اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود
اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود
0 Vote
137 View
اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود
جس موضوع کے بارے میں گفتگو کی فرمائش کی گئی ہے وہ ہے'' اسلام کی نظر میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود ''ہر موضوع پر گفتگو کرنے یا اس بحث میں داخل ہونے سے قبل ضروری ہے کہ پہلے اس کا موضوع اور عنوان واضح ہوجائے پھر اس کے بعد اس کی متعلق باتوں کی وضاحت کی جائے ۔
یہاں پر سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ سے کیا مراد ہے ؟پھر اس کے بعد اس کی حدوں کو معین کریں گے ۔
جاذبہ ،دافعہ اوراسلام کے مفاہیم کی وضاحت
ہم سبھی لوگ جاذبہ اور دافعہ کے مفہوم سے واقف ہیں ؛ہم جس وقت اس اصطلاح کو سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں عام طور سے وہ جذب اور دفع آتا ہے جو کہ مادی اور طبعیی چیزوں میں بیان ہوتا ہے ؛خاص طور سے آپ اساتیدکے لئے جو کہ انجینئرنگ شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں معمولاً '' نیوٹن ''کا عام قانون جاذبہ ذہن میں آتا ہے؛ دافعہ کا مصداق بھی طبیعی علوم میں وہ طاقت ہے جو مرکز سے علیحدہ اور جدا کرنے والی یا وہ دافعہ جو دو ہمنام مقناطیسی قطب کے درمیان پایا جاتا ہے؛ لیکن جب یہ مفہوم انسانی اور اجتماعی علوم میں آتا ہے تو فطری طور سے وہ بدل جاتا ہے اس وقت اس سے مرادیہ طبیعی اور مادی جذب و دفع نہیں ہوتا بلکہ نفسیاتی اور معنوی جذب و دفع مراد ہوتا ہے، یعنی جیسے انسا ن احساس کرتا ہے کہ کوئی چیز اس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور وہ چاہتا ہے اس کے نزدیک ہو جائے ،یہاں تک کہ اگر ممکن ہو تو اس سے مل کر ایک ہو جانا چاہتا ہے، یا اس کے بر خلاف بعض انسانوں کو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بعض چیزوںیا بعض لوگوں سے قریب ہونا نہیں چاہتے ہیں ،ان کا وجود اس طرح ہوتا ہے کہ وہ ان سے دور رہنا چاہتے ہیں ۔اس روحی اور نفسیاتی جذب و دفع کا سبب ممکن ہے ایک مادی چیز،ایک شخص یا ایک عقیدہ یا فکرونظر ہو ۔کبھی کوئی منظر اتنا اچھا اور دلکش ہوتا ہے کہ بے اختیار آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اگر چہ جسمانی لحاظ سے آپ اس کے نزدیک نہیں ہوتے ہیں اور اپنی جگہ پر کھڑے رہتے ہیں؛ لیکن آپ کی پوری توجہ اور حواس کو اپنی طرف معطوف کرلیتاہے، اور آپ اس کو دیکھنے میں غرق ہو جاتے ہیں؛ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کانپھاڑنے والی آواز یا ناقابل برداشت منظرکو دیکھ کرچاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو اس سے دور ہو جائیں ۔
ایک انسان کی شخصیت کا جاذب ہونابھی اس معنی میں ہے کہ ظاہری اور جسمانی خصوصیات کے علاوہ اس کے اندر اخلاقی اور روحانی صفات بھی موجو د ہوں جو کہ اس کی طرف دوسرے لوگوں کی رغبت اور کشش کا سبب بنیں ؛ جولوگ با ادب چال ڈھال رکھتے ہیں اورلوگوں سے خوش اخلاقی سے ، ہنستے ہوئے چہرے اور خلوص و محبت کے ساتھ ملتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں بس جاتے ہیں اور سبھی لوگ ان کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ملنا جلنا اور ان سے قریب رہنا چاہتے ہیں؛ لیکن جو لوگ بے ادب ،برے اخلاق کے مالک اور خود خواہ ہوتے ہیں ایسے افراد گویا اپنے کو لوگوں سے دور رکھتے ہیں اور اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ لوگ ان سے دور رہیں ؛لیکن جس وقت جاذبہ اور دافعہ کی بات کسی انسان سے متعلق ہو تو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ اس وقت یہ مسئلہ کلچر اورماحول کے تابع ہوتا ہے یعنی ممکن ہے کہ بعض خصوصیات کو کسی ایک سماج یا معاشرہ میں اچھی نظر سے دیکھاجاتاہولیکن وہی خصوصیات دوسرے معاشرہ میں کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں بلکہ انھیں بری نظر سے دیکھاجاتاہے اب ظاہر ہے کہ جو شخص ان خصوصیات کا مالک ہوگا وہ پہلے معاشرہ کے نزدیک ایک جاذب وپر کشش شخصیت شمار کیا جائے گا نیزلوگوں کی نظروں میں پسندیدہ ہوگا اور لوگ اس کا احترام کریں گے لیکن وہی شخص دوسرے کلچر اور سماج میں معمولی انسان بلکہ قابل نفرت ہوگا ؛بہر حال میرے عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انسان کی شخصیت میں جو جاذبہ یا دافعہ ہوتاہے وہ سماج کے ماحول اورتہذیب و ثقافت کے اعتبار سے فرق رکھتا ہے ۔بہر حالیہ مسئلہ ایک جدا گانہ اور مستقل بحث ہے جس کو اس وقت ہم بیان نہیں کریں گے ۔
یہاں تک ہم نے جو توضیحات پیش کیں ان سے جاذبہ اور دافعہ کا مفہوم کسی حد تک روشن ہوگیا ؛لیکن ہماری بحث کا موضوع ''اسلام میں جاذبہ اور دافعہ ہے'' لہذٰا ہماری مراد ''اسلام '' سے جو کچھ بھی ہے اس کو واضح ہونا چاہئے، ہماری نظر میں عقائد اور قواعد و احکام کے مجموعہ کا نام اسلام ہے اس میں اعتقادی اور اخلاقی مسائل بھی اور فردی قوانین اور اجتماعی قوا نین بھی شامل ہیں؛ جس وقت ہم کہتے ہیں کہ اسلام ایسا ہے اور اسلام ویسا ہے توہماری مراد اسلام سے یہی اعتقادات اور اس کے قواعد و احکام ہیں؛ اس بحث میں جب ہم یہ کہتے ہیں'' اسلام میں جاذبہ اور دافعہ'' تو اس وقت ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ جاذبہ اور دافعہ جو کہ اسلام کے اعتقادی اور اخلاقی قواعد و اصول میں نیز اس کے تمام احکام قوانین میں پائے جاتے ہیں ۔ عقائد کے حصہ میں اسلام کا جاذبہ رکھنا اس معنی میں ہے کہ اسلامی عقائد انسان کی حقیقت پسند فطرت کے موافق ہیںیعنی وہ عقائد جو کہ حقائق ہستی کی بنیاد پر استوار ہیں چونکہ انسان کی فطرت حقیقت کو چاہتی ہے اور یہ عقائد انسانی فطرت کے مطابق ہیں لہذا یہ انسان کے لئے جاذبہ ہو سکتے ہیں ۔ بہر حال وہ جاذبہ اور دافعہ جو کہ اسلامی عقائد سے مربوط ہیں فی الحال ہماری بحث میں شامل نہیں ہیں یہاں پراس جاذبہ اور دافعہ کی بحث زیادہ اہم ہے جو کہ اسلامی احکام اور اخلاق سے مربوط ہیںخاص کر وہ جاذبہ اور دافعہ جو اسلام کے دستوری اور تکلیفی احکام سے مربوط ہیں،اور ہم زیادہ تر اس بات کو دیکھیں گے کہ کیا تمام قواعد و احکام اسلامی انسان کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں یا دافعہ؟
کیا اسلام کے بارے میں دافعہ کا تصوّرممکن ہے ؟
ممکن ہے یہ سوال ذہن میں آئے کہ اگر تمام اسلامی معارف و احکام؛ انسانی فطرت اور طبیعت کے مطابق بنائے گئے ہیں لہذ اٰ طبعی طور پر اس کے لئے جاذبہ ہونا چاہئے پس اس کے لئے دافعہ فرض کرنا کیسے ممکن ہے ؟ !
اس کا جواب یہ ہے کہ انسان فطری طور پر حقیقت کا متلاشی اور بلندیوں کا خواہاں نیز اچھی چیزوں کا طالب ہے ؛لیکن اس کے علاوہ بہت سے شہوانی اور فطری امور بھی انسان میں پائے جاتے ہیں کہ بہت سے مقامات پر ان مختلف فطری اور شہوانی امور کے درمیان تزاحم اور اختلاف پیدا ہوتا ہے یاایک دوسرے کو دور کر دیتا ہے ۔یااس بحث کے خلط اور اشتباہ سے بچنے کے لئے دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ انسان کی مادی اور حیوانی خواہشات کو جذبہ شہوت وخواہش کا نام اور اس کی دوسری تما م خواہشوں کو فطرت کا نام دیا گیا ہے ،بہت سے مقامات پرفطرت اور خواہشوں کے درمیان نا ہماہنگی پائی جاتی ہے، شہوت اور خواہش صرف اپنی تکمیل چاہتی ہے انصاف و عدالت کو نہیں دیکھتی ہے، بھوکا پیٹ آدمی صرف روٹی کھانا چاہتا ہے حلال و حرام ، اچھا ،برا ،اپنا مال ہے یا غیر کا ،اس سے اس کو مطلب نہیں ہے چاہے اس کو حلال و جائز روٹی دیں یا حرام و نا جائز اس کو پیٹ بھر نے سے مطلب ہے، انسان کی آرام پسند طبیعت پیسیے اور اپنی آرام دہ زندگی کی تکمیل کے پیچھے لگی رہتی ہے یہ پیسہ چاہے حلال طریقے سے حاصل ہو یا حرام ذریعہ سے اس کے لئے سب برابر ہے ۔
لیکن انسان کی فطرت انصاف کی طالب اور امانت و عدالت کے موافق ہے نیز حق کو غصب کرنے اور ظلم و خیانت سے بیزار ہے ،اس عدالت طلب اور ظلم سے گریزاں فطرت کے بر خلاف کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صرف خیانت اور ظلم و ستم کا سہارا لینا پڑتا ہے؛ یہی وہ مقام ہے جہاں پر انسان اگر حقیقی کمال کو چاہتا ہے تو اس کو مجبوراً ان خواہشات اور لذتوں سے اپنے کو بچانا ہوگا ؛بعض چیزوں کو نہ کھائے ،نہ پئے،نہ اوڑھے پہنے،نہ دیکھے اورنہ سنے ؛خلاصہ یہ کہ اپنے کو محدود و مقید رکھے ۔ اسلام بھی انسان کو حقیقی کمالات تک پہونچانا چاہتا ہے؛ لہذا ان جگہوں پر فطری پہلو کو اختیار کرتا ہے اور خواہشات نفسانی اور مادی ضروریات کو محدود کرتا ہے؛ ان مقامات پر جو لوگ اپنی خواہشات نفسانی پر کنٹرول نہیں رکھتے ہیں ؛یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ حیوانیت ان پر غالب رہتی ہے تو طبعی اور فطری بات ہے کہ بعض اسلامی احکام ان کے لئے جاذبہ نہیں رکھتے ہیں بلکہ دافعہ رکھتے ہیں ،اسلام نے ایک مکمل دستور دیا ہے جو کہ فطرت اور خواہش دونوں کے مطابق ہے اور اس مفہوم کی آیات اور روایات بہت کثرت سے پائی جاتی ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :
''کلوا من الطیبات ما رزقناکم''(١)یعنی جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو رزق میں دی ہیں ان میں سے کھائو پیونیزیہ بھہ ارشاد فرماتا ہے:'' کلوا و اشربوا '' (٢)کھائو اور پیو ایسے احکام اور دستور انسان کے لئے مشکل نہیں رکھتے ہیں لیکن جس وقت اسلام کہتا ہے کہ شراب نہ پیوسور کا گوشت نہ کھائو وغیرہ تویہ دستور ہر ایک کے لئے جاذبہ نہیں رکھتے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ احکام اچھے نہیں لگتے ۔
..............
(١) سورہ اعراف : آیہ ١٦٠ ۔
(٢) سورہ اعراف :آیہ ٣١۔
اسلامی احکام میں دافعہ کا ایک تاریخی نمونہ
یہاں پر مناسب ہوگا کہ تاریخ اسلام کے ایک واقعہ کی جانب اشارہ کرتا چلوں؛ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اکرم حضرت محمد(صلی الله علیه و آله وسلم)کے زمانے میں نجران کے عیسائی رسو ل(صلی الله علیه و آله وسلم)کے پاس توحیدی عقائد سے متعلق بحث و مناظرہ کے لئے آئے؛ لیکن علمی بحث میں ان لوگوں کوشکست ہوئی، اس کے بعدبھی ان لوگوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا رسول اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم)نے ان لوگوں کو مباہلہ کی دعوت دی ؛ان لوگوں نے اس مباہلہ کو قبول کیا ؛جس وقت پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم)اپنے محبوب اور سب سے خاص لوگوں یعنی امام علی ، حضرت فاطمہ اور امام حسن و امام حسین کو ساتھ لیکر مباہلہ کے لئے گئے اور نصاریٰ کے علماء کی نگاہ ان پانچ نورانی چہروں پر پڑی ؛تو ان لوگوں نے کہا کہ جو کوئی بھی ان حضرات سے مباہلہ کرے گا اس کے حصّہ میں دنیا و آخرت کی رسوائی اور ذلت ہوگی؛ لہذٰا وہ لوگ پیچھے ہٹ گئے اور مباہلہ نہیں کیا ؛ان عیسائیوں نے علمی گفتگو میں بھی شکست کھائی اور مباہلہ بھی نہیں کیا لیکن پھربھی مسلمان ہونے کو تیار نہیں ہوئے اور کہا کہ ہم جزیہ (ٹیکس ) دیں گے لیکن عیسائی رہیں گے ۔
جب اصحاب نے پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم)سے پوچھا کہ آخر وہ لوگ اسلام قبول کرنے پر تیار کیوں نہیں ہوئے؟ تو حضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نے فرمایا :کہ جو عادت اور چاہت ان کو سور کے گوشت کھانے اور شراب پینے کی تھی ،ان چیزوں نے اس سے ان کو مانع رکھا،چونکہ اسلام نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے لہذٰا ان لوگوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا
یہ ایک تاریخی نمونہ ہے کہ اسلام کی حقانیت ایک گروہ اور جماعت کے لئے ثابت اور واضح تھی لیکن بعض اسلامی احکام ان کے لئے ''دافعہ''رکھتے تھے جو اس بات سے مانع ہوا کہ وہ لوگ اسلام کو قبول کریں ؛یعنی ان کی انسانی فطرت ، حیوانی خواہشات سے مقابلہ کیا ،اس تعارض و ٹکرائو میں انھوں نے نفسانی خواہشات کو مقدم کیا ۔یہ مسئلہ صرف نجران کے عیسائیوں سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ان تمام لوگوں سے متعلق ہے جنھوں نے الٰہی اور خدائی تربیت سے اپنے کو مزین اور آراستہ نہیں کیا ہے ،یا جو لوگ جسمانی اور حیوانی خواہشوں سے مغلوب ہیں ۔ وہ احکام اور دستورات جو کہ انسان کے مادی خواہشات کو محدود کرتے ہیں وہ ہی لوگوں کے لئے ''دافعہ'' ہیں اور جیسا کہ اشارہ ہوا اسلام میں ایسے بہت سے قوانین پائے جاتے ہیں قانوں اسلامی جو یہ کہتا ہے کہ ٤٠ درجہ گرمی میں ١٦ گھنٹے اپنے کو کھانے پینے سے روکے رکھو؛اور روزہ رکھو یہ انسانی خواہشات سے میل نہیں کھاتا، ان کے لئے یہ کام مشکل ہے خاص طور سے نان وائیوں کے لئے( جو کہ روٹیاں وغیرہ پکاتے ہیں) اس لئے کہ وہ مجبوراًآگ کے قریب رہتے ہیں، پھر بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ چلچلاتی دھوپ یا شعلہ ور آگ کے قریب رہ کر بھی ان احکام پر خوشی سے عمل کرتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں،لیکن ایسے تربیت شدہ بہت کم نظر آئیں گے ۔یا مثلاًخمس ہی کا قانون ممکن ہے ہمارے اور آپ جیسے لوگوں کے لئے کہ شاید سال میں ہزارروپیہ سے زیادہ نہ ہو اس ہزارروپئے کے نکالنے میں کوئی مشکل اورپریشانی نہیں ہے ،ہو لیکن جن لوگوں کے ذمہ لاکھوں روپئے خمس نکالنا ہو ان کے لئے بہت ہی مشکل کام ہے، اسلام کے اوائل میں بہت سے لوگوں نے صرف اسی حکم زکواة کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ دیا اور رسول(صلی الله علیه و آله وسلم)کے خلاف ہو گئے؛ اور جس وقت رسول(صلی الله علیه و آله وسلم)کا ایلچی ان کے پاس زکواة لینے کے لئے جاتاتھا تو ان لوگوں نے کہا کہ رسول بھی ٹیکس لیتے ہیں؛ ہم کسی کو بھی خراج اور ٹیکس نہیں دیں گے ؛یہ قانون ان کے لئے دافعہ تھا اور یہی سبب بنا کہ ان لوگوں نے اسلام سے دوری اختیار کر لی یہاں تک کہ اس کی وجہ سے وہ لوگ خلیفہ مسلمین سے جنگ کرنے کو تیار ہو گئے ۔
یا مثلاً اسلام جنگ و جہاد کا حکم دیتا ہے یہ فطری بات ہے کہ جنگ میں حلوا، روٹی کھانے کو نہیں ملتی بلکہ مارے جانے ، قید ہونے ،اندھے ہونے،ہاتھ پیر کٹنے اور دوسرے بہت سارے خطروں کا امکان رہتا ہے، بہت سے لوگ ان خطروں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور حکم جنگ یا میدان جنگ میں جانے کے مخالف ہیں؛اس کے بر خلاف بہت سے مجاہد (سپاہی ) ایسے بھی ہیں جو میدان جنگ میں جانے کے لئے ہر طرح سے آمادہ دکھائی دیتے ہیں اور بہت ہی شوق سے ان خطرات کو قبول کرتے ہیں ؛پھر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ حکم بہت سے لوگوں کے لئے جنھوں نے اپنے کو ایسا نہیں بنایا ہے کوئی جاذبہ نہیں رکھتا ہے؛ اور کسی بھی بہانے سے اپنی جان چراتے ہیں اور اس کام سے فرار اختیار کرتے ہیں ۔
لہذا اس سوال کا جواب کہ اسلام کے احکام و قوانین جاذبہ رکھتے ہیں یا دافعہ؟ یہ ہے کہ عام لوگوںکے لئے بعض اسلامی دستورات جاذبہ رکھتے ہیں اور بعض احکام دافعہ رکھتے ہیں ۔
عملی میدان میں جاذبہ اور دافعہ کے سلسلے میں اسلامی حکم
اب یہ سوال کہ مسلمانوں کا برتائو اور ان کا طور طریقہ آپس میں ایک دوسرے کے متعلق بلکہ غیر مسلمانوں کے ساتھ کیسا ہوناچاہئے؟اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد جاذبہ پر ہے او ر اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگوں اوراسلامی معاشرہ کو سعادت اور کمال تک پہونچائے لہذٰ ااسلامی معاشرہ کا برتائو ایسا ہونا چاہئے کہ دوسرے افراد جو لوگ اس ماحول اور سماج سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی جانب متوجہ ہوں اور اسلام ان کے لئے واضح ہوجائے اور وہ لوگ راہ راست پر آجائیں ۔ اگر لوگ اسلامی ماحول اور اسلامی مرکزسے دور رہیں گے تو ان تک اسلام نہیں پہونچایا جا سکتا اور وہ لوگ ہدایت نہیں پا سکتے ۔ لہذٰا اہم اور اصل یہ ہے کہ مسلمان ایسی زندگی بسر کریں کہ وہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے جاذبہ رکھتے ہوں اور روز بروز ان کے درمیان اپنائیت اور یکجہتی بڑھتی رہے اور غیرمسلم جو کہ اس ماحول سے الگ اور جدا ہوں ان کے متعلق بھی جاذبہ رکھنا چاہئے تا کہ ان کی بھی ہدایت ہو سکے اگر چہ اسلام کی اصل جاذبہ کی ایجادپر ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ہر حالت میں ایک ہی رفتار رکھیں ؛بلکہ بعض مواقع پر دافعہ کی چاشنی اور مٹھاس سے بھی فائدہ حاصل کرنا چاہئے ۔ اس بات کی وضاحت کے لئے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے اس جلسہ میں جو وقت باقی رہ گیا ہے اسی اعتبار سے کچھ باتوں کو پیش کررہا ہوں اور بقیہ باتوں کو بعد میں عرض کروں گا، ا ن شاء للہ ۔
جاذبہ رکھنے والے اسلامی کرداروں کے بعض نمونے
مذہب اسلام میں عدل و انصاف،احسان ، لوگوں کے ساتھ بہتر سلوک اور لوگوں کو خوش رکھنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے ؛اسلام کی بڑی عبادات میںسے ایک یہ بھی ہے کہ ایک انسان دوسرے کو خوش کرے اور اگر دوسرا غمگین و رنجیدہ ہو تو اس کے رنج وغم کوکسی نہ کسی طرح دور کرے ۔بعض روایتوں میں ایک مومن کو خوش رکھنے اور اس سے رنج و غم کو دور رکھنے کا ثواب سالوںکی عبادت سے بہتر ہے یہاں تک کہ اگر یہ کام صرف اتنا ہو کہ اس کے ساتھ محبت آمیز برتائو کرے یا ایسی بات کہے جس سے اس کو امید ہوجائے اور اس کو سکون دل پیدا ہو جائے مثلاً مومن کو دیکھ کر مسکرانا ،اس سے ہاتھ ملانا اور اس کو گلے لگانا ، بیماری کے وقت اس کی عیادت کرنا ، اس کے کاموں میں اس کی مدد کرنا جو کہ مسلمانوں کے درمیان ہماہنگی دوستی اور جاذبہ کا سبب ہیں ان سارے کاموں کا ثواب اسلامی ر و ا یات میں بہت کثرت کے ساتھذکر کیا گیا ہے؛ اسلام صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کے علاوہ ان میں سے بہت سارے احکام اور دستورات کو غیر مسلموں سے متعلق بھی بتاتاہے اور اس کے متعلق بہت ہی تاکید کرتا ہے ؛اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم تمھارا پڑوسی ہے یا تم اس کے ساتھ سفر کر رہے ہو تووہ تم پرحق پیدا کر لیتا ہے کہ اگر بیچ راستے سے کسی مقام پر وہ تم سے الگ ہو رہا ہے تو جب وہ اپنے راستے پر جانے لگے تو خدا حافظی کے لئے چند قدم اس کے ساتھ جا ئو اور اس کے بعد رخصت کر کے اس سے جدا ہوئواور اپنا راستہ اپنائو،اسلام عدل و انصاف کی ہر ایک کے ساتھ تاکید کرتا ہے حتیّٰ کافروں کے ساتھ بھی ؛نیز کافر وں پر ظلم و ستم کو ناجائز سمجھتا ہے ،اگر کوئی کافر ہے تب بھی تم اس پر ظلم و ستم کا حق نہیںرکھتے ہیں :''ولایجرمنکم شنٰان قوم علیٰ الاّ تعدلوااعدلواھواقرب للتقویٰ''(١)اور خبر دار کسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کو ترک کر دو انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے حتیّٰ کفّار کے متعلق صرف عدل و انصاف ہی کرنا کافی نہیں ہے بلکہ احسان (اچھا سلوک ) جس کا مرتبہ عدل سے بڑھ کر ہے اس کے متعلق بھی خدا کا حکم ہے کہ اس کوبھی کرنا چاہئے ، ارشاد ہوتا ہے ''لا ینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوھم و تقسطوا الیھم '' (٢) اللہ ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے تم کو نہیں روکتا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو، بعض موقعوں پر اس سے بڑھ کر حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مسلمان
..............
(١) سورہ مائدہ آیہ ٨.
(٢) سورہ ممتحنہ آیہ ٨.
اسلامی حکومت میں جوٹیکس دیتے ہیں تو اس ٹیکس میں سے کچھ ان کفار کودو جو کہ اسلامی حکومت کی سرحداور اس کے پڑوس میں زندگی بسر کرتے ہوں تا کہ وہ لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہوں اور اسلام میں گھل مل جائیں(١)بلکہ ان کو تھوڑا بہت صرف اس لئے دو تاکہ ان کا دل مسلمانوں کے حوالے سے نرم ہو اور وہ لوگ مسلمانوں پر مہر بان ہوں اور ان کے دلوں میں مسلمانوں اور اسلام کی محبت پیدا ہو؛ ایسا سلوک کرنے سے دھیرے دھیرے ایسا ماحول بن جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تم سے قریب ہوں اور وہ تم سے مانوس ہو جائیں؛ پھر وہ تمھاری زندگی کا قریب سے جائزہ لیںگے اور تمھاری باتوں کو سنیںگے؛ ممکن ہے کہ وہ متاثرہو کر مسلمان ہو جائیں ؛ایسی مثالیں تاریخ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ کفّار مسلمانوں سے رابطہ رکھنے ، اسلام کی منطقی باتیں سننے اور پیروان اسلام کی رفتارو گفتار اور ان کی سیرت و اخلاق کا مشاہدہ کرنے کی وجہ سے اسلام کو قبول کر لیابہر حال یہ چند نمونے تھے جنکو اسلام نے جاذبہ کے لئے اپنے دستورات اور احکام میں جگہ دی ہے ۔
..............
(١) مفہوم سورہ توبہ : آیہ ٦٠۔
کیا اسلام کردار میں ہمیشہ جاذبہ کی تاکید کرتا ہے؟
جس بات کی جانب توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام جس جاذبہ کی سیاست کو اپنانے کا حکم دیتا ہے چاہے وہ مسلمانوں سے متعلق ہو یا کفار سے یہ حکم کلیت نہیں رکھتا ہے؛ بلکہ کبھی کبھی یہی دافعہ کا بھی حکم رکھتا ہے اور اس کو اپنانے کا حکم دیتا ہے؛ کبھی کبھی محبت و احسان، روحی رشد و تکامل اور ہدایت کا سبب نہیں بنتے اس کے بر خلاف اس کے مقابل میں ایک دیوار کھڑی کر دیتے کبھی کبھی حیوانی خواہشات اور مادی شہوات کے اثر سے اور دوسرے اجتماعی عوامل یا گھریلو تربیت اور اس جیسے اثرات کی وجہ سے انسان کے اندر ستم گری آوارگی اور درندگی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے؛ اور اس حال میں اگر اس کو نہ روکا جائے تو وہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ دھیرے دھیرے اور دن بہ دن برائیوں اور بد بختیوں کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے اور اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی تکلیف و اذیت اور ان کے حقوق کی بربادی کا سبب بنتا ہے ۔
ایسی جگہوں پر خود اپنی اورمعاشرہ کی اصلاح کے لئے اس کو متنبہ کرنا چاہئے تا کہ وہ برائیوں سے باز آ کر اچھائی اور نیکی کے راستے پر وا پس آجائے یعنی اس تنبیہ کے اندر رحمت بھی ہے اور یہ تنبیہ خود اس کو زیادہ گمراہ ہونے سے بھی روکتی ہے او ردوسروں تک اس کی برائی پہونچنے سے ھی مانع ہوتی ہے ۔ البتہ ظاہری تنبیہ چاہے مالی اعتبار سے جرمانہ کی شکل میں ہو، چاہے کوڑے کی سزا ہویا قتل یا قیدیا دوسری اور سزائیں ،بہر حال یہ سب انسان کے لئے تکلیف اور زحمت کا سبب ہوتا ہے اور فطری طور پر کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہوتا ہے بہر حال اسلام کہتا ہے کہ خاص حالات میں تمھاراسلوک خشونت اور سختی کے ساتھ ہونا چاہئے اور دافعہ رکھنا چاہئے ،کیونکہ ہر جگہ پر جاذبہ مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے ۔
پچھلی بحث کا خلاصہ
یہاں تک کی گفتگو کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہوا کہ سب سے پہلے ہم نے اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی تعریف بیان کی ؛جیسا کہ ہم نے کہا کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ ممکن ہے کسی چیز یا انسان یا پھر عقیدہ و فکر سے مربوط ہو، اسلام کے متعلق ہم نے بیان کیا کہ وہ عقیدے اور احکام اور اخلاق کے مجموعہ کا نام ہے جاذبہ اور دافعہ، اسلام میں ان تینوں میں کسی سے بھی مربوط ہو سکتا ہے اس کے بعد اسلام کے احکام وقوانین سے مربوط جاذبہ اور دافعہ کے متعلق بحث کی اس بحث کے ذیل میں ہم نے عرض کیا کہ اسلام میں کچھ احکام ہیںجو کہ لوگوں کو پسند ہیں اور اکثر لوگ اس کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور بہت سے ایسے احکام بھی ہیں جو لوگوں کو پسند نہیں ہیں اور اس کی جانب رجحان نہیں رکھتے ہیں اور وہ ان کے لئے دافعہ ہیں عطر لگانا ،مسواک کرنا،صاف ستھرے رہنا ،اچھا اخلاق ، سچّائی، امانت داری، انصاف اور احسان یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ اسلام ان کا حکم دیتا ہے اور یہ سب لوگوں کے لئے جاذبہ رکھتی ہیں ۔روزہ رکھنا ، جہاد کرنا ،میدان میں جانا ،مالیات جیسے خمس و زکواة کا ادا کرنا یہ سب ایسے احکام ہیں جو کہ اسلامی قوانین کے زمرہ میں آتے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو یہ سب اچھا نہیں لگتا ہے، اور ان کے لئے دافعہ رکھتا ہے؛ اس کے بعد اصل موضوع کو پیش کیا کہ اسلام کا دستور مسلمانوں کے لئے دوسروں کے ساتھ برتائو کے سلسلے میں کیا ہے ؟
کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھیں اور مسکرا کر بولیں اور صرف جاذبہ سے استفادہ کریں یا بعض جگہوں پر خشونت وسختی اور دافعہ کا بھی حکم دیتا ہے ؟ جو وضاحت ہم نے پیش کی اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیمات میں دونوں کا حکم ہے اگر چہ ایسے موارد بہت کم ہیں کہ جن میں دوسروں کے ساتھ مسلمانوں کا برتائوخشونت آمیز ہو۔لیکن پھر بھی ایسے مواقع پائے جاتے ہیں ان کے نمونے ان شاء للہ آ ئندہ جلسوں میں پیش کئے جائیں گے ۔
http://www.taghrib.ir/