اصول فقہ کا مختصر تعارف

انسان جب اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آتاہے اور کسی شریعت کا تابع ہوجاتا ہے اور یہ جان لیتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور اس کو احکام خدا وندی کو بجا لا تا ہے تو اس وقت ضروری ہے کہ اُس کی زندگی بسر کر نے کا طریقہ شریعت اسلامیہ اور الہی کے مطابق ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شریعت کچھ اور کہہ رہی ہو اور انسان کا عملا کردار اور زندگی کا طریقہ کچھ اور ہو۔ بلکہ ضروری ہے کہ انسان کا عملی طریقہ کار اس شریعت کے مطابق ہو جس پر وہ ایمان رکھتا ہے اور جس کی وہ پیروی کرتا ہے ۔ احکام شریعت کے واضح نہ ہونے کا سبب پس یہ ایک ضروری امر ہے کہ انسان اپنے عملی موقف کا تعُّین کر ے اور یہ جان لے کہ اس نے زندگی کے مختلف حالات و واقعات میں کس طرح عمل کرنا ہے ۔اب اگر احکام شریعت واضح ہو تے تو ہر ایک کے لیے اپنا عملی موقف (زندگی گزارنے کا طریقہ )معین کر نا بہت آسان ہو جاتا اور اس قدر وسیع و عمیق علمی ابحاث کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ مگر احکام شریعت اس قدر واضح و بدیہی نہیں ہیں کہ ہر انسان آسانی سے ان کو جان کر ان کے مطابق زندگی گزار سکے ۔احکا م شریعہ کے غیر واضح ہونے کا سبب عصر تشریع سے اب تک ایک طویل زما نی فاصلہ ہے ۔ اس زمانی فاصلے کی وجہ سے اکثر احکام شرعی غیر واضح ہو گئے اور ہر انسان کے لیے ان کا جاننا ممکن نہیں رہا اب اس حالت میںکیا کیا جائے ؟کیا کوئی طریقہ ہے جس کو اپناتے ہوتے ہم ان احکام شریعت سے واقفیت حاصل کر سکیںکہ جن سے ہمیں روزمرہ زندگی میں واسط پڑتا ہے اور ہمارے پاس ان احکام شریعت کے وجو د پر دلیل بھی ہو ۔ علم فقہ کی غرض وغایت پس ان حالات میں ضروری تھا کہ ایک ایسا علم وضع کیا جائے جو اس مشکل میںہمارے کام آسکے اور ہم اس کے ذریعے پیچیدہ وغیرہ واضح احکام شریعت کو دلیل کے ساتھ جان سکیں اور پھر ان احکام کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال سکیں۔ اس اہم غرض کے حصول کے لیے علم فقہ وجود میں آیا ۔جو انسان کو روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات و حالات سے متعلق احکام شرعیہ کو دلیل سے ثابت کرے۔جو شخص یہ احکام قرآن وسنت اور دوسرے شرعی منابع سے استنباط کرتا ہے اُسے فقیہ کہاجا تا ہے اور شرعی منابع میں اجتہاد کے ذریعے سعی وکوشش کو استنباط و استخراج کا نام دیا جا تا ہے ۔اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ علم فقہ، احکام شرعیہ کے استخراج واستنباط کا علم ہے۔ یعنی ؛جس کے ذریعے کتاب و سنت سے احکام شرعیہ معلوم کیے جا تے ہیں ۔ علم اُصول فقہ احکام شرعیہ کے استنباط اور استخراج کے اس اہم کام میں کچھ قواعد وضوابط سے مدد لی جاتی ہے، جو مشترک و عام قواعد ہیں ،یہ قواعد تقاضا کر تے ہیں کہ ان کے بارے میں تحقیق و تدقیق کی جائے۔ ان کو مشخص کیاجائے کہ یہ کون کو ن سے اُصول وقواعد ہیںتاکہ ان کو ایک جگہ جمع کر کے علم فقہ میں استعمال کے لیے آمادہ کیا جا ئے ۔اس کام کے لیے ایک خاص علم کو وضع کر نے کی ضرورت تھی ۔ا س غرض کے لئے وضع کئے جانے والے علم کو اصول فقہ کہا جاتا ہے ۔ علم اصول کا تاریخی سفر ابتدا ء میں علم اصول علم فقہ سے جدا علم نہیں تھا بلکہ علم اصول نے علم فقہ کے دامن میں پرورش پائی جس طرح علم فقہ علم حدیث کی آغوش میں پروران چڑھا اور خود علم حدیث بھی علم شریعہ سے الگ نہ تھا علم حدیث میںاس وقت بنیادی کام جمع نصوص و روایات یا حفظ نصوص و روایات تھا تاہم اس مرحلے میں ان نصوص و روایات سے حکم شرعی کے فہم کا طریقہ کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتا تھا بلکہ بہت سادہ طریقے سے ہی ان روایات سے استفادہ کیا جا تا تھا ۔ اس کے بعدجوں جوں وقت گذرتا گیا؛ نصوص و روایات سے حکم شرعی کافہم تدریجاً پیچیدہ اور عمیق ہو تا گیا اور اس کے لئے کچھ اصول وضوابط تعین کئے گئے جن سے ایک علمی اور فقہی تفکر کی ابتدا ہو ئی اور علم فقہ وجود میں آیا۔ جب علم فقہ میں حکم شرعی کو الگ عمیق وعلمی انداز میں نصوص شرعیہ سے استنباط کا عمل وجود میں آیا تواس وقت کچھ قواعد عامہ سامنے آئے جن کو حکم شرعی استنباط کر نے میں برو ئے کار لا یا جانے لگا۔یہ ایسے عام و مشترک قواعد تھے جو مختلف احکام شرعیہ کے استخراج میں استعمال ہو تے تھے اور علمائے فقہ نے یہ جانا کہ یہ قواعد عام ہیں اور عملیہ استنباط میںمشترک ہیں اور ان کے بغیراستخراج حکم شرعی ممکن نہیں ہے ۔یہیں سے اصولی تفکر کی ابتدا ہو ئی اور فقہی ذہنیت کا رخ اصولی ذہنیت کی طرف ہو گیا یعنی اس کے بعد علم اصول کی باقاعدہ ابتداء ہو گئی ۔ اور اس بات کامطلب یہ نہیں ہے کہ اصولی فکر اس سے پہلے نہیں تھی بلکہ اصولی فکرصادقین (امام باقرو جعفرصادق) کے زمانے میںبھی اصحاب ائمہ میں اس مرحلے تک پہنچ چکی تھی ۔ اس بات پر تاریخ گواہ ہے کہ اصحاب ائمہ معصومین خصوصا ً امام صادق ـ کے شاگرد ایسے مشترک اور عام عناسرکے بارے میں سوال کرتے تھے، جو احکام شرعیہ کے عملی استنباط میں کام آتے ہیں اور ائمہ ان کے سوالوں کے جوابات دیتے تھے ۔یہ سوالا ت کتب احادیث میں موجود ہیں؛مثال کے طور پر بعض روایات میںنصوص متعارضہ کے علاج کے بارے پوچھا گیا اوربعض میں حجت خبرواحد اور اصالة براء ة وغیرہ کے بارے سوالات کیے گئے ہیں ۔ اصحاب ائمہ کے اس قسم کے سوالات و جوابات سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اصولی فکر ان کے ہاں بھی موجود تھی ۔اور قواعدعامہ (اصولی قواعد)کی تحدید اور وضع کی طرف ان کابھی رحجان تھا ۔بلکہ بعض اصحاب نے تو مسائل اصولیہ پر رسالے بھی تالیف کیے ہیں۔ جیسا کہ اصحاب امام صادق میں سے ہشام بن حکم نے مباحث الفاظ پر رسالہ کی تالیف کیا ہے ۔ملاحظہ کیجئے: فہرست نجاشی ٤٣٣رقم ١١٧٤، تائیس الشعیہ لعلوم الا سلام ٣١٠۔٣١١وسائل الشیعہ ٣،٤٧٧ باب ٤١ ابواب نجاسات ،حدیث اول ،وسائل الشیعہ باب ٩،ابواب صفات قاضی ،وابواب وضو،حدیث اول ۔ تاہم اس دور میں ان عناصر مشترکہ کا علم، فقہی ابحاث سے کوئی الگ او رمستقل علم نہیں تھا،یوں لگتا ہے کہ اصولی ابحاث جب تک مستقل علم کے درجہ تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوئیں، علم فقہ و علم اصول ایک دوسرے میں مدغم رہے۔ بعدمیں تدریجا یہ ابحاث ایک مستقل حیثیت اختیار کرگئیں۔ بلکہ بعض نے ان کو علم کلا م و اصول میں سے الگ کیا جیسا کہ سید مرتضی نے اپنی کتاب'' الذریعہ'' میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے لکھا ہے : ''قد وجدت بعض من ا فردلا صول الفقہ کتابا ' ' کہ میں نے بعض ایسے افراد کو پایا جنہوں نے اصول فقہ میں ایک الگ کتاب لکھی (یعنی علم کلام و اصول دین سے الگ ) اصول دین اور اُصول فقہ کی حد بندی باوجو اس کے علم اصول فقہ علم اصول دین سے الگ علم بن گیا پھر بھی اس میں علم اصول دین کے ساتھ مخلوط رہنے کی وجہ سے بعض ابحاث کلامی اس میں داخل ہو گئیں کیونکہ کلمہ اصول ان دونوں میں مشترک تھا جیسے کہاجا تا ہے کہ اخبا راحاد جو ظنی ہیں ان سے اصول میں استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔کیونکہ اصول میں دلیل کا قطعی ہو نا ضروری ہے ۔پس کلمہ اصول کے دونوں علموں میں مشترک ہو نے کی وجہ سے اس فکر کو تقویت ملی کہ اخبار احاد سے اصول فقہ اور اصول دین دونوں میں استدلال ممکن نہیں جب کہ صحیح یہ ہے کہ اصول دین میں دلیل کا قطعی ہونا ضروری ہےاوراصول فقہ میں دلیل ظنی (اخباراحاد) سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے ۔ بہرحال تدریجا ًیہ علم یعنی قواعد عامہ کے ساتھ مشترکہ عناصر کا علم دوسرے علوم سے الگ شکل اختیار کرتاگیا جوں جوں اس میں وسعت آتی گئی یہاں تک کہ علم اصول مرحلہ تصنیف میں داخل ہو گیا ۔ غیت صغریٰ کے بعد اُصول فقہ کا ارتقاء یہ غیبت صغریٰ کے بعد چوتھی صدی ہجری کے ابتداء کا زمانہ ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو نہی(غیبت کبریٰ کے آغاز کے ساتھ ) عصر نص ختم ہوا تو امامیہ فقہا کے ہاں باقاعدہ اصولی ابحاث واضح طور پر نظر آنے لگیں گویا کہ ان کی اصولی ذہنیت کھل کر سامنے آگئی ۔تاہم عصرنص میں اس کی ضرورت پیش نہیں آئی مگر اصولی فکر اس وقت بھی پائی جاتی تھی ۔اصولی میدان میں سب سے پہلے جن فقہاءامامیہ نے کردار ادا کیا ان میں سے حسن بن علی ابن ابی عقیل اور محمد بن احمد ابن جنید کے نام سہر فہرست ہیں ۔ اصولی تصانیف کا آغاز اب علم اصول بہت تیزی سے تالیف و تصنیف کے مرحلہ میں داخل ہو گیا یہاں تک کہ محمد بن محمد بن نعمان الملقب باشیخ المفید (متوفیٰ ٤١٣ھ)نے اصول فقہ پر کتا ب لکھی اور اس میں اصولی طرز تفکر کو واضح کیا جو، ان سے پہلے ابن ابی عقیل اور ابن جنید جیسے فقہا ء کے ہاں پایا جا تا تھا ۔ اس کے بعد شیخ مفید کے شاگرد رشید سید مرتضی (متوفی ٤٣٤ھ )نے علم اصول پر 'ذریعہ 'نامی کتاب لکھی ۔سید مرتضی کے علاوہ شیخ مفید کے باقی شاگردوں نے بھی علم اصول پرکام کیا جن میں سے سلار بن عبدالعزیز الدیلمی (متوفی ٤٣٦ھ)نے بھی کتاب لکھی جس کا نام ،''التقریب فی اصول الفقہ'' رکھا ۔شیخ مفید ہی کے شاگردوں میں سے محمد بن حسن طوسی (المعروف شیخ طوسی متوفی ٤٦٠ھ)ہیں، جنہوں نے ''العدة فی الاصول ''نامی کتاب تالیف فرمائی۔ علم اصول کا جدید دور شیخ طوسی کے زمانے میں علم اصول ایک جدید دور میں داخل ہو گیا ۔اس دور میں علم اصول نے ترقی کی منازل طے کیں ۔بلکہ شیخ طوسی کی کتاب'' العدة'' اصولی ترقی کی عکاس ہے اور شیخ کی کتاب'' المبسوط'' ،اس دور میں فقہی میدان میں پائے جانے والے تقدم کی عظیم مثال ہے۔ ٤٦٠ ہجری میں شیخ طوسی کی وفات ہو تی ہے جن کے بعد تقریبا ً ایک صدی تک فقہ و اصول دونوں تعطل و توقف کا شکار نظر آتے ہیں اس عرصہ میں فقہ و اصول میں مزید ترقی نہیں ہو سکی ۔ تقریباً ایک سوسال بعد محمد بن احمد ابن ادریس (متوفی ٥٩٨ھ )نے آکر اس علمی تعطل کاخاتمہ کیا اور فقہ میں'' سر ائر'' نامی کتاب تایف فرمائی ،اسی زمانے میں ہی حمزہ بن علی بن زہر ہ الحسینی الحلبی نے اصول فقہ پر کتا ب لکھی جس کا نام ''الغنیہ'' ہے ۔ یعنی؛ دوبارہ فقہ و اصول کے میدان میں کام شروع ہو گیا اور دونوں علوم پھر سے پھلنے پھولنے لگے ابن ادریس کے شاگردوں کے شاگرد نجم الدین جعفر بن حسین بن یحییٰ بن سعید الحلبی (المعر وف محقق حلی متوفی ٦١٦ھ )ہیںجنہوں نے فقہ میں شرائع الاسلام اور اصول میں ''نہج الوصول الی معرفة الاصول'' اور'' المعارج'' جیسی گرانقدر کتابیں لکھیں۔محقق حلی ہی کے بھانجے شیخ حسن بن یوسف بن علی بن مطہر المعروف علامہ حلی (متوفی ٧٢٦ھ )ہیں ۔ جنہوں نے اصول فقہ پر کئی کتابیں لکھیں جن میں'' تہذیب الوصول الی علم الا صول'' اور ''مبادی الوصول الی علم الا صول ''قابل ذکرہیں۔ علمی میدان میں یہ نشوونما دسویں صدی ہجری کے اواخر تک جاری رہی ۔شیخ حسن بن زین الدین (متوفی ١٠١١ھ )کی اصول فقہ میں'' المعالم ''نامی کتاب اس زمانے میں علمی ترقی کو عیاں کرتی ہے ۔کتاب 'المعالم' اصولی مستوی عالی کی آسان تعبیر اور جدید تنظیم کی وجہ سے انفرادی حیثیت رکھتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب درسی کتاب بن گئی اور ماضی قریب تک حوزات علمیہ کے باقاعدہ نصاب کا حصہ رہی ۔بلکہ اب بھی بعض مدارس میں پڑھائی جا تی ہے ۔معالم کی ہم عصر کتاب ''زبدة الا صول'' ہے جس کو گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں شیخ بہائی (متوفی ١٠٣١ھ )نے تصنیف فرمایا۔ علم اصول پراخباری گروہ کی یلغار صاحب معالم کے بعد گیارھویں صدی ہجری کے آغاز میں علم اصول پر اخباریت کا شدید حملہ ہوا۔اخباریوں کی طرف سے علم اصول کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جن کے روح رواں میرزا محمد امین اشترآبادی (متوفی١٠٢١ھ )تھے ۔ علم اصول پر طرح طرح کے اشکالات کیے گئے ۔مثلاًیہ علم اہل سنت سے لیا گیا ہے ۔یا پھر قواعد اصولیہ پر عمل کرنے سے نصوص شرعیہ کی اہمیت کم ہو جا تی ہے یا یہ قواعد نصوص شرعیہ سے دوری کا سبب ہیں وغیرہ اس سلسلے میںبڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں ۔علامہ باقرمجلسی (متوفی ١١١٠ھ )نے کتاب ''بحارالا نور' ' تالیف فرمائی ،شیخ محمد بن الحسن المعروف حر عاملی : (متوفی ١١٠٤ھ )نے' ' وسائل الشیعہ' 'کی تالیف فرمائی ۔ ہم دیکھتے ہیںکہ اس زمانے میں جمع احادیث و روایات پربہت کام ہوا۔اسی طرح فیض محسن کاشانی (متوفی ١٠٩١ھ )نے کتاب ''وافی ' 'کی تالیف کی ،سید ہاشم بحرانی (متوفی ١١٠٧ھ )نے تفسیر پر''برھان ''نامی کتاب لکھی جس میں تفسیر قرآن سے متعلق روایات و احادیث کو جمع کیا گیا ۔ اُصول فقہ کی اخباریت کے سامنے پائیداری اخیاریت کی طرف سے علم اصول پر شدید یلغارو تنقید کے باوجود اصولی کتب کی تایف کا کام کسی حد تک جاری رہا ۔ملاعبد اللہ تونی (متوفی ١٠٧١ھ )نے ''الوافیہ فی الا صول ''نامی کتاب کی تالیف اسی زمانے میں کی۔ ان کے بعد محقق سید حسین خوانساری (متوفی ١٠٩٨ھ)نے بھی اصول پر کام کیا کیونکہ ان کی فقہی کتاب ''مشارق الشموس فی شرح الدروس '' میں ان کے افکا ر اصولیہ واضح طور پرپا ئے جا تے ہیں ۔ محقق خوانساری کے ہم عصر محقق محمد بن الحسن الشیروانی (متوفی ١٠٩٨ھ)ہیں جنہوں نے کتا ب ''المعالم''پر حاشیہ قلمبند فرمایا ۔اسی طرح اس زمانے میںہمیں اور بھی ایسے علماء کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے اصولی میدان میں کردار ادا کیا۔ محقق خوانساری کے بیٹے جمال الدین نے عنصری کی شرح مختصر پر تعلیقہ تحریر کیا جس کی طرف شیخ مرتضی انصاری نے ''رسائل'' میں بھی اشارہ کیا ہے ۔ سید صدر الدین قمی (متوفی ١٠٧١ھ )نے ملاعبد اللہ تونی کی کتاب 'الوافیہ فی اصول ' کی شرح لکھی انہی کے پاس اسناد و حید بہبانی نے تعلیم حاصل کی۔انہیں جلیل القدر علما ہی کی علمی کا وشوں کی وجہ سے علم اصول ایک نئے دور میں داخل ہوا اور کربلا مقدسہ میں مجدد کبیر محمد باقر بہبہانی(متوفی ١٢٠٦ھ )کی سر پرستی میں ایک جدید مدرسہ ظہور پذیر ہوا۔اس زمانے میں اخباریت کا مرکز بھی کربلا مقدسہ ہی تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے اصول کو اخباریوں کے اشکالات و شبہات کا بھرپور جواب دینے کا موقع فراہم ہوا یہاں تک کہ اخباری نظریات ماند پڑنے لگے اور اصولی نظریات اخباریت پر غالب آگئے۔ محقق بہبہانی نے علم اصول میں ، ''الفو ائد الحائر یہ ' 'نامی کتاب لکھی جس میں انہوں نے اخباریوں کے شبھات کے جواب بھی دیے۔ ہم اُصولی نظریات کو تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ١۔عصر تمہیدی :جس میں فکراصولی کی جڑ یں نمودار ہو ئیں ،جو اصحاب ائمہ ،ابن ابی عقیل و ابن جنید سے لے کرشیخ طوسی تک کا زمانہ ہے ۔ ٢۔عصر علمی :جس میں فکر اصولی نے نشوو نما پائی ٣۔عصر کمال علمی : جو بار ہویں صدی ہجری کے اواخر میں استاد وحید بہبہانی سے شروع ہو تا ہے ۔اس زمانے میں بہت بڑے بڑے علماء ومحققین سامنے آئے جن میں سے استاد وحید بہبمانی کے شاگرد سید مہدی بحر العلوم (متوفی ١٢١٢ھ )،شیخ جعفر کا شف الغطا ء (متوفی ١٢٢٧ھ )،میرزا ابو القاسم قمی (متوفی ١٢٢٧)،سید علی طباطبائی (متوفی ١٢٢١ھ) اورشیخ نور اللہ تستری (متوفی ١٢٣٤ھ)ہیں۔ شیخ انصاری جو ١٢١٤ھ میں پیدا ہو ئے ،نے اصول فقہ کو بے مثال عروج اور ارتقا ئعطا کیا ۔فقہ میں' ''مکاسب''ا و ر اصول میں ''فرائد الا صول ''جیسی بے نظیر کتابیں لکھیں ۔جو اب تک حوزات علمیہ کے نصاب کا حصہ ہیں ۔١٢٨١ھ میں شیخ انصاری کی وفات ہو ئی ۔اس کے بعد بہت زیادہ علما ء پیدا ہوئے جنہوں نے اصولی میدان میں کام کیا ۔اور اب تک اس علم میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ مصادر اور منابع ١۔صدرمحمد باقر(شہید) ،معالم جدید ٢۔ صدرمحمد باقر(شہید)، حلقات اصول۔ ٣۔نجاشی۔فہرست نجاشی ٤۔صدر ،سید حسن ،تاسیس الشیعہ فی علوم الا سلام ٥۔حر عاملی ،وسائل الشیعہ منبع:alhassanain.com