قرآن و حدیث کی روشنی میں صدقہ
قرآن و حدیث کی روشنی میں صدقہ
Author :
محمد رمضان توقیر
0 Vote
181 View
مقدمہ: جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان کا خرچ اس دانے کی مانند ہے جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں۔ اور خدا وند عالم وسعت دینے والا ہے۔ اس آیت میں دانہ اور اس کے اگنے کی مثال بیان کی گئی ہے اور صدقہ کی افزائش و نمود کو بیان کیا گیا ہے اور راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کو پر برکت دانوں سے تشبہیہ دی ہے۔ وہ بڑی حسین اور عمیق تشہبیہ ہے۔ قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہر انسان کا عمل اس کے وجود کا پر تو ہے۔ جتنی اس کے عمل میں وسعت پیدا ہو گی اتنا ہی اس کا وجود وسعت پذیر ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کا عمل اسکی قوت اور جسمی مواد کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ صدقہ، قرآن و حدیث کی روشنی میں:۔ ما نقصت صدقة من مال وما زاراللہ بعفو الا عزا وما توضع احداًللہ الا رفع اللہ۔ معلم اخلاق نبی (ص) بشریت عالمین کی رحمت حضرت محمد (ص) نے اپنے مقصد بعثت یعنی (ایک اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل) کی تکمیل کیلئے مختلف حالات مختلف انداز میں کوشش فرمائی اور دور جاہلیت کے اندھیروں کو اپنے علم، اخلاق، تقویٰ اور بیانات سے روشن فرمایا۔ ہم امت محمدی (ص) کے دعویدار حضرت (ص) کے عمل و کردار کو سیرت اور آنحضرت (ص) کے بیان کو حدیث کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انہیں احادیث میں سے آج کی گفتگو میں حضرت ختمی مرتبت (ص) کی ایک حدیث شریف جو شیعہ، سنی کتب میں مروی مرقوم ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں۔ (صدقے سے مال میں کوئی کمی نہیں آتی اور عفو و درگزر سے عزت میں زیادتی ہوتی ہے اور تواضع و انکساری سے انسان کا مقام بلند ہوتا ہے)۔ اسی حدیث پاک میں امام اخلاق نے تین چیزوں کی طرف اشارہ فرمایا۔ ١۔صدقہ ٢۔ عفو و درگزر ٣۔ تواضع و انکساری ہم کوشش کرتے ہیں اس ترتیب کے لحاظ سے ان تین چیزوں پر قرآن و حدیث۔ سیرت آئمہ و صحابہ کرام کے ذریعہ روشنی ڈالیں۔ قرآن حکیم سورہ بقرہ آیت نمبر 261 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبة انبت سبع سنابل فی کل سنبلة مئة حبة اللہ واسع علیم۔ دو اہم نکات:۔ 1: جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو ان کے اس مال کی مثال اس دانہ کی سی ہے جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اور خداوند عالم وسعت دینے والا ہے۔ اس آیت میں دانہ اور اس کے اگنے کی مثال بیان کی گئی ہے اور صدقہ کی افزائش و نمود کو بیان کیا گیا ہے۔ اور راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کو پربرکت دانوں سے تشبہیہ دی ہے۔ وہ بڑی حسین اور عمیق تشہبیہ ہے۔ قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہر انسان کا عمل اس کے وجود کا پرتو ہے۔ جتنی اس کے عمل میں وسعت پیدا ہو گی اتنا ہی اس کا وجود وسعت پذیر ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کا عمل اسکی قوت اور جسمی مواد کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ مثل درحقیت ثابت شدہ یا مفروض حصہ ہے۔ جو دوسری چیز سے مشابہت رکھتا ہے اور اس مثل کو اس لئے لایا جاتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مخاطب کے ذہن کو اس چیز کے کمال کی طرف متوجہ کیا جائے۔ جس کیلئے مثال لائی گئی ہے اس آیت میں انفاق کرنے والوں کی مثال اس شخص سے دی گئی ہے جو ایک دانہ بوئے اور اس پر سات بالیاں لگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ اس قصہ کی حقیت نہ ہو اور فرض و خیالی ہو۔ ہر آیت میں فی سبیل اللہ سے مراد وہ چیز ہے جو خدا کی رضا کا باعث ہوتی ہے۔ 2: اور پھر صدقہ میں سماجی مشکلات کا حل بھی ہے۔ سماج کی ایک بڑی مشکل کہ جس سے انسان ہمیشہ دو چار رہا ہے اور اس زمانہ میں صنعتی ترقی کے سبب اس مشکل میں اور زیادہ شدت پیدا ہو گئی ہے اور طبقاتی فاصلہ اور زیادہ ہو گیا ہے۔ ایک طرف فقر و تنگدستی ہے۔ دوسری طرف ثروت اندوزی ہے واضح ہے کہ جس معاشرے کا ایک حصہ ثروت مندی اور دوسرا حصہ فقر و ناداری پر استوار ہو اس میں دوام ثبات نہیں ہو سکتا اور وہ حقیقی سعادت سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ ایسے معاشرے میں ہمیشہ اضطراب و بےچینی اور جنگ و جدال بپا رہے گا۔ قرآن مجید کی آیتوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا ایک مقصد یہ ہے کہ سماجی ناانصافیوں کی وجہ سے ثروت مند اور نادار طبقہ میں جو اختلافات رونما ہوتے ہیں انہیں برطرف کیا جائے اور ان لوگوں کی زندگی کی سطح کو بلند کیا جائے جو اپنی ضرورتوں کو دوسروں کی مدد کے بغیر پورا نہیں کر سکتے کم ازکم ان کے پاس روزمرہ کے استعمال کی چیزیں تو ہوں۔ اس مقصدکے حصول کیلئے اسلام نے سودخوری کو مطلق طور پر حرام قرار دیا اور اسلامی مالیات، زکواة و خمس دینے کو واجب کیا ہے اور انفاق، وقف، قرض الحسنہ اور مختلف طریقوں سے مالی مدد کرنے کی تشویق کی اور قرآن مجید میں صدقہ و انفاق کے گونا گوں محرکات و نتائج کو تشبیہات اور مثالوں کے ذریعے بیان فرمایاہے۔ صدقہ و انفاق کے لئے قرآن مجید کی تشبیہات:۔ یاایھاالذین آمنوا لا تبطلو صدقاتکم بالمن والاذیٰ کالذی ینفق مالہ رئاء الناس ولا یومن باللہ والیوم الاخر فعثلہ کمثل صفوان علیہ تراب فاصابہ وابل فترکہ صلاٰ لا یقذون علی شیء مما کسبو واللہ لا ھدی القوم الکافرین۔ (ایمان والو اپنے صدقوں اور بخششوں کو احسان جتا کر اور آزار پہنچا کر بربادنہ کرو اس شخص کی مانند کہ جو لوگوں کو دکھا کر انفاق کرتا ہے اور خدا روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کے کام کی مثال اس پتھر کی سی ہے جس پر گرد پڑی ہو اور اس پر شدید بارش پڑ جائے۔ (جس سے وہ گرد دھل جائے) اور پتھر صاف ہو جائے اور وہ جو کام انجام دیتے ہیں۔ اسکا انہیں کوئی صلہ نہیں ملے گا اور خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا)۔ صفوان، جمع ہے اسکا مفرد صفوانہ ہے۔ یعنی صاف پتھر، وابل، موتی بوند والی بارش کو کہتے ہیں۔ صلد کے معنی ہیں صاف پتھر ہیں۔ ایک مضبوط پتھر فرض کریں کہ جس کے اُوپر گردہ خاک کی ہلکی پرت جم گئی ہو۔ اس خاک پر بیج بکھیر دیا جائیں جو ہوا اور سورج کی دھوپ کی زد میں ہیں۔ پھر اس پر موٹی بوند بارش پڑجائے واضح ہے کہ شدید بارش اس پتھر پر پڑی ہوئی گرد کو بیج سمیت بہا لے جائے گی اور سخت پتھر اپنی سختی کے ساتھ آشکار ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آفتاب دھوپ کی کھلی ہوا اور بارش کے پڑنے کا کوئی برا اثر ہے بلکہ بیج نامناسب جگہ بویا گیا تھا۔ جس کا ظاہر تو صیح تھا، باطن بہت سخت تھا۔ وہ قابل نفوذ نہ تھا۔ صرف اس پرگرد جم گئی تھی جبکہ نباتات زمین کی ظاہری سطح کی آمادگی کے علاوہ اسکی باطنی سطح اور گہرائی کی آمادگی بھی چاہتے ہیں تاکہ اس میں ان کی جڑیں اتر جائیں۔ اور وہ اس سے غذا حاصل کریں۔ قرآن نے ریا کارانہ اعمال اور احسان جتانے اور آزار رسانی کے ساتھ دیئے گئے صدقہ کو سخت پتھر پر پڑی ہوئی خاک سے تشہبیہ دی ہے۔ جس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا بلکہ اس سے بیج بونے والے اور باغبان کی زحمت میں اضافہ ہو گا۔ صدقے کے بارے میں امام زین العابدین ؑ کے تین نکات:۔ امام زین العابدین (ع) نے صدقہ کے حق کے بارے میں فرمایا ہے۔ (ثم لم تمنن علیٰ احدلا نھا) اپنے صدقہ کو کسی پر احسان قرار نہ دو کیونکہ اس کا فائدہ تمہیں ملے گا امام زین العابدین (ع) صدقہ کے حق کے بارے میں تین اہم مطالب کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔ ١: صدقہ محفوظ شدہ ذخیرہ ہے وہ نابود ہونے والا نہیں ہے۔ درحقیت یہ نظریہ ختم ہو جاتا ہے کہ مال صدقہ دینے والے کے ہاتھ سے نکل گیا اور نابود و برباد ہو گیا ہے بلکہ اس کے برخلاف دنیا سے حصہ لینے کیلئے ایک طرح کی رغبت ہے۔ قرآن کہتا ہے۔ ولا تنس نصیبک من الدنیا۔ ١: دنیا میں جو تمھارا حصہ ہے اسے فراموش نہ کرو۔ اس کا بہترین مصداق، صدقہ ہے وہ جادواں اور باقی رہنے والا ہے، فانی نہیں ہے۔ ٢: پو شیدہ طور پر دیا جانا والا صدقہ آشکارہ طور پر دئیے جانے والے صدقہ سے اہم ہے۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ جو صدقہ کھلم کھلا دیا جاتا ہے اس میں ریا اور تکبر کا شائبہ ہوتا ہے، اور صدقہ لینے والا بھی لوگوں کی نظر میں حقیر ہوتا ہے۔ ٣: صدقہ کیساتھ احسان جتانے کے ہمراہ نہ ہو کہ احسان جتانے سے صدقے کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ بات ہم بعد میں بیان کریں گے کہ صدقہ پہلے خدا کے ہاتھ میں پہنچتا ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ صدقہ دینے والے کے ذہن میں پہلے یہ بات آتی ہے کہ مالک حقیقی خدا ہے اور یہ صدقہ دینے والا صرف ایک وسیلہ ہے۔ لہذا صدقہ دینے سے اس کے اندر عبودیت و بندگی کی روح پیدا ہوتی ہے۔