امام زين العابدين عليه السلام کی حیات طیبہ
امام زين العابدين عليه السلام کی حیات طیبہ
0 Vote
87 View
السلام علی الحسين و علی علي بن الحسين و علی اولاد الحسين و علی اصحاب الحسين امام علي بن الحسين (علیہما السلام)، زین العابدین اور سجاد کے القاب سے مشہور ہیں اور روایت مشہور کے مطابق آپ (ع) کی ولادت شعبان المعظم سنہ 38 ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی۔ کربلا کے واقعے میں آپ (ع) 22 یا 23 سال کے نوجوان تھے اور مسلم مؤرخین و سیرت نگاروں کے مطابق آپ (ع) عمر کے لحاظ سے اپنے بھائی علی اکبر علیہ السلام سے چھوٹے تھے ۔ امام سجاد علیہ السلام کی حیات طیبہ کا سماجی، علمی، سیاسی اور تہذیبی حوالوں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔ امام سجاد علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ آپ (ع) کربلا کے واقعے میں اپنے والد ماجد سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور شہیدوں کی شہادت کے بعد اپنی پھوپھی ثانی زہراء سلام اللہ علیہا کے ہمراہ کربلا کے انقلاب اور عاشورا کی تحریک کا پیغام لے کر بنو امیہ کے ہاتھوں اسیری کی زندگی قبول کرلی اور اسیری کے ایام میں عاشورا کا پیغام مؤثرترین انداز سے دنیا والوں تک اور رہتی دنیا تک کے حریت پسندوں تک، پہنچایا ۔ عاشورا کا قیام زندہ جاوید اسلامی تحریک ہے جو محرم سنہ 61 ہجری کو انجام پائی ۔ یہ تحریک دو مرحلوں پر مشتمل تھی ۔ پہلا مرحلیہ تحریک کا آغاز، جہاد و جانبازی اور اسلامی کرامت کے دفاع کے لئے خون و جان کی قربانی دینے کا مرحلہ تھا جس میں عدل کے قیام کی دعوت بھی دی گئی اور دین محمد (ص) کے احیاء کے لئے اور سیرت نبوی و علوی کو زندہ کرنے کے لئے جان نثاری بھی کی گئی ۔ پہلا مرحلہ رجب المرجب سنہ 60 ہجری سے شروع اور 10 محرم سنہ 61 ہجری پر مکمل ہوا ۔ جبکہ دوسرا مرحلہ اس قیام و انقلاب کو استحکام بخشنے، تحریک کا پیغام پہنچانے اور علمی و تہذیبی جدوجہد نیز اس قیام مقدس کے اہداف کی تشریح کا مرحلہ تھا ۔ پہلے مرحلے کی قیادت امام سیدالشہداء علیہ السلام نے کی تھی تو دوسرے مرحلے کی قیادت سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام کو سونپ دی گئی ۔ امامت شیعہ اور تحریک عاشورا کی قیادت امام سجاد علیہ السلا کو ایسے حال میں سونپ دی گئی تھی کہ آل علی علیہ السلام کے اہم ترین افراد آپ (ع) کے ہمراہ اسیر ہوکر امویوں کے دارالحکومت دمشق کی طرف منتقل کئے جارہے تھے؛ آل علی (ع) پر ہر قسم کی تہمتوں اور بہتانوں کے ساتھ ساتھ فیزیکی اور جسمانی طور پر بھی بنی امیہ کے اذیت و آزار کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور ان کے متعدد افراد امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے ہمراہ کربلا میں شہادت پاچکے تھے اور بنی امیہ کے دغل باز حکمران موقع سے فائدہ اٹھا کر ہر قسم کا الزام لگانے میں اپنے آپ کو مکمل طور پر آزاد سمجھ رہے تھے کیونکہ مسلمان جہاد کا جذبہ کھوچکے تھے اور ہر کوئی اپنی خیریت کو اولی سمجھتا تھا ۔ اس زمانے میں دینی اقدار تغیر و تحریف کا شکار تھیں لوگوں کی دینی حمیت ختم ہوچکی تھی، دینی احکامات اموی نااہلوں کے ہاتھوں کا بازیچہ بن چکے تھے؛ خرافات و توہمات کو رواج دیا جاچکا تھا، امویوں کی دہشت گردی، اور تشدد و خوف و ہراس پھیلانے کے حربوں کے تحت مسلمانوں میں شہادت و شجاعت کے جذبات جواب دے چکے تھے ۔ اگر ایک طرف دینی احکام و تعلیمات سے روگردانی پر کوئی روک ٹوک نہ تھی تو دوسری طرف سے حکومت وقت پر تنقید و اعتراض کی پاداش میں شدید ترین سزائیں دی جاتی تھیں، لوگوں کو غیرانسانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور ان کا گھر بار لوٹ لیا جاتا تھا اور ان کے اموال و املاک کو اموی حکمرانوں کے حق میں ضبط کیا جاتا تھا اور انہیں اسلامی معاشرے کی تمام مراعاتوں سے محروم کیا جاتا تھا اور اس سلسلے میں آل ہاشم کو خاص طور پر نشانے پر رکھا گیا تھا ۔ ادھر آل امیہ کی عام پالیسی یہ تھی کہ وہ لوگوں کو خاندان وحی سے رابطہ کرنے سے روک لیتے تھے اور انہیں اہل بیت رسول (ص) کے خلاف اقدامات کرنے پر آمادہ کیا کرتے تھے وہ لوگوں کو اہل بیت علیہم السلام کی باتیں سننے تک سے روک لیتے تھے جیسا کہ یزید کا دادا اور معاویہ کا باپ صخر بن حرب (ابوسفیان) ابوجہل اور ابولہب وغیرہ کے ساتھ مل کر بعثت کے بعد کے ایام میں عوام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی باتیں سننے سے روک لیتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ آپ (ص) کی باتوں میں سحر ہے، سنوگے تو سحر کا شکار ہوجاؤ گے ۔ امام زين العابدين علیہ السلام نے ایسے حالات میں امامت کا عہدہ سنبھالا جبکہ صرف تین افراد آپ (ع) کے حقیقی پیروکار تھے اور آپ (ص) نے ایسے ہی حال میں اپنی علمی و تہذیبی و تعلیمی جدوجہد اور بزرگی علمی و ثقافتی شخصیات کی تربیت کا آغاز کیا اور ایک گہری اور مدبرانہ اور وسیع تحریک کے ذریعے امامت کا کردار ادا کرنا شروع کیا اور امام سجاد علیہ السلام کی یہی تعلیمی و تربیتی تحریک امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کی عظیم علمی تحریک کی بنیاد ثابت ہوئی ۔ اسی بنا پر بعض مصنفین اور مؤلفین نے امام سجاد علیہ السلام کو "باعث الاسلام من جديد"۔ (نئے سرے سے اسلام کو متحرک اور فعال کرنے والے) کا لقب دیا ہے ۔ واقعے کے شاہد امام سجاد علیہ السلام کربلا میں حسینی تحریک میں شریک تھے اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہيں ہے لیکن تحریک حسینی کے آغاز کے ایام سے امام سجاد علیہ السلام کے معاشرتی اور سیاسی کردار کے بارے میں تاریخ ہمیں کچھ زیادہ معلومات دینے سے قاصر نظر آرہی ہے ۔ یعنی ہمارے پاس وسط رجب سے ـ جب امام حسین علیہ السلام مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی جانب روانہ ہوئے، مکہ میں قیام کیا اور پھر کوفہ روانہ ہوئے اور 10 محرم سنہ 61 ہجری کو شہید ہوئے لیکن امام سجاد علیہ السلام کے کردار کے بارے میں تاریخ کچھ زیادہ اطلاعات ہم تک پہنچانے سے قاصر ہے اور تاریخ و سیرت اور سوانح نگاریوں میں ہمیں امام سجاد علیہ السلام شب عاشور دکھائی دیتے ہیں اور شب عاشورا امام سجاد علیہ السلام کا پہلا سیاسی اور سماجی کردار ثبت ہوچکا ہے ۔ امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہيں: شب عاشور میرے والد (سیدالشہداء فرزند رسول امام حسین بن علی علیہ السلام) نے اپنے اصحاب کو بلوایا ۔ میں بیماری کی حالت میں اپنے والد کی خدمت میں حاضر ہوا تا کہ آپ (ع) کا کلام سن لوں۔ میرے والد نے فرمایا: میں خداوند متعال کی تعریف کرتا ہوں اور ہر خوشی اور ناخوشی میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں ... میں اپنے اصحاب سے زیادہ با وفا اور بہتر اصحاب کو نہیں جانتا اور اپنے خاندان سے زیادہ مطیع و فرمانبردار اور اپنے قرابتداروں سے زیادہ صلہ رحمی کے پابند، قرابتدار نہيں جانتا ۔ خداوند متعال تم سب کو جزائے خیر عنایت فرمائے ۔ میں جانتا ہوں کہ کل (روز عاشورا) ہمارا معاملہ ان کے ساتھ جنگ پر منتج ہوگا ۔ میں آپ سب کو اجازت دیتا ہوں اور اپنی بیعت تم سے اٹھا دیتا ہوں تا کہ تم فاصلہ طے کرنے اور خطرے سے دور ہونے کے لئے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاسکو اور تم میں سے ہر فرد میرے خاندان کے ایک فرد کا ہاتھ پکڑ لے اور سب مختلف شہروں میں منتشر ہوجاؤ تا کہ خداوند اپنی فراخی تمہارے لئے مقرر فرمائے ۔ کیونکہ یہ لوگ صرف مجھ سے سروکار رکھتے ہیں اور اگر مجھے اپنے نرغے میں پائیں تو تم سے کوئی کام نہ رکھیں گے ۔ اس رات امام سجاد علیہ السلام بیمار بھی تھے اور یہ حقائق بھی دیکھ رہے تھے چنانچہ آپ (ع) کے لئے وہ رات بہت عجیب و غریب رات تھی ۔ آپ (ع) نے اس رات امام حسین علیہ السلام کی روح کی عظمت اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی شجاعت اور وفاداری کے اعلی ترین مراتب و مدارج کا مشاہدہ فرمایا جبکہ آپ (ع) اپنے آپ کو بعد کے ایام کے لئے تیار کررہے تھے ۔ حضرت علی بن حسین علیھما السلام سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : جس شام کی صبح کو میرے باباشھید کردئے گئے اسی شب میں بیٹھا تھا اور میری پھوپھی زینب میری تیمارداری کررہی تھیں۔ اسی اثنا میں میرے بابا اصحاب سے جدا ہوکر اپنے خیمے میں آئے ۔ آپ کے خیمے میں ابوذر (رض) کے غلام ''جَون'' بھی تھے جو آپ (ع) کی تلوار کو صیقل دے رہے تھے اور اس کی دھار سدھار رہے تھے جبکہ میرے بابا یہ اشعار پڑھ رہے تھے : يا دهر افٍّ لک من خليل کَمْ لَکَ في الاشراق و الأَصيل من طالبٍ و صاحبٍ قتيل و الدّهر لايقَنُع بالبديل و انّما الأمر الي الجليل و کلُّ حيٍّ سالکُ سبيلا اے دنیا اور اے زمانے! اف ہے تیری دوستی پرکہ تو اپنے بہت سے دوستوں کو صبح و شام موت کے سپرد کرتی ہے اور مارتے ہوئے کسی کا عوض بھی قبول نہيں کرتی ۔ اور بے شک امور سارے کے سارے خدائے جلیل کے دست قدرت میں ہیں اور شک نہیں ہے کہ ہر ذی روح کو اس دنیا سے جانا ہے ۔ (بحارالانوار ج45 ص2) سیدالشہداء علیہ السلام شعر اور شمشیر کیا امتزاج ہے اور کیا راوی ہیں اس نہایت لطیف و ظریف واقعے کے؛ امام سجاد علیہ السلام۔ تقریبا تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کربلا میں بیمار تھے اور یہ بیماری امت کے لئے اللہ کی ایک مصلحت تھی اور مقصد یہ تھا کہ حجت خداوندی روئے زمین پر باقی رہے اور اس کو کوئی گزند نہ پہنچے اور اللہ عز و جل کی ولایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصایت و ولایت کا سلسلہ منقطع نہ ہو چنانچہ امام سجاد علیہ السلام اسی بیماری کی وجہ سے میدان جنگ میں حاضر نہیں ہوئے ۔ امام سجاد علیہ السلام اور امام باقر علیہ السلام آل محمد (ص) کے مردوں میں سے دو ہی تھے جو زندہ رہے اور ہدایت امت کا پرچم سنبھالے رہے ۔ امام محمد باقر علیہ السلام اس وقت 4 سال یا اس سے بھی کم عمر کے تھے ۔ ایک معتبر روایت کے مطابق 15 جمادی الاول سنہ 38 ہجری کو کاشانۂ زہراء سلام اللّہ علیہا میں ان کےنور نظرامام حسین علیہ السلام کو خداوند لم یلد و لم یولد نے وہ چاند سا بیٹا عطا کیا کہ اس کی روشنی سے عرب و عجم کے تمام گوشۂ و کنار روشن و منور ہوگئے ۔ عالم انوار سے عالم ہستی میں فرزند رسول امام زین العابدین علیہ السلام کی آمد کے یہ شب و روز تمام محبان اہلبیت رسول کو مبارک ہوں ۔ بلبل بوستان امامت ،سید سجاد امام زین العابدین علیہ السلام عشق و محبت سے سرشار اسی آشیانہ آدمیت و انسانیت میں جلوہ بار ہوئے تھے کہ جس کے مکینوں کی شان میں سورۂ ہل اتی نازل ہوا ۔ جن کا آیۂ تطہیر نے قصیدہ پڑھا آیۂ مودت نے مسلمانوں پر محبت واجب کی اور آیۂ ولایت نے امامت و حقانیت کی تصدیق کردی باپ مولائے متقیان ، مشکل کشائے عالم، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فرزند ، سید و سردار جوانان بہشت ، سبط رسول الثقلین ، فاتح کربلا، حضرت امام حسین علیہ السلام تو ماں قدیم تہذیب و تمدن کےگہوارے ، ساسانی ایران کےآخری بادشاہ یزد گرد سوم کی بیٹی حضرت شہر بانو، جنہوں نے اپنی عفت و پاکدامنی کے سبب خانۂ عصمت و امامت میں وہ مقام حاصل کرلیا کہ ایک امام کی بہو ایک امام بیوی اورایک امام کی ماں بن کر پوری دنیا کےلئے مایۂ افتخار بن گئیں ۔ امام زین العابدین علیہ السلام کا اصلی نام علی تھا، جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے تمام فرزندوں کے نام اپنے والد کے نام پر علی ہی رکھے تھے ، امام زین العابدین علیہ السلام کی کنیت ابوالحسن اور ابو محمد تھی القاب زین العابدین ، سیدالساجدین ، سید سجاد ، زکی اور امین معروف ہیں ۔ ولادت کے چند دنوں بعد ہی ماں کے سایہ سے محروم ہوگئے اور غالبا اپنی خالہ، جناب محمد ابن ابی بکر کی زوجۂ محترمہ ،گیہان بانو کی آغوش میں پرورش پائی جنہوں نے گورنر کی حیثیت سے مصر جاتے وقت شامی لشکر کے ہاتھوں اپنے شوہر محمدابن ابی بکر کی شہادت کے بعد بظاہر دوسری شادی کرنا گوارہ نہیں کی اور بھانجے کو ہی اپنے بچوں کی طرح پالا اوربڑا کیا ۔ امام سجاد ابھی 2 سال کے تھے کہ آپ کے دادا علی ابن ابی طالب شہید کردئے گئے آپ نے 12 سال کی عمر تک امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام دو نوں کے فیوضات سے استفادہ کیا لیکن سنہ 50 ھجری میں امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنےباپ کے ساتھ دس سال سکوت میں گزارے اورسنہ 61 ھجری میں کربلا کےخونیں معرکہ میں بہ نفس نفیس شرکت کی اور کربلا کی تحریک کو 35 سال تک اپنےکندھوں پر اٹھائے رکھا اور اسلام کےالہی پیغامات کی سخت ترین مراحل میں حفاظت و پاسبانی کا فریضہ انجام دیا ۔ غالبا´ سنہ 57 ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی صاحبزادی جناب فاطمہ سلام اللّہ علیہا سے آپ کی شادی ہوئی اور تاریخ اسلام میں ایک بار پھر ”مرج البحرین یلتقیان“ کا نظارہ پیش کرتے ہوئے علی ثانی اور فاطمۂ ثانی کے پاکیزہ رشتے کے نتیجہ میں رسول اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے دونوں فرزند حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کے صلب سے پانچویں امام ، امام محمد باقر علیہ السلام امام زین العابدین علیہ السلام کی آغوش کی زینت قرار پائے چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام بھی واقعۂ کربلامیں تقریبا چار سال کے موجود تھے ۔ امام زین العابدین علیہ السلام کےایک اور فرزند جناب زید شہید ہیں ، جو بڑے ہی با فضیلت تھے اور سنہ 121 ہجری میں امویوں کے ہاتھوں کوفے میں شہید ہوئے ۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کا35 سالہ دور نہایت ہی گھٹن اور اذیت کا دوررہا ہےاس دورمیں یزید شقی کے بعد حکومت مروان اور آل مروان کے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی حجاج ابن یوسف کے ہاتھوں آپ کے بےشمار دوستوں اور چاہنے والوں کوشہید کیاگیا ۔ یکے بعد دیگرے خلفائے بنی امیہ کے چھ حکمراں بر سر اقتدار اہل ابھی سیاست نے مذہب کو لوگوں کی زندگی سے دورکر دینے کی کوشش کی ، ایسے میں امام سجاد علیہ السلام نے اپنی بیداری کےلئے دعااور اشک کو اسلام وقرآن کی حفاظت و پاسبانی کاوسیلہ قراردیا اور دعا سے قلوب اور اشک سے آنکھوں کو تسخیر کیا ۔ صحیفۂ سجادیہ دعاؤں کا شاہکار اور”عزاداری امام حسین“ آپ کے اشکوں کی یادگار ہے ۔ علمائے اسلام کامتفقہ فیصلہ ہے کہ دنیا کی سب سے عظیم کتاب ، کلام اللّہ یعنی قرآن مجید اور لسان اللّہ کی تخلیق ، نہج البلاغہ کے بعد، صحیفۂ سجادیہ الہی حقائق و معارف کا سب سے زیادہ قیمتی خزانہ ہے اسی لئے بعض اسلامی دانشوروں نے اس کو اخت القرآن ، انجیل اہلبیت علیہم السلام اور زبور آل محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کا لقب عطا کیا ہے ۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک اور قیمتی یادگار آپ کا رسالۂ حقوق ہے جس میں آپ نے انسانوں کے ایک دوسرے پر مختلف حقوق و فرائض ذکر کئے ہیں۔ ہم اپنی اس مختصر گفتگو کو امام علیہ السلام کے اسی رسالۂ حقوق کےچند جملوں پرختم کرتے ہیں ۔ امام فرماتے ہیں : ”آپ کے ساتھی اور دوست کا آپ پر یہ حق ہےکہ آپ اس پراحسان اور حسن سلوک سے کام لیں اوراگر ایسا نہ کر سکیں تواس کے حق میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں جہاں تک ممکن ہو اس کی دوستی میں کوتاہی نہ برتیں اس کے خیر خواہ و پشت پناہ رہیں اور رحمت و شفقت کا چشمہ بنے رہیں مشکل و عذاب کا باعث نہ بنیں“ ۔ منبع :taghribnews.com
مربوط عناوین
رہنمائے بندگی،حالات وواقعات زندگی حضرت امام سجادؑ
امام زین العابدین علیہ السلام کی سیاسی زندگی
سیرت امام زین العابدینؑ (مجموعہ تقاریر)
سیدالسّاجدینؑ
معصومینؑ سے ملاقات
اَلدَّمْعَةُ السّاکِبَة فی أحْوالِ النَّبیّ و العِتْرَة الطّاهِرَة(اردو ترجمہ الدمعۃ الساکبہ) ج۲
سیرت معصومینؑ-احسن المقال ترجمہ منتهی الآمال ج۱