تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب
تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب
0 Vote
143 View
تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب
جب فضیلتِ قرآن کی بات آئے تو بہتر ہے کہ انسان توقف اختیار کرے، اپنے آپ کو قرآن کے مقابلے میں حقیر تصور کرے اور اپنی عاجز ی اورناتوانی کا اعتراف کرے، اس لیے کہ بعض اوقات کسی کی مدح میں کچھ کہنے یا لکھنے کی بجائے اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کر لینا بہتر ہوتا ہے جو انسان عظمت قرآن کے بارے میں لب کشائی کرنا چاہے بھلا وہ کیا کہہ سکتا ہے ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان (جو ایک ممکن اور محدود چیز ہے) لامتناہی ذات کے کلام کی حقیقت کا ادراک کر سکے اور اپنے مختصر اورمحدود ذہن میں اسے جگہ دے سکے۔
انسان میں وہ کون سی طاقت ہے جس کی بدولت وہ اپنے محدود اور ناقص ذہن میں قرآن کی حقیقی قدروقیمت، منزلت اور حیثیت بٹھا سکے اور پھر بیان کر پائے۔ ایک اہل قلم چاہے کتنا ہی مضبوط ہو فضیلت قرآن کے سلسلہ میں لکھ ہی کیا سکتا ہے اور ایک خطیب چاہے وہ کتنا ہی شعلہ بیاں ہو، زبان سے کیا ادا کر سکتا ہے۔ ایک محدود انسان محدود چیز کے علاوہ کسی لامحدود ہستی کی توصیف کیونکرکر سکتا ہے؟
قرآن کی عظمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خالق متعال کا کلام ہے۔ اس کے مقام و منزلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے اور اس کی آیات انسانیت کی ہدایت اور سعادت کی ضمانت دیتی ہیں۔ قرآن ہر زمانے میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی راہنمائی کرتا ہے اور سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن ہی کی زبان سے سن سکتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِيْلِِِِِِِِلَّتِی ھِيَاَقْوَمُ۔ (سورہ بنی اسرائیل : ۹)
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے۔
الٓرٰ کِتَابٌ اَنزَلنٰاہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُُمَاتِ اِلیَ النُّورِ بِاِذْنِِِِِِِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیْدِo (سورہ ابراہیم:۱)
(اے رسول یہ قرآن وہ) کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لیے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ۔ غرض اسکی راہ پر لاؤ جو غالب اور سزا وارِ حمد ہے۔"
ھَذٰا بَیانٌ لّلِنَّاسِ وَھُدیً وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِینَ۔ (سورہ آلعمران:۱۳۸)
یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کے لیے تو صرف بیان(واقعہ ) ہے (مگر) اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے۔
اس سلسلے میں رسول اکرم سے بھی روایت منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
کلام خدا کو دوسروں کے کلام پر وہی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے جو خود ذات باری تعالیٰ کو باقی مخلوقات پر ہے۔ (۱)
یہاں پر اس حقیقت کا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے جس کاہم نے آغاز کلام میں ہی اعتراف کر لیا تھا، یعنی مناسب یہی ہے کہ انسان قرآن کی عظمت اور اس کی فضیلت میں لب کشائی کی جسارت نہ کرے اور اسے ان ہستیوں کے سپرد کر دے جو قرآن کے ہم پلہ اور علوم قرآن میں راسخ اور ماہر ہیں۔ کیونکہ یہ حضرات سب سے زیادہ قرآن کی عظمت اور اس کی حقیقت سے آشنا اور آگاہ ہیں۔ یہی ہستیاں ہیں جو قرآن کی ارزش (قدرومنزلت) اور صحیح حقیقت کی طرف لوگوں کی راہنمائی فرماتی ہیں۔ یہی ہستیاں فضیلت میں قرآن کی ہمدوش اور ہم پلہ ہیں اور ہدایت و راہبری میں قرآن کی شریک اور معاون و مددگار ہیں۔ ان حضرات کے جدا مجد وہی رسول اکرم ہیں۔ جنہوں نے قرآن کو انسانیت کے سامنے پیش کیا اور اس کے احکام کی طرف دعوت دی وہی رسول اکرم جو قرآنی تعلیمات اور اس کے حقائق کے ناشر ہیں، آپ قرآن سے ان حضرات کا تعلق یوں بیان فرماتے ہیں:
اِنِّیِ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کَتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِي أَھْلَ بَیتِي وَاَنّھُما لَن تَضِلُّویَفتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَيَّ الحَوْض(۲)
میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اہل بیت اوریہ ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہ ہونگے حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔
پس اہل بیت اور عترف پیغمبر ہی ہیں جو قرآن کے راہنما اور اس کی فضیلتوں سے مکمل آگاہ ہیں۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ ہم انہی کے اقوال پر اکتفاء کریں اور انہی کے ارشادات سے مستفیض ہوں۔ قرآن کی فضیلت میں بہت سی احادیث ائمہ اطہار(ع) سے منقول ہیں، جنہیں مجلسی مرحوم نے کتاب بحار الانوار کی ج۱۶ میں یکجا فرمایا ہے۔ البتہ ہم صرف چند احادیث پر اکتفا کرتے ہیں۔
حارث ہمدانی فرماتے ہیں:
میں مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کردیا آپ نے فرمایا: واقعاً ایسا ہی ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں یا مولا۔ آپ نے فرمایا: اے حارث! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: عنقریب فتنے برپا ہوں گے۔ میں نے عرض کیا مولا! ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: راہِ نجات کتاب الہی ہے۔ وہی کتاب جس میں گزشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے بٓاسانی تمیز دے سکتی ہے۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں۔ وہی کتاب جس کو اگر جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ جو شخص غیرِقرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاہے، خالق اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ یہ (قرآن ) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیزذکر ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں۔ قرآن کی بدولت زبانیں التباس اور غلطیوں سے محفوظ رہی ہیں۔ علماء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں ہوتے۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ یہ پرانی اور فرسودہ نہیں ہوتی اور نہ اس کے عجائبات ختم ہونے میں آتے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جن یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے، صادق ہی ہوگا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا، یقینا عادل ہو گا۔ جو قرآن پر عمل کرے، وہ ماجور ہو گا، جو قرآن (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے اس کے بعد امیر المومنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔ (۳)
اس حدیث شریف میں چند غیر معمولی نکتے ہیں جن میں سے اہم نکتوں کی ہم وضاحت کرتے ہیں۔ رسول اکرم فرماتے ہیں:
فیہ نباء من کان قبلکم و خبر معادکم
قرآن میں گزشتہ اور آئندہ کی خبریں موجود ہیں۔
اس جملے کے بارے میں چند احتمال دےئے جا سکتے ہیں۔
۱ اس کا اشارہ عالمِ برزخ اور روزِ محشر کی خبروں کی طرف ہو، جس میں نیک اور برُے اعمال کا محاسبہ ہو گا، شائد یہ احتمال باقی احتمالات سے زیادہ قوی ہو۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید امیر المومنین کے اس خطبے سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں۔
اس قرآن میں گزشتگان کی خبریں، تمہارے باہمی اختلافات کے فیصلے اور قیامت کی خبریں موجود ہیں۔ (۴)
۲ ان غیبی خبروں کی طرف اشارہ ہو جن کی قرآن نے خبر دی ہے اور آئندہ نسلوں میں بھی رونما ہوں گے۔
۳ ان سے مراد گزشتہ امتوں میں رونما ہونے والے واقعات ہوں جوبعینہ اس امت میں بھی رونما ہوں گے۔
گویایہ حدیث اس آئیہ شریفہ کے ہم معنی ہے۔
لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبقٍo (سورہ انشقاق :۱۹)
تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے۔
یا اس حدیث کی ہم معنی ہے جو آنحضرت سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں:
”لَتَرْکَبَنَّ سُنَنٌ مِنْ قَبْلِکُمْ۔
تم بھی گزشتہ لوگوں کی غلط اورگمراہ کن سنتیں اور طریقے اپناؤ گے۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا:
مَنْ تَرَکَہُ مِنْ جَبّٰارٍ قَصَمَةُ اللّٰہُ
جو ظالم اور جابر بھی قرآن کو ترک کرے گا اور اسے پسِ پشت ڈالے گا خدا تعالیٰ اس کی کمر توڑ ڈالے گا۔
شاید اس جملے میں رسول اکرم اس بات کی ضمانت دے رہے ہیں کہ خدا قرآن کو جابروں اور ظالموں کے ہاتھ اس طرح کھلونا نہیں بننے دے گا جس سے اس کی تلاوت اور اس پر عمل ترک ہو جائے اور یہ لوگوں کے ہاتھوں سے لے لیا جائے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن ہمیشہ تحریف سے محفوظ رہے گا۔
حدیث کے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے لاتزیغ بہ الاھواء۔ ” خواہشات اسے کج، زنگ آلودہ نہیں کر سکتیں" یعنی اس کی اصل حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔ قرآن کی اصل حقیقت کے تحفظ کی ضمانت اس لیے دی جارہی ہے کہ قرآن کے، خود ساختہ اور اپنی خواہشات کے مطابق معانی بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر لوگ آپس کے اختلافات اور عقائد و اعمال کی مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کریں تو ان سب کا حل قرآن میں مل جائیگا اور لوگ اسے ایک عادل حاکم اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا پائیں گے۔
ہاں! اگر مسلمانوں میں احکام اور حدودِ قرآن کا نفاذ ہوتا اور اسکے اشارات اور ارشادات کی پیروی کی جاتی تو حق اور اہل حق پہچانے جاتے اور عترت ِ پیغمبر کی معرفت بھی حاصل ہو جاتی جنہیں رسول اکرم نے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔ (۵) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو آنحضرت کے بعد قرآن کی طرح آپکا جانشین قرار پائیں، اور اگر مسلمان قرآنی علوم کی روشنی سے نور حاصل کرتے تو ذلت میں مبتلا نہ ہوتے، ان پر ذلالت و گمراہی کی تاریکیاں نہ چھا جاتیں۔ احکام خدا میں سے کوئی حکم بھی اپنے حقیقی ہدف سے منحرف نہ ہوتا، نہ کوئی شخص راہِ راست سے بھٹکتانہ کسی کے پائے استقلال میں لغزش آتی، لیکن مسلمانوں نے قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا اور زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے خواہشات ِ نفساتی کی پیروی اور باطل کے جھنڈے تلے پناہ اختیار کی بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافرگرداننے لگے اور مسلمان کے قتل، اس کی ہتک حرمت اور اس کے مال کو حلال قرار دینے کو قرب خدا وندی کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ قرآن کے متروک ہونے کی دلیل اس اختلاف و انتشار سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے۔ امیر المومنین قرآن کی تعریف میں یوں فرماتے ہیں:
پھر آپ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی گہرائی تک کسی کی رسائی نہیں اور ایسی راہ ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ (حق و باطل میں ) ایسا امتیاز کرنے والی ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنے والی ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، وہ سراسر شفا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے، روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں وہ سرتا سر عزت و غلبہ ہے۔ جس کے یارو مددگار شکست نہیں کھاتے،وہ سراپا حق ہے، جس کے معین و معاون بے سہارا نہیں چھوڑے جاتے، وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے اس سے علم کے چشمے پھوٹنے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے حق کی وادی اور اس کاہموار میدان ہے ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس میں اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا وہ ایسی منزل ہے جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا، وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی، فقہاء کے دلوں کے لیے بہار اور نیکیوں کی راہ گز رکے لیے شاہراہ قرار دیا ہے۔ (۶) یہ ایسی دوا ہے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی ہے جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے، جو اس سے وابستہ رہے اس کے لیے پیغام صلح و امن ہے، جو اس کی پیروی کرے اس کے لیے ہدایت ہے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کیلئے حجت ہے جو اس کی رو سے بات کرے اس کے لیے دلیل و برہان ہے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کیلئے گواہ ہے جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لیے فتح و کامرانی ہے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لیے مرکب(تیز گام) ہے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان ہے، (ضلالت سے ٹکرانے کے لیے) جو مسلح ہو اس کے لیے سپر ہے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باند ھ لے اس کے لیے علم ودانش ہے، بیان کرنے والے کے لیے بہترین کلام اور فیصلہ کرنے والے کے لیے قطعی حکم ہے۔
یہ خطبہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل ہے ان سے آگاہی اور ان میں غور و خوض لازمی ہے۔
امیر المومنین کے ارشاد لایخبوتوقدہ ”قرآن ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی“ اور خطبے میں اس قسم کے دوسرے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معانی لامتناہی اور ابدی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک آیہ کریمہ کسی خاص مقام شخص یا قوم کے بارے میں نازل ہوئی مگر وہ آیہ اس مقام شخص اور قوم سے ہی مختص نہیں رہتی بلکہ اس کے معانی عام ہوتے ہیں اور یہ ہر جگہ ہر شخص اور ہر قوم پر منطبق ہوتی ہے۔ عیاشی نے اپنی سند سے امام محمد باقر سے آیہ ”وَلِکُلِّ قومٍ ھادٍ" (۱۳ :۷) ” ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہوا کرتا ہے“ کی تفسیر کے بارے میں روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا:
عَلِیٌ :الھادي، ومنا الہادی فقلت فانت جعلت فِدٰاک اَلْھٰادِي؟ قَالَ صَدَّقْتَ اَنَّ الْقُرآن حَيٌ لاٰیَمُوتُ وَالاَیةُ حَیَّةً لاٰتَمُوتُ، فَلَوْ کاٰنَتْ الآِیةُ اِذٰا نَزَلَتْ فِیْ اِلاَقْوٰامِ وَمٰاتُوا اِمَاتَتْ الاَیةُ لَمٰاتَ الْقُرآن وَلٰکِنَّ ھِیَ جاٰرِیَةٌ ِ فِيْ الْبٰاقینَ کَمٰا جَرَتْ في المٰاضینَ۔
اس آیہ شریفہ میں ہادی سے مراد امیر المومنین علی بن ابی طالب ہیں اور ہادی ہم ہی میں سے ہوا کرے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: میں آ پ پر نثار ہوں کیا آپ بھی ہادی اور اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں میں بھی اس کا مصداق ہوں۔ قرآن ہمیشہ زندہ رہے گا، اسے موت نہیں آئے گی اور یہ آیہ وَلکلً قَومٍ ھادٍ بھی زندہ ہے اسے موت نہیں آسکتی، اگر ایک قوم پر اترنے والی آیت قوم کے مرنے سے مرجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو بھی موت آگئی حالانکہ ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ قرآن جس طرح گزشتہ اقوام پرمنطبق ہوتا تھا اسی طرح آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی منطبق ہو گا۔
امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
اِنَّ الْقُرآن حيٌلَمْ یُمُتْ، وَاِنَّہُ یَجْْري کَمٰا یَجْري اللَّیْلُ وَالنَّھٰارُ، وَکَمٰاتَجْري الشَّمْسُ، وَیَجْري عَلَیٌ آخِرِنٰا کَمٰا یَجْري عَلَیٰ اَوَّلِنٰا۔
قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اورسورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رہے گا۔"
اصول کافی میں ہے جب عمر بن یزید نے امام جعفر صادق سے آیت کریمہ:وَ الذیِنَ یَصِلونَ مَا امَرَ اللّٰہ ُ بِہ اَن یُّوْصَلَ (سورہ۱۳:آیت ۲۱) کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:
ھٰذِہ نَزَلَتْ فیْ رَحِمِ آلِ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلہِ وَقَدْ تَکُوْنُ فی قَرٰابَتِکَ، فَلٰاَ تَکُوَنَنَّ مِمَّنْ یَقُوْلُ لِلشَّیٍ اِنَّہُ فی شَيْءٍ وٰاحِد۔
یہ آیت کریمہ ہم آل محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن یہی آیہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق ہو سکتی ہے، تم ان لوگوں میں سے نہ بنو جو ایک خاص مقام اور چیز پر نازل شدہ آیت کو اس مقام اور چیز سے مختص کر دیتے ہیں۔
تفسیر فرات میں ہے:
و لوان الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات اولئک ماتت الآیة لمابقي من القرآن شيء ولکن القرآن یجري اولہ علی آخرہ مادامت السماوات والارض ولکل قومٍ آیة یتلوھاہم منہا من خیراواشر۔
اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل ہو پھرو ہ قوم مر جائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مر جائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں گزشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود ہے جس میں ان کی اچھی یا برُی سر نوشت وتقدیر اور انجام کا ذکر ہے۔
اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات منقول ہیں۔ ( ۷) یہاں پر ہم امیرالمومنین کے کلام کے عربی متن کے بعض جملوں کی مختصر وضاحت کریں گے۔
ومنھا جا لایضل نجہ
قرآن وہ سیدھا راستہ ہے جو اپنے راہرو کو گمراہ نہیں کرتا۔ اسے خالق نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ قرآن ہر اس شخص کو گمراہی سے بچاتا ہے جو اس کی پیروی کرے۔
وتبیاناً لا تھدم ارکانہ۔ اس جملے میں دو احتمال ہیں:
ا۔ پہلا احتمال یہ ہے کہ علوم و معارف اور دیگر قرآنی حقائق جن ستونوں پر استوار ہیں وہ مضبوط اور مستحکم ہیں ان میں انہدام اور تزلزل کا سوال تک پیدا نہیں ہوتا۔
ب۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کسی قسم کا خلل اور نقص نہیں ہو سکتا ہے۔ اس احتمال کے مطابق اس جملے میں امیر المومنین اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے۔
وریاض العدل وغدرانہ
اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں۔
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت چاہے عقیدہ کے اعتبار سے ہو یا عمل کے اعتبار سے یا اخلاق کے اعتبار اس کے تمام پہلو قرآن میں موجود ہیں۔ پس قرآن عدالت کا محور اور اس کی مختلف جہات کا سنگم ہے۔
وَاَثَّافی اْلاِسْلاٰمِ۔ (۸)
اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس ہے
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جو استحکام اور ثبات حاصل ہوا ہے وہ قرآن ہی کی بدولت ہے جس طرح دیگ کو استحکام ان پایوں کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جو اس کے نیچے رکھے ہوتے ہیں۔
واودیة الحق و غیطانہ۔
حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حق کا سرچشمہ ہے اس جملے میں قرآن کو وسیع اور پُرسکون زرخیز سرزمین سے تشبیہ دی گئی ہے اور حق کو ان نباتات سے تشبیہ دی گئی ہے جواس سرزمین پر اگی ہوں کیونکہ قرآن کے علاوہ کہیں اورسے حق نہیں مل سکتا۔
وبحر لاینزفہ المنتزفون
وہ ایسا دریاہے جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے
اس جملے اور اس کے بعد والے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جو معانی قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے وہ اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ قرآن کے معانی لامتناہی ہیں بلکہ اس جملے میں اس حقیت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن میں کبھی کمی واقع ہوہی نہیں سکتی، جس طرح چشمے سے پانی نکالنے، پینے یا برتن بھرنے سے پانی کم نہیں ہوتا۔
وآکامٌّ لاٰیَحوز عنھا القاصدون۔
وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو محققین اور مفکرین قرآن کی بلندیوں کوسمجھنا چاہتے ہیں و ہ کبھی بھی اس کے معانی کی بلندیوں اور چوٹیوں سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم ایسے سربستہ رازوں پر مشتمل ہے جن تک صاحبان فہم کی رسائی نہیں ہو سکتی۔
اس جملے سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ جب قرآن کے متلاشی اس کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر رک جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اس لیے کہ انہیں مکمل طور پر اپنی مراد مل جاتی ہے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔
قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموس الہیٰ ہے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان ہے۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند ہے اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تاکہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ ہونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھاسکے۔
قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام اور ان کے جدا مجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
قاَلَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من قٰرأ عَشَرَ آیاتٍ فی لَیْلَةٍ لَمْ یَکْتُب مِنَ الْغٰافلین وَمَنْ قَرأَ خَمْسْینَ آیَةً کُتِبَ مِنَ الذّٰکِرینَ وَمَنْ قَرأَمِاَئةَ آیةًکُتِبَ مِنَ القٰانِتینَ وَمَنْ قَرءَ مَائَتَیْ آیةً کُتِبَ مِنَ الخٰاشِعین ومن قرأ ثَلٰثَمِائَةَ آیةً کُتِبَ من الفٰائِزینَ وَمَنْ قَرأَ خَمْسَمِائَةُ آیةً کُتِبَ مِنَ المُجْتَھدِینَ وَمَنْ قَرأَ اَلَفَ آیةً کُتِبَ لَہُ قِنْطٰارٌ مِنْ تَبَرٍ۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا، جو شخص رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گااور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں۔ حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین(عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص دو سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا اور جوشخص تین سو آتیوں کی تلاوت کرے اس کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا، جو شخص پانچ سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائیگا اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہِ خدا میں دے دیا ہو
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
اَلْقُرٰانُ عَھْدُ اللّٰہ اِلٰی خَلْقِہ، فَقَدْ یَنْبغَيلْلِمَرءِ المُسْلِمِ اَنْ یَنْظُرَ فی عَھْدِہِ، وَاَنْ یَقْرأمِنْہُ فی کُلِّ یَوْمٍ خَمْسینَ آیةً۔
قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہدو میثا ق ہے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے
آپ نے مزید فرمایا:
مٰایَمْنَع التّٰاجِر مِنْکُمْ الَمَشْغُولُ فی سُوْقِہِ اِذٰا رَجَعَ اِلیٰ مَنْزِلِہِ اَنْ لاٰ یَنٰامُ حَتّٰی یَقْرَأَ سورةً مِنَ الْقُرآنِ فَیُکْتَبُ لَہُ مکانَ کُلِّ آیةٍ یَقْرَأھٰا عشر حسنات ویمحی عنہ عَشَرَ سَےِّئٰات؟
جب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھرواپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورة کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں اور اس کے نامہ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
عَلَیْکُمْ بِتِلٰاِوَةِ القُرْآن، فَاِنَّ دَرَجٰاتُ الجَنَّةِ عَلٰی عَدَدِ آیاتِ القُرْآن، فَاِذٰاکٰانَ یَوْمَ القِیٰامَةِ یُقٰالُ لِقٰارِی الْقُرآنَ اِقْرَأْوَاِرْقِ، فَکُلَّمٰا قَرَأَ آیَةً رَقَیٰ دَرَجَةً۔
قرآن کی تلاوت ضرورکیاکرو (اس لیے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہو گا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ۔ پھر وہ جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا، اس کے درجات بلند ہوتے چلیں جائیں گے۔
حدیث کی کتابوں میں علماء کرام نے اس مضمون کی بہت سی روایا ت کو یکجا کر دیا ہے شائقین ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں اور بحار الانور کی انیسویں جلد میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں ان میں بعض روایات کے مطابق قرآن دیکھ کر تلاوت کرنا زبانی اور ازبرتلاوت کرنے سے بہتر ہے۔
ان میں سے ایک حدیث یہ ہے:
اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی:
جُعْلتُ فِدٰاکَ اِنّي اَحْفَظُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَھْرِ قَلْبي فَاْقرأُہُ عَنْ ظَھْرَ قَلْبِي اَفْضَلُ اَوْ اُنْظُرُ فی الْمُصْحَفِ قٰاَل: فَقٰالَ لِي لَاٰ بَلْ اقرأَہُ وَانْظُر فی الْمُصْحَفِ فَھُوَ افْضَلُ اَمٰا عَلِمْتَ اِنَ النَّظُرَ فی الْمُصْحَفِ عِبٰادَةٌ۔ مِنْ قراالقُرْآنَ فی المُصْحَفِ مَتَّعَ بِبَصَرِہِ وَخَفَّفَ عَنْ وٰالِدَیْہِ وَاِنَ کٰانا کافِرین۔ (۹)
میری جان آپ پر نثار ہو میں نے قرآن حفظ کر لیا ہے۔ اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کے تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت ہے جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض ہوتی ہے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے۔ اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔
۱۔ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید و تشویق میں چند اہم نکات ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے۔ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید اس لیے کی ہے تاکہ نسخوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن ضیاع سے محفوظ رہ سکے کیوں کہ جب قرآن کی زبانی تلاوت پر اکتفاء کیا جائے گا تو قرآن کے نسخے متروک ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ کم یاب ہو جائیں گے بلکہ بعید نہیں کہ بتدریج اس کے آثار تک باقی نہ رہیں۔
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کے بہت سے آثار ہیں جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے مثلاً معصوم نے فرمایا : ”مَتَّعَ بِبَصَرِہِ" یعنی۔ ۔ ۔ یہ بڑا جامع کلمہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان نابینائی اور آشوب چشم سے محفوظ رہے یا یہ مراد ہو سکتی ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان قرآنی رموز اور اس کے دقیق اور باریک نکات سے باخبر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ جب انسان کی نظر ایسی چیز پر پڑے جو اسے پسند ہو تو اس کانفس خوشحال ہو جاتا ہے اوروہ اپنی بصارت اور بصیرت میں روشنی محسوس کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ پر جب بھی قاری کی نظر پڑتی ہے اور وہ اسکے علوم و معانی میں فکرکرتا ہے تو علم و آگاہی کی لذت محسوس کرتا ہے اور اس کی روح ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔
۳۔ بعض روایات میں گھر کے اندر قرآن کی تلاوت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اس کا راز قرآن کی تبلیغ و ترویج اور تلاوتِ قرآن کا چرچا ہے کیونکہ جب انسان اپنے گھر کے اندر قرآن کی تلاوت کرے تو اس کے بیوی بچے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس سے یہ عمل عام ہو جاتا ہے لیکن اگرقرآن کی تلاوت کسی خاص مقام پر کی جائے تو اس کا ہر شخص، ہر جگہ شرف حاصل نہیں کر سکتا اور یہ تبلیغ اسلام کا بہت بڑا سبب ہے۔
شاید گھروں میں تلاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس سے شعائر ِ الہیٰ قائم ہو جاتے ہیں کیونکہ جب صبح و شام گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز بلند ہو گی تو سننے والوں کی نظر میں اسلام کی اہمیت بڑھے گی اس لیے کہ جب شہر کے کونے کونے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی دے گی تو سننے والوں پر ایک قسم کا رعب اور ہیبت طاری ہو جائے گا۔
گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکور ہیں:
اِنَّ الْبَیْتَ الَّذي یُقْرَأ فِیہ الْقُرْآنُ وَیُذْکَرُ اللّٰہُ تَعٰالی فیْہ تَکْثُرُ بَرَکَتُہُ وَتَحْضُرُہُ الْمَلاٰئِکَةِ، وَتَھْجُرُہْ الشِّیاطینَ وَیُضِيٴُ لِاَھْلِ السَّمٰاءِ کَمٰا یُضِيٴُ الْکَوْکَبُ الدُّري لِاَھْلِ الْاَرْضِ وَانَّ الْبَیْتَ الَّذي لٰاَ یَقُرأُ فِیہِ الْقُرْآنُ وَلٰایُذْکِرُ اللّٰہُ تَعٰالٰی فِیہِ تَقِلُّ بَرَکَتہُ وَتَھْجُرُہُ اْلمَلاٰئِکَةِ وَتَحْضُرو الشَیٰاطین۔
وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت کی اور ذکرِ خدا کیا جاتا ہو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے شیاطین اس گھر کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں جس طرح آسمان کے ستارے اہل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا اس میں برکت کم ہوتی ہے فرشتے اسے ترک کر دیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔"
قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم جن سے خداوند قاری قرآن کو نوازتا ہے روایات میں اتنی ہے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں رسول اکرم نے فرمایا:
مَنْ قَرَء َحَرْفاً مِنْ کِتٰابِ اللّٰہِ تَعٰالیٰ فَلَہُ حَسَنَةً وَالْحَسَنَةُ بِعَشَرِ اَمُثٰالِھٰا لا اَقُولُ ”الم“ حَرَفٌ وَلٰکِنْ اَلِفْ حَرْفٌ وَلاٰمُ حَرْفٌ وَمیمُ حَرْفٌ۔
”جو شخص کتاب الہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی ہے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ الم یہ ایک حرف ہے بلکہ ’الف‘ ایک حرف ہے ’ل‘ دوسرا حرف ہے اور ’م‘ تیسرا حرف ہے۔
اس حدیث کو اہل سنت کے راویوں نے بھی نقل کیا ہے۔ چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر۱ میں ترمذی سے اور اس نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے، کلینی رحمة اللہ علیہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق سے نقل فرمائی ہے۔ اس میدان میں کچھ جھوٹے راوی بھی ہیں جن کی نظر میں شاید فضیلت قرآن کی یہ تمام روایات کم تھیں اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے فضیلت قرآن میں کچھ روایات گھڑ لیں جن کی نہ تو وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ان کا سنت نبوی میں کوئی ذکر ہے۔ ان جھوٹے راویوں میں ابو عصتمہ فرج بن ابی مریم مروزی، محمد بن عکاشہ کرمانی اور احمد بن عبداللہ جویباری شامل ہیں۔ ابو عصتمہ نے خود اس جعل سازی کا اعتراف کیا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تونے کس طرح عکرمہ کے واسطے سے ابن عباس سے قرآن کے ایک ایک سورے کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں تو اس (ابو عصتمہ) نے جواب دیا۔
اِنِیّٰ رَاَیْتُ النّٰاسَ قَدْاِعْرَضُوا عَنِ الْقُرْآنَ وَاشْتَغَلُوا بِفِقْہِ اِبی حَنِیْفَةِ وَمَغٰازي مُحَمَّد ِبنْ اِسْحٰقَ فَوَضَعْتُ ہٰذَا الْحدیثُ حسبةً۔
جب میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن سے منحرف ہو گئے ہیں اور ابو حنیفہ اور مغازی محمد بن اسحاق کی فقہ میں مصروف ہیں تو میں نے قرآن کی فضیلت میں یہ احادیث قربة الی اللہ گھڑ لیں۔
ابو عمرعثمان بن صلاح، اس حدیث کے بارے میں جواُبی بن کعب کے واسطے سے پیغمبر اکرم سے منقول ہے لکھتا ہے:
قَدْ بَحَثَ بٰاحِثٌ عَنْ مَخْرَجِہِ حَتّٰی اِنْتَھٰی اِلٰی مَنْ اِعْتَرَفَ بِاَنَّہُ وَجَمٰاعَةٌ وَضَعُوْہُ۔ وَقَدْ اَخْطَا الوٰاحِدي وَجَمٰاعَةٌ مِنْ الْمُفَسَّرِینَ حَیْثُ اَوْدَعُوْہُ فی تَفٰاسِیْرِھِمْ۔ (۱۱)
اس حدیث کے بارے میں جوقرآن کے ہر سورہ کے فضائل میں نقل کی گئی ہے جوتحقیق کی گئی وہ اس نیتجہ پر پہنچی ہے کہ اس حدیث کے گھڑنے والے نے اس کے جعلی ہونے کا اعتراف کر لیا ہے(میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے مل کر اسے گھڑا ہے)۔
واحدی اور دیگر مفسرین اپنی تفسیروں میں اس حدیث کو ذکر کر کے غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔
دیکھئے! ان لوگوں نے کتنی بڑی جرات کی ہے کہ رسولِ خدا کی طرف حدیث کی جھوٹی نسبت دی ہے اور ستم یہ کہ اس افتراء اور تہمت کو قرب ِ الہیٰ کا سبب قرار دیتے ہیں۔
کَذَلِکَ زَیَنَّ لِلْمُسّرِفِیْنَ مَاکَانَُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ (۱۰:۱۲)
جو لوگ زیادتی کرتے ہیں انکی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کر دکھائی گئی ہیں۔
قرآن میں غور و فکر اور اسکی تفسیر:
قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانی ٴقرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں فکر کی سخت تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا (۴۷:۲۴)
تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔
اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ابن عباس نے رسول اکرم سے نقل کیا ہے، آنحضرت نے فرمایا:
اِعْرَبُوا الْقُرْآن اِلْتَمِسُوا غَراٰئِبَہ
قرآن کو بلند آواز سے پڑھا کرو اور اس کے عجائبات اور باریکیوں میں غور و خوض کیا کرو۔
ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:
حَدَّثَنٰا مَنْ کٰانَ یَقْرَئُنٰامِنَ الصَّحٰابَةِ اِنَّھُمْ کٰانُواَ یاْخُذُوْنَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ عَشَرَآیٰاتٍ فَلاٰ یَأْخُذُونَ فی الْعَشَرِ اْلاُخْریٰ یَعْلَمُوْا مٰافي ھٰذِہِ مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلْ۔
صحابہ کرام جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے فرماتے تھے ہم رسول خدا سے قرآن کو دس دس آیتوں کی صورت میں لیتے تھے، جب تک ہم پہلی دس آیتوں کے علمی اور عملی نکات کو حفظ نہیں کر لیتے۔ دوسری دس آیتیں ہمیں نہیں ملتی تھیں۔ ۱
عثمان ابن مسعود اور اُبیّ کہتے ہیں:
اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کٰانَ یَقْرَئُھُمُ العَشَرَ فَلاٰ یُجٰاوِزُوَنْھٰا اِلٰی عَشَرٍ اُخْریٰ حَتّٰی یَتَعَّلَمُوْا مٰا ِفیھٰا مِنَ الْعَمَلِ فَیَعُلَمَھُمُ القُرْآنْ وَالْعَمَلُ جمیعاً۔ (۱۲)
رسول خدا قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے، ان دس آیتوں سے اس وقت تک تجاوز نہ فرماتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیا جائے پس علم قرآن اور عمل بہ قرآن کی تعلیم ایک ساتھ دیتے ہیں۔
ایک دن امیرالمومنین نے لوگوں کے سامنے جابر بن عبداللہ انصاری کی تعریف کی توکسی نے کہا: مولا! آپ (باب علم ہونے کے باوجود ) جابر کی تعریف کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
تمہیں معلوم نہیں جابر بن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ:اِنََّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدَّکَ اِلٰی مَعَادٍ (۲۸:۸۰)کی تفسیر سمجھتے تھے۔ (۱۳)
قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ چنانچہ بحا ر الانوار کی ۱۹ جلدوں میں اس مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں۔ لیکن یہ ایسی حقیقت ہے جس کے لیے اخبارو روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہ حیات بناکر بھیجا ہے۔ جس سے آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر اور فکر نہ کیا جائے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ عقل کرتی ہے۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید ہے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی ہے۔
زہری نے امام زین العابدین سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:
آیٰاتُ الْقُرْآنِ خَزٰائِنٌ فَکُلَّمٰا فُتِحَتْ خَزینَةٌ ینَبْغَي لَکَ اَنْ تَنْظُرَ مٰا فِیھٰا۔ (۱۳)
قرآن کی آیات خزانے ہیں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)
حواشی
(۱) بحارالانوار ج۱۹، ص۔ صحیح ترمذی ابن عربی ج۱۱۔ ص۴۷۔ ابواب فضائل۔
(۲) ترمذی ۱۳ /۲۰۰۔ ۲۰۱ مناقب اہل بیت۔
(۳) سنن وارمی۔ ج۲۔ ص۴۳۵، کتاب فضائل القرآن میں بھی اس طرح موجود ہے۔ صحیح ترمذی، ج ۱۱، ۳۰، باب فضائل قرآن میں بھی معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔ بحار۔ ج ۹، ص۷ میں تفسیر عیاشی سے منقول ہے۔
(۴) بحار الانوار، ج ۱۹، ص۶۔
(۵) حدیث ثقلین کا حوالہ میں ۱۸ میں ذکر کیا گیا۔ بعض روایات میں واضح طور پر کہا گیا ہے: قرآن اور عترت، رسول کے دو جانشین ہیں۔
(۶) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۶۔
(۷) مراة الانور، ص ۳۔ ۴۔
(۸) ریاض روضہ کی جمع ہے یہ اس سرسبز زمین کو کہتے ہیں جس میں سبزہ ہو۔ غدران جمع ہے غدیر کی، اس کا معنی سیلاب کا جمع شدہ پانی ہے۔
(۹) ثانی جو امانی کے وزن پر ہے، اثفیہ کی جمع ہے۔ اثفیہ اس پتھر کو کہا جاتا ہے جس پر دیگچی رکھی جاتی ہے۔
(۱۰ اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ وسائل طبة عین الدولہ۔ ج۱، ص۳۷۰۔
(۱۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن۔
(۱۲) تفسیر قرطبی، ج، ص۷، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔
(۱۳) تفسیر قرطبی، ج،۱،ص۷۸۔ ۷۹، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔
(۱۴)تفسیر القرطبی ج۱ ص۲۶۔
(۱۵)اصول الکافی، کتاب فضل القرآن۔
http://www.alhassanain.com