اصول فقہ میں سنت کی بحث
اصول فقہ میں سنت کی بحث
0 Vote
161 View
مقدمہ :۔ اسلام ایک ایسا جامع ،کامل اور ہمہ جہت دین ہے جس نے صرف فردی و شخصی مسائل یا اخلاقی پندو نصیحت پراکتفا نہیںکیا بلکہ معاشرہ کی تعمیر و ترقی کے تمام اہم اورموثروسائل و ذرائع نیز ان سے صحیح استفادہ کرنے کے طور طریقے بھی بیان کیے ہیں۔ اسلام بنیادی طور پر معاشرہ ساز دین ہے اسی بنا پر معاشرے کو جس چیز کی ضرورت ہے،اس کا حصول اسلام نے بطور واجب کفائی فرض قرار دیا ہے اور جو عوامل معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں انہیں اسلام نے حرام قرار دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے تاکہ ہر زمانہ کے مطابق پیش آنے والے واجبات ومحرمات کا سراغ لگا یا جا سکے ۔ ''اصول فقہ ''وہ مہم ترین علم ہے جسے فقہ کے مقدمہ کے طور پر حاصل کر نا ضروری ہے، یہ دلچسپ علم مسلمانوں کے ایجاد کردہ علوم کا حصہ ہے،علم اصول در حقیقت ایسے قواعدو قوانین پر مشتمل ہے جنہیں ایک مجتہد و فقیہ'' استنباط احکام ''میں بروئے کار لا تا ہے ۔ استنباط کا لفظ مادہ ''نبط'' سے مشق ہے جس کا معنی زمین کے نیچے سے پانی نکلنا ہے ۔اس لیے استنباط کو اجتہاد بھی کہا جا تا ہے ،گویا علماء نے احکام کے استنباط میں اپنی سعی و کوشش کو کنواں کھودنے والوں کے کام سے تشبیہ دی ہے کہ وہ مختلف تہوں کے نیچے سے احکام کا شفاف پانی نکالتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لفظ 'استنباط'تقریبا اجتہاد کا معنی دیتا ہے ۔١ 'علم اصول فقہ ' ہمیں فقہی مصادر کے ذریعے استنباط احکام کا صحیح طریقہ سکھاتا ہے ۔ ''علم اصول فقہ ''کاماہر فقہی مصادر کے ذریعے استنباط احکام کے قواعد و اصول اور طریقوں سے بحث کرتاہے اہل تشیع کے نزدیک مصادر فقہ یا ادلہ احکام چار ہیں ۔قرآن ،سنت ،عقل واجماع ،اگرچہ اہلنست نے قیاس استحسان،مصالح مرسلہ اور سد ذرائع و فتح ذرائع وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے ۔اس مقالہ میں سنت کے مفہوم اور اس کی حجیت سے متعلق بحث کی جائے گی سنت کا لغوی معنی : ۔لغت میں سنت سے مراد 'الطریقہ المسلوکہ'(طے شدہ راستہ) کسائی کہتا ہے '' معنا ھا الدوام'' فقولنا سنة ،معنا ھا الامر با الا دامة من قولھم : سنت الماء اذا والیت فی صبہ ٢ (سنت کا معنی دوام ہے پس سنت اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس میں کسی چیز کو مسلسل جاری رکھنے کا معنیٰ مضمر ہے ) ''سنت الماء '' کا جملہ اس موقع پر بولتے ہیں جب آپ اسے انڈیلنے پر اصر ار کر رہے ہوں خطابی کہتا ہے : 'اصلھا الطریقہ المحمودہ فاذا اطلقت انصر فت الیھا وقد تستعمل فی غیر ھا مقیدة کقولہ من سن سنة سیئہ '٣ لفظ سنت اصل میں پسندیدہ راستے کے بارے میں استعمال ہو تا ہے اگر اسے بطور مطلق ذکر کیا جا ئے تواس معنیٰ پر دلالت کر تا ہے لیکن اگر مقید (کسی قید وشرط کے ساتھ )بو لا جا ئے تو پھر اس کے علاوہ معنی مراد ہو تا ہے ۔جیسے حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی بری سنت کی بنیاد رکھے گا۔٤ بعض کہتے ہیں 'ھی الطریقہ المعتادة سوا ء کانت حسنة او سیئة کما فی الحدیث۔۔۔۔۔۔۔۔۔'' سنت معمولی راستہ کے معنیٰ میں استعمال ہو تا ہے چاہے اچھا ہو یا بُرا ،چنانچہ حدیث میں اس معنیٰ میں آیا ہے ۔بطور کلی، لغت کے اعتبار سے'' سنت ''روش وسیرت کے معنی میں استعمال ہو تا ہے ۔سنت کی جمع سنن ہے جیسے غرفہ کی جمع غرف ،قرآن مجید میں بھی اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ ''سنة اللہ التی قد خلت من قبل ولن تجد لسنة اللہ تبدیلا ''٥ سنت الٰہی سے مراد روش یا حکمت الٰہی برائے تکامل بشرہے۔ سنت کا اصطلاحی معنی: ۔مختلف علوم کے ماہرین نے اپنے دائرہ ِعلم کی خاص اصطلاح کے مطابق سنت کی تعریف کی ہے ۔ ١۔فقہاکی اصطلاح میںسنت سے مراد ایسا حکم ہے جس کی بنیاد اصول شریعہ پرقائم ہو 'کل حکم یستند الی اصول الشریعہ '٤ اس تعریف کی بنا پر ہر وہ حکم سنت شمار ہو گا جو شریعت کے مطابق ہو یعنی اس کی سند اور دلیل کا شریعت کے مطابق ہو نا ہے اور خلاف سنت کو بدعت میں شمار کیا جائے گا کیونکہ بدعت ایسا حکم ہے جو شریعت کی طرف استناد نہیں رکھتا ۔ ٢۔متکلمین کی اصطلاح میں سنت کا لفظ بعض دفعہ فقہا کی اصطلا ح کے عین مطابق ذکر ہوا ہے اور بعض اوقات ایک الگ اصطلاح بھی استعمال کر تے ہیں ۔ 'ما یرجح جانب وجودہ علی جانب عدمہ ترجیحا لیس معہ المنع من النقیض '٧ ترجمہ: ایسی چیز جس کی وجودی حیثیت اس کی عدمی حیثیت پر ایک ایسا رحجان رکھتی ہوکہ جس کے ساتھ اس کے نقیض کو بھی ممنوع قرار نہ دیا جا سکے ۔ یہ معنی تقریباً '' مستحب ''کے مترادف بنتا ہے ،اصولیوں کی اصطلاح :تمام علماء اصول الفقہ کا اتفاق ہے سنت سے مرا د قول ،فعل و تقریر پیغمبر ۖہے ۔ ''ماصد ر عن النبی ۖ من قول اوفعل او تقریر ''٨ اس تعریف کے لحاظ سے لفظ سنت ایک وسیع معنیٰ پر دلالت کر تا ہے یعنی دین کے ان تما م احکام کو شامل ہے جو نبی اکرم ۖنے خداوند کریم کی جانب سے حاصل کر کے اپنی زبا ن اطہر سے قرآن کے علاوہ جاری کیے ۔یہ معنی شیعہ و سنی کے درمیان مورد اتفاق ہے۔اختلاف اس میں ہے کہ شیعہ '' سنت'' میں وسعت کے قائل ہو تے ہو ئے آئمہ اطہار کے قول فعل اور تقریر کو بھی سنت میں شمار کرتے ہیں جس کی وضاحت بعد میں کی جا ئے گی ۔جب کہ اہل سنت اس نظریہ کو قبول نہیں کر تے ۔ مرحوم مظفر سنت کی تعریف کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ 'السنة فی اصطلاح الفقہا ء قول النبی اوفعلہ اوتقریرہ ومنشا ھذ الا صطلاح امر النبی ۖ با تباع سنتہ فغلبت کلمة السنہ فیما تطلق مجردة عن نسبتھا الی احد ،علی خصوص ما یتضمن بیان حکم من الا حکام من النبی ۖ سواء کان ذالک بقول او فعل او تقریر ۔اما فقہا ء الا مامیہ با الخصوص فلما ثبت لدیھم ان المعصوم من آل البیت یجری قولہ مجری قول النبی من کونہ حجة علی العباد واجب الا تباع فقد تو سعوا فی اصطلاح السنة الی ما یشمل قول کل واحد من المعصومین او فعلہ او تقریرہ فکانت السنة با صطلا حھم قول المعصوم او فعلہ او تقریرہ'٩ فقہا کی اصطلا ح میں نبی کریم ۖ کے قول فعل اور تقریر کو ''سنت'' کہاجا تا ہے اوراس اصطلاح کی بنیاد خود پیغمبرۖ کا حکم ہے جو انہوں نے اپنی سنت کی پیروی کر نے کے لیے صادر فرمایا تھا ۔پس لفظ سنت جب مطلق یعنی کسی قسم کی قید و شرط کے بغیر بولا جائے تو ان احکام پر دلالت کر تا ہے جو پیغمبرۖنے بیان کیے ہیں چاہے یہ احکام گفتار و کردار سے حاصل ہو ں یا کسی کے عمل کی تائید (تقریر )کی صورت میں سامنے آئیں۔اور فقہائے امامیہ کے نزدیک اہل بیت کے معصوم افراد کا قول چونکہ پیغمبر کا قول ہی ہے اور اس بنا پر حجت ہے تو ان کا قول و فعل و تقریر بھی سنت کا حصہ ہے ، لہذا شیعہ کی اصطلاح میں قول و فعل و تقریر معصوم سنت شمارہو گا ۔نیز اس کی مختصر دلیل پیش کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ 'والسر فی ذالک ان الائمة من آل محمد لیسوا ھم من قبیل الرواة عن النبی والحمدثین عنہ لیکون قولھم حجة من جھة انھم ثقاة فی الروایہ بل انھم ھم المنصوبون من اللہ تعالی علٰی لسان النبی ۖ لتبلیغ الاحکام الواقعة فلایحکون الا عن الواقعےة عند اللہ تعالیٰ کما ھی ۔۔۔۔۔۔'١٠ ''سنت'' میں وسعت دے کر معصوم امام کو شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آل محمد ۖ کا مقام کسی روای کا مقام نہیں ہے کہ جس طرح اگر روای مور د و ثوق ہو تو ان سے نقل شدہ سنت رسول حجت قرارپاتی ہے ۔بلکہ ان کا قول اس لیے حجت ہے کہ ان حضرات کو پیغمبر ۖ نے اللہ کی جا نب سے منصوب کیا ہے تا کہ یہ بھی احکام شریعت کی تبلیغ کر یں لہذا،ان کے بتائے ہو ئے احکام پر عمل کر نے سے انسان اللہ کی جانب سے صادر شدہ حقیقی اور واقعی احکام تک پہنچ سکتا ہے ۔اس لحاظ سے تمام معصوم آئمہ کی سنت کی پیروی بھی واجب ہے ۔ لفظ سنت احادیث ،احادیث میں 'سنت'کا استعمال مختلف معانی میںہوا ہے ۔ ١۔بعض دفعہ قول وفعل وتقریر پیغمبر کے معنیٰ میں آیا ہے ،معمولاً جب لفظ سنت کتاب (قرآن)کے مقابلے میں استعمال ہو تو اس سے مراد یہی معنیٰ ہو نا ہے ۔١١ حضرت امام جعفر صادق ـسے روایت ہے کہ'مامن شی الا وفیہ کتاب اوسنة '١٢ (کو ئی ایسا مطلب موجود نہیں مگر یہ کہ اس کے بارے میں قرآن یا سنت کا حکم ضرور آیاہے) نیز حضرت امیر المومنین ـ سے منقول ہے 'من اخذ دینہ من افواہ الرجال ازالتہ الرجال ومن اخذ دینہ من الکتاب والسنة زالت الجبال ولم یزل '١٣ (جو شخص اپنے دینی امور میں لوگوں کی باتوں پراعتماد کرتا ہے تو لوگ بھی اسے نابود کردیتے ہیں اور جو اپنے دین کو قرآن و سنت سے حاصل کر تا ہے ایسے شخص کے مقابلے میں پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ سکتے ہیں لیکن اس کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آسکتی ) بظاہر فقہا نے سنت کی اصطلاح کواس قسم کی روایات سے اخذ کیا ہے کیونکہ یہ دو روایات اور دیگر بہت سی روایات ،بدعت کو سنت کے مدمقابل قرار دیتی ہیں اور سنت کو شریعت کے عین مطابق سمجھتی ہیں۔ ٢۔روایات واحادیث میں لفظ سنت ایک اورمعنی میں بھی استعمال ہواہے ۔''السواک ھو من السنة ومطھرة للفم '' ١٤ نیز ''من السنة ان تصلی علی محمد و اھل بیتہ فی کل جمعة الف مرة''١٥ مذکورہ بالا روایات میں لفظ ''سنت'' رحجان اور استحباب موکد پر دلالت کر تا ہے یعنی یہاں سنت وجوب کے مقابلے میںذکر ہوئی ہے ۔ ''سنت'' میں اختلافی بحث: سنت کی حجیت کے بارے میں تمام فقہاو اصولیوں کا اتفاق ہے یعنی سنت کو 'حجت 'قرار دینے میں علمائے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں، سنت کے بارے میں جو اختلاف پا یا جاتاہے ،وہ دو جہتوں سے ہے ایک یہ کہ آیا صرف پیغمبر اکرم ۖ کی سنت حجت ہے یا آئمہ معصومین کی سنت بھی حجت ہے ۔ اہلسنت صرف پیغمبراکرم ۖ کی سنت کو حجت مانتے ہیں لیکن شیعہ قرآن مجید کی بعض آیات اور رسول اکرم ۖ کی متواتر احادیث جنہیں خوداہل سنت نے نقل کیا ہے کی روشنی میں آئمہ اطہار کے قول وفعل اور تقریر (تائید )کوبھی حجت سمجھتے ہیں ۔١٦ منجملہ پیغمبر اکرم ۖ کی یہ حدیث جو قطعی السند اور متواتر ہے مذکورہ بالامطلب کے ا ثبات کے لیے کافی ہے ۔ قال رسول اللہ ۖ'انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی '١٧ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کی کثیر اور متواتر احادیث کے با وجود علمائے اہل سنت آئمہ معصومین کی سنت کی حجیت کے تو منکر ہیں لیکن بعض افراطی قسم کے علماء نے صحابہ کے کچھ خاص احکام کو سنت سمجھتے ہو ئے حجت قرار دیا ہے ۔١٨ اختلاف کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم ۖ اور ائمہ اطہار سے منقول سنت کبھی قطعی و متواتر ہو تی ہے اور کبھی ظنی ،یا دوسرے لفظوں میں خبر واحد ہو تی ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ آیا رسول اکرم ۖکی غیر قطعی سنت کی طرف بھی رجوع کیا جا سکتا ہے یا نہیں یہ وہ مقام ہے جہاں نظریا ت افراط و تفریط کا شکار ہو گئے ہیں ۔ ابو حنیفہ جیسے کچھ افراد نے تمام حدیثوں کو نظر انداز کر دیا ہے کہتے ہیں ابو حنیفہ، رسول اکرم ۖ سے مروی تمام حدیثوں میں سے صرف سترہ حدیثوں کو قابل اعتماد سمجھتے تھے جب کہ کچھ دوسرے لوگ ضعیف حدیثوں پر بھی بھروسہ کرتے رہے ہیں ،لیکن شیعہ علما کا نظریہ ہے کہ صرف صحیح وموثق حدیثوں ہی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ۔ اس بنا پر حدیث کے روایوں کا پہچاننا اور ان کے بارے میں تحقیق کرنا ضروری ہے بہت سے اہل سنت علماء کا بھی یہی نظریہ ہے اس لیے مسلمانوں کے درمیان ''علم رجال '' یعنی روای شناسی کے علم نے جنم لیا۔١٩ بعض اوقا ت فروعات سنت میںبھی علماء نے فقہی واصولی نزاع کی ہے ۔ ایک اختلاف اس میں ہے کہ اگر معصوم کو ئی عمل انجام دیتا ہے لیکن کو ئی قرینہ نہیں جو اس عمل کے واجب یا مستحب ہو نے پر دلا لت کر ے تو اس صورت میں عصر آئمہ کودرک نہ کر نے والے افراد پر اس عمل کی پیروی واجب ہو گی یا مستحب (البتہ اس میں سب متفق ہیںکہ اگر قرینہ موجو د ہو تا تو اس کے مطابق وجوب یا استحباب کو ہی اخذ کر تے اس مسئلہ میں تین مختلف آرا ء ہیں بعض وجوب اور بعض استحباب کے قائل ہو ئے ہیں، لیکن بعض دیگر فقہا کی نظرمیں ایسا عمل نہ وجوب اور نہ ہی استحباب پر دلا لت کر تا ہے بلکہ عدم قرینہ کی صورت میں صرف ابا حہ(مباح ہونے )پر دلالت کر ے گا تینوں نظریات کے قائلین نے قرآن وحدیث سے اپنے نظریہ پر استدالال کیا ہے ۔ دوسرا نزاع واختلاف معصوم کے اس فعل کے بارے میں ہے، جس سے متعلق یقین ہو کہ پیغمبرۖ یا معصوم نے اسے وجوب یا استحباب کے عنوان سے انجام دیا ہے۔لیکن پیغمبر یا معصوم نے جسے واجب کے طور پر انجام دیا تھاوہ بھی کیا ہمارے لیے بھی واجب ہے ،اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ کچھ احکام (واجبات و مستحبات )پیغمبر ۖکے ساتھ مخصوص ہیں ،جن میں بعض ہمارے لیے بیان ہو ئے ہیں لیکن چونکہ باقی بیان نہیں ہو ئے تو شک کر سکتے ہیں کہ کیا معلوم یہ عمل جسے پیغمبر ۖ یا معصوم نے واجب سمجھ کر انجام دیا تھا ،شاید یہ ان کے ساتھ مختص احکام میں سے ہو ؟ جس طرح نماز تہجد پیغمبر ۖ کے لیے واجب تھی لیکن عام مسلمانوں پر واجب نہیں ۔ اس بنا پر بعض علمائے اصول اس قسم کے افعال معصوم کو حجت نہیں سمجھتے ،مرحوم مظفر کی نظر میں یہ نزاع، لفظی ہے،کیونکہ فعل معصوم کے بارے میں یا تو معلوم ہے کہ یہ ا ن سے مختص احکام میں سے ہے ،تو اس صورت میں بغیر شک کے ہمارے لیے حجت نہیں رکھتا ہے لیکن اگر معلوم ہو کہ یہ عمل مختصات معصوم میں سے نہیں بلکہ امام و امامت میں مشترک ہیں، تو اس وقت یقینی طور پر ہمارے لیے بھی حجت ہو گا البتہ ایسا عمل جس کے بارے معلوم نہ ہو کہ یہ مختصات معصوم میں سے ہے یا مشترکات میں سے تو اس صورت میںہمیں چاہے کہ ہم اسے مشترک احکام میں شمار کر یں نہ کہ مختصات معصوم میں، اس کی دلیل یہ کہ عمل کے لحاظ سے پیغمبراور معصوم دیگر افراد کی طرح مساوی ہیں ۔لہذا جو حکم ان پر واجب ہے ہم پر بھی واجب ہوگا ۔٢٠ بحث حجیت :علم اصول میں حجیت کی بحث اہم ترین ابحاث میں سے شمار ہو تی ہیں، مصادر شریعت اور ادلہ احکام کی بحث میں قرآن مجید کی حجیت کے بعد سنت کی حجیت کے بارے میںبحث کی جا تی ہے ۔ یعنی کون سے دلائل ہیں کہ جو ہمارے لیے سنت کی حجت اور اس کے معتبر ہو نے کو یقینی طور پر ثابت کر تے ہیں ۔ حجت کے معنیٰ لغت میں 'غلبے' کے ہیں (غالب آنا )اور دلیل کو حجت کہتے ہیں اس لیے کہ وہ ذہنی حیثیت سے غالب آنے کا ذریعہ ہو تی ہے یعنی دوسرے آدمی کو اپنے نظریے میں شکست ماننا پڑتی ہے۔ علم اصول کی اصطلاح میں حجت ایسی دلیل کو کہتے ہیں جو اپنے متعلق کو کس طرح ثابت کرے کہ اس پر قطع و یقین پیدا ہو جائے ،اس بنا پر جب سنت پیغمبر ۖ کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ 'حجت 'ہے تو اس مراد یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کی اتباع و پیروی سے ہمیں یقین ہے کہ ہم نے حق پر عمل کیا ہے اور ان کے قول وفعل میںپیروی میں کسی قسم کی خطا یا غلطی کا شائبہ تک نہیں نیز خدا کی بار گاہ میں اسے ثبوت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں کہ ہم نے تیرے رسول ۖ کی ابتاع و پیروی کر کے حق پر عمل کیا ہے ،البتہ اس کا دوسرا رُخ بھی ہے کہ اگر پیغمبر ۖ کے وجود کے با وجود کو ئی گمراہ ہو جائے تو یہ عذر و بہانہ یا دلیل پیش نہیں کر سکتا کہ ہمیں ہدایت کا راستہ معلوم نہ تھا ۔اس مطلب کو قرآن نے بیان فرمایا ہے 'رسلا مبشرین ومنذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجة '٢١ (ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں بشارت دینے والے اور (عذاب سے )ڈرانے والے تاکہ لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے ) حجیت سنت نبوی: ۔ سنت نبوی ۖ کی حجیت کو قرآن وعقل واجماع کے ذریعے ثابت کیا جا سکتاہے۔ ١۔آیات قرآن مجید اگر چہ کثیر تعداد میں آیات ہمارے مدعا کو ثابت کر تی ہیں ۔لیکن صرف چند آیات پر اکتفا کیا جا ئے گا ۔ ٭ اطعیواللہ واطعیو الرسول۔۔۔۔۔٢٢ پیروی کیجیے اللہ کی اور پیروی کیجیے رسول کی ٭ وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھو ٢٣ اوررسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جائو ٭ وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحی ٢٤ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا یہ تو صرف وحی ہو تی ہے جو (اس پر )نازل کی جاتی ہے ٭ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ٢٥ جس نے رسول کی (عملی )پیروی کی اس نے (حقیقت میں)خدا کی پیروی کی ہے ٭ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسو ة حسنہ ٢٦ بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی زندگی میں)بہترین نمونہ ہے مندرجہ بالا آیات پیغمبر اکرمۖ کے اقوال و افعال کی حجیت کوواضح طور پر بیان کر تی ہیں،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی پیروی کے ساتھ پیغمبر اکرم ۖ کی پیروی کو ذکر ناپیغمبر ۖ کی پیروی کو اللہ تعالیٰ کی پیروی کے لیے علامت قرار دینا درحقیقت عصمت پیغمبر ۖ پر دلالت کر رہی ہیں نیز آیہ 'ما ایاکم الرسول فحتدوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔' اگر چہ شان نزول کے اعتبار سے عتائم بنی سے متعلق ہے لیکن شان نزول آیہ کی عمومیت کو محدود کر نے کا سبب نہیں بن سکتا اس بنا پر یہ آیہ مجیدہ پیغمبر اکرم ۖ کی جانب سے پیش کردہ تمام احکامات کو شامل ہے ۔اور تمام امور میں اطاعت پیغمبر اکرمۖ کو مسلمانوں کے لیے لازم قرار دے رہی ہے اس طرح آیہ 'وما ینطق عن الھو یٰ۔۔۔۔۔ 'پیغمبر اکرم ۖسے ہر قسم کے لہو و نسیان اور ذاتی خواہشات پر مبنی احکام جاری ہو نے کی نفی کر رہی ہے ۔اس لیے کہ لسان وحی الٰہی کے ساتھ مفصل ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی غلیطوں سے پا ک ہے نیز سورہ احزاب کی آیت کو بھی پیغمبر کی پوری زندگی کو ہمارے لیے نمونہ عمل قرار دیتی ہے،یہ آیہ مجیدہ پیغمبر اکرم ۖ کے افعال و اعمال کی ابتاع و پیروی پر واضح دلیل ہے جو کہ سنت کا اہم عنصر ہے ۔ ٢۔اجماع عملی : بعض محققین نے سنت پیغمبر کی حجیت پر ''اجماع مسلمین '' کا دعویٰ کیا ہے ''اجمع المسلمون علی ان ما صدر عن رسول اللہ من قول اور فعل او تقریر کا ن مقصوداً بہ التشریح والا قتداء نقل الینا لبسند صحیح یغیر القطع او الظن الر اجع بصدقہ ،یکون حجة علی المسلمین ''٢٧ مسلمانوںکا اس با ت پر اجماع ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کا ہر قول و فعل و تقریر (تائید )جو تشریع احکام کے عنوان سے ایسی صحیح السند احادیث کے ذریعے نقل ہو جس سے یقین یاظن حاصل ہو جائے تو یہ تمام مسلمانوں کے لیے حجت ہو گا ،اس اجماع سے مراد اجماع مصطلع نہیں بلکہ مراد، اتفاق آراء ہے ۔ ٣۔عقلی دلیل : تمام ادلۂ عقلیہ جو پیغمبر اکرم ۖ کی عصمت کو ثابت کر نے کے لیے قائم کی گئی ہیں اور پیغمبر اکرم ۖ سے ہر قسم کے سہو ،ونسان اور خطا کو ممنوع قرار دیتی ہیں،آپۖ کی سنت کی حجیت پر واضح طور پر دلا لت کر تی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حوالہ جات ١۔ مطہری ،مرتضی،اسلامی علوم کا تعارف ،ص٣٠٧ ٢۔ رضوانی،علی اصغر،اصول فقہ مقارن،ص٦٣ ٣۔ ارشاد الفحول ص،٣٣،نقل از اصول فقہ مقارن ،ص٤١ ٤۔ ابو الحسین ،مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم،کتاب الزکاة،ح١٤٩١ ٥۔ القرآن ،الفتح آیت ٢٣ ٦۔ ابن اثیر ،النھایہ،لفظ بدع ٧۔ ارشاد الفحول ص٣٣ ٨۔ رضوانی ،علی اصغر،اصول فقہ مقارن،ص٦٥ ٩۔ المظفر،محمد رضا،اصول الفقہ ،ج٣،ص٥٣ ١٠۔ ایضاً،ص٥٤ ١١۔ ربانی گلپائیگانی ،علی ،شیعہ شناسی ،ص٣٦٨ ١٢۔ کلینی محمد بن یعقوب،اصول کافی کتاب فضل العلم باب الرد،ح٤ ١٣۔ حرعاملی،محمد بن حسن ،وسائل الشیعہ ج١٨،ص٩٥ ١٤۔ ایضاً ،ج١،ص٣٤٧ ١٥۔ ایضاً ۔ج٥،ص٤٢ ١٦۔ مطہری ،مرتضیٰ،اسلامی علوم کا تعارف ،ص٣١٠ ١٧۔ ابن کیثر ،تفسیر القرآن العظیم ج،٤،ص١٢٣،سیوطی الدالمنثور،ج٦ص،٧نسائی،سنن الکبری ج٥،ص١٢،مسند ، احمد بن حنبل،ج٥ص١٢٢،نووی،شرح مسلم ج١٥،ص١٨٠ ١٨۔ شاطبی،الموافقات،ج٤،ص٧٤ ١٩۔ مطہری ،مرتضیٰ،اسلامی علوم کا تعارف ،ص٣١١ ٢٠۔ اصغری،سید عبد اللہ،اصول فقہ،ج٢،ص٧٧ ٢١۔ القرآن الکریم ،النساء ،١٤٥ ٢٢۔ القرآن الکریم ،النساء ٥٨ ٢٣۔ القرآن الکریم ،الحشر،٧ ٢٤۔ القرآن الکریم ،النجم٣،٤ ٢٥۔ القرآن الکریم ، النسا ء ٨٠ ٢٦۔ القرآ ن الکریم ،احزاب،٢١ ٢٧۔ رضوانی،علی اصغر،اصول فقہ مقارن،ص منبع:alhassanain.com