و برتری نھیں ھوا کرتا ۔ اسلام کی طویل ترین تاریخ میں ”نسلی امتیاز “ کا مسئلہ نھیں اٹھا ۔ آج کی طرح کل بھی تمام کالے لوگ کسی احساس کمتری کے بغیر اسلامی اجتماعات اورمذھبی جگھوں پر جمع ھوا کرتے تھے۔ اور معاشرے کے جملہ حقوق سے بھرہ مند ھوا کرتے تھے ۔ بانی ٴ اسلام نے چودہ سو سال پھلے تاریک دنیا میں عملی طور سے اس نابرابری کا خاتمہ کیا اور اسی مقصد کے خاطر اپنی پھوپھی زاد بھن ”زینب “ کا عقد اپنے غلام ”زید بن حارثہ “ سے کیا ۔ ایک دن رسول خدا نھایت ھی حسرت کے ساتھ ”جوئیبر“ ( یہ ایک سیاہ رنگ کے فقیر تھے مگر بھت پرھیزگار لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے) کی طرف دیکہ کر فرمایا! جوئیبر کتنا اچھا ھوتا کہ تم شادی کر لیتے تاکہ شریک زندگی مل جاتی جو دنیا و آخرت میں تمھاری مدد کرتی۔جوئیبر نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر فدا ھوں بھلا کون عورت مجہ سے شادی پر تیار ھو گی ؟ میں نہ حسب رکھتا ھوں نہ نسب ،نہ مال و منال نہ حسن و جمال ۔ پھر کوئی عورت میری بیوی بننا کیونکر گوارہ کرے گی ؟ رسول خدا نے فرمایا : خدا وند عالم نے زمانھٴ جاھلیت کی بے سبب آقائیت کو لغو قرار دے دیا ھے ۔اور جو لوگ اسلام سے پھلے محروم و بے چارہ تھے ان کو آقائیت بخشی ھے ۔ زمانہ جاھلیت میں جو لوگ ذلیل تھے اسلام کی وجہ سے آج صاحب عزت ھیں ۔ اسلام نے زمانھٴ جاھلیت کی خود پسندی ، نسلی و خاندانی تفاخر کے محلوں کو مسمار کر دیا ھے ، آج تمام کالے گورے برابر ھیں ، عرب عجم برابر ھیں سب کے سب آدم (ع) کی اولاد ھیں اور آدم (ع) مٹی سے پیدا کئے گئے تھے ۔ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب و پیارا شخص وھی ھے جوتقویٰ اور پرھیز گاری میںسب سے بھتر ھو ، اے جوئیبر ! میں کسی کو تم سے برتر نھیں سمجھتا البتہ و ہ شخص جس کا تقویٰ اور اطاعت خدا تم سے زیادہ ھو وہ تو تم سے بھتر ھے ورنہ نھیں ۔ اس کے بعد فرمایا : تم قبیلہ ”بنی بیاضہ “ کے شریف ترین شخص ” زیاد بن لبید “ کے پاس جا کر کھو کہ رسول خدا نے فرمایا ھے کہ اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کر دو جس وقت جوئیبر پھنچے تو زیاداپنے قبیلے والوں کے ساتھ گھر میں بیٹھے ھوئے تھے۔ جوئیبر اجازت حاصل کر کے اندر داخل ھوئے اور سب کو سلام کر کے زیاد کو مخاطب کرتے ھوئے کھا : رسول خدا نے مجھے آپ کے پاس ایک حاجت لے کر بھیجا ھے آپ کھئے تو سب کے سامنے عرض کردوں ، یا تنھائی میں عرض کروں ؟ زیاد نے کھا تنھائی میں کیوں ؟نھیں نھیں تم سب کے سامنے کھو ! کیونکہ رسول خدا کا پیغام میرے لئے باعث صد افتخار ھے ۔ جوئیبر نے کھا ! رسول خدا نے فرمایا ھے آپ اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کر دیں۔ زیاد نے کھا : ھم انصار اپنی لڑکیوں کی شادی اپنے سے کم مرتبے والے کے ساتھ نھیں کرتے واپس جاؤ اور رسول خدا کو میرا عذر بتا دو ۔ جوئیبر وھاں سے روانہ ھوئے کہ رسول خدا کو جواب بتا دیں ۔ادھر زیاد بھت پشیمان ھوئے اور ایک آدمی کو بھیج کر جوئیبر کو راستے سے واپس بلالیا اور ان کے ساتھ بڑی مھربانی کے ساتھ پیش آئے اور کھا آپ ٹھھرئیے ، میں پیغمبر اسلام سے بات کر کے آتا ھوں ۔ وھاں پھونچ کر کھنے لگے : میرے ماں باپ آپ پر فدا ھو جائیں جوئیبر آپ کی طرف سے ایک پیغام میرے پاس لائے تھے میں نے چاھا میں خود براہ راست حضور سے بات کرلوں اور عرض کردوں کہ ھم انصار اپنے سے کمتر والے میں لڑکیوں کی شادی نھیں کیا کرتے۔ رسول اسلام نے فرمایا ! اے زیاد ،جوئیبر مومن ھے ،مومن کی ھمسر مومنہ ھوتی ھے ۔ مسلمان کی ھمسر مسلمہ ھوتی ھے ، اپنی بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کر دو ، اس کو داماد بنانے میں ننگ و عار محسوس نہ کرو۔زیاد وھاں سے گھر واپس آئے ۔بیٹی سے پورا قصہ بیان کیا ۔ لڑکی نے کھا! بابا ،رسول کے مشورے پر جوئیبر کو اپنا داماد بنا لیجئے۔ زیاد وھاں سے نکل کر باھر آئے ، جوئیبر کا ھاتھ پکڑ کر قبیلے کے افراد کے پاس لائے اور ان کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ دی۔ مھر و جھیز کا انتظام بھی خود ھی کیا ۔اور زیاد کے حکم سے ایک گھر جس میں لوازمات زندگی موجود تھے جوئیبر کے حوالے کر دیا گیا ۔ اور اس طرح ایک عظیم قبیلے کے بزرگ ترین شخص کی بیٹی ایک فقیر سیاہ رنگ کے ساتھ بیاہ دی گئی جس کے پاس ایمان کے سوا کوئی دولت نہ تھی ۔ ایک جگہ تین مختلف قوموں کے آدمی جمع تھے ۔ سلمان فارسی ،صھیب رومی ، بلال حبشی ، اتنے میں وھاں قیس آیا اس نے تینوں کی اھمیت کو دیکھتے ھوئے کھا : اوس و خزرج تو خیر عرب تھے جنھوں نے اپنی خدمات و فدا کاری کے ذریعے رسول خدا کی مدد کی مگر یہ تین آدمی کھاں سے آٹپکے؟ کس نے ان کو پیغمبر کی مدد کے لئے بلایا تھا ؟ جب رسول خدا کو اس کی خبر ھوئی تو بھت ناراض ھوئے لوگوں کو مسجد میں جمع ھونے کا حکم دیا اور ان سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا :خدا ایک ھے ،تمھارا باپ ایک ھے ۔ تمھارا دین ایک ھے ، جس عربیت پر تم فخر کر رھے ھو ، نہ وہ تمھاری ماں کی طرف سے آئی ھے اور نہ باپ کی طرف سے عربیت تو صرف تمھاری زبان ھے ۔ مشھور فرانسیسی دانش مند ڈاکٹر گسٹاوے لیبون( GUSTAVELEBON)لکھتا ھے :مسلمانوں میں مساوات و برابری حد درجہ تھی ،یورپ میں جس مساوات کا ذکر بڑی شدت سے کیا جاتا ھے اور مختلف لوگوں کے زباں زد ھے یہ صرف کتابوںکی حد تک ھے ۔ خارج میں اس کا کوئی اثر نھیں ھے ۔ یہ چیز مسلمانوں میں عملی طور سے موجود تھی اور مشرقی معاشرت کا جزو تھی ، طبقاتی اختلافات جن کی بناء پر یورپ میں انقلاب آیا مسلمانوں میں نھیں ھے پیغمبر اسلام کی نظر میں ھر مسلمان برابر ھے ۔ دنیائے عرب میں ایک ایسی شخصیت پیدا ھوئی جس نے مختلف اقوام و قبائل کو ایک جھنڈے تلے جمع کردیا ۔ اور ان کو مخصوص قوانین و نظام کی مضبوط زنجیر میں باندہ دیا ۔ کسی بھی مملکت کا رھنے والا مسلمان دوسروں کے لئے اجنبی نھیں ھے ، مثلا ایک چینی مسلمان کا حق اسلامی ملکوں میں اتنا ھی ھے جتنا کسی اسلامی ملک کے رھنے والے کا ھے ۔ اگر چہ خود مسلمان نسل و ملیت کے لحاظ سے اختلاف رکھتے ھیں لیکن مذھبی رشتے کی بنا پر ان کے اندر ایک خاص قسم کا معنوی ربط موجود ھے جس کی بناء پر وہ بھت آسانی سے ایک جھنڈے کے نیچے جمع ھو جاتے ھیں ۔ (۷) ایم یو لوپلائے(M.U.LEPLAV) لکھتا ھے : کاریگروں اور ستم دیدہ افراد کے اصلاح حال کے سلسلے میں برے نتائج سے یورپ میں انتظامیہ دوچار ھوئی ھے ، اسلامی معاشرے میں اس کا وجود نھیں ھے۔ مسلمانوں کے یھاں بھترین انتظامیہ ھے جس کی بناء پر امیر فقیر کے درمیان صلح و آشتی قائم رھتی ھے ۔ صرف اتنا کھہ دینا کافی ھے جس قوم کے لئے یورپ کا دعویٰ ھے کہ ان کو تعلیم دے کر تربیت دینی چاھئے واقعا ًخود یورپ کو اس سے سبق لینا چاھئے ۔ اسلام میں ممتاز طبقے ، موروثی منصب کا کوئی وجود نھیں ھے۔ اسلام کا سیاسی نظام بھت ھی سادہ ھے اور اس نظام کے تحت جن لوگوں کوادارہ کیا جاتا ھے اس میں شریف ، رذیل ، امیر فقیر سیاہ و سفید سب ھی برابر ھیں ۔( ۸) گب(GOB) اپنی کتاب میں لکھتا ھے : اسلام میں ابھی اتنی قدرت ھے کہ انسان کی بزرگ و عالی خدمت انجام دے ۔ اصولی طور پر اسلام کے علاوہ کوئی بھی مذھب یا گروہ ایسا نھیں ھے جو انسان کے مختلف نسلوں کو کسی ایک ایسے مقصد پر جمع کرا کے جس کی بنیاد مساوات پر ھو عظیم کامیابی سے ھمکنار ھو سکے ۔ افریقہ ھندوستان و انڈونیشیا میں عظیم اسلامی معاشرہ اور چین میں یھی چھوٹا معاشرہ اور جاپان میں بھت ھی قلیل اسلامی معاشرہ خبر دیتا ھے کہ اسلام کے اندر ایسی طاقت ھے جو ان تمام مختلف عناصر و طبقات کے درمیان اثر انداز ھو سکے ۔ اگر کبھی مشرق و مغرب کی بڑی حکومتیں اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لئے کسی ترازو کا سھارا لیں تو وہ سوائے اسلام کے اور کوئی نھیں ھو سکتا ۔ مراسم حج میں بھی وحدت فکر و عمل کی بنیا د پر اسلامی تعلیم استوار کی گئی ھے۔ ظاھری امتیازات کا وھاں کوئی شائبہ بھی نھیں ملتا ۔خانہ کعبہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کو اپنی عجیب و غریب قوت جاذبیہ کی بنا ء پر اپنی طرف کھینچ لیتا ھے ۔تمام لوگ صرف ایک قانون کی پیروی کرتے ھیں اور کسی سیاہ و سفید ، سرخ و زرد امتیاز کے بغیر ایک صف میںپھلو بہ پھلو پر شکوہ وباعظمت مراسم کو بجا لاتے ھیں ۔ فیلپ ھٹی(PHILIPHATTI) ایک یونیورسٹی کا استاد لکھتا ھے : اسلام میں فریضھٴ حج کی بنیاد تمام زمانوں میں ایک اھم اجتماع کا سبب ھے اور مسلمانوں میں سب سے بڑا اجتماع یھیں ھوتا ھے ،کیونکہ ھر مسلمان پر واجب ھے کہ زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ۔بشرط استطاعت ۔ اس فریضہ کو بجالائے ۔ یہ عظیم اجتماع جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاروں طرف سے کھینچ لیتا ھے ، عجیب و غریب اثر رکھتا ھے جس کا انکار ناممکن ھے ۔ اپنے خدا کے حضور میں زنگی ، بربری ، چینی ، ایرانی ، ھندی ، ترکی ، شامی ، عربی ، غنی ، فقیر ، بلند ، پست سب ھی مل جل کراور متحد ھو کر کلمھٴ” شھادتین “ پڑھتے ھیں ۔ ساری دنیا میں غالباً ایک اسلام ھی ایسا مذھب ھے جس نے خون ،نسل ، رنگ ، قومیت کے حدود و فاصلوں کو ختم کر دیا ھے اور اسلامی معاشرے کی چار دیواری میں ایسا اتحاد اور یگانگت قائم کی ھے کہ اسلامی نقطھٴ نظر سے افراد بشر کے درمیان کفر و ایمان کے علاوہ کوئی حد فاصل نھیں ھے ۔ اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ یہ عظیم سالانہ اجتماع اس نظریہ کے ما تحت عظیم ترین خدمت انجام دیتا ھے ۔ اورلاکھوں ایسے آدمیوں کے درمیان جو دنیا کے مختلف گوشوں میں زندگی بسر کرتے ھیں، دین و مذھب الٰھی کو منتشر کرتا ھے ۔( ۹) افسو س کی بات ھے کہ بعض اسلامی ممالک میں مختلف نسلی و قومی و ملی تعصب پیدا ھو گیا ھے جو روح اسلام کے قطعاً منافی ھے ۔ اسلام کا عدالتی نظام بھی ایسی برابری و مساوات پر مبنی ھے جس کی مثال آج کی متمدن دنیا میں نھیں مل سکتی ۔ حالانکہ متمدن دنیا کا مقصد برابری ھے لیکن اب تک یہ بات حاصل نھیں ھو سکی ۔ تاریخ کے تاریک ترین دور میں بھی انسانوں کے دلوں میں اسلام نے جو شعلہ روشن کیا تھا وہ خاموش نھیں ھو سکا ۔ ھارون رشید کو قاضی کے سامنے ایک واقعہ میں قسم کھانے کے لئے بلایا گیا تھا اور” فضل بن ربیع “نے ھارون کی موافقت میں گواھی دی تھی لیکن قاضی نے فضل کی گواھی کو رد کر دیا جس پر ھارون کوغصہ آگیا کہ فضل کی شھادت اور گواھی کیوں نھیںمانی جا رھی ھے ۔ قاضی نے کھا کہ میں نے فضل کو یہ کھتے ھوئے سنا ھے کہ وہ تم سے کھہ رھا تھا ” میں آپ کا غلام ھوں “ اگر فضل نے یہ بات سچ کھی تھی تو غلام کی گواھی آقا کے حق میں قبول نھیںھوتی اور اگراس نے جھوٹ کھا تھا تو جھوٹے کی گواھی اسلام میں قابل قبول نھیںھے اس لئے میں نے فضل کی گواھی رد کر دی ۔ منصور خلیفہ عباسی نے حج کے لئے کچھ اونٹوں کو کرایہ پر لیا ،لیکن مراسم حج تمام ھونے کے بعد مختلف حیلوں سے کرائے کو ٹالتا رھا اور نہ دیا آخر شتر بانوں نے قاضی مدینہ کے یھاں شکایت کی ۔ قاضی نے فوراً خلیفہ کو عدالت میں حاضر ھونے کا حکم دیا اور منصور شتر بانوں کے پھلو بہ پھلو عدالت میں آکر بیٹھا ۔ قاضی کا فیصلہ منصور کے خلاف ھوا اسی وقت قاضی نے منصور سے کرایہ وصول کر کے شتربانوں کے حوالے کر دیا۔ ڈاکٹر گوسٹاوے لیبون(GUSTAVELEON)لکھتا ھے : مسلمانوں کے عدالتی امور کا انتظام اور فیصلوں کی ترتیب بھت ھی مختصر و سادہ ھے ۔ ایک شخص جو بادشاہ کی طرف سے حج کے عھدے پر فائز ھوتا ھے ، تمام دعوؤں کو شخصی طور پر خود ھی سنتا ھے اور فیصلہ کرتا ھے اور اس کا حکم قطعی ھوتا ھے ۔ مدعی اور مدعا علیہ عدالت میں حاضر ھو کر اپنے دعوے پر دلیل پیش کرتے ھیں اور پھر اسی نشست میں قاضی کی طرف سے فیصلہ ھو جاتا ھے ۔ اور اسی وقت حکم صادر کر دیا جاتا ھے ۔ مراکش میں مجھے ایک قاضی کی عدالت میں فیصلہ سننے کا اتفاق ھوا ۔ قاضی دار الحکومت کے قریب ایک مکان میں مسند قضا پر بیٹھا تھا مکان چاروں طرف سے کھلا تھا ۔ مدعی اور مد عا علیہ اپنے اپنے گواھوں کے ساتھ اپنی اپنی جگھوں پر بیٹھے تھے اور اپنے مطلب کو سادہ مختصر لفظوں میںبیان کر رھے تھے بعض فیصلوں میں اگر کسی کو کوڑے لگانے کا حکم دیا جاتا تھا تو ختم مجلس کے بعد وھیں کوڑے لگا دئے جاتے تھے۔ اس طرح کی عدالت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھے کہ مدعی اور مدعا علیہ کا قیمتی وقت بچ جاتا ھے اور عدالتی کا رروائیوںکی پیچیدگی اور کمر توڑ مالی نقصان سے آدمی بچ جاتا ھے ۔ سادگی کے باجود تکلفات کے بغیرتمام احکام عدالتی طور پر نافذ ھو جاتے ھیں ۔ معاشرے کے افراد جب اس بات پرمطمئن ھوں کہ ان پر نافذ ھونے والا قانون الٰھی قانون ھے اور قاضی بھی لوگوں کی طرح برابر کا حقوق رکھتا ھے اور مسند قضا پر بیٹھنے والا قاضی ھر حکم خدائی قانون کے ما تحت دیتا ھے اپنی خواھشات سے نھیں دیتا تو ایسی صورت میں لوگوں کی تشویش ختم ھو جاتی ھے ۔ اور معاشرہ کا ھر فرد آرام و سکون سے رھتا ھے ۔ اگر دنیا عدالتی بے راہ روی اور اھر منی چنگل سے نجات چاھتی ھے اور نسلی امتیازات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاھتی ھے تو اس کو اسلام کے سیاسی و انتظامی اصول و قوانین سے روشنی حاصل کرنی چاھئے۔ لیکن آج کی دنیا میں قومی مسائل ، جغرافیائی منطقوںاور نسلی امتیاز کے ارد گرد گھومتے ھیں اس لئے آج کی دنیا موجودہ مشکلات کو حل کرنے پر قادر نھیں ھے ۔ اور نہ روئے زمین پر بسنے والی قوموں کو تمام اختلافات کے باوجود باھم مربوط کر سکتی ھے۔ دوسری طرف جدید نیشنیلیزم(NEW NATIONALISM)کی دل فریب باتیں آج بھت سے ملکوں میں جڑ پکڑتی جا رھی ھیں جس کی وجہ سے وہ ممالک خود ھی تشتت و پراگندگی ، نزاع و کشمکش کا شکار ھیں ۔ لویس ایل سنایڈر( LOESL.SNAEDER) امریکہ یونیورسٹی کا استاد اس حقیقت کو اس طرح بیان کرتا ھے : جدید نیشنلیزم کے ضمن میں بے شمار تاریخی و طبیعی کشمکش پیدا ھو گئی اور اقتصادی و فرھنگی مناسبات جوان میں مدت سے برقرار تھیں ۔وہ بھی ختم ھو گئیں ۔ اس کا قھر ی نتیجہ بے امنی تھا جس کی وجہ سے بھت سی جگھوں پر شخصی آزادی کی محدودیت ،جنگی اسلحوں کی کثرت ، بین المللی روابط کی قلت کی صورت میں ظاھر ھوا ۔ استقلال و حاکمیت جوبیسویں صدی کے آخر میں زیادہ وسیع ھوئی اور جس کو مقدس شمار کیا جاتا ھے، اس میں یہ صلاحیت نھیں تھی جو شخصی آزادی کو وسعت دے سکے اور بین المللی روابط کے لئے اطمینان بخش ھو سکے ۔(۱۰) صر ف ایک چیز جو سب کو ایک پرچم کے نیچے لا سکتی ھے اور بشریت کی خدمت کر سکتی ھے وہ وھی اتحاد و یگانگت ھے جو ایمان باللہ اور روحانی و اخلاقی فضائل کے محور پر گھومتی ھے ۔ کیونکہ اس قسم کے اتحاد میں برادری کی روح بیدار ھوتی ھے اور دل و فکر باھم مربوط ھو جاتے ھیں ۔ نسلی امتیاز ، قومی اختلاف قسم کی چیزیں اس میںخلل انداز نھیں ھو سکتیں ۔ اسلام انسانی معاشرے کو بھت اونچا کرنا چاھتا ھے اور چاھتا ھے مسلمانوں میں اتحاد رھے اور ان کے دل پاک اور انسانی احساسات سے بھر پور رھیں ۔ خدا نے دنیا اس لئے نھیں پیدا کی ھے کہ انسانی قلوب میں شگاف و فاصلے باقی رھیں ۔ ارشاد ھوتا ھے : ’ انسانو ھم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ھیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پھچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ھے جو زیادہ پرھیز گار ھے وہ اللہ ھر شے کا جاننے والا اور ھربات سے با خبر ھے “۔( ۱۱) اسلامی برادری ایک بھت ھی اھم و واقعی مسئلہ ھے جس میں ھر قسم کی محبت و عطوفت کو ھونا چاھئے ۔ اگر چہ مغربی غلط افکار کے تاثر کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں روح مادیت و سود خوری وسیع ھو گئی ھے لیکن پھر بھی بھت سے مسلمانوں کی زندگی ان خرافات سے خالی ھے ۔ اسی لئے ایک مغربی سیّاح کھتا ھے: شفقت ، مھربانی ، مھمان نوازی ، غریب پروری ، مشرقی لوگوں کا خاصہ ھے جس میںاسلامی تعلیمات نے اور زیادہ جلا بخشی ھے ۔ ان میں سے تھوڑی سی بھی خصوصیت یورپی لوگوں میں نھیں پائی جاتی ۔ حوالہ: ۱۔سورہ آل عمران / ۶۴. ۲۔سور ہ حجرات/ ۱۳. ۳۔ تفسیر برھان. ۴۔نھج البلاغہ خطبہ ۲۲۷. ۵۔ماھنامہ مردم ۔ شمارہ دوم ۔ سال سوم. ۶۔نھج البلاغہ۔ ۷۔ تمدن اسلام و عرب ص ۱۴۶۔۵۱۶۔۵۱۷۔ ۸۔تمدن اسلام و عرب ص ۵۱۵۔۵۱۶۔ ۹۔اسلام از نظر گاہ دانش مندان غرب ص ۲۳۹۔۲۴۰۔ ۱۰۔جھان در قرن بیستم ص ۳۴۔۳۵۔ ۱۱۔سورہ حجرات / ۱۳۔ منبع: ishraaq.in