امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کا مسئلہ راز رہے یا نہ رہے لیکن ملت جعفریہ کے نزدیک اس مسئلے کی حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ ہمارے اس موقف کی صداقت کے لیے شیعہ مورخین کی روایات ہی کافی ہیں جیسا کہ جناب شیخ مفید (رح) نے اپنی کتاب ارشاد، جناب شیخ صدوق نے اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں نقل کیا ہے۔خاص طور پر عیون میں امام رضا علیہ السلام ہی کی ولی عہدی کے بارے میں متعدد روایات نقل کی گئی ہیں۔ قبل اس کے ہم شیعہ کتب سے کچھ مطالب بیان کریں۔ اہل سنت کے ابوالفرج اصفہانی کی کتاب مقاتل الطالبین سے دلچسپ تاریخی نکات نقل کرتے ہیں، ابوالفرج اپنے عہد کا بہت بڑا مورخ ہے۔ یہ اموی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے یہ آل بابویہ کے زمانے میں زندگی بسر کرتا رہا۔ چونکہ یہ اصفہان کا رہنے والا ہے اس لیے اس کو اصفہانی کہا جاتا ہے۔ ابوالفرج سنی المذہب ہے ۔شیعوں سے اس کا کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس کو شیعوں سے کسی قسم کی ہمدردی تھی ۔پھر یہ شخص کچھ اتنا زیادہ نیک بھی نہ تھا کہ کہیں کہ اس نے تقویٰ اور پرہیزگاری کو سامنے رکھتے ہوئے حقائق کو بیان کیا ہے ۔مشہور کتاب الآغانی کا مصنف بھی یہی ابوالفرج اصفہانی ہی ہے ۔الآغانی اغنیہ کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے آوازیں…
اس کتاب میں موسیقی کے بارے میں مکمل تعارف، کوائف اور تاریخ تحقیقی انداز میں پیش کی گئی ہے۔ اٹھارہ جلد وں پر مشتمل یہ کتاب موسیقی کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ابوالفرج کا ایک ہم عصر عالم صاحب بن عباد سفر پر کہیں بھی جاتا تھا۔ ابوالفرج کی چند کتابیں اس کے ہمراہ ہوتی تھیں ۔وہ کہا کرتا تھا کہ ابوالفرج کی کتابوں کے ہوتے ہوئے اب مجھے دوسری کتابوں کی ضرورت نہ رہی۔ الاغانی اس قدر جامع اور تحقیقی کتاب ہے کہ اس کو پڑھ کر کسی دوسری کتاب کی احتیاج نہیں رہتی۔ یہ موضوع کے اعتبار سے منفرد کتاب ہے۔ اس میں موسیقی اور موسیقی کاروں کے بارے میں پوری وضاحت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ علامہ مجلسی (رح) ، الحاج شیخ عباس قمی(رح) نے بھی الاغانی کو ابوالفرج کی تصنیف قرار دیا ہے ۔ہم نے کہا ہے کہ ابوالفرج کی ایک کتاب مقاتل الطالبین ہے (جو کہ کافی مشہور ہے) اس میں انہوں نے اولاد ابی طالب کے مقتولوں کی تاریخ بیان کی ہے۔ اس میں اولاد ابی طالب کی انقلابی تحریکوں اور ان کی المناک شہادتوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ مختلف تاریخی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ شہادت کے اس باب میں علوی سادات کی اکثریت ہے ۔ البتہ کچھ غیر علوی بھی شہید ہوئے ہیں۔
اس نے کتاب کے دس صفحے امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کے ساتھ خاص کیے ہیں۔ اس کتاب کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں۔ تو دیکھتے ہیں کہ اس کے مطالب اور شیعہ قلمکاروں کی تحریریں اس موضوع کی بابت تقریباً ایک جیسی ہیں۔
آپ ارشاد کامطالعہ کرلیں اور مقاتل الطالبین کو پڑھ لیں ان دونوں کتابوں میں آپ کو کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہو گا۔ اس لیے ہم شیعہ سنی حوالوں سے اس مسئلہ پر بحث کریں گے لیکن اس سے قبل ہم آتے ہیں مامون کی طرف وہ کونسا عامل تھا کہ جس کی وجہ سے وہ امام رضا علیہ السلام کو ولی عہدی بنانے پر تیار ہوا؟ اگر تو اس نے یہ سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ مر جائے یا قتل ہو جائے تو جانے سے پہلے خلافت امام رضا علیہ السلام کے سپر د کر جائے۔ ہم اس کو اس لیے نہیں مانیں گے کہ اگر اس کی امام علیہ السلام کے بارے میں اچھی نیت ہوتی تو وہ ان کو زہر دے کر شہید نہ کرتا۔ شیعوں کے نزدیک اس قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ مامون امام کے بارے میں اچھی نیت رکھتا تھا، بعض مورخین نے مامون کو شیعہ کے طور پر تسلیم کیا ہے کہ وہ آل علی علیہ السلام کا بیحد احترام کرتا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ واقعی ہی مخلص ، مومن تھا تو اپنی خلافت سے دست بردار ہو کر اس نے مسند خلافت امام علیہ السلام کے سپرد کیوں نہ کر دی؟ اگر وہ سادات کا محب تھا تو امام علیہ السلام کو زہر کیوں دی؟
منبع : http://www.tebyan.net